مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

باب نمبر 3

خدا نے اِنسانوں کو کس مقصد سے بنایا ہے؟‏

خدا نے اِنسانوں کو کس مقصد سے بنایا ہے؟‏

1.‏ خدا نے اِنسانوں کو کس مقصد سے بنایا ہے؟‏

خدا نے اِنسانوں کو ایک خاص مقصد سے بنایا ہے۔‏ اُس نے پہلے اِنسانی جوڑے یعنی آدم اور حوا کو ایک خوب‌صورت باغ میں رہنے کے لیے بنایا۔‏ خدا کا مقصد تھا کہ آدم اور حوا اولاد پیدا کریں،‏ پوری زمین کو فردوس بنائیں اور جانوروں کی دیکھ‌بھال کریں۔‏—‏پیدایش 1:‏28؛‏ 2:‏8،‏ 9،‏ 15‏؛‏ کتاب کے آخر میں نکتہ نمبر 6 کو دیکھیں۔‏

2.‏ (‏الف)‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ خدا اپنے مقصد کو پورا کرے گا؟‏ (‏ب)‏ خدا کس طرح کے لوگوں کو زمین پر بسانا چاہتا ہے اور کتنے عرصے کے لیے؟‏

2 آپ کے خیال میں کیا ہم کبھی فردوس میں رہ پائیں گے؟‏ یہوواہ خدا نے اپنے کلام میں فرمایا:‏ ”‏مَیں نے اِس کا اِرادہ کِیا اور مَیں ہی اِسے پورا کروں گا۔‏“‏ (‏یسعیاہ 46:‏9-‏11؛‏ 55:‏11‏)‏ یہوواہ خدا اپنے مقصد کو ضرور پورا کرے گا اور کوئی بھی اُسے ایسا کرنے سے روک نہیں سکتا۔‏ پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ خدا نے زمین کو ”‏عبث [‏یعنی بِلاوجہ]‏ پیدا نہیں کِیا۔‏“‏ (‏یسعیاہ 45:‏18‏)‏ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ یہوواہ خدا نے زمین کو ایک خاص مقصد سے بنایا ہے۔‏ وہ چاہتا ہے کہ پوری زمین اِنسانوں سے آباد ہو۔‏ لیکن خدا کس طرح کے لوگوں کو زمین پر بسانا چاہتا ہے اور کتنے عرصے کے لیے؟‏ پاک کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏صادق [‏یا فرمانبردار لوگ]‏ زمین کے وارث ہوں گے اور اُس میں ہمیشہ بسے رہیں گے۔‏“‏—‏زبور 37:‏29؛‏ مکاشفہ 21:‏3،‏ 4‏۔‏

3.‏ دُنیا کے حالات دیکھ کر ہمارے ذہن میں کون سا سوال پیدا ہو سکتا ہے؟‏

3 لیکن آج‌کل لوگ بیمار ہوتے اور مرتے ہیں۔‏ وہ لڑتے جھگڑتے ہیں اور ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں۔‏ مگر خدا ایسا ہرگز نہیں چاہتا تھا۔‏ تو پھر یہ سب کچھ کیوں ہونے لگا؟‏ اِس کا جواب ہمیں صرف خدا کے کلام سے مل سکتا ہے۔‏

خدا کا دُشمن

4،‏ 5.‏ (‏الف)‏ باغِ‌عدن میں کس نے حوا سے بات کی؟‏ (‏ب)‏ ایک ایمان‌دار شخص چور کیسے بن سکتا ہے؟‏

4 پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ خدا کا ایک دُشمن ہے ”‏جسے اِبلیس اور شیطان کہا جاتا ہے۔‏“‏ باغِ‌عدن میں شیطان نے حوا سے بات کی لیکن اُس نے ظاہر یہ کِیا کہ حوا سے ایک سانپ بات کر رہا ہے۔‏—‏مکاشفہ 12:‏9؛‏ پیدایش 3:‏1‏؛‏ کتاب کے آخر میں نکتہ نمبر 7 کو دیکھیں۔‏

5 مگر سوال یہ ہے کہ کیا شیطان کو خدا نے بنایا ہے؟‏ جی نہیں۔‏ جب خدا نے زمین کو بنایا تو آسمان پر بہت سے فرشتے تھے۔‏ اُن میں سے ایک فرشتہ اِبلیس بن گیا۔‏ (‏ایوب 38:‏4،‏ 7‏)‏ لیکن ایک فرشتہ اِبلیس کیسے بن سکتا تھا؟‏ بالکل ویسے ہی جیسے ایک ایمان‌دار شخص چور بن سکتا ہے۔‏ وہ پیدائشی طور پر چور نہیں ہوتا۔‏ لیکن وہ ایک ایسی چیز کی خواہش کرنے لگتا ہے جو اُس کی نہیں ہے۔‏ پھر وہ اُس چیز کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔‏ اِس وجہ سے اُس کے دل میں اُس چیز کو حاصل کرنے کی خواہش بڑھتی جاتی ہے۔‏ آخر جب اُسے موقع ملتا ہے تو وہ اُس چیز کو چُرا لیتا ہے۔‏ یوں وہ چور بن جاتا ہے۔‏‏—‏یعقوب 1:‏13-‏15 کو پڑھیں؛‏ کتاب کے آخر میں نکتہ نمبر 8 کو دیکھیں۔‏

6.‏ ایک فرشتہ خدا کا دُشمن کیسے بن گیا؟‏

6 جو فرشتہ اِبلیس بن گیا،‏ اُس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔‏ آدم اور حوا کو بنانے کے بعد یہوواہ خدا نے اُن سے کہا کہ وہ اپنی اولاد سے زمین کو بھر دیں۔‏ (‏پیدایش 1:‏27،‏ 28‏)‏ شاید اُس فرشتے نے سوچا ہو:‏ ”‏کتنا اچھا ہو اگر اِنسان یہوواہ کی بجائے میری عبادت کریں!‏“‏ پھر وہ اِس کے بارے میں سوچتا رہا۔‏ یوں اُس کے دل میں ایک ایسی چیز حاصل کرنے کی خواہش بڑھنے لگی جس کا حق‌دار صرف یہوواہ خدا ہے۔‏ چونکہ وہ فرشتہ چاہتا تھا کہ اِنسان اُس کی عبادت کریں اِس لیے اُس نے حوا سے جھوٹ بولا اور اُنہیں گمراہ کِیا۔‏ ‏(‏پیدایش 3:‏1-‏5 کو پڑھیں۔‏)‏ اِس طرح وہ خدا کا دُشمن بن گیا اور شیطان اِبلیس کہلانے لگا۔‏

7.‏ (‏الف)‏ آدم اور حوا کیوں مر گئے؟‏ (‏ب)‏ ہم کیوں بوڑھے ہوتے اور مرتے ہیں؟‏

7 آدم اور حوا نے وہ پھل کھا لیا جسے کھانے سے یہوواہ خدا نے منع کِیا تھا۔‏ (‏پیدایش 2:‏17؛‏ 3:‏6‏)‏ یوں اُنہوں نے خدا کی نافرمانی کی اور اُس کے گُناہ‌گار بن گئے۔‏ اور جیسے کہ یہوواہ خدا نے کہا تھا،‏ آخرکار وہ مر گئے۔‏ (‏پیدایش 3:‏17-‏19‏)‏ آدم اور حوا کے بچے بھی گُناہ‌گار تھے اِس لیے وہ بھی مر گئے۔‏ ‏(‏رومیوں 5:‏12 کو پڑھیں۔‏)‏ لیکن آدم اور حوا کے بچے گُناہ‌گار کیسے بن گئے؟‏ اِس بات کو سمجھنے کے لیے ایک مثال پر غور کریں۔‏ فرض کریں کہ آپ کے پاس ایک سانچا ہے جو ٹیڑھا ہے۔‏ آپ اِس میں جو بھی چیز بنائیں گے،‏ وہ ٹیڑھی ہی بنے گی۔‏ جب آدم نے خدا کی نافرمانی کی تو وہ گُناہ‌گار بن گئے۔‏ اور چونکہ ہم سب آدم کی اولاد ہیں اِس لیے ہم سب بھی گُناہ‌گار ہیں۔‏ اِسی وجہ سے ہم بوڑھے ہوتے اور مرتے ہیں۔‏—‏رومیوں 3:‏23‏؛‏ کتاب کے آخر میں نکتہ نمبر 9 کو دیکھیں۔‏

8،‏ 9.‏ (‏الف)‏ شیطان آدم اور حوا کے ذہن میں کیا بات ڈالنا چاہتا تھا؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا نے باغیوں کو فوراً ختم کیوں نہیں کِیا؟‏

8 جب شیطان نے آدم اور حوا کو خدا کی نافرمانی کرنے پر اُکسایا تو دراصل اُس نے خدا کے خلاف بغاوت شروع کر دی۔‏ وہ آدم اور حوا کے ذہن میں یہ بات ڈالنا چاہتا تھا کہ یہوواہ خدا جھوٹ بولتا ہے،‏ وہ اچھا حکمران نہیں ہے اور وہ اُن کا بھلا نہیں چاہتا۔‏ شیطان دراصل یہ کہہ رہا تھا کہ آدم اور حوا اِس بات کے محتاج نہیں کہ خدا اُنہیں بتائے کہ اُنہیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں بلکہ اُنہیں خود فیصلہ کرنا چاہیے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔‏ اِس پر یہوواہ خدا نے کیا کِیا؟‏ وہ چاہتا تو اپنے خلاف بغاوت کرنے والوں کو فوراً ختم کر سکتا تھا۔‏ لیکن کیا اِس سے یہ ثابت ہوتا کہ شیطان جھوٹا ہے؟‏ جی نہیں۔‏

9 یہوواہ خدا نے باغیوں کو فوراً ختم نہیں کِیا۔‏ اِس کی بجائے اُس نے اِنسانوں کو حکمرانی کرنے کا موقع دیا۔‏ اُس نے ایسا اِس لیے کِیا تاکہ یہ ثابت ہو جائے کہ شیطان جھوٹا ہے اور صرف یہوواہ خدا ہی جانتا ہے کہ اِنسانوں کے لیے کیا اچھا ہے۔‏ اِس کے بارے میں ہم باب نمبر 11 میں مزید سیکھیں گے۔‏ لیکن کیا آدم اور حوا کا فیصلہ صحیح تھا؟‏ کیا اُنہیں شیطان کی بات مان کر خدا کی نافرمانی کرنی چاہیے تھی؟‏ آدم اور حوا کے پاس جو کچھ بھی تھا،‏ وہ یہوواہ خدا نے دیا تھا۔‏ اُس نے اُنہیں ایک بہترین زندگی،‏ ایک خوب‌صورت گھر اور ایک ایسا کام دیا تھا جس سے وہ لطف اُٹھا سکتے تھے۔‏ مگر شیطان نے اُن کے لیے کچھ نہیں کِیا تھا۔‏ اگر آپ آدم اور حوا کی جگہ ہوتے تو آپ کیا کرتے؟‏

10.‏ ہم سب کو کون سا اہم فیصلہ کرنا ہے؟‏

10 آدم اور حوا کی طرح ہم سب کو بھی ایک اہم فیصلہ کرنا ہے اور اِس فیصلے کا تعلق ہماری زندگی سے ہے۔‏ ہم یا تو یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ہم یہوواہ خدا کو اپنا حکمران تسلیم کریں گے،‏ اُس کی فرمانبرداری کریں گے اور شیطان کو جھوٹا ثابت کریں گے۔‏ یا پھر ہم یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ہم شیطان کو اپنا حکمران تسلیم کریں گے۔‏ (‏زبور 73:‏28؛‏ امثال 27:‏11 کو پڑھیں۔‏‏)‏ دُنیا میں بہت کم لوگ خدا کی فرمانبرداری کرتے ہیں۔‏ لیکن کیا خدا اِس دُنیا کا حکمران ہے؟‏ نہیں۔‏ تو پھر اِس دُنیا کا حکمران کون ہے؟‏

اِس دُنیا کا حکمران کون ہے؟‏

اگر دُنیا کی حکومتیں شیطان کی نہ ہوتیں تو کیا وہ یسوع مسیح سے کہہ سکتا تھا کہ ”‏مَیں یہ سب کچھ تمہیں دے دوں گا“‏؟‏

11،‏ 12.‏ (‏الف)‏ شیطان نے یسوع مسیح سے جو بات کہی،‏ اُس سے کیا پتہ چلتا ہے؟‏ (‏ب)‏ پاک کلام کی کن آیتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیطان اِس دُنیا کا حکمران ہے؟‏

11 یسوع مسیح جانتے تھے کہ اِس دُنیا کا حکمران کون ہے۔‏ ایک موقعے پر شیطان نے ”‏اُنہیں دُنیا کی تمام بادشاہتیں اور اُن کی شان دِکھائی اور اُن سے کہا:‏ ”‏اگر تُم گھٹنے ٹیک کر ایک بار مجھے سجدہ کرو گے تو مَیں یہ سب کچھ تمہیں دے دوں گا۔‏“‏“‏ (‏متی 4:‏8،‏ 9؛‏ لُوقا 4:‏5،‏ 6‏)‏ ذرا سوچیں کہ اگر دُنیا کی حکومتیں شیطان کی نہ ہوتیں تو کیا وہ یسوع مسیح سے کہہ سکتا تھا کہ ”‏مَیں یہ سب کچھ تمہیں دے دوں گا“‏؟‏ جی نہیں۔‏ لہٰذا دُنیا کی ساری حکومتیں شیطان کی ہیں۔‏

12 شاید آپ سوچیں کہ ”‏یہوواہ خدا کائنات کی سب سے طاقت‌ور ہستی ہے جس نے سب چیزوں کو بنایا ہے تو پھر شیطان اِس دُنیا کا حکمران کیسے ہو سکتا ہے؟‏“‏ (‏مکاشفہ 4:‏11‏)‏ یہ سچ ہے کہ یہوواہ خدا کائنات کی سب سے طاقت‌ور ہستی ہے لیکن یسوع مسیح نے شیطان کو ’‏اِس دُنیا کا حاکم‘‏ کہا۔‏ (‏یوحنا 12:‏31؛‏ 14:‏30؛‏ 16:‏11‏)‏ پولُس رسول نے لکھا کہ شیطان اِبلیس ’‏اِس دُنیا کا خدا‘‏ ہے۔‏ (‏2-‏کُرنتھیوں 4:‏3،‏ 4‏)‏ یوحنا رسول نے بھی لکھا کہ ”‏پوری دُنیا شیطان کے قبضے میں ہے۔‏“‏—‏1-‏یوحنا 5:‏19‏۔‏

شیطان کی دُنیا کو ختم کر دیا جائے گا

13.‏ ہمیں ایک نئی دُنیا کی ضرورت کیوں ہے؟‏

13 دُنیا کے حالات دن‌بہ‌دن خراب ہوتے جا رہے ہیں۔‏ آج‌کل جنگیں،‏ بددیانتی،‏ ریاکاری اور تشدد عام ہے۔‏ اِنسان چاہے جتنی بھی کوشش کر لیں،‏ وہ اِن مسئلوں کو حل نہیں کر سکتے۔‏ لیکن خدا بہت جلد ہرمجِدّون کی جنگ کے دوران اِس بُری دُنیا کو ختم کر دے گا اور ایک نئی دُنیا قائم کرے گا جس میں نیکی کا راج ہوگا۔‏—‏مکاشفہ 16:‏14-‏16‏؛‏ کتاب کے آخر میں نکتہ نمبر 10 کو دیکھیں۔‏

14.‏ (‏الف)‏ خدا نے کس کو اپنی بادشاہت کا بادشاہ مقرر کِیا ہے؟‏ (‏ب)‏ خدا کے کلام میں یسوع مسیح کے بارے میں کیا بتایا گیا تھا؟‏

14 یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کو اپنی آسمانی بادشاہت کا بادشاہ مقرر کِیا ہے۔‏ خدا کے کلام میں ہزاروں سال پہلے بتا دیا گیا تھا کہ یسوع مسیح ’‏سلامتی کے شاہزادے‘‏ ہوں گے اور اُن کی حکومت کبھی ختم نہیں ہوگی۔‏ (‏یسعیاہ 9:‏6،‏ 7‏)‏ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ وہ اِس حکومت کے آنے کے لیے یوں دُعا کریں:‏ ”‏تیری بادشاہت آئے۔‏ تیری مرضی جیسے آسمان پر ہو رہی ہے ویسے ہی زمین پر بھی ہو۔‏“‏ (‏متی 6:‏10‏)‏ باب نمبر 8 میں ہم سیکھیں گے کہ خدا کی بادشاہت اِنسانی حکومتوں کو ختم کر کے اِن کی جگہ کیسے لے گی۔‏ ‏(‏دانی‌ایل 2:‏44 کو پڑھیں۔‏)‏ اِس کے بعد خدا کی بادشاہت زمین کو ایک خوب‌صورت فردوس میں بدل دے گی۔‏—‏کتاب کے آخر میں نکتہ نمبر 11 کو دیکھیں۔‏

اِنسان بہت جلد ایک نئی دُنیا میں رہیں گے

15.‏ ”‏نئی زمین“‏ سے کیا مُراد ہے؟‏

15 پاک کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏ہم نئے آسمان اور نئی زمین کا اِنتظار کر رہے ہیں جہاں نیکی کا راج ہوگا۔‏“‏ (‏2-‏پطرس 3:‏13؛‏ یسعیاہ 65:‏17‏)‏ پاک کلام میں لفظ ”‏زمین“‏ کبھی کبھار اُن لوگوں کی طرف اِشارہ کرتا ہے جو زمین پر رہتے ہیں۔‏ (‏اِستثنا 32:‏1‏)‏ لہٰذا ”‏نئی زمین“‏ سے مُراد وہ تمام لوگ ہیں جو خدا کا حکم مانتے ہیں اور جنہیں اُس کی خوشنودی حاصل ہے۔‏

16.‏ (‏الف)‏ جو لوگ نئی دُنیا میں جائیں گے،‏ اُنہیں کیا ملے گا؟‏ (‏ب)‏ ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟‏

16 یسوع مسیح نے وعدہ کِیا کہ جو لوگ نئی دُنیا میں جائیں گے،‏ اُنہیں ”‏ہمیشہ کی زندگی“‏ ملے گی۔‏ (‏مرقس 10:‏30‏)‏ لیکن اِس زندگی کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟‏ اِس سوال کا جواب جاننے کے لیے یوحنا 3:‏16 اور یوحنا 17:‏3 کو پڑھیں۔‏ اب سوال یہ ہے کہ فردوس میں زندگی کیسی ہوگی؟‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ پاک کلام میں اِس سلسلے میں کیا بتایا گیا ہے۔‏

17،‏ 18.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ زمین پر ہر طرف امن ہوگا اور ہم خود کو محفوظ محسوس کریں گے؟‏

17 بُرائی،‏ جنگ،‏ جُرم اور تشدد کا نام‌ونشان مٹا دیا جائے گا۔‏ تمام بُرے لوگوں کو ہلاک کر دیا جائے گا۔‏ (‏زبور 37:‏10،‏ 11‏)‏ خدا جنگوں کو بالکل ختم کر دے گا۔‏ (‏زبور 46:‏9؛‏ یسعیاہ 2:‏4‏)‏ زمین پر صرف ایسے لوگ رہیں گے جو خدا سے پیار کرتے ہیں اور اُس کے حکموں پر عمل کرتے ہیں۔‏ ہر طرف امن اور سکون ہوگا۔‏—‏زبور 72:‏7‏۔‏

18 یہوواہ خدا کے بندے خود کو محفوظ محسوس کریں گے۔‏ جب بنی‌اِسرائیل نے خدا کے حکموں پر عمل کِیا تو وہ محفوظ رہے کیونکہ خدا نے اُن کی حفاظت کی۔‏ (‏احبار 25:‏18،‏ 19‏)‏ فردوس میں ہمیں کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا اور ہم ہمیشہ خود کو محفوظ محسوس کریں گے۔‏‏—‏یسعیاہ 32:‏18؛‏ میکاہ 4:‏4 کو پڑھیں۔‏

19.‏ ہم یہ یقین کیوں رکھ سکتے ہیں کہ نئی دُنیا میں سب لوگوں کو پیٹ بھر کر کھانا ملے گا؟‏

19 سب لوگوں کو پیٹ بھر کر کھانا ملے گا۔‏ پاک کلام میں لکھا ہے کہ ”‏زمین میں پہاڑوں کی چوٹیوں پر اناج کی اِفراط ہوگی۔‏“‏ (‏زبور 72:‏16‏)‏ یہوواہ ”‏ہمارا خدا ہمیں برکت دے گا“‏ اور ”‏زمین اپنی پیداوار دے گی۔‏“‏—‏زبور 67:‏6‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن۔‏

20.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ زمین فردوس بن جائے گی؟‏

20 پوری زمین فردوس بن جائے گی۔‏ سب لوگوں کے پاس خوب‌صورت گھر اور باغ ہوں گے۔‏ ‏(‏یسعیاہ 65:‏21-‏24؛‏ مکاشفہ 11:‏18 کو پڑھیں۔‏)‏ پوری زمین باغِ‌عدن کی طرح خوب‌صورت بن جائے گی۔‏ یہوواہ خدا ہماری ہر ضرورت کو پورا کرے گا۔‏ پاک کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏[‏خدا]‏ اپنی مٹھی کھولتا ہے اور ہر جان‌دار کی خواہش پوری کرتا ہے۔‏“‏—‏زبور 145:‏16‏۔‏

21.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ اِنسانوں اور جانوروں کو ایک دوسرے سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا؟‏

21 اِنسانوں اور جانوروں کو ایک دوسرے سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔‏ جانور اِنسانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔‏ چھوٹے بچوں کو بھی اُن جانوروں سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا جنہیں آج خطرناک سمجھا جاتا ہے۔‏‏—‏یسعیاہ 11:‏6-‏9؛‏ 65:‏25 کو پڑھیں۔‏

22.‏ یسوع مسیح بیماروں کے لیے کیا کریں گے؟‏

22 کوئی بھی شخص بیمار نہیں ہوگا۔‏ جب یسوع مسیح زمین پر تھے تو اُنہوں نے بہت سے لوگوں کو شفا دی۔‏ (‏متی 9:‏35؛‏ مرقس 1:‏40-‏42؛‏ یوحنا 5:‏5-‏9‏)‏ لیکن خدا کی بادشاہت کے بادشاہ کے طور پر وہ سب لوگوں کو شفا دیں گے۔‏ کوئی بھی شخص یہ نہیں کہے گا کہ ”‏مَیں بیمار ہوں۔‏“‏—‏یسعیاہ 33:‏24؛‏ 35:‏5،‏ 6‏۔‏

23.‏ خدا نے مُردوں کے بارے میں کیا وعدہ کِیا ہے؟‏

23 مُردوں کو زندہ کر دیا جائے گا۔‏ خدا نے وعدہ کِیا ہے کہ وہ اُن لاکھوں لوگوں کو زندہ کرے گا جو مر چُکے ہیں۔‏ پاک کلام میں لکھا ہے کہ ”‏خدا نیکوں اور بدوں دونوں کو زندہ کرے گا۔‏“‏‏—‏یوحنا 5:‏28،‏ 29 کو پڑھیں؛‏ اعمال 24:‏15‏۔‏

24.‏ آپ فردوس میں رہنے کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں؟‏

24 ہم سب کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا ہم یہوواہ خدا کے بارے میں سیکھیں گے اور اُس کی خدمت کریں گے یا پھر اپنی مرضی کریں گے۔‏ اگر ہم یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ہمارا مستقبل بہت شان‌دار ہو سکتا ہے۔‏ جب ایک آدمی نے یسوع مسیح سے درخواست کی کہ وہ اُس کے مرنے کے بعد اُسے یاد رکھیں تو اُنہوں نے اُس سے وعدہ کِیا:‏ ”‏آپ میرے ساتھ فردوس میں ہوں گے۔‏‏“‏ (‏لُوقا 23:‏43‏)‏ آئیں،‏ یسوع مسیح کے بارے میں مزید سیکھیں اور دیکھیں کہ اُن کے ذریعے خدا کے شان‌دار وعدے کیسے پورے ہوں گے۔‏