مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏دل‌آویز باتوں“‏ سے اپنے خاندان کی حوصلہ‌افزائی کریں

‏”‏دل‌آویز باتوں“‏ سے اپنے خاندان کی حوصلہ‌افزائی کریں

‏”‏دل‌آویز باتوں“‏ سے اپنے خاندان کی حوصلہ‌افزائی کریں

جب ڈیوڈ کار میں بیٹھا اپنی بیوی کا انتظار کر رہا تھا تو وہ بار بار گھڑی کو دیکھ رہا تھا۔‏ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا اُس کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔‏ جوں ہی اُس کی بیوی ڈائین دروازے سے باہر آئی تو ڈیوڈ اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکا۔‏

وہ چلایا،‏ ”‏کیا تمہیں اندازہ ہے کہ مَیں کتنی دیر سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں؟‏“‏ ”‏تُم ہمیشہ دیر لگاتی ہو!‏ کبھی تو وقت پر تیار ہو جایا کرو۔‏“‏

ڈیوڈ کی جلی‌کٹی باتیں سُن کر ڈائین پریشان ہو گئی۔‏ بےاختیار اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور وہ اُلٹے پاؤں اندر چلی گئی۔‏ فوراً ہی ڈیوڈ کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔‏ اُس کے غصے نے کام خراب کر دیا تھا۔‏ مگر اب وہ کیا کرے؟‏ اُس نے گاڑی بند کرتے ہوئے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور اپنی بیوی کے پیچھے پیچھے اندر چلا گیا۔‏

اِس مثال میں ایک ایسی صورتحال بیان کی گئی ہے جس کا لوگوں کو اکثر سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏ کیا آپ کو کبھی یہ محسوس ہوا ہے کہ آپ کو ایسا نہیں کہنا چاہئے تھا؟‏ جب ہم بِلاسوچےسمجھے بولتے ہیں تو ہم اکثر ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں جن پر ہمیں بعد میں پچھتانا پڑتا ہے۔‏ اِسی لئے بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏صادق کا دل سوچ کر جواب دیتا ہے۔‏“‏—‏امثال ۱۵:‏۲۸‏۔‏

جب ہم شدید غصے،‏ خوف یا دُکھ کی حالت میں ہوتے ہیں تو کچھ کہنے سے پہلے سوچنا مشکل ہو سکتا ہے۔‏ بالخصوص جب ہم خاندان کے افراد کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں تو ہمارے لئے الزام‌تراشی یا نکتہ‌چینی کرنا بڑا آسان ہوتا ہے۔‏ اِس کے نتیجے میں کسی کو ٹھیس پہنچ سکتی یا آپس میں تُوتُو مَیں‌مَیں ہو سکتی ہے۔‏

ایسی صورتحال سے بچنے کے لئے ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏ ہم اپنے جذبات کو کیسے قابو میں رکھ سکتے ہیں؟‏ بائبل میں واعظ نامی کتاب کے لکھنے والے سلیمان بادشاہ کی تحریروں سے ہم اچھی مشورت حاصل کر سکتے ہیں۔‏

مناسب الفاظ اور انداز اپنائیں

جب بائبل میں واعظ کی کتاب لکھنے والے سلیمان بادشاہ نے زندگی کے بےحقیقت یا بےثبات ہونے کی بابت لکھا تو اِس سے صاف ظاہر ہے کہ اِس موضوع کے بارے میں اُس کے جذبات بہت شدید تھے۔‏ کیونکہ ایک جگہ اُس نے لکھا:‏ ”‏مَیں زندگی سے بیزار ہوا۔‏“‏ ایک دوسری جگہ اُس نے زندگی کی بابت بیان کِیا:‏ ”‏باطل ہی باطل“‏ ہے۔‏ (‏واعظ ۲:‏۱۷؛‏ ۱۲:‏۸‏)‏ لیکن اِس سے ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ واعظ کی کتاب میں سلیمان نے محض زندگی کی بابت اپنی فکروں کا ہی اظہار کِیا ہے۔‏ اِس کتاب میں اُس نے زندگی کے منفی پہلوؤں پر ہی بات نہیں کی بلکہ زندگی کی حقیقت بھی بیان کی ہے۔‏ واعظ کی کتاب کے آخری باب میں سلیمان نے لکھا کہ وہ ”‏دل‌آویز باتوں کی تلاش میں رہا۔‏ اُن سچی باتوں کی جو راستی سے لکھی گئیں۔‏“‏—‏واعظ ۱۲:‏۱۰‏۔‏

اِس سے صاف ظاہر ہے کہ سلیمان اِس بات سے بخوبی واقف تھا کہ اُسے اپنے جذبات پر قابو رکھنے کی ضرورت تھی تاکہ لکھتے وقت مناسب الفاظ اور انداز اَپنا سکے۔‏ درحقیقت،‏ وہ اکثروبیشتر خود سے پوچھتا ہوگا:‏ ’‏جوکچھ مَیں کہنا چاہتا ہوں کیا وہ واقعی سچ اور دُرست ہے؟‏ اگر مَیں یہ الفاظ استعمال کرتا ہوں تو کیا یہ دوسروں کے لئے دل‌آویز اور قابلِ‌قبول ہوں گے؟‏‘‏ واقعی سچائی کی ‏”‏دل‌آویز باتوں“‏ کی جستجو کرنے سے وہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے کے قابل ہوا اور اُنہیں اپنے خیالات پر حاوی نہ ہونے دیا۔‏

سلیمان بادشاہ کی اِن تمام کوششوں کے نتیجے میں ہمیں نہ صرف ایک خوبصورت تحریر حاصل ہوئی ہے بلکہ زندگی کی اصل حقیقت کے بارے میں خدائی حکمت کا ایک انمول خزانہ بھی مل گیا ہے۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ جس انداز میں سلیمان نے زندگی کے بارے میں جذبات سے معمور بات‌چیت کی تھی کیا اُس سے ہمیں اپنے عزیزوں کے ساتھ موزوں انداز سے گفتگو کرنے میں مدد مل سکتی ہے؟‏ ایک مثال پر غور کریں۔‏

زیادہ جذباتی نہ ہوں

ایک دن جب بچہ سکول سے گھر واپس آتا ہے تو وہ بہت اُداس ہوتا ہے۔‏ اُس نے ہاتھ میں اپنا رپورٹ کارڈ پکڑا ہوا ہے۔‏ جب اُس کا والد رپورٹ کارڈ دیکھتا ہے تو اُسے پتہ چلتا ہے کہ بچہ ایک مضمون میں فیل ہو گیا ہے۔‏ والد فوراً غصے میں آ جاتا ہے۔‏ اُسے یاد آتا ہے کہ بچہ اکثر اپنا ہوم‌ورک نہیں کِیا کرتا تھا۔‏ باپ کا دل چاہتا ہے کہ اُسے خوب ڈانٹے اور کہے:‏ ”‏تُم بالکل نکمّے ہو!‏ اگر ایسے ہی رہے تو کبھی کامیاب نہیں ہو گے!‏“‏

مگر منفی خیالات کو اپنے اُوپر حاوی ہونے کی اجازت دینے کی بجائے اچھا ہوگا کہ باپ خود سے پوچھے،‏ ’‏جوکچھ مَیں سوچ رہا ہوں کیا یہ واقعی دُرست ہے؟‏‘‏ یہ سوال اُسے حقائق اور جذبات کے درمیان فرق کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔‏ (‏امثال ۱۷:‏۲۷‏)‏ چونکہ بچے کو ایک مضمون مشکل لگ رہا ہے تو کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ زندگی میں کبھی کامیاب نہیں ہوگا؟‏ کیا وہ واقعی نکما ہے یا اِس لئے ہوم‌ورک نہیں کر رہا کہ اُسے یہ مضمون سچ‌مچ مشکل لگتا ہے؟‏ بائبل معاملات پر معقول طریقے اور حقیقت‌پسندی سے غور کرنے پر زور دیتی ہے۔‏ (‏ططس ۳:‏۲؛‏ یعقوب ۳:‏۱۷‏)‏ ماں‌باپ کو اپنے بچے کی حوصلہ‌افزائی کرنے کے لئے ’‏صحیح اور دُرست‘‏ باتیں کہنی چاہئیں۔‏

صحیح الفاظ کا استعمال کریں

جب باپ یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ وہ بیٹے سے کیا کہے گا توپھر وہ خود سے پوچھ سکتا ہے،‏ ’‏مَیں اپنے بیٹے سے یہ بات کہنے کے لئے کیسے الفاظ استعمال کروں تاکہ اُسے بُرا بھی نہ لگے اور اُس کے لئے میری بات قبول کرنا بھی مشکل نہ ہو؟‏‘‏ سچ ہے کہ جوکچھ آپ کہنا چاہتے ہیں اُس کے لئے صحیح الفاظ کا انتخاب کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔‏ مگر والدین کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ بچے اکثر یہ سوچتے ہیں کہ جو کام اُنہیں دیا گیا ہے اگر وہ اُسے نہیں کر سکتے تو وہ کبھی بھی کچھ نہیں کر پائیں گے۔‏ وہ بالکل ناکارہ ہیں۔‏ اپنی ایک غلطی یا کوتاہی کے بارے میں وہ اِس حد تک سوچتے ہیں کہ اُنہیں اپنی خامیوں کے سوا اَور کچھ نظر نہیں آتا۔‏ اِس لئے اگر ماں‌باپ بھی شدید جذبات کا اظہار کرتے ہیں تو وہ اپنے بچے کے اندر موجود منفی سوچ کو ہوا دے رہے ہوں گے۔‏ دوسرے لفظوں میں وہ بھی اپنے بچے کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہے ہوں گے کہ وہ زندگی میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے وہ بالکل نکمّے ہیں۔‏ اِس سلسلے میں کلسیوں ۳:‏۲۱ بیان کرتی ہے:‏ ”‏اَے اولاد والو!‏ اپنے فرزندوں کو دِق نہ کرو تاکہ وہ بیدل نہ ہو جائیں۔‏“‏

‏”‏تُم ہمیشہ“‏ یہی کرتے ہو،‏ ”‏تُم کبھی“‏ یہ کر ہی نہیں سکتے۔‏ ایسے الفاظ عموماً حقائق کو بڑھاچڑھا کر بیان کرتے ہیں۔‏ جب ماں‌باپ کہتے ہیں،‏ ”‏تُم کبھی کچھ نہیں کر سکو گے“‏ تو شاید بچہ محسوس کرے کہ اُس کے اندر کوئی بھی کام کرنے کی صلاحیت نہیں۔‏ وہ کبھی کچھ نہیں کر سکتا۔‏ اگر بچے کو بار بار ایسے ڈانٹا جاتا ہے تو بچہ خود کو بالکل ناکارہ سمجھنے لگے گا۔‏ جبکہ یہ سچ نہیں ہے۔‏ ایسی باتیں بچے کو بےحوصلہ کر دیں گی۔‏

بہتر یہ ہوتا ہے کہ ہمیشہ کسی بھی صورتحال کے مثبت پہلوؤں پر غور کِیا جائے۔‏ اِس مثال میں جس باپ کی بات کی جا رہی ہے وہ کچھ اِس طرح کہہ سکتا ہے:‏ ”‏بیٹا مَیں دیکھ رہا ہوں کہ آپ ایک مضمون میں فیل ہو جانے کی وجہ سے کافی پریشان ہیں۔‏ مگر مَیں جانتا ہوں کہ آپ عموماً کافی محنت کرتے ہیں۔‏ پس کیوں نہ اِس مضمون کے بارے میں بات کریں جو آپ کو مشکل لگتا ہے۔‏“‏ اِس کے بعد باپ اپنے بیٹے کی مشکلات کی اصل وجہ دریافت کرنے کے لئے کچھ سوال بھی پوچھ سکتا ہے۔‏

پس غصے میں آکر ڈانٹنے کی بجائے دھیمے لہجے میں خوب سوچ‌سمجھ کر بات کرنا زیادہ مؤثر ہوگا۔‏ بائبل ہمیں امثال ۱۶:‏۲۴ میں یقین‌دہانی کراتی ہے:‏ ”‏دل‌پسند باتیں شہد کا چھتّا ہیں۔‏ وہ جی کو میٹھی لگتی ہیں اور ہڈیوں کے لئے شفا ہیں۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ خاندان کے اندر نہ صرف بچے بلکہ بڑے بھی پُرسکون اور پُرمحبت ماحول کو پسند کرتے ہیں۔‏

‏”‏جو دل میں بھرا ہے“‏

ایک بار پھر اُس شوہر کے بارے میں سوچیں جس کا ذکر اِس مضمون کے شروع میں کِیا گیا ہے۔‏ کیا یہ اچھا نہ ہوتا اگر وہ اپنی بیوی پر غصہ ہونے کی بجائے اِس وقت کو یہ سوچنے میں صرف کرتا کہ وہ اُسے ”‏دل‌آویز باتوں“‏ کی مدد سے کیسے سمجھا سکتا ہے؟‏ ایسی صورتحال کا سامنا کرتے وقت شوہر کے لئے اچھا ہوگا کہ وہ خود سے یہ پوچھے:‏ ’‏اگرچہ میری بیوی کو وقت کی پابندی کرنی چاہئے لیکن کیا وہ ہمیشہ دیر لگاتی ہے؟‏ کیا اِس وقت پر اُس کے ساتھ یہ بات‌چیت کرنا مناسب ہوگا؟‏ کیا غصے میں کہے گئے تنقیدی الفاظ اُسے بہتری لانے کی ترغیب دیں گے؟‏‘‏ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم انجانے میں بھی کسی کو بالخصوص اپنے پیاروں کو اپنی بات‌چیت سے دُکھ نہ پہنچائیں تو خود سے ایسے سوال پوچھنا ہمارے لئے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔‏—‏امثال ۲۹:‏۱۱‏۔‏

اُس صورت میں کیا کِیا جا سکتا ہے اگر ہماری بات‌چیت ہمیشہ بحث یا جھگڑے میں بدل جاتی ہے؟‏ شاید ہمیں اُن الفاظ کے پیچھے چھپے جذبات پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو ہم استعمال کرتے ہیں۔‏ ہم دباؤ یا پریشانی کے تحت جوکچھ کہتے ہیں وہ ہماری باطنی شخصیت کی بابت بہت کچھ آشکارا کر سکتا ہے۔‏ یسوع مسیح نے متی ۱۲:‏۳۴ میں فرمایا:‏ ”‏جو دل میں بھرا ہے وہی مُنہ پر آتا ہے۔‏“‏ دوسرے لفظوں میں ہماری بات‌چیت اکثر ہمارے باطنی خیالات،‏ خواہشات اور رجحانات کی عکاسی کرتی ہے۔‏

کیا ہم زندگی کی بابت مثبت سوچ رکھتے ہیں؟‏ کیا ہم حقیقت‌پسند اور پُراُمید ہیں؟‏ اگر ایسا ہے تو ہمارے لب‌ولہجے اور بات‌چیت سے یہ نظر آئے گا۔‏ کیا ہم اپنی بات‌چیت سے سخت‌گیر،‏ تنگ‌نظر یا تنقیدی لگتے ہیں؟‏ اگر ایسا ہے تو ہم اپنے الفاظ کے استعمال یاپھر بات‌چیت کے انداز سے دوسروں کو بےحوصلہ کر سکتے ہیں۔‏ شاید ہمیں اِس بات کا احساس بھی نہ ہو کہ ہماری سوچ اور بات‌چیت کسقدر منفی ہے۔‏ شاید ہم یہ سوچتے رہیں کہ ہم معاملات کو بالکل صحیح طریقے سے سمجھتے ہیں۔‏ مگر خبردار رہیں ایسا کرنے سے کہیں آپ خود کو دھوکا نہ دے رہے ہوں!‏—‏امثال ۱۴:‏۱۲‏۔‏

خدا کا شکر ہے کہ ہمارے پاس اُس کا پاک کلام موجود ہے۔‏ اسلئےکہ بائبل ہمیں اپنے خیالات کو پرکھنے اور پھر اِن میں سے درست کا انتخاب کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔‏ اِس کے علاوہ جن خیالات میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اُنہیں بدلنے میں بھی یہ مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔‏ (‏عبرانیوں ۴:‏۱۲؛‏ یعقوب ۱:‏۲۵‏)‏ اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم نے ورثے میں کیا پایا ہے یا ہماری پرورش کیسے ہوئی ہے۔‏ ہم سب اگر چاہیں تو اپنی سوچ اور کام کرنے کے طریقوں میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔‏—‏افسیوں ۴:‏۲۳،‏ ۲۴‏۔‏

بائبل کے علاوہ آپ ایک اَور طریقے سے بھی اپنے گفتگو کرنے کے انداز کا جائزہ لے سکتے ہیں۔‏ ذرا دوسروں سے پوچھیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ اپنے بیاہتا ساتھی یا بچوں سے پوچھیں کہ آپ کا گفتگو کرنے کا انداز کیسا ہے۔‏ آپ اپنے کسی قریبی دوست سے بھی پوچھ سکتے ہیں جو کافی عرصے سے آپ کو جانتا ہے۔‏ اِس سلسلے میں وہ آپ کو جوکچھ بھی بتاتے ہیں اُسے قبول کریں اور پھر ضروری تبدیلیاں لانے کے لئے فروتن بنیں۔‏

پہلے تولو پھر مُنہ سے بولو

آخر میں ہم یہی کہنا چاہیں گے کہ اگر ہم سب واقعی یہ چاہتے ہیں کہ ہماری گفتگو سے کسی کا دل نہ دُکھے تو ہمیں امثال ۱۶:‏۲۳ میں درج نصیحت پر عمل کرنا ہوگا:‏ ”‏دانا کا دل اُس کے مُنہ کی تربیت کرتا ہے اور اُس کے لبوں کو علم بخشتا ہے۔‏“‏ سچ ہے کہ ہمیشہ اپنے جذبات پر قابو رکھنا آسان نہیں ہے۔‏ تاہم،‏ اگر ہم دوسروں پر الزام لگانے یا اُن کو نیچا دکھانے کی بجائے اُنہیں سمجھنے کی کوشش کریں توپھر اپنی بات کہنے کے لئے صحیح الفاظ کا انتخاب کرنا آسان ہو سکتا ہے۔‏

یقیناً ہم سب ناکامل ہیں۔‏ (‏یعقوب ۳:‏۲‏)‏ بعض‌اوقات ہم سب بغیر سوچےسمجھے کچھ نہ کچھ کہہ دیتے ہیں۔‏ (‏امثال ۱۲:‏۱۸‏)‏ لیکن خدا کے کلام کی مدد سے ہم سوچ‌سمجھ کر بولنے کی عادت ڈال سکتے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ بائبل کی مدد سے ہم اپنی بجائے دوسروں کے جذبات اور مفادات کو اہمیت دینا بھی سیکھ سکتے ہیں۔‏ (‏فلپیوں ۲:‏۴‏)‏ پس آئیں اپنے خاندانی افراد کے ساتھ گفتگو کرتے وقت ”‏دل‌آویز باتوں“‏ کی تلاش میں رہیں۔‏ تب ہی ہماری بات‌چیت ہمارے پیاروں کا دل دُکھانے یا اُنہیں نقصان پہنچانے کی بجائے فائدہ پہنچائے گی اور اُن کے لئے حوصلہ‌افزائی کا باعث ہوگی۔‏—‏رومیوں ۱۴:‏۱۹‏۔‏

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏

آپ کوئی ایسی بات کہنے سے کیسے گریز کر سکتے ہیں جس پر آپ کو بعد میں پچھتانا پڑ سکتا ہے؟‏