مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏تُم میں دانا اور فہیم کون ہے؟‏“‏

‏”‏تُم میں دانا اور فہیم کون ہے؟‏“‏

‏”‏تُم میں دانا اور فہیم کون ہے؟‏“‏

‏”‏تُم میں دانا اور فہیم کون ہے؟‏ جو ایسا ہو وہ اپنے کاموں کو نیک چال‌چلن کے وسیلہ سے اُس حلم کے ساتھ ظاہر کرے جو حکمت سے پیدا ہوتا ہے۔‏“‏—‏یعقو ۳:‏۱۳‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ دُنیا میں دانشمند خیال کئے جانے والے بیشتر لوگوں کی بابت کیا کہا جا سکتا ہے؟‏

آپ کس شخص کو دانا سمجھتے ہیں؟‏ شاید آپ اپنے والدین،‏ کسی عمررسیدہ شخص یاپھر اپنے کالج کے کسی پروفیسر کو دانا سمجھتے ہوں۔‏ کسی شخص کے دانشمند ہونے کی بابت آپ کا نظریہ آپ کے پس‌منظر اور حالات کی وجہ سے متاثر ہو سکتا ہے۔‏ تاہم،‏ خدا کے خادم یہ سمجھتے ہیں کہ کسی شخص کے دانشمند ہونے کے بارے میں خدا کا نقطۂ‌نظر جاننا بہت ضروری ہے۔‏

۲ دُنیا میں جن لوگوں کو دانشمند خیال کِیا جاتا ہے وہ سب کے سب خدا کی نظر میں دانشمند نہیں ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ ایوب نے اُن لوگوں کے ساتھ جو خود کو عقلمند سمجھتے تھے،‏ گفتگو کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کِیا:‏ ”‏مجھے تمہارے درمیان ایک بھی عقلمند آدمی نہ ملے گا۔‏“‏ (‏ایو ۱۷:‏۱۰‏)‏ بعدازاں،‏ پولس رسول نے خدا کے علم کو ترک کر دینے والے لوگوں کی بابت بیان کِیا:‏ ”‏وہ اپنے آپ کو دانا جتا کر بیوقوف بن گئے۔‏“‏ (‏روم ۱:‏۲۲‏)‏ اِس کے علاوہ،‏ یہوواہ خدا نے بھی یسعیاہ نبی کے ذریعے فرمایا:‏ ”‏اُن پر افسوس جو اپنی نظر میں دانشمند .‏ .‏ .‏ ہیں!‏“‏—‏یسع ۵:‏۲۱‏۔‏

۳،‏ ۴.‏ ایک دانشمند شخص سے کن باتوں کی توقع کی جاتی ہے؟‏

۳ ہمیں اِس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کونسی چیز کسی شخص کو دانشمند بننے اور خدا کی خوشنودی حاصل کرنے میں مدد دیتی ہے؟‏ اِس سلسلے میں امثال ۹:‏۱۰ بیان کرتی ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کا خوف حکمت کا شروع ہے اور اُس قدوس کی پہچان فہم ہے۔‏“‏ لہٰذا،‏ ایک دانشمند شخص کو خدا کا خوف ماننا اور اُس کے معیاروں کا احترام کرنا چاہئے۔‏ تاہم،‏ دانشمند بننے اور خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے محض خدا کے وجود پر ایمان رکھنا اور اُس کے معیاروں کو قبول کرنا ہی کافی نہیں ہے۔‏ یعقوب ہماری توجہ اِسی بات پر دلاتا ہے۔‏ (‏یعقوب ۳:‏۱۳ کو پڑھیں۔‏)‏ اِس بات پر غور کریں:‏ ”‏جو ایسا ہو وہ اپنے کاموں کو نیک چال‌چلن کے وسیلہ سے .‏ .‏ .‏ ظاہر کرے۔‏“‏ پس ہماری روزمرّہ بات‌چیت اور کاموں سے حکمت یا دانشمندی ظاہر ہونی چاہئے۔‏

۴ حکمت میں فہم کو استعمال کرنا اور سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرنا بھی شامل ہے۔‏ کن کاموں سے ظاہر ہوگا کہ ہم میں حکمت پائی جاتی ہے؟‏ یعقوب نے ایسی بہت سی باتوں کا ذکر کِیا جن سے ظاہر ہوگا کہ ایک شخص دانشمند ہے۔‏ * اُس نے کونسی باتیں بیان کیں جو کلیسیا کے بہن بھائیوں اور دوسرے لوگوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے میں ہماری مدد کر سکتی ہیں؟‏

دانا لوگوں کی پہچان

۵.‏ ایک دانا شخص کیا کرنے کی کوشش کرے گا؟‏

۵ جیساکہ اُوپر بیان کِیا گیا ہے،‏ یعقوب شاگرد حکمت کو نیک چال‌چلن کے ساتھ وابستہ کرتا ہے۔‏ چونکہ یہوواہ کا خوف حکمت کا شروع ہے اِس لئے ایک دانا شخص خدا کے اصولوں اور معیاروں کے مطابق چلنے کی کوشش کرتا ہے۔‏ اگرچہ ہم نے خدائی حکمت ورثے میں نہیں پائی توبھی ہم باقاعدگی کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرنے اور اِس پر غوروخوض کرنے سے خدائی حکمت حاصل کر سکتے ہیں۔‏ بائبل کا مطالعہ اور اِس پر غوروخوض ہمیں افسیوں ۵:‏۱ میں درج اِس مشورت پر عمل کرنے میں مدد دے گا:‏ ”‏خدا کی مانند بنو۔‏“‏ ہم جتنا زیادہ یہوواہ خدا کی مانند بننے کی کوشش کریں گے اُتنا ہی زیادہ ہم اپنے کاموں سے حکمت ظاہر کرنے کے قابل ہوں گے۔‏ کیونکہ یہوواہ خدا کی راہیں انسان کی راہوں سے بہت بلند ہیں۔‏ (‏یسع ۵۵:‏۸،‏ ۹‏)‏ پس جب ہم معاملات کو حل کرنے کے لئے یہوواہ خدا کے طریقۂ‌کار کی نقل کرتے ہیں تو دوسرے لوگ یہ دیکھ سکیں گے کہ ہم کیسے اُن سے مختلف ہیں۔‏

۶.‏ (‏ا)‏ ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ حلم ایک خدائی خوبی ہے؟‏ (‏ب)‏ حلم میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

۶ یعقوب بیان کرتا ہے کہ یہوواہ کی مانند بننے کا ایک طریقہ ’‏اُس حلم کو ظاہر کرنا ہے جو حکمت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔‏‘‏ اگرچہ حلم میں نرم‌مزاج ہونے کا عنصر پایا جاتا ہے توبھی حلیم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مسیحی کے لئے مضبوط کردار کا مالک ہونا بہت ضروری ہے۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ اُسے بائبل کے معیاروں اور اُصولوں کی پابندی کرنی چاہئے۔‏ اِس طرح اُسے اپنی زندگی میں توازن برقرار رکھنے میں مدد ملے گی۔‏ یہوواہ خدا لامحدود طاقت کا سرچشمہ ہونے کے باوجود حلیم ہے اِس لئے ہم اُس کے نزدیک جانے سے خوفزدہ نہیں ہوتے۔‏ یسوع مسیح نے بھی خدا کی طرح حلم کا بھرپور مظاہرہ کِیا تھا۔‏ اِس لئے وہ کہہ سکتا تھا:‏ ”‏اَے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آؤ۔‏ مَیں تُم کو آرام دُونگا۔‏ میرا جؤا اپنے اُوپر اٹھا لو اور مجھ سے سیکھو۔‏ کیونکہ مَیں حلیم ہوں اور دل کا فروتن۔‏ تو تمہاری جانیں آرام پائیں گی۔‏“‏—‏متی ۱۱:‏۲۸،‏ ۲۹؛‏ فل ۲:‏۵-‏۸‏۔‏

۷.‏ ہم موسیٰ کو حلم کی ایک عمدہ مثال کیوں خیال کر سکتے ہیں؟‏

۷ بائبل دیگر ایسے اشخاص کے بارے میں بھی بیان کرتی ہے جنہوں نے حلم کا شاندار مظاہرہ کِیا۔‏ اِن میں سے ایک موسیٰ نبی تھا۔‏ اگرچہ اُس کے پاس بھاری ذمہ‌داری تھی توبھی اُس کے بارے میں بیان کِیا گیا ہے کہ ”‏موسیٰؔ تو رویِ‌زمین کے سب آدمیوں سے زیادہ حلیم تھا۔‏“‏ (‏گن ۱۱:‏۲۹؛‏ ۱۲:‏۳‏)‏ غور کریں کہ یہوواہ خدا نے موسیٰ کو طاقت دی تاکہ وہ اُس کی مرضی کے مطابق کام کر سکے۔‏ بِلاشُبہ،‏ یہوواہ خدا اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے حلیم لوگوں کو استعمال کرکے بہت خوش تھا۔‏

۸.‏ گنہگار انسان ’‏اُس حلم کو جو حکمت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے‘‏ کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

۸ اِس سے واضح ہو جاتا ہے کہ گنہگار انسان ’‏اُس حلم کو جو حکمت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے‘‏ ظاہر کر سکتے ہیں۔‏ ہم حلم کی خوبی ظاہر کرنے میں کیسے بہتری لا سکتے ہیں؟‏ حلم یہوواہ خدا کی پاک رُوح کے پھلوں میں سے ایک ہے۔‏ (‏گل ۵:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ اِس لئے ہم خدا کی پاک رُوح کے لئے درخواست کر سکتے اور اِس کے پھل ظاہر کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ،‏ ہم یہ بھروسا رکھ سکتے ہیں کہ خدا ہمیں حلم کی خوبی کو اَور زیادہ بہتر طریقے سے ظاہر کرنے میں مدد دے گا۔‏ زبور ۲۵:‏۹ سے ہمیں ایسا کرنے کی تحریک ملتی ہے جہاں زبورنویس نے اپنی اِس یقین‌دہانی کا ذکر کِیا:‏ ”‏[‏خدا]‏ حلیموں کو اپنی راہ بتائے گا۔‏“‏

۹،‏ ۱۰.‏ حلم کی خدائی خوبی ظاہر کرنے کے لئے ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے،‏ اور کیوں؟‏

۹ تاہم،‏ حلم کی خوبی ظاہر کرنے میں بہتری لانے کے لئے ہمیں بھرپور کوشش کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے۔‏ کیونکہ اپنے پس‌منظر کی وجہ سے ہم میں سے بعض کو حلم کی خوبی ظاہر کرنا مشکل لگ سکتا ہے۔‏ اِس کے علاوہ،‏ ہمارے اردگرد کے لوگ ہمیں حلم ظاہر کرنے کے برعکس نظریہ اپنانے پر اُکسا سکتے ہیں۔‏ شاید وہ کہیں،‏ ”‏اینٹ کا جواب پتھر سے دو۔‏“‏ تاہم،‏ کیا ایسا کرنا دانشمندی کی بات ہوگی؟‏ ایک مثال پر غور کریں،‏ اگر آپ کے گھر میں آگ لگ جاتی ہے تو کیا آپ اِس پر تیل ڈالیں گے؟‏ یاپھر کیا آپ اِس پر پانی ڈالیں گے؟‏ جلتی آگ پر تیل ڈالنے سے معاملہ اَور زیادہ خراب ہو جائے گا۔‏ اِس کے برعکس آگ پر پانی ڈالنے سے اچھے نتائج حاصل ہوں گے۔‏ اِسی لئے بائبل ہمیں مشورہ دیتی ہے:‏ ”‏نرم جواب قہر کو دُور کر دیتا ہے پر کرخت باتیں غضب‌انگیز ہیں۔‏“‏ (‏امثا ۱۵:‏۱،‏ ۱۸‏)‏ پس آئندہ جب بھی کلیسیا کے اندر یا باہر مسائل اُٹھ کھڑے ہوں تو ہم حکمت یا دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے معاملات کو حلیمی سے نپٹانے کی کوشش کریں گے۔‏—‏۲-‏تیم ۲:‏۲۴‏۔‏

۱۰ جیساکہ اُوپر بیان کِیا گیا ہے کہ دُنیا کی سوچ سے متاثر لوگوں میں نرمی اور صلح‌پسندی جیسی خوبیاں نہیں پائی جاتیں۔‏ اِس کے علاوہ،‏ ہمارے اردگرد کے زیادہ‌تر لوگ بدمزاج اور متکبر ہوتے ہیں۔‏ یعقوب اِس بات سے بخوبی واقف تھا اور اِسی لئے اُس نے کلیسیا کے مختلف اشخاص کو ایسی سوچ سے متاثر نہ ہونے کے خلاف آگاہ کِیا تھا۔‏ ہم اُس کی مشورت سے اَور کونسی باتیں سیکھ سکتے ہیں؟‏

نادان لوگوں کی پہچان

۱۱.‏ کونسی بُری خصلتیں خدائی حکمت کے بالکل برعکس ہیں؟‏

۱۱ یعقوب نے اُن بُری خصلتوں کے بارے میں بڑی وضاحت سے بیان کِیا جو خدائی حکمت کے بالکل برعکس ہیں۔‏ (‏یعقوب ۳:‏۱۴ کو پڑھیں۔‏)‏ حسد اور تفرقہ روحانی نہیں بلکہ جسمانی خصلتیں ہیں۔‏ غور کریں کہ جب جسمانی سوچ غالب آتی ہے تو کیا واقع ہوتا ہے۔‏ یروشلیم میں واقع دی ہولی سیپلچر چرچ پر ”‏مسیحی“‏ ہونے کا دعویٰ کرنے والے چھ گروہ قابض تھے۔‏ کہا جاتا ہے کہ یہ چرچ اُس جگہ بنایا گیا ہے جہاں یسوع کو سولی دیا اور دفن کِیا گیا تھا۔‏ اِن چھ گروہوں میں کافی عرصے سے جھگڑا چل رہا تھا۔‏ سن ۲۰۰۶ میں ٹائم میگزین نے اُن کی صورتحال کو کچھ اِس طرح بیان کِیا کہ ایک مرتبہ وہاں رہنے والے مذہبی پیشوا ’‏کئی گھنٹے آپس میں لڑتے رہے اور بڑے بڑے شمع‌دانوں کی سلاخوں سے ایک دوسرے کو مارتے رہے۔‏‘‏ اُنہیں ایک دوسرے پر بالکل اعتماد نہیں اِس لئے چرچ کی چابی ایک مسلمان شخص کو دے دی گئی ہے۔‏

۱۲.‏ حکمت کو استعمال میں نہ لانے سے کیا واقع ہو سکتا ہے؟‏

۱۲ یقیناً سچے مسیحیوں کی کلیسیا میں اِس قسم کے لڑائی جھگڑوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔‏ تاہم،‏ آدم سے ورثے میں ملنے والے گُناہ کی وجہ سے بعض‌اوقات کچھ مسیحی اپنے ذاتی نظریات کے سلسلے میں ہٹ‌دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔‏ اِس وجہ سے آپس میں اختلافات اور لڑائی‌جھگڑے پیدا ہو سکتے ہیں۔‏ کرنتھس کی کلیسیا میں بھی ایسی ہی صورتحال تھی۔‏ لہٰذا،‏ پولس رسول نے اُس کلیسیا کو لکھا:‏ ”‏جب تُم میں حسد اور جھگڑا ہے تو کیا تُم جسمانی نہ ہوئے اور انسانی طریق پر نہ چلے؟‏“‏ (‏۱-‏کر ۳:‏۳‏)‏ پہلی صدی میں اِس کلیسیا میں یہ افسوسناک صورتحال کافی عرصہ تک برقرار رہی۔‏ پس ہمیں خبردار رہنا چاہئے کہ کہیں ایسی سوچ آج ہماری کلیسیا میں بھی داخل نہ ہو جائے۔‏

۱۳،‏ ۱۴.‏ مثالوں سے واضح کریں کہ دُنیا کی سوچ کیسے ظاہر ہو سکتی ہے۔‏

۱۳ ایسی سوچ کلیسیا میں کس طرح داخل ہو سکتی ہے؟‏ اِس کا آغاز چھوٹی چھوٹی باتوں سے ہو سکتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ کسی کنگڈم ہال کی تعمیر کے وقت مختلف کاموں کو انجام دینے کے سلسلے میں بھائیوں کے درمیان اختلافِ‌رائے ہو سکتا ہے۔‏ اگر کسی بھائی کے مشورے کو قبول نہیں کِیا جاتا تو شاید وہ غصے میں آ جائے اور بھائی جوبھی فیصلہ کرتے ہیں اُس پر نکتہ‌چینی کرنے لگے۔‏ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کنگڈم ہال کی تعمیر کے سلسلے میں مزید کام کرنے سے انکار کر دے!‏ ایسا ردِعمل دکھانے والا بھائی یہ بھول رہا ہوگا کہ کلیسیا کے کسی کام کو انجام دینے کے لئے ایک خاص طریقے کی بجائے کلیسیا میں امن‌واتحاد کا ہونا زیادہ ضروری ہے۔‏ یہوواہ خدا اختلافات کی بجائے حلیمی کو پسند کرتا ہے۔‏—‏۱-‏تیم ۶:‏۴،‏ ۵‏۔‏

۱۴ ایک اَور مثال پر غور کریں۔‏ ہو سکتا ہے کہ ایک کلیسیا میں بزرگ یہ دیکھتے ہیں کہ کئی سال تک بزرگ کے طور پر خدمت انجام دینے والا ایک بھائی اب صحائف میں درج تقاضوں پر پورا نہیں اُتر رہا۔‏ بھائی کو پہلے بھی اِس سلسلے میں خاص مشورت دی گئی تھی لیکن وہ اپنے اندر بہتری نہیں لایا۔‏ اِِس بات پر غور کرتے ہوئے سفری نگہبان اِس فیصلے کی حمایت کرتا ہے کہ اُسے بزرگ کے طور پر خدمت انجام دینے سے ہٹا دیا جائے۔‏ وہ بھائی اِس فیصلے پر کیسا ردِعمل دکھائے گا؟‏ کیا وہ فروتنی اور حلیمی کے ساتھ بزرگوں کے فیصلے اور مشورت کو قبول کرے گا؟‏ کیا وہ یہ عزم کرے گا کہ مستقبل میں وہ صحائف میں درج تقاضوں پر پورا اُترنے کی کوشش کرے گا تاکہ دوبارہ اِس شرف کو حاصل کر سکے؟‏ یا کیا وہ اِس شرف کو کھو دینے پر بدگمانی اور غصے کا اظہار کرے گا؟‏ اگر ایک بھائی بزرگ کے طور پر خدمت انجام دینے کے لائق نہیں رہا تو اُسے سمجھداری اور فروتنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بزرگوں کی جماعت کے فیصلے پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے۔‏

۱۵.‏ آپ کے خیال میں یعقوب ۳:‏۱۵،‏ ۱۶ میں پائی جانے والی مشورت اتنی اہم کیوں ہے؟‏

۱۵ اِن کے علاوہ،‏ دیگر صورتوں میں بھی شاید لوگ دُنیا کی ایسی سوچ کا مظاہرہ کریں۔‏ تاہم،‏ صورتحال خواہ کیسی بھی ہو ہمیں ایسی بُری خصلتوں سے گریز کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔‏ (‏یعقوب ۳:‏۱۵،‏ ۱۶ کو پڑھیں۔‏)‏ یعقوب نے ایسے رُجحانات کو ”‏دُنیوی“‏ کہا کیونکہ یہ جسمانی ہیں اور خدائی حکمت کے بالکل خلاف ہیں۔‏ ایسے رُجحانات ”‏نفسانی“‏ بھی ہیں کیونکہ اِن سے خلافِ‌عقل کام اور دیوانگی جھلکتی ہے۔‏ نیز،‏ ایسے رُجحانات ”‏شیطانی“‏ ہیں کیونکہ یہ خدا کے رُوحانی دشمنوں کی خصلتوں کی عکاسی کرتے ہیں۔‏ ایک مسیحی کے لئے ایسی خصلتیں ظاہر کرنا کتنا نامناسب ہوگا!‏

۱۶.‏ (‏ا)‏ ہمیں خود میں کونسی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہو سکتی ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم اپنی اِس کوشش میں کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟‏

۱۶ پس کلیسیا کے ہر رُکن کو اپنا جائزہ لینا چاہئے اور بُری خصلتوں کو اپنے اندر سے نکالنے کی کوشش کرنی چاہئے۔‏ کلیسیا میں اُستادوں کے طور پر خدمت انجام دینے والے نگہبانوں کو بھی ایسے منفی رُجحانات کو اپنی شخصیت سے نکالنے کی کوشش کرنی چاہئے۔‏ لیکن گنہگار انسان ہونے اور اِس بُری دُنیا میں رہنے کی وجہ سے اِن بُری خصلتوں کو اپنے اندر سے نکالنا آسان نہیں ہے۔‏ ایسا کرنا ایک پھسلنی ڈھلوان پر چڑھنے کی کوشش کرنے کی مانند ہے۔‏ اگر ہم اُوپر چڑھتے وقت کسی چیز کا سہارا نہیں لیتے تو ہم پیچھے کی طرف پھسل جائیں گے۔‏ تاہم،‏ بائبل میں پائی جانے والی مشورت کو مضبوطی سے تھامے رہنے اور خدا کی کلیسیا سے مدد حاصل کرنے سے ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔‏—‏زبور ۷۳:‏۲۳،‏ ۲۴‏۔‏

دانشمند لوگ کونسی خوبیاں ظاہر کرتے ہیں؟‏

۱۷.‏ ایک دانشمند شخص بدی کی آزمائش کا سامنا کرتے وقت عام طور پر کیسا ردِعمل ظاہر کرتا ہے؟‏

۱۷ برائےمہربانی یعقوب ۳:‏۱۷ کو پڑھیں۔‏ اِس آیت میں درج ’‏اُوپر سے آنے والی حکمت‘‏ کی چند خوبیوں پر غور کریں۔‏ پاک ہونے کا مطلب ہے کہ ہمیں اپنے کاموں اور مقاصد کے سلسلے میں پاک‌صاف ہونا چاہئے۔‏ اِس لئے ہمیں فوری طور پر بُرائی سے کنارہ کرنے کی ضرورت ہے۔‏ یہ ایک غیرارادی ردِعمل ہونا چاہئے۔‏ شاید آپ کو اِس بات کا تجربہ ہوا ہو کہ جوں ہی کوئی شخص اپنی انگلی آپ کی آنکھ کے قریب لاتا ہے تو آپ فوراً اپنا سر پیچھے ہٹا لیتے ہیں یا پھر اُس کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔‏ یہ ایک غیرارادی عمل ہوتا ہے یعنی اِس کے لئے آپ کو سوچنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔‏ پس جب ہمیں بدی کرنے کی آزمائش کا سامنا ہوتا ہے تو ہمیں ایسا ہی ردِعمل دکھانا چاہئے۔‏ ہماری پاکیزگی اور بائبل سے تربیت‌یافتہ ضمیر کو ہمیں فوری طور پر بدی سے کنارہ کرنے کی تحریک دینی چاہئے۔‏ (‏روم ۱۲:‏۹‏)‏ بائبل میں ایسے اشخاص کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے ایسا ردِعمل ظاہر کِیا۔‏ اِن میں یوسف اور یسوع مسیح شامل ہیں۔‏—‏پید ۳۹:‏۷-‏۹؛‏ متی ۴:‏۸-‏۱۰‏۔‏

۱۸.‏ (‏ا)‏ صلح‌پسند ہونے کا کیا مطلب ہے؟‏ (‏ب)‏ صلح کرانے والا بننے سے کیا مُراد ہے؟‏

۱۸ خدائی حکمت ہم سے ملنسار یا صلح‌پسند ہونے کا تقاضا بھی کرتی ہے۔‏ اِس میں شدید ردِعمل،‏ لڑائی‌جھگڑے یا ایسے کاموں سے گریز کرنا شامل ہے جو امن‌وسلامتی میں خلل ڈالتے ہیں۔‏ یعقوب نے اِس بات پر توجہ دلاتے ہوئے بیان کِیا:‏ ”‏صلح کرانے والوں کے لئے راستبازی کا پھل صلح کے ساتھ بویا جاتا ہے۔‏“‏ (‏یعقو ۳:‏۱۸‏)‏ اِس آیت میں درج الفاظ ”‏صلح کرانے“‏ پر غور کریں۔‏ کیا ہم کلیسیا میں صلح کرانے والوں کے طور پر مشہور ہیں یاپھر بدامنی پھیلانے والوں کے طور پر؟‏ کیا اکثر ہمارے دوسروں کے ساتھ اختلافات رہتے ہیں؟‏ کیا ہم جلدی سے خفا ہو جاتے یا دوسروں کو ناراض کر دیتے ہیں؟‏ کیا ہم اِس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ دوسرے ہمیں اُسی طرح قبول کریں جیسے ہم ہیں؟‏ یا کیا ہم فروتنی سے اُن خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن کی وجہ سے دوسروں کو دُکھ پہنچتا ہے؟‏ کیا دوسرے ہمارے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ ہم ہمیشہ دوسروں کے ساتھ صلح‌صفائی سے رہنے کی پوری کوشش کرتے ہیں؟‏ کیا ہم دوسروں کو معاف کرنے کے لئے تیار رہتے اور اُن کی غلطیوں کو درگزر کرتے ہیں؟‏ پس دیانتداری کے ساتھ اپنا جائزہ لینا بہت اہم ہے۔‏ اِس سے ہمیں یہ دیکھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ آیا ہمیں صلح‌پسند ہونے کے سلسلے میں خدائی حکمت ظاہر کرنے کے لئے بہتری لانے کی ضرورت ہے یا نہیں۔‏

۱۹.‏ کوئی شخص یہ کیسے ظاہر کر سکتا ہے کہ وہ حلیم ہے؟‏

۱۹ یعقوب شاگرد نے اُوپر سے آنے والی حکمت ظاہر کرنے والی باتوں میں حلیم ہونے کو بھی شامل کِیا۔‏ اگر کسی معاملے کی بابت بائبل میں کوئی واضح اصول فراہم نہیں کِیا گیا تو کیا ہم دوسروں پر اپنی رائے مسلّط کرنے کی بجائے اُن کی بات سننے کو تیار ہوتے ہیں؟‏ کیا لوگ ہمیں نرم‌مزاج اور قابلِ‌رسائی سمجھتے ہیں؟‏ یہ چند ایسی باتیں ہیں جن سے یہ ظاہر ہوگا کہ ہم نے حلم ظاہر کرنا سیکھ لیا ہے۔‏

۲۰.‏ جب ہم خدائی خوبیاں ظاہر کرنے کی کوشش کرینگے تو اِسکے کیا نتائج نکلینگے؟‏

۲۰ جب کلیسیا کے بہن بھائی مل کر اُن خدائی خوبیوں کو ظاہر کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں جن کا یعقوب نے ذکر کِیا تو کلیسیا کا ماحول کس قدر خوشگوار ہو سکتا ہے!‏ (‏زبور ۱۳۳:‏۱-‏۳‏)‏ ایک دوسرے کے ساتھ حلیمی سے پیش آنے اور صلح سے رہنے کے یقیناً اچھے نتائج نکلیں گے۔‏ اِس سے دوسروں کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر ہوں گے۔‏ نیز اِس سے ظاہر ہوگا کہ ہمارے اندر ’‏اُوپر سے آنے والی حکمت‘‏ موجود ہے۔‏ اگلے مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ دوسروں کو یہوواہ کی نظر سے دیکھنا اُن کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے میں کیسے ہماری مدد کر سکتا ہے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 4 سیاق‌وسباق سے ظاہر ہوتا ہے کہ یعقوب کے ذہن میں بنیادی طور پر کلیسیا میں موجود بزرگ یا ”‏اُستاد“‏ تھے۔‏ (‏یعقو ۳:‏۱‏)‏ اگرچہ اِن اشخاص کو خدائی حکمت ظاہر کرنے کے سلسلے میں اچھی مثال قائم کرنی چاہئے مگر ہم سب یعقوب کی مشورت سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔‏

کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟‏

‏• کونسی چیز ایک مسیحی کو واقعی دانشمند بناتی ہے؟‏

‏• ہم خدائی حکمت ظاہر کرنے کے سلسلے میں اپنے اندر کیسے بہتری لا سکتے ہیں؟‏

‏• وہ لوگ جو ’‏اُوپر سے آنے والی حکمت‘‏ ظاہر نہیں کرتے اُن کے اندر کونسی بُری خصلتیں پائی جاتی ہیں؟‏

‏• آپ کونسی خوبیاں پیدا کرنے کا عزم کئے ہوئے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

آجکل اختلافات کیسے پیدا ہو سکتے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

کیا آپ فوراً بدی کو رد کرتے ہیں؟‏