مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

انسان موت کی گرفت سے آزاد ہوگا

انسان موت کی گرفت سے آزاد ہوگا

ساتواں باب

انسان موت کی گرفت سے آزاد ہوگا

ہم کیسے جانتے ہیں کہ مُردے جی اُٹھیں گے؟‏

ہم کیسے جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا مُردوں کو زندہ کرنے کی دلی آرزو رکھتا ہے؟‏

مُردوں میں سے کون جی اُٹھیں گے؟‏

۱-‏۳.‏ وہ کونسا جانی دُشمن ہے جو ہم سب کا پیچھا کر رہا ہے؟‏ پاک صحائف میں موت کے بارے میں جو تعلیم دی جاتی ہے اس سے ہم ہمت کیوں باندھ سکتے ہیں؟‏

ذرا تصور کریں کہ ایک خطرناک دُشمن آپ کا پیچھا کر رہا ہے۔‏ آپ اُس سے بھاگنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا آپ کے نزدیک آ رہا ہے۔‏ وہ آپ سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔‏ یہ دُشمن آپ کے کئی عزیزوں کو قتل کر چکا ہے اور وہ آپ کو بھی نہیں چھوڑے گا۔‏ ایسا لگتا ہے کہ آپ کے بچنے کی کوئی اُمید نہیں۔‏ لیکن اچانک ایک شخص آپ کے قریب آتا ہے۔‏ وہ اس خطرناک دُشمن سے کہیں زیادہ طاقتور ہے اور آپ کی مدد کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔‏ یہ سُن کر آپ کی جان میں جان آ جاتی ہے۔‏

۲ ایک لحاظ سے ہم سب ایک خطرناک دُشمن سے بھاگنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‏ جیسا کہ ہم نے چھٹے باب میں سیکھا تھا پاک صحائف میں موت کو انسان کا جانی دُشمن کہا گیا ہے۔‏ اور واقعی موت کی طاقت ایسی ہے کہ ہم اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔‏ اس نے ہمارے کئی عزیزوں کو بھی ختم کر ڈالا ہے۔‏ لیکن ہم ہمت باندھ سکتے ہیں کیونکہ یہوواہ خدا موت سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔‏ وہ ثابت کر چکا ہے کہ وہ موت کو شکست دے سکتا ہے۔‏ اُس کا وعدہ ہے کہ وہ موت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کر دے گا۔‏ پاک صحائف میں لکھا ہے کہ ”‏سب سے پچھلا دُشمن جو نیست کِیا جائے گا وہ موت ہے۔‏“‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۲۶‏۔‏

۳ جی‌ہاں،‏ یہوواہ خدا کا وعدہ ہے کہ مُردے جی اُٹھیں گے۔‏ (‏یسعیاہ ۲۶:‏۱۹‏)‏ لہٰذا ہم اپنے مُردہ عزیزوں کو پھر سے ملنے کی اُمید رکھ سکتے ہیں۔‏ آئیے پہلے ہم اس بات پر غور کریں کہ جب ہمارا کوئی عزیز فوت ہو جاتا ہے تو ہم کیسا محسوس کرتے ہیں۔‏ اس طرح ہم خدا کے اِس وعدے کی اہمیت کو بہتر طور پر سمجھ پائیں گے۔‏

جب ہمارا کوئی عزیز فوت ہو جاتا ہے

۴.‏ (‏ا)‏ ہم موت کے بارے میں یسوع مسیح کے احساسات سے یہوواہ خدا کے احساسات کا اندازہ کیوں لگا سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ یسوع مسیح کے قریبی دوست کون تھے؟‏

۴ جب ہمارا کوئی عزیز فوت ہو جاتا ہے تو ہمیں دلی صدمہ پہنچتا ہے۔‏ اور کبھی‌کبھار تو ہمیں لگتا ہے کہ یہ صدمہ ہماری برداشت سے باہر ہے۔‏ ایسی صورت میں ہمیں خدا کے کلام سے تسلی مل سکتی ہے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱:‏۳،‏ ۴‏)‏ یسوع مسیح ہر لحاظ سے یہوواہ خدا کی طرح تھا۔‏ اس لئے ہم موت کے بارے میں اُس کے احساسات سے یہوواہ خدا کے احساسات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔‏ (‏یوحنا ۱۴:‏۹‏)‏ آئیے ہم ایک ایسے واقعے پر غور کریں جو موت کے بارے میں یسوع کے احساسات پر روشنی ڈالتا ہے۔‏ یسوع مسیح جب بھی شہر یروشلیم میں ہوتا تو وہ اپنے دوست لعزر اور اُس کی بہنوں مریم اور مرتھا سے ملنے جاتا جو نزدیک ہی بیت‌عنیاہ کے گاؤں میں رہتے تھے۔‏ ان چاروں کی آپس میں بڑی دوستی تھی۔‏ خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ ”‏یسوؔع مرؔتھا اور اُس کی بہن اور لعزؔر سے محبت رکھتا تھا۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۱:‏۵‏)‏ لیکن جیسا کہ ہم نے پچھلے باب میں پڑھا تھا لعزر بیمار ہو کر فوت ہو گیا۔‏

۵،‏ ۶.‏ (‏ا)‏ اپنے دوست لعزر کی موت پر یسوع مسیح نے کیسا محسوس کِیا تھا؟‏ (‏ب)‏ یسوع مسیح کے دُکھ کے بارے میں پڑھنے سے ہم تسلی کیوں پا سکتے ہیں؟‏

۵ اپنے دوست لعزر کی موت پر یسوع مسیح نے کیسا محسوس کِیا تھا؟‏ خدا کے کلام میں بتایا گیا ہے کہ یسوع لعزر کے رشتہ‌داروں اور دوستوں سے ملنے گیا جو اُس کی موت پر ماتم کرنے آئے تھے۔‏ اُن کو روتے دیکھ کر یسوع ’‏دل میں نہایت رنجیدہ ہوا اور گھبرایا۔‏‘‏ پھر ”‏یسوؔع کے آنسو بہنے لگے۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۱:‏۳۳،‏ ۳۵‏)‏ یسوع جانتا تھا کہ خدا اُسے ایک معجزہ دکھانے کی قوت دینے والا ہے۔‏ (‏یوحنا ۱۱:‏۳،‏ ۴‏)‏ اس کے باوجود وہ اُس دُکھ اور صدمے کو محسوس کر رہا تھا جو کسی عزیز کے فوت ہونے پر ہم سب محسوس کرتے ہیں۔‏

۶ یسوع مسیح کے اِس دُکھ کے بارے میں پڑھنے سے ہم تسلی پا سکتے ہیں۔‏ اس سے ہم جان جاتے ہیں کہ یسوع مسیح اور یہوواہ خدا کو موت سے نفرت ہے۔‏ اور یہوواہ خدا اس دُشمن کو شکست دے سکتا ہے۔‏ آئیے ہم دیکھیں کہ موت کے سلسلے میں یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کو کیا کرنے کا اختیار دیا ہے۔‏

‏”‏اَے لعزؔر نکل آ“‏

۷،‏ ۸.‏ لوگ کیوں سمجھتے تھے کہ لعزر کے لئے کچھ نہیں کِیا جا سکتا تھا؟‏ لیکن یسوع نے کیا کر دکھایا؟‏

۷ لعزر کی قبر ایک غار میں تھی جس کے مُنہ کو ایک بڑے پتھر سے بند کِیا گیا تھا۔‏ یسوع نے لوگوں کو کہا کہ وہ اس پتھر کو وہاں سے ہٹا دیں۔‏ اس پر مرتھا نے اعتراض کِیا کیونکہ لعزر کو مرے چار دن ہو چکے تھے اور بدبُو آنے کا امکان تھا۔‏ (‏یوحنا ۱۱:‏۳۹‏)‏ مرتھا اور باقی لوگوں کا خیال تھا کہ لعزر کے لئے اب کچھ نہیں کِیا جا سکتا۔‏

۸ جب غار سے پتھر ہٹا لیا گیا تو یسوع نے بلند آواز میں پکارا:‏ ”‏اَے لعزؔر نکل آ۔‏“‏ اس پر لعزر ”‏کفن سے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے نکل آیا۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۱:‏۴۳،‏ ۴۴‏)‏ ذرا وہاں کھڑے لوگوں کی حیرانگی اور خوشی کا تصور کریں۔‏ لعزر اُن میں سے کچھ کا بھائی،‏ رشتہ‌دار،‏ دوست یا پڑوسی تھا۔‏ لہٰذا،‏ وہ سب جانتے تھے کہ لعزر مر چکا تھا۔‏ لیکن اب اُن کا یہ عزیز زندہ سلامت اُن کے سامنے کھڑا تھا۔‏ بِلاشُبہ ان میں سے بہتیرے لعزر سے لپٹ گئے ہوں گے۔‏ جی‌ہاں،‏ یہ موت پر ایک بڑی فتح تھی۔‏

۹،‏ ۱۰.‏ (‏ا)‏ یسوع مسیح نے لعزر کو زندہ کرتے وقت کس بات پر زور دیا؟‏ (‏ب)‏ مُردوں کے جی اُٹھنے کے بارے میں پڑھنے کے کونسے فائدے ہوتے ہیں؟‏

۹ کیا یسوع مسیح نے اس معجزے کو اپنی طاقت سے کرنے کا دعویٰ کِیا تھا؟‏ جی نہیں۔‏ لعزر کو زندہ کرنے سے پہلے یسوع نے دُعا کی اور اس بات پر زور دیا کہ وہ یہوواہ خدا کی قدرت سے ہی یہ معجزہ کرنے والا تھا۔‏ (‏یوحنا ۱۱:‏۴۱،‏ ۴۲‏)‏ یہ پہلا موقع نہیں تھا جس پر یہوواہ خدا نے اپنی قدرت استعمال کرتے ہوئے کسی کو زندہ کِیا تھا کیونکہ لعزر کے علاوہ پاک صحائف میں مزید آٹھ ایسے واقعات کا ذکر پایا جاتا ہے۔‏ * ان واقعات کے بارے میں پڑھنے اور ان پر غور کرنے سے آپ ہمت باندھ سکیں گے۔‏ آپ جان جائیں گے کہ یہوواہ خدا کسی کی طرفداری نہیں کرتا کیونکہ جی اُٹھنے والوں میں مرد اور عورتیں،‏ بچے اور بڑے یہاں تک کہ غیراسرائیلی بھی شامل تھے۔‏ اپنے مُردہ عزیزوں کو زندہ پا کر لوگ بہت ہی خوش ہوئے تھے۔‏ مثال کے طور پر جب یسوع نے ایک لڑکی کو زندہ کِیا تو اُس کے والدین اور دوسرے لوگ ”‏بہت ہی حیران ہوئے۔‏“‏ (‏مرقس ۵:‏۴۲‏)‏ واقعی اس معجزے کی بِنا پر یہوواہ خدا نے ان لوگوں کو خوشی منانے کا بڑا موقع فراہم کِیا۔‏

۱۰ یہ بات سچ ہے کہ جن لوگوں کو یسوع نے زندہ کِیا تھا وہ اب تک دوبارہ مر چکے ہیں۔‏ کیا اس کا مطلب ہے کہ اُن کو زندہ کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوا؟‏ ہرگز نہیں۔‏ ان واقعات سے پاک صحائف میں درج سچائیوں کی تصدیق ہوتی ہے اور ہم ہمت بھی باندھ سکتے ہیں۔‏

ہم ان واقعات سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۱.‏ واعظ ۹:‏۵ میں درج حقیقت لعزر کے جی اُٹھنے سے کیسے ثابت ہوتی ہے؟‏

۱۱ پاک صحائف کی تعلیم یہ ہے کہ ”‏مُردے کچھ بھی نہیں جانتے۔‏“‏ لعزر کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا تھا اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد انسان کسی دوسرے جہان میں زندہ نہیں رہتا۔‏ ذرا سوچیں،‏ جب لعزر کو زندہ کِیا گیا تو کیا اُس نے لوگوں کو بتایا کہ اُس نے جنت میں یا آسمان پر کتنا اچھا وقت گزارا تھا؟‏ یا پھر کیا اُس نے اُنہیں سنایا کہ اُسے دوزخ کی آگ میں کس طرح تڑپایا گیا تھا؟‏ جی‌نہیں۔‏ پاک صحائف میں لعزر کی کسی ایسی بات کا ذکر نہیں ہے۔‏ اس سے ہم جان جاتے ہیں کہ جب لعزر چار دن تک مُردہ تھا تو وہ ’‏کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔‏‘‏ (‏واعظ ۹:‏۵‏)‏ واقعی،‏ لعزر موت کی گہری نیند سو رہا تھا۔‏—‏یوحنا ۱۱:‏۱۱‏۔‏

۱۲.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ لعزر کو واقعی زندہ کِیا گیا تھا؟‏

۱۲ لعزر کے ساتھ جو کچھ پیش آیا تھا اس سے ہم جان جاتے ہیں کہ مُردوں کو واقعی زندہ کِیا جائے گا۔‏ جب یسوع مسیح نے لعزر کو زندہ کِیا تھا تو وہاں بہت سے لوگ موجود تھے۔‏ یہ تمام لوگ اس معجزے کے گواہ تھے۔‏ حالانکہ یہودیوں کے مذہبی رہنما یسوع کے جانی دُشمن تھے لیکن اُن کو بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑا کہ یسوع نے لعزر کو زندہ کِیا ہے۔‏ اس وجہ سے وہ بڑبڑانے لگے:‏ ”‏ہم کرتے کیا ہیں؟‏ یہ آدمی تو بہت معجزے دکھاتا ہے۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۱:‏۴۷‏)‏ لوگ دُور دُور سے اُس آدمی کو دیکھنے آئے جسے زندہ کِیا گیا تھا۔‏ لعزر اس بات کا جیتاجاگتا ثبوت تھا کہ یسوع کو خدا ہی نے بھیجا تھا۔‏ اس لئے بہت لوگ یسوع پر ایمان لے آئے۔‏ یہ دیکھ کر یہودیوں کے مذہبی رہنما اتنے غصے ہوئے کہ اُنہوں نے نہ صرف یسوع کو بلکہ لعزر کو بھی مار ڈالنے کا مشورہ کِیا۔‏—‏یوحنا ۱۱:‏۵۳؛‏ ۱۲:‏۹-‏۱۱‏۔‏

۱۳.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ مُردوں کو زندہ کرنا یہوواہ خدا کے لئے کوئی مشکل کام نہیں؟‏

۱۳ کئی لوگ اس بات پر شک کرتے ہیں کہ آیا مُردے واقعی جی اُٹھیں گے۔‏ البتہ یسوع مسیح نے کہا تھا کہ ”‏جتنے قبروں میں ہیں“‏ زندہ کئے جائیں گے۔‏ (‏یوحنا ۵:‏۲۸‏)‏ غور کریں کہ یہوواہ خدا کائنات کا خالق ہے۔‏ اس کی قدرت ایسی ہے کہ وہ کائنات کے لاتعداد ستاروں کو نام بنام بلاتا ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۴۰:‏۲۶‏)‏ اسی طرح جب ایک شخص مر جاتا ہے تو خدا اُس کے ہر پہلو اور ہر ادا کو یادداشت میں محفوظ کر سکتا ہے۔‏ لہٰذا ایک مُردہ انسان کو دوبارہ سے خلق کرنا اُس کے لئے کوئی مشکل کام نہیں۔‏ بِلاشُبہ یہوواہ خدا ہمارے مُردہ عزیزوں کو مقررہ وقت پر زندہ کرے گا۔‏

۱۴،‏ ۱۵.‏ ایوب کی بات سے ہم کیسے جان جاتے ہیں کہ یہوواہ خدا مُردوں کو زندہ کرنے کی دلی آرزو رکھتا ہے؟‏

۱۴ یہوواہ خدا مُردوں کو زندہ کرنے کی دلی خواہش رکھتا ہے۔‏ یہ بات پاک صحائف میں سے صاف ظاہر ہوتی ہے۔‏ ایک مرتبہ خدا کے وفادار خادم ایوب نے سوال کِیا کہ ”‏اگر آدمی مر جائے تو کیا وہ پھر جئے گا؟‏“‏ پھر ایوب نے کہا کہ وہ قبر میں اُس وقت کا منتظر رہے گا جب خدا اُسے یاد کرکے زندہ کر دے گا۔‏ اس سلسلے میں اُس نے یہوواہ خدا سے کہا:‏ ”‏تُو مجھے پکارے گا اور مَیں تجھے جواب دُونگا۔‏ تجھے اپنے ہاتھوں کی بنی ہوئی چیز کی دلی آرزو ہوگی۔‏“‏—‏ایوب ۱۴:‏۱۳-‏۱۵‏،‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن۔‏

۱۵ جی‌ہاں،‏ یہوواہ خدا مُردوں کو زندہ کرنے کی دلی آرزو رکھتا ہے۔‏ کیا یہ جان کر ہمارا دل خوش نہیں ہوتا؟‏ آئیے اب ہم اس بات پر غور کریں کہ یہوواہ خدا مُردوں میں سے کس کو زندہ کرے گا اور اُن کو کہاں زندہ کِیا جائے گا؟‏

‏”‏جتنے قبروں میں ہیں“‏

۱۶.‏ جب مُردوں کو زمین پر زندہ کِیا جائے گا تو یہاں کے حالات کیسے ہوں گے؟‏

۱۶ مُردوں کے جی اُٹھنے کی سلسلے میں پاک صحائف میں جن واقعات کا ذکر ہے ان سے ہم اُس وقت کے بارے میں بہت کچھ جان سکتے ہیں جب خدا بڑے پیمانے پر مُردوں کو زندہ کرے گا۔‏ اِن واقعات سے ہم نے دیکھا ہے کہ قدیم زمانے میں جب بھی کسی مُردہ شخص کو زندہ کِیا گیا تو اُسے زمین پر زندہ کِیا گیا۔‏ اس طرح اُسے دوبارہ سے اپنے عزیزوں کی رفاقت حاصل ہوئی۔‏ یہی بات اُس وقت بھی سچ ثابت ہوگی جب خدا ہمارے مُردہ عزیزوں کو زندہ کرے گا۔‏ جیسا کہ ہم نے تیسرے باب میں دیکھا ہے خدا نے زمین کو اس لئے خلق کِیا تاکہ انسان اس پر امن اور خوشحالی میں رہ سکے۔‏ لہٰذا مستقبل میں جب مُردوں کو اِس زمین پر زندہ کِیا جائے گا تو یہاں کے حالات آج سے بالکل فرق ہوں گے۔‏ اُس وقت جنگ،‏ تشدد اور بیماری کا نام‌ونشان نہ ہوگا۔‏ زمین پر امن اور خوشحالی کا ایک ایسا دَور ہوگا جس کا سب لطف اُٹھائیں گے۔‏

۱۷.‏ مستقبل میں کن کو زندہ کِیا جائے گا؟‏

۱۷ مستقبل میں کن کو زندہ کِیا جائے گا؟‏ یسوع مسیح نے کہا تھا کہ ”‏جتنے قبروں میں ہیں اُس کی آواز سُن کر نکلیں گے۔‏“‏ (‏یوحنا ۵:‏۲۸،‏ ۲۹‏)‏ اسی طرح مکاشفہ ۲۰:‏۱۳ میں لکھا ہے کہ ”‏سمندر نے اپنے اندر کے مُردوں کو دے دیا اور موت اور عالمِ‌ارواح نے اپنے اندر کے مُردوں کو دے دیا۔‏“‏ اس آیت میں جس لفظ کا ترجمہ ”‏عالمِ‌ارواح“‏ سے کِیا گیا ہے بائبل کی اصلی زبان میں اس کے لئے لفظ ”‏ہادس“‏ استعمال ہوا ہے۔‏ لفظ ہادس کسی حقیقی جگہ کی طرف اشارہ نہیں کرتا بلکہ یہ علامتی قبر کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں مُردے جی اُٹھنے تک موت کی نیند سو رہے ہیں۔‏ (‏مزید معلومات کے لئے اِس کتاب کے صفحہ ۲۱۲-‏۲۱۳ کو دیکھیں۔‏)‏ جو بھی اس علامتی قبر میں ہوگا اُسے دوبارہ زندہ کِیا جائے گا۔‏ اس سلسلے میں پولس رسول نے کہا:‏ ”‏راستبازوں اور ناراستوں دونوں کی قیامت ہوگی۔‏“‏ (‏اعمال ۲۴:‏۱۵‏)‏ اس کا کیا مطلب ہے؟‏

۱۸.‏ جن ”‏راستبازوں“‏ کو زندہ کِیا جائے گا ان میں کون لوگ شامل ہیں؟‏ یہ جان کر کہ مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا ہمیں کونسا فائدہ ہوتا ہے؟‏

۱۸ جن ”‏راستبازوں“‏ کی قیامت ہوگی یعنی جنہیں زندہ کِیا جائے گا اِن میں خدا کے وہ بندے شامل ہیں جو یسوع مسیح کے زمین پر آنے سے پہلے زندہ تھے،‏ مثلاً ابرہام،‏ سارہ،‏ موسیٰ،‏ رُوت اور آستر۔‏ ان میں سے چند کے بارے میں آپ بائبل میں عبرانیوں کے گیارھویں باب میں پڑھ سکتے ہیں۔‏ اس کے علاوہ ”‏راستبازوں“‏ میں خدا کے وہ خادم بھی شامل ہیں جو ہمارے زمانے میں فوت ہو گئے ہیں۔‏ چونکہ ہم جانتے ہیں کہ مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا اس لئے ہم موت سے نہیں ڈرتے۔‏—‏عبرانیوں ۲:‏۱۵‏۔‏

۱۹.‏ ”‏ناراستوں“‏ میں کون لوگ شامل ہیں اور یہوواہ خدا اُنہیں کیا کرنے کا موقع دے گا؟‏

۱۹ لیکن ماضی میں بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جو یہوواہ خدا کے بارے میں نہیں جانتے تھے اور اس لئے اُنہوں نے اُس کی عبادت اور خدمت نہیں کی۔‏ کیا یہوواہ خدا اُن کو بھی یاد رکھتا ہے اور اُنہیں زندہ کرے گا؟‏ جی‌ہاں۔‏ یہ کروڑوں لوگ اُن ”‏ناراستوں“‏ میں شامل ہیں جنہیں زمین پر زندہ کِیا جائے گا۔‏ ان لوگوں کو ایک ایسے خاص دَور میں زندہ کِیا جائے گا جو ایک ہزار سال تک رہے گا۔‏ اس دَور میں وہ خدا کے بارے میں سیکھیں گے اور اُنہیں خدا کے وفادار خادموں کے ساتھ اُس کی خدمت اور عبادت کرنے کا موقع دیا جائے گا۔‏ اس خاص دَور کو بائبل میں ”‏عدالت کا دن“‏ کہا گیا ہے۔‏ *

۲۰.‏ بائبل میں لفظ ”‏جہنم“‏ کس کی طرف اشارہ کرتا ہے اور اس میں کون لوگ ہیں؟‏

۲۰ کیا تمام مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا؟‏ جی‌نہیں۔‏ پاک صحائف میں کئی مُردوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ ”‏جہنم“‏ میں ہیں۔‏ (‏لوقا ۱۲:‏۵‏)‏ دراصل بائبل کے مطابق جہنم قدیم شہر یروشلیم کے باہر ایک ایسی جگہ کا نام تھا جہاں کوڑا کرکٹ اور مُجرموں کی لاشیں بھی جلائی جاتی تھیں۔‏ یہ اُن بدکار لوگوں کی لاشیں ہوتیں جو یہودیوں کی نظروں میں زندہ کئے جانے کے لائق نہ تھے۔‏ لہٰذا بائبل میں لفظ ”‏جہنم“‏ ایک ایسی جگہ کی طرف اشارہ نہیں کرتا جہاں مُردوں کو ہمیشہ تک آگ میں تڑپایا جائے گا۔‏ دراصل جہنم ہمیشہ کے لئے ختم ہو جانے کی علامت ہے۔‏ یسوع مسیح کو خدا کی طرف سے زندوں اور مُردوں کا منصف مقرر کِیا گیا ہے۔‏ وہ یہوواہ خدا کے معیاروں ہی کے مطابق فیصلہ کرے گا کہ کس کو زندہ کِیا جائے گا۔‏ (‏اعمال ۱۰:‏۴۲‏)‏ یہوواہ کسی ایسے شخص کو زندہ نہیں کرے گا جس کے بارے میں اُسے علم ہے کہ اُس کا دل سراسر بُرا تھا اور وہ موقع ملنے پر بھی اپنی بُری روش ترک نہیں کرے گا۔‏

آسمان پر کون زندہ کئے جائیں گے؟‏

۲۱،‏ ۲۲.‏ (‏ا)‏ کئی مُردوں کو کہاں زندہ کِیا جائے گا؟‏ (‏ب)‏ سب سے پہلے کس شخص کو روحانی ہستی کے طور پر زندہ کِیا گیا؟‏

۲۱ خدا کے کلام میں ایسے مُردوں کا بھی ذکر ہے جن کو روحانی ہستیوں کے طور پر آسمان پر زندہ کِیا جائے گا۔‏ البتہ بائبل میں ایک ہی ایسے واقعے کا ذکر ہے جس میں ایک شخص کو روحانی ہستی کے طور پر زندہ کِیا گیا۔‏ یہ شخص یسوع مسیح تھا۔‏

۲۲ جب یسوع مسیح کو زمین پر مار ڈالا گیا تو یہوواہ خدا نے اُسے قبر میں سڑنے نہیں دیا۔‏ (‏زبور ۱۶:‏۱۰؛‏ اعمال ۱۳:‏۳۴،‏ ۳۵‏)‏ اُس نے یسوع کو زندہ کر دیا لیکن گوشت‌پوست والے انسان کے طور پر نہیں۔‏ پطرس رسول نے اس سلسلے میں لکھا کہ یسوع ”‏جسم کے اعتبار سے تو مارا گیا لیکن روح کے اعتبار سے زندہ کِیا گیا۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۱۸‏)‏ یسوع کو ایک طاقتور روحانی ہستی کے طور پر زندہ کِیا گیا۔‏ یہ واقعی ایک بہت ہی شاندار معجزہ تھا۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۳-‏۶‏)‏ یسوع مسیح وہ پہلا شخص تھا جسے روحانی ہستی کے طور پر زندہ کِیا گیا۔‏ (‏یوحنا ۳:‏۱۳‏)‏ لیکن اُس کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی یہ شرف ملا۔‏

۲۳،‏ ۲۴.‏ یسوع مسیح نے ”‏چھوٹے گلّے“‏ کا لقب کن لوگوں کو دیا اور اس میں کتنے لوگ شامل ہیں؟‏

۲۳ اپنی موت سے کچھ عرصہ پہلے یسوع جانتا تھا کہ وہ جلد ہی آسمان پر جانے والا ہے۔‏ اُس نے اپنے وفادار پیروکاروں سے کہا کہ وہ اُن کے لئے وہاں ’‏جگہ تیار کرے گا۔‏‘‏ (‏یوحنا ۱۴:‏۲‏)‏ یسوع نے آسمان پر جانے کی اُمید رکھنے والے مسیحیوں کو ”‏چھوٹے گلّے“‏ کا لقب دیا۔‏ (‏لوقا ۱۲:‏۳۲‏)‏ وفادار مسیحیوں کے اس چھوٹے گروہ میں کتنے لوگ شامل ہیں؟‏ اس کا جواب مکاشفہ ۱۴:‏۱ میں پایا جاتا ہے جہاں لکھا ہے:‏ ”‏مَیں نے نگاہ کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ برّہ [‏یعنی یسوع مسیح]‏ صیوؔن کے پہاڑ پر کھڑا ہے اور اُس کے ساتھ ایک لاکھ چوالیس ہزار شخص ہیں جن کے ماتھے پر اُس کا اور اُس کے باپ کا نام لکھا ہوا ہے۔‏“‏

۲۴ ان ایک لاکھ چوالیس ہزار اشخاص میں یسوع مسیح کے رسول بھی شامل ہیں۔‏ ان تمام اشخاص کو آسمان پر کب زندہ کِیا جانا تھا؟‏ پولس رسول نے لکھا کہ یہ مسیح کے آنے پر یعنی اُس وقت کے بعد واقع ہونا تھا جب یسوع مسیح بادشاہ کے طور پر اپنی حکمرانی شروع کرے گا۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۲۳‏)‏ جیسا کہ آپ نویں باب میں سیکھیں گے ہم آج اس وقت میں رہ رہے ہیں۔‏ اِن ۰۰۰،‏۴۴،‏ا میں سے کم ہی لوگ زمین پر زندہ ہیں۔‏ جب بھی اُن میں سے ایک فوت ہو جاتا ہے تو خدا اُسے فوراً آسمان پر زندہ کر دیتا ہے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۵۱-‏۵۵‏)‏ لیکن زیادہ‌تر انسان فردوسی زمین پر جی اُٹھنے کی اُمید رکھ سکتے ہیں۔‏

۲۵.‏ اگلے باب میں کس موضوع پر غور کِیا جائے گا؟‏

۲۵ جی‌ہاں،‏ یہوواہ خدا موت کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دے گا۔‏ اس طرح ہمارا یہ دُشمن ہمیشہ کیلئے شکست کھا جائے گا۔‏ (‏یسعیاہ ۲۵:‏۸‏)‏ شاید آپ سوچ رہے ہوں کہ ”‏جن لوگوں کو آسمان پر زندہ کِیا جائے گا وہ وہاں کیا کریں گے؟‏“‏ دراصل یہ اشخاص خدا کی آسمانی بادشاہت میں حکمرانوں کی حیثیت رکھیں گے۔‏ اس بادشاہت کے بارے میں اگلے باب میں بتایا جائے گا۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 19 ‏”‏عدالت کے دن“‏ کے بارے میں مزید معلومات کے لئے اس کتاب کے صفحہ ۲۱۳-‏۲۱۵ کو دیکھیں۔‏

پاک صحائف کی تعلیم یہ ہے

▪ ماضی میں خدا نے کئی موقعوں پر مُردوں کو زندہ کِیا تھا۔‏ اس سے ہم جان جاتے ہیں کہ وہ مستقبل میں بھی ایسا کرے گا۔‏—‏یوحنا ۱۱:‏۳۹-‏۴۴‏۔‏

▪ یہوواہ خدا مُردوں کو زندہ کرنے کی دلی آرزو رکھتا ہے۔‏—‏ایوب ۱۴:‏۱۳-‏۱۵‏۔‏

▪ جتنے مُردے علامتی قبر میں ہیں زندہ کئے جائیں گے۔‏—‏یوحنا ۵:‏۲۸،‏ ۲۹‏۔‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۶۹ پر تصویر]‏

ایلیاہ نے ایک بیوہ کے بیٹے کو زندہ کِیا۔‏—‏۱-‏سلاطین ۱۷:‏۱۷-‏۲۴

‏[‏صفحہ ۶۹ پر تصویر]‏

پطرس رسول نے تبیتا نامی ایک مسیحی عورت کو زندہ کِیا۔‏—‏اعمال ۹:‏۳۶-‏۴۲

‏[‏صفحہ ۶۹ پر تصویر]‏

جب لعزر کو زندہ کِیا گیا تو سب لوگ بہت ہی خوش ہوئے۔‏—‏یوحنا ۱۱:‏۳۸-‏۴۴

‏[‏صفحہ ۷۵ پر تصویر]‏

فردوسی زمین پر مُردے زندہ کئے جائیں گے اور اُنہیں دوبارہ سے اپنے عزیزوں کی رفاقت حاصل ہوگی