مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا آپ کے دل میں خدا کو پہچاننے کی خواہش ہے؟‏

کیا آپ کے دل میں خدا کو پہچاننے کی خواہش ہے؟‏

‏”‏مَیں اُن کو ایسا دل دوں گا کہ مجھے پہچانیں کہ مَیں [‏یہوواہ]‏ ہوں اور وہ میرے لوگ ہوں گے۔‏“‏—‏یرم ۲۴:‏۷‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ یہوواہ خدا نے انجیروں کا حوالہ کس لحاظ سے دیا؟‏ اور اِس پر غور کرنا ہمارے لئے کیوں اہم ہے؟‏

کیا آپ کو انجیر پسند ہیں؟‏ آج‌کل دُنیا کے بہت سے ملکوں میں انجیر اُگائے جاتے ہیں۔‏ بنی‌اسرائیل بڑے شوق سے انجیر کھاتے تھے۔‏ (‏ناحوم ۳:‏۱۲؛‏ لو ۱۳:‏۶-‏۹‏)‏ یہ غذائیت سے بھرپور پھل ہے۔‏ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ دل کے لئے بہت فائدہ‌مند ہوتا ہے۔‏

۲ یہوواہ خدا نے یرمیاہ کی کتاب میں انجیروں کا حوالہ دیا۔‏ لیکن وہ یہ نہیں بتا رہا تھا کہ انجیر کھانا صحت کے لئے اچھا ہوتا ہے۔‏ دراصل اُس نے لوگوں کے دل کی حالت کو ظاہر کرنے کے لئے اُنہیں اچھے اور بُرے انجیروں سے تشبیہ دی۔‏ یہوواہ خدا نے یرمیاہ نبی کے ذریعے جو کچھ کہا تھا،‏ اُس پر غور کرنا ہمارے اور ہمارے عزیزوں کے دلوں کے لئے فائدہ‌مند ہو سکتا ہے۔‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ یہوواہ خدا نے کیا کہا اور ہم اِس سے کیا سیکھتے ہیں۔‏

۳.‏ یرمیاہ ۲۴ باب میں جن انجیروں کا ذکر کِیا گیا ہے،‏ اُن سے کیا مراد ہے؟‏

۳ سن ۶۱۷ قبل‌ازمسیح کی بات ہے کہ ملک یہوداہ میں رہنے والے لوگ بہت سے ایسے کام کر رہے تھے جن سے یہوواہ خدا کو نفرت تھی۔‏ خدا نے ایک رویا میں یرمیاہ نبی پر ظاہر کِیا کہ بہت ہی جلد کیا ہونے والا ہے۔‏ رویا میں یرمیاہ نے دو طرح کے انجیر دیکھے،‏ ”‏اچھے سے اچھے انجیر“‏ اور ”‏نہایت خراب انجیر۔‏“‏ ‏(‏یرمیاہ ۲۴:‏۱-‏۳ کو پڑھیں۔‏)‏ خراب انجیروں سے مراد بادشاہ صدقیاہ اور دیگر لوگ تھے جنہیں بادشاہ نبوکدنضر اور اُن کی فوج نے اپنے ظلم کا نشانہ بنایا تھا۔‏ اچھے انجیروں سے مراد دانی‌ایل،‏ اُن کے تین ساتھی اور حزقی‌ایل تھے جو پہلے ہی سے بابل میں قید تھے۔‏ اِس کے علاوہ جن یہودیوں کو بعد میں بابل کی فوج قیدی بنا کر لے گئی تھی،‏ اُن میں سے کچھ یہودی بھی اچھے انجیروں میں شامل تھے۔‏ اِنہی میں سے کئی یہودی،‏ یروشلیم اور ہیکل کو دوبارہ تعمیر کرنے کے لئے واپس آئے تھے۔‏—‏یرم ۲۴:‏۸-‏۱۰؛‏ ۲۵:‏۱۱،‏ ۱۲؛‏ ۲۹:‏۱۰‏۔‏

۴.‏ یہوواہ خدا نے اچھے انجیروں کے بارے میں جو بات کہی،‏ وہ ہمارے لئے تسلی کا باعث کیوں ہے؟‏

۴ جن لوگوں کو اچھے انجیروں سے تشبیہ دی گئی تھی،‏ اُن کے بارے میں یہوواہ خدا نے کہا:‏ ”‏مَیں اُن کو ایسا دل دوں گا کہ مجھے پہچانیں کہ مَیں [‏یہوواہ]‏ ہوں اور وہ میرے لوگ ہوں گے۔‏“‏ (‏یرم ۲۴:‏۷‏)‏ یہ مضمون اِسی آیت پر مبنی ہے۔‏ یہ بڑی خوشی اور تسلی کی بات ہے کہ خدا ہمیں ’‏ایسا دل دینا‘‏ چاہتا ہے جس میں ’‏اُسے پہچاننے‘‏ اور اُس کے لوگوں میں شامل ہونے کی خواہش ہو۔‏ لیکن ہم ایسا دل حاصل کرنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟‏ اِس کے لئے ضروری ہے کہ ہم پاک کلام کو پڑھیں اور اِس پر عمل کریں،‏ اپنے گُناہوں سے توبہ کریں اور پھر گُناہ نہ کرنے کا عزم کریں،‏ اپنی زندگی یہوواہ خدا کے لئے وقف کریں اور باپ،‏ بیٹے اور روحُ‌القدس کے نام سے بپتسمہ لیں۔‏ (‏متی ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰؛‏ اعما ۳:‏۱۹‏)‏ شاید آپ یہ سب قدم اُٹھا چکے ہیں یا پھر اُٹھا رہے ہیں۔‏

۵.‏ یرمیاہ کی کتاب خاص طور پر کن کے بارے میں لکھی گئی تھی؟‏

۵ ہو سکتا ہے کہ ہم نے اِن میں سے کچھ یا سب قدم اُٹھا لئے ہیں لیکن پھر بھی یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی سوچ اور چال‌چلن پر دھیان دیں۔‏ ایسا کرنا کیوں ضروری ہے؟‏ اِس کا جواب ہمیں یرمیاہ نبی کی کچھ اَور باتوں سے ملتا ہے جو اُنہوں نے دل کے بارے میں کہی تھیں۔‏ لیکن کس کے دل کے بارے میں؟‏ یرمیاہ کی کتاب کے کچھ ابواب میں اُن قوموں کے لئے پیغام لکھا گیا جو ملک یہوداہ کے آس‌پاس آباد تھیں۔‏ لیکن یہ کتاب خاص طور پر اُن مردوں،‏ عورتوں اور بچوں کے بارے میں لکھی گئی جو یرمیاہ نبی کے دَور میں ملک یہوداہ میں رہتے تھے۔‏ (‏یرم ۱:‏۱۵،‏ ۱۶‏)‏ یہ لوگ خدا کی چنی ہوئی قوم کا حصہ تھے۔‏ اُن کے باپ‌دادا نے اپنی خوشی سے یہ وعدہ کِیا تھا کہ وہ خدا کی خاص اُمت بنیں گے۔‏ (‏خر ۱۹:‏۳-‏۸‏)‏ یرمیاہ نبی کے دَور میں بھی لوگوں نے اقرار کِیا کہ وہ خدا کی قوم ہیں۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏دیکھ ہم تیرے پاس آتے ہیں کیونکہ تُو ہی اَے [‏یہوواہ]‏ ہمارا خدا ہے۔‏“‏ (‏یرم ۳:‏۲۲‏)‏ مگر اُن کے دل میں کیا تھا؟‏

‏”‏دل کا ختنہ“‏ کرنے کی ضرورت

۶.‏ یہوواہ خدا نے دل کے متعلق جو بات کہی،‏ ہمیں اُس پر کیوں دھیان دینا چاہئے؟‏

۶ ہمارا حقیقی دل ۷۰ یا ۸۰ سال میں تقریباً ۳ ارب مرتبہ دھڑکتا ہے۔‏ آج‌کل ڈاکٹر ہمارے اِس دل کی جانچ کرنے کے لئے جدید مشینیں استعمال کرتے ہیں۔‏ لیکن یہوواہ خدا اِس سے بھی زیادہ حیرت‌انگیز کام کرتا ہے۔‏ وہ ہمارے مجازی دل کو جانچتا ہے اور اِس کام میں بڑی مہارت رکھتا ہے۔‏ یہوواہ خدا نے کہا:‏ ”‏دل سب چیزوں سے زیادہ حیلہ‌باز اور لاعلاج ہے۔‏ اُس کو کون دریافت کر سکتا ہے؟‏ مَیں [‏یہوواہ]‏ دل .‏ .‏ .‏ کو جانچتا اور آزماتا ہوں تاکہ ہر ایک آدمی کو اُس کی چال کے موافق اور اُس کے کاموں کے پھل کے مطابق بدلہ دوں۔‏“‏ (‏یرم ۱۷:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ مجازی دل ہماری ذات اور فطرت کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں ہماری خواہشات،‏ خیالات،‏ مزاج،‏ رویے اور ارادے شامل ہیں۔‏ خدا تو ہمارے اِس دل کو جانچتا ہی ہے مگر ہم خود بھی کسی حد تک اپنے دل کا جائزہ لے سکتے ہیں۔‏

۷.‏ یرمیاہ نبی نے اپنے زمانے کے بہت سے یہودیوں کے دل کے بارے میں کیا کہا؟‏

۷ اپنے دل کی جانچ کرنے سے پہلے خود سے پوچھیں کہ ”‏یہوواہ خدا کی نظر میں اُن یہودیوں کا دل کیسا تھا جو یرمیاہ نبی کے زمانے میں رہتے تھے؟‏“‏ اِس سوال کا جواب جاننے کے لئے ذرا یرمیاہ نبی کی اِس بات پر غور کریں:‏ ”‏اؔسرائیل کا سارا گھرانا دل کا نامختون ہے۔‏“‏ (‏یرم ۹:‏۲۶‏)‏ صاف ظاہر ہے کہ یرمیاہ نبی یہودی مردوں کے ختنے کے بارے میں بات نہیں کر رہے تھے کیونکہ اُنہوں نے کہا تھا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ فرماتا ہے کہ ایسے دن آنے والے ہیں جب مَیں اُن سب کو سزا دوں گا جن کا صرف جسمانی ختنہ ہوا ہے۔‏“‏ (‏یرم ۹:‏۲۵‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ لہٰذا مختون یہودی بھی ’‏دل کے نامختون‘‏ تھے۔‏ اِس کا کیا مطلب ہے؟‏

۸،‏ ۹.‏ بہت سے یہودیوں کو اپنے دل کے سلسلے میں کیا کرنے کی ضرورت تھی؟‏

۸ ‏”‏دل کا نامختون“‏ ہونے کا مطلب سمجھنے کے لئے اِس تاکید پر غور کریں جو یہوواہ خدا نے یہودی قوم کو کی تھی۔‏ اُس نے کہا تھا:‏ ”‏اَے یہوؔداہ کے لوگو اور یرؔوشلیم کے باشندو!‏ .‏ .‏ .‏ اپنے دل کا ختنہ کرو تا نہ ہو کہ تمہاری بداعمالی کے باعث سے میرا قہر .‏ .‏ .‏ کوئی بجھا نہ سکے۔‏“‏ یرمیاہ نبی کے ذریعے یہوواہ خدا نے واضح کِیا کہ یہودیوں کے بُرے کاموں کی جڑ کیا تھی۔‏ دراصل اُن کا دل نہایت بگڑ چکا تھا۔‏ ‏(‏مرقس ۷:‏۲۰-‏۲۳ کو پڑھیں۔‏)‏ وہ ہٹ‌دھرمی سے اپنی بُری روِش پر چل رہے تھے۔‏ اُن کی نیت اور سوچ خدا کو بالکل پسند نہیں تھی۔‏ ‏(‏یرمیاہ ۵:‏۲۳،‏ ۲۴؛‏ ۷:‏۲۴-‏۲۶ کو پڑھیں۔‏)‏ اِس لئے خدا نے اُنہیں نصیحت کی:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کے لئے اپنا ختنہ کراؤ ہاں اپنے دل کا ختنہ کرو۔‏“‏—‏یرم ۴:‏۴؛‏ ۱۸:‏۱۱،‏ ۱۲‏۔‏

۹ یرمیاہ نبی کے زمانے میں یہودیوں کو مجازی معنوں میں ”‏اپنے دل کا ختنہ“‏ کرنے کی ضرورت تھی جیسے کہ موسیٰ نبی کے دنوں میں بنی‌اسرائیل کو تھی۔‏ (‏است ۱۰:‏۱۶؛‏ ۳۰:‏۶‏)‏ ”‏دل کا ختنہ“‏ کرنے کا مطلب یہ تھا کہ یہودی ایسی سوچ اور خواہشوں کو ترک کر دیں جن کی وجہ سے اُن کے دل خدا کی ہدایات کو نظرانداز کرنے کی طرف مائل تھے۔‏—‏اعما ۷:‏۵۱‏۔‏

اپنے دل کی جانچ کریں

۱۰.‏ ہم داؤد کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

۱۰ ہم خدا کے شکرگزار ہیں کہ اُس نے ہمیں بتایا ہے کہ بہت سے اسرائیلیوں کے دل کی حالت کیسی تھی۔‏ لیکن آپ شاید سوچیں کہ یہ بات آج‌کل یہوواہ کے گواہوں کے لئے کیا اہمیت رکھتی ہے؟‏ کلیسیا کے زیادہ‌تر رُکن کسی بُرائی میں ملوث نہیں اور نہ ہی وہ بہت سے یہودیوں کی طرح ”‏خراب انجیر“‏ ہیں۔‏ اِس کی بجائے وہ خدا کی نظر میں پاک ہیں اور پوری لگن سے اُس کی خدمت کر رہے ہیں۔‏ لیکن یاد کریں کہ داؤد،‏ خدا کے راست‌باز بندے تھے پھر بھی اُنہوں نے یہ التجا کی:‏ ”‏اَے خدا!‏ تُو مجھے جانچ اور میرے دل کو پہچان۔‏ مجھے آزما اور میرے خیالوں کو جان لے اور دیکھ کہ مجھ میں کوئی بُری روِش تو نہیں۔‏“‏—‏زبور ۱۷:‏۳؛‏ ۱۳۹:‏۲۳،‏ ۲۴‏۔‏

۱۱،‏ ۱۲.‏ ‏(‏الف)‏ ہم سب کو اپنے دل کی جانچ کیوں کرنی چاہئے؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا ہمیں کیا کرنے پر مجبور نہیں کرتا؟‏

۱۱ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم سب اُسے جانیں اور اپنی کسی خواہش یا سوچ کی وجہ سے اُس سے دُور نہ جائیں۔‏ راست‌باز لوگوں کے متعلق یرمیاہ نبی نے لکھا:‏ ”‏ربُ‌الافواج [‏یہوواہ]‏!‏ .‏ .‏ .‏ صادقوں کو آزماتا اور دل‌ودماغ کو دیکھتا ہے۔‏“‏ (‏یرم ۲۰:‏۱۲‏)‏ ذرا سوچیں کہ اگر قادرِمطلق خدا راست‌باز لوگوں کے دلوں کو جانچتا ہے تو پھر کیا ہمیں اپنا جائزہ نہیں لینا چاہئے؟‏ ‏(‏زبور ۱۱:‏۵ کو پڑھیں۔‏)‏ اپنا جائزہ لینے سے شاید ہمیں پتہ چلے کہ ہماری کسی خواہش یا ارادے کی وجہ سے ہمارا دل خدا کی ہدایات کو نظرانداز کرنے کی طرف مائل ہو رہا ہے۔‏ ایسی صورت میں ہمیں ”‏اپنے دل کا ختنہ“‏ کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے۔‏ اپنے دل کی جانچ کرتے ہوئے آپ کو کن پہلوؤں پر توجہ دینی چاہئے؟‏ اور اگر آپ کو کسی پہلو میں بہتری لانے کی ضرورت ہے تو آپ یہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏—‏یرم ۴:‏۴‏۔‏

۱۲ ایک بات تو طے ہے کہ یہوواہ خدا ہمیں اپنے اندر تبدیلی لانے پر مجبور نہیں کرتا۔‏ جن لوگوں کو اُس نے ’‏اچھے انجیروں‘‏ سے تشبیہ دی تھی،‏ اُن کے متعلق اُس نے کہا تھا کہ وہ اُنہیں ’‏ایسا دل دے گا کہ وہ اُسے پہچانیں۔‏‘‏ اُس نے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ لوگوں کو اپنی سوچ اور خواہشیں بدلنے پر مجبور کرے گا۔‏ یہوواہ خدا چاہتا تھا کہ لوگوں میں یہ خواہش خود پیدا ہو کہ وہ اُسے جانیں اور ہر حال میں اُس کی ہدایات قبول کریں۔‏ ہمیں بھی اپنے اندر ایسی خواہش پیدا کرنی چاہئے۔‏

جب ہم اپنے دل کی جانچ کرتے ہیں اور غلط خواہشوں کو دل سے نکال دیتے ہیں تو ہمیں بہت سی برکتیں ملتی ہیں۔‏

۱۳،‏ ۱۴.‏ ایک مسیحی کی خواہشیں اور جذبات اُس کے لئے خطرہ کیسے بن سکتے ہیں؟‏

۱۳ یسوع مسیح نے کہا تھا:‏ ”‏بُرے خیال۔‏ خونریزیاں۔‏ زناکاریاں۔‏ حرام‌کاریاں۔‏ چوریاں۔‏ جھوٹی گواہیاں۔‏ بدگوئیاں دل ہی سے نکلتی ہیں۔‏“‏ (‏متی ۱۵:‏۱۹‏)‏ ہو سکتا ہے کہ کسی بھائی کے دل میں کوئی ایسی خواہش پیدا ہو جس کی وجہ سے وہ حرام‌کاری یا زناکاری کر بیٹھے۔‏ اگر وہ توبہ نہیں کرتا تو وہ ہمیشہ کے لئے خدا کی خوشنودی کھو سکتا ہے۔‏ لیکن شاید ایک بھائی ایسا گھنونا کام تو نہیں کرتا مگر وہ اپنے دل میں کسی گندی خواہش کو بڑھنے دیتا ہے۔‏ ‏(‏متی ۵:‏۲۷،‏ ۲۸ کو پڑھیں۔‏)‏ لہٰذا یہ بہت اہم ہے کہ ہم اپنے دل کی جانچ کرتے رہیں۔‏ دیکھیں کہ آپ کے دل میں کسی مخالف‌جنس کے لئے ایسے جذبات تو جنم نہیں لے رہے جن سے یہوواہ خدا کو نفرت ہے اور جنہیں دل سے نکالنے کی ضرورت ہے؟‏

۱۴ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی بھائی نے ’‏خونریزی‘‏ یعنی قتل تو نہیں کِیا مگر اُس کے دل میں کسی دوسرے بھائی یا بہن کے لئے غصہ اور تلخی اِس قدر بڑھ رہی ہے کہ وہ اُس سے نفرت کرنے لگا ہے۔‏ (‏احبا ۱۹:‏۱۷‏)‏ کیا وہ غصے اور نفرت جیسے جذبات سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرے گا تاکہ اِن کی وجہ سے اُس کا دل خدا کی نافرمانی کرنے کی طرف مائل نہ ہو؟‏—‏متی ۵:‏۲۱،‏ ۲۲‏۔‏

۱۵،‏ ۱۶.‏ ‏(‏الف)‏ ایک مسیحی کس لحاظ سے ”‏دل کا نامختون“‏ ہو سکتا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا کو ایسا شخص پسند نہیں جو ”‏دل کا نامختون ہے“‏؟‏

۱۵ خوشی کی بات ہے کہ زیادہ‌تر مسیحی ایسی غلط خواہشوں اور جذبات کو اپنے دل میں جڑ پکڑنے نہیں دیتے۔‏ مگر یسوع مسیح نے ’‏بُرے خیالوں‘‏ کا بھی ذکر کِیا تھا۔‏ اِن سے مراد ایسی سوچ اور نظریات ہیں جو ہماری زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اثر ڈال سکتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر ایک شخص شاید سوچے کہ اپنے گھر والوں سے محبت کرنا اور اُن کے وفادار رہنا سب سے زیادہ اہم ہے۔‏ بِلاشُبہ مسیحی اپنے رشتہ‌داروں سے محبت کرتے ہیں۔‏ وہ ”‏اخیر زمانہ“‏ میں رہنے والے اُن لوگوں کی طرح نہیں ہیں جو ”‏طبعی محبت سے خالی“‏ ہیں۔‏ (‏۲-‏تیم ۳:‏۱،‏ ۳‏)‏ لیکن ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے رشتہ‌داروں کے لئے محبت ظاہر کرنے میں حد سے باہر چلے جائیں۔‏ بہت سے لوگ تو یہ سمجھتے ہیں کہ خون کا رشتہ دوسرے رشتوں سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔‏ اِس لئے وہ ہر قیمت پر اپنے رشتہ‌داروں کا ساتھ دیتے ہیں اور اُن کا دفاع کرتے ہیں۔‏ اگر کوئی اُن کے رشتہ‌داروں سے کچھ کہہ دے تو وہ خود بھی غصے میں آ جاتے ہیں۔‏ ذرا یاد کریں کہ جب دینہ کے ساتھ زیادتی کی گئی تو اُن کے بھائیوں نے آپے سے باہر ہو کر بہت خون‌خرابا کِیا۔‏ (‏پید ۳۴:‏۱۳،‏ ۲۵-‏۳۰‏)‏ ابی‌سلوم نے بھی غصے کو اپنے دل میں پلنے دیا اور اپنے سوتیلے بھائی امنون کو قتل کر دیا۔‏ (‏۲-‏سمو ۱۳:‏۱-‏۳۰‏)‏ اِن مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ دل کے ”‏بُرے خیال“‏ بہت خطرناک نتائج کا باعث بن سکتے ہیں۔‏

۱۶ بےشک یہوواہ کے بندے کسی کو قتل کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔‏ لیکن شاید کسی بھائی یا بہن نے اُن کے کسی رشتہ‌دار کو بُرابھلا کہا ہے یا پھر اُن کو بس لگتا ہے کہ ایسا ہوا ہے۔‏ ایسی صورت میں وہ شاید غصے کو اپنے دل میں پلنے دیں۔‏ ہو سکتا ہے کہ وہ اُس بھائی یا بہن کو کبھی اپنے گھر نہ بلائیں۔‏ یا پھر اگر وہ بھائی یا بہن اُنہیں اپنے گھر بلاتا ہے تو وہ اُس کی دعوت قبول نہیں کرتے۔‏ (‏عبر ۱۳:‏۱،‏ ۲‏)‏ اِس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اپنے بھائی یا بہن سے محبت نہیں کرتے۔‏ یہ کوئی معمولی بات نہیں جسے آسانی سے نظرانداز کر دیا جائے۔‏ جو شخص ایسی سوچ رکھتا ہے،‏ وہ دلوں کو جانچنے والے خدا کی نظر میں ”‏دل کا نامختون“‏ ٹھہر سکتا ہے۔‏ (‏یرم ۹:‏۲۵،‏ ۲۶‏)‏ ذرا خدا کی اُس نصیحت کو یاد کریں جو اُس نے یہودیوں کو کی تھی۔‏ اُس نے کہا تھا:‏ ”‏اپنے دل کا ختنہ کرو۔‏“‏—‏یرم ۴:‏۴‏۔‏

خدا کو پہچاننے کی خواہش برقرار رکھیں

۱۷.‏ خدا کا خوف ماننے سے ہم کیا کرنے کی طرف مائل ہوں گے؟‏

۱۷ اپنے دل کی جانچ کرنے کے بعد اگر آپ کو پتہ چلتا ہے کہ آپ کے دل پر یہوواہ خدا کی صلاح کا اِتنا اثر نہیں ہو رہا جتنا کہ ہونا چاہئے یعنی یہ ایک لحاظ سے ”‏نامختون“‏ ہو گیا ہے تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟‏ شاید آپ کو پتہ چلتا ہے کہ آپ کے دل میں انسان کا ڈر ہے یا شہرت پانے کی تمنا ہے یا پھر آپ کبھی‌کبھار اپنی بات پر اَڑے رہتے ہیں۔‏ اگر ایسا ہے تو یاد رکھیں کہ صرف آپ ہی اِس صورتحال سے نہیں گزر رہے۔‏ (‏یرم ۷:‏۲۴؛‏ ۱۱:‏۸‏)‏ یرمیاہ نبی کے زمانے میں بھی ”‏لوگوں کے دل باغی اور سرکش“‏ ہو گئے تھے۔‏ یرمیاہ نبی نے لکھا:‏ ”‏اِنہوں نے اپنے دل میں نہ کہا کہ ہم [‏یہوواہ]‏ اپنے خدا سے ڈریں جو پہلی اور پچھلی برسات وقت پر بھیجتا ہے۔‏“‏ (‏یرم ۵:‏۲۳،‏ ۲۴‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے دل کا ختنہ کرنے کے لئے ایک اہم بات یہ ہے کہ ہم یہوواہ خدا سے ڈریں اور اُس کی تمام برکتوں کی دل سے قدر کریں۔‏ اگر ہم خدا کا خوف مانیں گے تو ہم خدا کی ہدایات پر فوراً عمل کرنے کی طرف مائل ہوں گے۔‏

۱۸.‏ یہوواہ خدا نے ممسوح مسیحیوں سے کیا وعدہ کِیا ہے؟‏

۱۸ جب ہم غلط جذبات اور خیالوں سے بچنے کی کوشش کریں گے تو خدا ہمیں ’‏ایسا دل دے گا‘‏ جس میں ’‏اُسے پہچاننے‘‏ کی خواہش ہو۔‏ دراصل یہوواہ خدا نے نئے عہد میں شامل ممسوح مسیحیوں سے یہ وعدہ کِیا ہے کہ ”‏مَیں اپنی شریعت اُن کے باطن میں رکھوں گا اور اُن کے دل پر اُسے لکھوں گا اور مَیں اُن کا خدا ہوں گا اور وہ میرے لوگ ہوں گے۔‏ .‏ .‏ .‏ وہ پھر اپنےاپنے پڑوسی اور اپنےاپنے بھائی کو یہ کہہ کر تعلیم نہیں دیں گے کہ [‏یہوواہ]‏ کو پہچانو کیونکہ چھوٹے سے بڑے تک وہ سب مجھے جانیں گے .‏ .‏ .‏ اِس لئے کہ مَیں اُن کی بدکرداری کو بخش دوں گا اور اُن کے گُناہ کو یاد نہ کروں گا۔‏“‏—‏یرم ۳۱:‏۳۱-‏۳۴‏۔‏ *

۱۹.‏ مسیحیوں کو مستقبل میں کون‌سا شاندار شرف ملے گا؟‏

۱۹ ہم اُس وقت کے منتظر ہیں جب نئے عہد کے ذریعے ممسوح لوگوں کو آسمان پر زندگی ملے گی اور بڑی بِھیڑ کو زمین پر برکات حاصل ہوں گی۔‏ آپ کو یہوواہ خدا کے بارے میں سیکھنے کی خواہش برقرار رکھنی چاہئے اور اُس کے بندوں میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔‏ لیکن آپ خدا کے بارے میں سیکھتے رہنے کے قابل تبھی ہو سکتے ہیں جب مسیح کی قربانی کی بِنا پر آپ کے گُناہ معاف کئے جائیں۔‏ جب خدا آپ کے گُناہ معاف کرنے کو تیار ہے تو پھر آپ کو بھی دوسروں کو معاف کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے،‏ خواہ ایسا کرنا مشکل ہی کیوں نہ ہو۔‏ آپ کو اپنے دل سے دوسروں کے لئے نفرت اور غصے کو نکال دینا چاہئے۔‏ اِس سے ظاہر ہوگا کہ آپ نہ صرف یہوواہ خدا کی خدمت کرنا چاہتے ہیں بلکہ اُسے قریب سے جانتے بھی ہیں۔‏ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ کے حق میں یہ بات سچ ثابت ہوگی جو یہوواہ خدا نے فرمائی تھی:‏ ”‏تُم مجھے ڈھونڈو گے اور پاؤ گے۔‏ جب پورے دل سے میرے طالب ہوگے۔‏ اور مَیں تُم کو مل جاؤں گا۔‏“‏—‏یرم ۲۹:‏۱۳،‏ ۱۴‏۔‏

^ پیراگراف 18 نئے عہد کے متعلق مزید معلومات کے لئے مینارِنگہبانی یکم جنوری ۲۰۱۲ء کے صفحہ ۲۸-‏۳۲ کو دیکھیں۔‏