مواد فوراً دِکھائیں

نوجوانوں کا سوال

کیا ہم‌جنس‌پرستی غلط ہے؟‏

کیا ہم‌جنس‌پرستی غلط ہے؟‏

 ‏”‏جیسے جیسے مَیں بڑا ہو رہا تھا، مجھے لڑکوں کی طرف کشش محسوس ہوتی تھی۔ اور یہ میرے لیے بڑی مشکل بات تھی۔ مَیں سوچتا تھا کہ یہ بس زندگی کا ایک دَور ہے جو گزر جائے گا۔ لیکن مجھے آج بھی اِن احساسات سے لڑنا پڑتا ہے۔“‏—‏23 سالہ ڈیوڈ۔‏

 ڈیوڈ ایک مسیحی ہیں اور خدا کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن کیا وہ ایسا کر سکتے ہیں جبکہ وہ اپنی ہی جنس کے لوگوں کی طرف کشش محسوس کرتے ہیں۔ خدا ہم‌جنس‌پرستی کے بارے میں کیسا محسوس کرتا ہے؟‏

 پاک کلام میں کیا لکھا ہے؟‏

 فرق فرق ثقافتوں میں ہم‌جنس‌پرستی کے بارے میں فرق فرق نظریے ہو سکتے ہیں۔ اور یہ نظریے وقت کے ساتھ بدل سکتے ہیں۔ لیکن مسیحی اِنسانوں کی سوچ نہیں اپناتے اور ’‏تعلیمات کے جھونکوں سے یہاں وہاں دھکیلے نہیں جاتے۔‘‏ (‏اِفسیوں 4:‏14‏)‏ اِس کی بجائے وہ ہم‌جنس‌پرستی اور اِس طرح کے کسی بھی دوسرے معاملے میں بائبل کے معیاروں کے مطابق چلتے ہیں۔‏

 پاک کلام میں ہم‌جنس‌پرستی کے بارے میں خدا کا نظریہ بالکل واضح طور پر بتایا گیا ہے۔ اِس میں لکھا ہے:‏

  •  ‏”‏تُو مرد کے ساتھ صحبت [‏یعنی جنسی تعلق قائم]‏ نہ کرنا جیسے عورت سے کرتا ہے۔“‏—‏احبار 18:‏22‏۔‏

  •  ‏”‏چونکہ وہ اپنے دل کی خواہشوں کو پورا کرنے پر تُلے تھے اِس لیے خدا نے اُن کو ‏.‏.‏.‏ بے‌لگام جنسی خواہشوں کے حوالے کر دیا کیونکہ اُن کی عورتیں فطری جنسی تعلقات چھوڑ کر غیرفطری کام کرنے لگیں۔“‏—‏رومیوں 1:‏24،‏ 26‏۔‏

  •  ‏”‏غلط‌فہمی کا شکار نہ ہوں۔ نہ تو حرام‌کار، نہ بُت‌پرست، نہ زِناکار، نہ جسم‌فروش مرد، نہ ہم‌جنس‌پرست مرد، نہ چور، نہ لالچی، نہ شرابی، نہ وہ لوگ جو دوسروں کو ذلیل کرتے ہیں اور نہ ہی لُٹیرے خدا کی بادشاہت کے وارث ہوں گے۔“‏—‏1-‏کُرنتھیوں 6:‏9، 10‏۔‏

 خدا کے معیار تمام لوگوں پر لاگو ہوتے ہیں پھر چاہے اُن کے دل میں اپنی جنس کے لوگوں کے لیے جنسی خواہش ہو یا مخالف جنس کے لیے۔ جب ایسی خواہشوں کی بات آتی ہے تو ہر شخص کو خود پر قابو رکھنا چاہیے تاکہ وہ کوئی ایسا کام نہ کرے جو خدا کو ناپسند ہو۔—‏کُلسّیوں 3:‏5‏۔‏

 کیا اِس کا مطلب ہے ‏.‏.‏.‏‏؟‏

 کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ بائبل کے مطابق ہم‌جنس‌پرستوں سے نفرت کی جانی چاہیے؟‏

 نہیں۔ بائبل میں کسی بھی شخص سے نفرت کرنے کی تعلیم نہیں دی گئی، چاہے وہ ہم‌جنس‌پرست ہو یا نہ ہو۔ اِس میں لکھا ہے کہ ”‏سب لوگوں کے ساتھ امن سے رہیں“‏ پھر چاہے وہ کیسی ہی زندگی گزار رہے ہوں۔(‏عبرانیوں 12:‏14‏)‏ اِس لیے ہم‌جنس‌پرستوں کا مذاق اُڑانا، اُن سے کسی بھی طرح کا بُرا سلوک کرنا یا نفرت کی وجہ سے اُن پر ظلم کرنا غلط ہے۔‏

 کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ مسیحیوں کو اُن قوانین کی مخالفت کرنی چاہیے جو ہم‌جنس‌پرستوں کی شادی کو جائز قرار دیتے ہیں؟‏

 پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ شادی کے حوالے سے خدا کا معیار یہ ہے کہ ایک مرد اور عورت آپس میں شادی کریں۔ (‏متی 19:‏4-‏6‏)‏ لیکن ہم‌جنس‌پرستوں کی شادیوں کے قوانین کے حوالے سے جو بحث چھڑی ہے، وہ ایک سیاسی معاملہ ہے نہ کہ اخلاقی۔ پاک کلام میں مسیحیوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ وہ سیاسی معاملوں میں غیرجانب‌دار رہیں۔ (‏یوحنا 18:‏36‏)‏ اِس لیے وہ ہم‌جنس‌پرستوں یا ہم‌جنس‌پرستوں کی شادیوں کے حوالے سے حکومت کے قوانین کی نہ تو حمایت کرتے ہیں اور نہ ہی مخالفت۔‏

 لیکن اگر ‏.‏.‏.‏‏؟‏

 لیکن اگر کوئی شخص ہم‌جنس‌پرست ہو تو کیا وہ بدل سکتا ہے؟‏

 بالکل۔ پہلی صدی عیسوی میں رہنے والے کچھ لوگوں نے بھی اپنے اِس چال‌چلن کو بدلا تھا۔ پاک کلام میں لکھا ہے کہ ہم‌جنس‌پرست لوگ خدا کی بادشاہت کے وارث نہیں ہوں گے اور اِس کے بعد لکھا ہے:‏ ”‏آپ میں سے کچھ لوگ ایک زمانے میں ایسے تھے۔“‏—‏1-‏کُرنتھیوں 6:‏11‏۔‏

 کیا اِس کا یہ مطلب ہے کہ جو لوگ ہم‌جنس‌پرستی چھوڑ دیتے ہیں، اُن میں سے یہ رُجحان بالکل ختم ہو جاتا ہے؟ نہیں۔ پاک کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏نئی شخصیت کو پہن لیں ‏.‏.‏.‏ اور اِس شخصیت کو صحیح علم کے ذریعے ‏.‏.‏.‏ ڈھالتے جائیں۔“‏ (‏کُلسّیوں 3:‏10‏)‏ اِس کا مطلب ہے کہ ہم‌جنس‌پرستی چھوڑنے کے بعد بھی لوگوں کو اپنے اِس رُجحان کے خلاف مسلسل لڑنا پڑتا ہے۔‏

 لیکن اگر کوئی ایسا شخص جو خدا کے معیاروں کے مطابق چلنا چاہتا ہے، ابھی بھی اپنی جنس کے لوگوں کے لیے کشش محسوس کرتا ہے تو وہ کیا کر سکتا ہے؟‏

 دوسری خواہشوں کی طرح اِس خواہش کے سلسلے میں بھی ایک شخص یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ اِس خواہش کو بڑھنے نہ دے اور اِس پر عمل نہ کرے۔ وہ ایسا کیسے کر سکتا ہے؟ پاک کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏پاک روح کے مطابق چلتے رہیں۔ یوں آپ جسم کی خواہشوں کو بالکل پورا نہیں کریں گے۔“‏—‏گلتیوں 5:‏16‏۔‏

 غور کریں کہ آیت میں یہ نہیں لکھا کہ ایک شخص میں کوئی جسمانی خواہش نہیں ہوگی بلکہ اِس میں بتایا گیا ہے کہ پاک روح کے مطابق چلنے یعنی پاک کلام کا مطالعہ کرنے اور دُعا کرنے سے اُسے اپنی اِن خواہشوں پر قابو پانے کی طاقت ملے گی۔‏

 ڈیوڈ نے بھی اِس بات کا تجربہ کِیا جن کا مضمون کے شروع میں ذکر کِیا گیا تھا۔ اُنہوں نے اپنے والدین کو اپنے اندر جاری کشمکش کے بارے میں بتایا۔ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏مجھے ایسے لگا کہ جیسے میرے کندھوں سے کوئی بہت بھاری بوجھ اُتر گیا ہے۔ اگر مَیں نے اُن سے پہلے ہی بات کر لی ہوتی تو شاید مَیں اپنی جوانی کے دن اَور اچھی طرح گزار پاتا۔“‏

 اِس میں کوئی شک نہیں کہ جب ہم یہوواہ کے معیاروں کے مطابق زندگی گزارتے ہیں تو ہم زیادہ خوش رہتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اُس کے معیار ”‏راست ہیں۔ وہ دل کو فرحت [‏یعنی خوشی]‏ پہنچاتے ہیں“‏ اور ”‏اُن کو ماننے کا اجر بڑا ہے۔“‏—‏زبور 19:‏8،‏ 11‏۔‏