نوجوانوں کا سوال
مجھے دُعا کیوں کرنی چاہیے؟
بہت سے نوجوان کہتے ہیں کہ وہ دُعا کرتے ہیں۔ لیکن اِن میں سے کچھ ہی نوجوان ایسے ہیں جو روزانہ دُعا کرتے ہیں۔ بِلاشُبہ کچھ نوجوان یہ ضرور سوچتے ہوں گے: ”کیا دُعا صرف دل ہلکا کرنے کا نام ہے یا اِس میں کچھ اَور بھی شامل ہے؟“
دُعا کیا ہے؟
دُعا دراصل کائنات کے خالق سے بات کرنا ہے۔ ذرا سوچیں کہ یہ کتنا بڑا اعزاز ہے!یہوواہ خدا تمام اِنسانوں سے کہیں افضل ہے مگر پھر بھی ”وہ ہم میں سے کسی سے دُور نہیں۔“ (اعمال 17:27) دراصل بائبل میں تو ہمیں یہ شاندار دعوت دی گئی ہے: ”خدا کے قریب جائیں تو وہ آپ کے قریب آئے گا۔“—یعقوب 4:8۔
آپ خدا کے قریب کیسے جا سکتے ہیں؟
ایسا کرنے کا ایک طریقہ دُعا ہے۔ یوں ہم خدا سے بات کر رہے ہوتے ہیں۔
دوسرا طریقہ بائبل پڑھنا ہے۔ یوں خدا ہم سے بات کر رہا ہوتا ہے۔
اِس طرح کی باتچیت سے یعنی دُعا کرنے اور بائبل پڑھنے سے ہم خدا کے ساتھ مضبوط دوستی قائم کر سکتے ہیں۔
”کائنات کے مالک یہوواہ سے بات کرنا اِنسانوں کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔“—جیرمی۔
”جب مَیں دُعا میں اپنا دل یہوواہ کے سامنے کھول دیتی ہوں تو مَیں خود کو اُس کے اَور قریب محسوس کرتی ہوں۔“—مرینڈا۔
کیا خدا دُعائیں سنتا ہے؟
اگر آپ خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور اُس سے دُعا بھی کرتے ہیں تو بھی شاید آپ کو اِس بات کو قبول کرنا مشکل لگے کہ وہ واقعی دُعاؤں کو سنتا ہے۔ لیکن بائبل میں یہوواہ کو ’دُعا کا سننے والا‘ کہا گیا ہے۔ (زبور 65:2) وہ تو اپنے کلام میں آپ سے یہ تک کہتا ہے کہ آپ ”اپنی تمام پریشانیاں اُس پر ڈال دیں۔“ وہ ایسا کیوں کہتا ہے؟ کیونکہ ”اُس کو آپ کی فکر ہے۔“—1-پطرس 5:7۔
ذرا سوچیں: کیا آپ اپنے قریبی دوستوں سے بات کرنے کے لیے باقاعدگی سے وقت نکالتے ہیں؟ خدا سے بات کرنے کے لیے بھی ایسا کریں۔ جب آپ اُس سے دُعا کرتے ہیں تو اُس کا نام یہوواہ اِستعمال کریں۔ (زبور 86:5-7؛ 88:9) دراصل بائبل میں آپ کی یہ حوصلہافزائی کی گئی ہے کہ آپ ”ہر وقت دُعا کریں۔“—1-تھسلُنیکیوں 5:17۔
”دُعا میرے اور میرے آسمانی باپ کے بیچ ہونے والی بات ہے جس میں مَیں دل کھول کر اپنے خیالات کا اِظہار کرتا ہوں۔“—موئزز۔
”مَیں یہوواہ کے ساتھ اپنے دل کی ہر بات کرتی ہوں، بالکل اُسی طرح جس طرح مَیں اپنی امی اور اپنے کسی قریبی دوست سے کرتی ہوں۔“—کیرن۔
مَیں کن باتوں کے بارے میں دُعا کر سکتا ہوں؟
پاک کلام میں لکھا ہے: ”کسی بات پر پریشان نہ ہوں بلکہ ہر معاملے میں شکرگزاری کے ساتھ دُعا اور اِلتجا کریں اور اپنی درخواستیں خدا کے سامنے پیش کریں۔“—فِلپّیوں 4:6۔
تو کیا اِس کا یہ مطلب ہے کہ دُعا میں اپنی پریشانیوں کا ذکر کرنا ٹھیک ہے؟ بالکل۔ دراصل بائبل میں کہا گیا ہے: ”اپنا بوجھ [یہوواہ] پر ڈال دے۔ وہ تجھے سنبھالے گا۔ وہ صادق کو کبھی جنبش نہ کھانے دے گا۔“—زبور 55:22۔
بےشک خدا سے دُعا کرتے وقت ہمیں صرف اپنی پریشانیوں کے بارے میں ہی بات نہیں کرنی چاہیے۔ اِس سلسلے میں ذرا شینٹیل نامی لڑکی کی بات پر غور کریں۔ وہ کہتی ہے: ”ایسی دوستی اچھی دوستی نہیں ہوتی جس میں آپ صرف ہر وقت یہوواہ سے مدد ہی مانگتے رہیں۔ مَیں سوچتی ہوں کہ مجھے دُعا میں سب سے پہلے خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے اور جن باتوں کے بارے میں مَیں اُس کی شکرگزار ہوں، اُن کی فہرست لمبی ہونی چاہیے۔“
ذرا سوچیں: آپ اپنی زندگی میں کن باتوں کے لیے خدا کے شکرگزار ہیں؟ کیا آپ تین ایسی باتیں سوچ سکتے ہیں جن کے بارے میں آپ آج دُعا میں خدا کا شکر ادا کریں گے؟
”کسی چھوٹی سی بات پر ہی جیسے کہ کسی پھول کی خوبصورتی کو دیکھ کر ہی ہم دُعا میں یہوواہ کا شکر ادا کر سکتے ہیں۔“—انیتا۔
”کائنات میں ایسی چیزوں پر غور کریں جو آپ کو بہت متاثر کرتی ہیں یا بائبل کی کسی ایسی آیت پر سوچ بچار کریں جو آپ کے دل کو چُھو لیتی ہے۔ اور پھر اِس کے لیے یہوواہ کا شکرادا کریں۔“—برائن۔