مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ایک دوسرے کو تسلی دیں

ایک دوسرے کو تسلی دیں

ایک دوسرے کو تسلی دیں

‏”‏صرف یہی .‏ .‏ .‏ میرے ہمخدمت اور میری تسلی کا باعث رہے ہیں۔‏“‏ —‏کلسیوں ۴:‏۱۱‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ خطرے کے باوجود،‏ پولس کے دوست اُسے قیدخانہ میں ملنے کے لئے کیوں آئے؟‏

کسی قیدی سے دوستی رکھنا خطرناک ہو سکتا ہے خواہ آپ کے اس دوست کو ناحق قید ہی کیوں نہ کِیا گیا ہو۔‏ قیدخانے کا عملہ آپ کو بھی شک کی نظر سے دیکھتے ہوئے آپ کی ہر حرکت پر نگاہ رکھ سکتا ہے تاکہ آپ کوئی جُرم نہ کر بیٹھیں۔‏ اس لئے اپنے دوست سے رابطہ رکھنا اور جیل میں اُس سے ملاقات کرنا بڑے حوصلے کا کام ہے۔‏

۲ تاہم،‏ پولس رسول کے بعض ساتھیوں نے تقریباً ۹۰۰،‏۱ سال پہلے ایسا ہی کِیا تھا۔‏ وہ پولس کو ضروری تسلی،‏ حوصلہ‌افزائی اور روحانی تقویت دینے کے لئے اُسے قیدخانہ میں بھی ملتے رہے۔‏ یہ سچے دوست کون تھے؟‏ نیز اُن کے حوصلے،‏ وفاداری اور دوستی سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏—‏امثال ۱۷:‏۱۷‏۔‏

‏’‏دلوں کو تسلی دیں‘‏

۳،‏ ۴.‏ (‏ا)‏ پولس کے پانچ دوست کون ہیں اور وہ اُس کے لئے کیا ثابت ہوئے؟‏ (‏ب)‏ ”‏تسلی کا باعث“‏ سے کیا مُراد ہے؟‏

۳ آیئے پیچھے ۶۰ س.‏ع.‏ پر چلتے ہیں۔‏ پولس رسول غلط الزام لگائے جانے کی وجہ سے روم میں قید ہے۔‏ (‏اعمال ۲۴:‏۵؛‏ ۲۵:‏۱۱،‏ ۱۲‏)‏ پولس پانچ مسیحیوں کا ذکر کرتا ہے جنہوں نے اُس کی مدد کی تھی:‏ ایشیا کے صوبے سے تخکس جو اُس کا ذاتی قاصد اور ”‏خداوند میں ہمخدمت“‏ تھا؛‏ کلسے سے اُنیسمس ”‏جو دیانتدار اور پیارا بھائی“‏ ہے؛‏ تھسلنیکے سے ارسترخس جوکہ مقدونی تھا اور ایک وقت میں پولس کے ساتھ ”‏قید“‏ تھا؛‏ پولس کے مشنری ساتھی برنباس کا رشتے کا بھائی اور ایک انجیل‌نویس مرقس؛‏ اور ”‏خدا کی بادشاہی کے لئے“‏ پولس کا ایک ساتھی کارکُن یوستس۔‏ ان پانچوں کے بارے میں پولس کہتا ہے:‏ ”‏صرف یہی .‏ .‏ .‏ میری تسلی کا باعث رہے ہیں۔‏“‏—‏کلسیوں ۴:‏۷-‏۱۱‏۔‏

۴ پولس نے مدد کرنے والے اپنے وفادار دوستوں کی بابت زوردار بیان دیا۔‏ اُس نے اس کے لئے یونانی لفظ (‏پیری گوریا‏)‏ استعمال کِیا جس کا ترجمہ ”‏تسلی کا باعث“‏ کِیا گیا ہے اور جو پوری بائبل میں صرف اسی آیت میں ملتا ہے۔‏ اس لفظ کے مختلف معنی ہیں اور یہ خاص طور پر ادویات کے حوالے سے استعمال ہوتا ہے۔‏ * اس کا ترجمہ ’‏دلجوئی،‏ تسکین بخشنے کا عمل،‏ تسلی یا مخلصی‘‏ کِیا جا سکتا ہے۔‏ پولس کو اس قسم کی تسلی کی ضرورت تھی جو ان پانچ آدمیوں نے فراہم کی۔‏

پولس کو ”‏تسلی“‏ کی ضرورت کیوں تھی

۵.‏ رسول ہونے کے باوجود،‏ پولس کو کس چیز کی ضرورت تھی،‏ نیز ہم سب کو بھی کبھی‌کبھار کس چیز کی ضرورت پڑتی ہے؟‏

۵ بعض کو شاید یہ بات عجیب لگے کہ پولس کو تسلی کی ضرورت تھی جوکہ خود ایک رسول تھا۔‏ تاہم،‏ اُسے ضرورت تھی۔‏ سچ ہے کہ پولس کا ایمان بہت مضبوط تھا اور وہ کافی زیادہ جسمانی تکلیف برداشت کر چکا تھا جیسےکہ ”‏کوڑے کھانے میں حد سے زیادہ،‏“‏ ”‏بارہا موت کے خطروں میں،‏“‏ اور اسی طرح کی دیگر تکالیف۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۲۳-‏۲۷‏)‏ تاہم،‏ وہ ایک انسان تھا اور سب انسانوں کو کبھی نہ کبھی تسلی پانے اور دوسروں کی مدد سے اپنے ایمان کو تقویت دینے کی ضرورت پڑتی ہے۔‏ یسوع کی بابت بھی ایسا ہی تھا۔‏ زمین پر اُس کی آخری رات،‏ گتسمنی میں اُسے ایک فرشتہ دکھائی دیا جو ”‏اُسے تقویت دیتا“‏ رہا۔‏—‏لوقا ۲۲:‏۴۳‏۔‏

۶،‏ ۷.‏ (‏ا)‏ روم میں کس نے پولس کو مایوس کِیا اور کون حوصلہ‌افزائی کا باعث بنے؟‏ (‏ب)‏ روم میں پولس کے مسیحی بھائیوں نے اُس کی کیسے خدمت کی اور نتیجتاً اُس کے لئے ”‏تسلی کا باعث“‏ بنے؟‏

۶ پولس کو بھی تقویت درکار تھی۔‏ جب وہ قیدی کے طور پر روم پہنچا تو اُس کی اپنی قوم کے لوگوں نے اُس کا خیرمقدم نہ کِیا۔‏ بیشتر یہودی بادشاہتی پیغام کو سننے کی طرف مائل نہیں تھے۔‏ جب یہودیوں کے رئیس پولس سے مل چکے تو اعمال کی کتاب بیان کرتی ہے:‏ ”‏بعض نے اُس کی باتوں کو مان لیا اور بعض نے نہ مانا۔‏ جب آپس میں متفق نہ ہوئے تو .‏ .‏ .‏ رخصت“‏ ہو گئے۔‏ (‏اعمال ۲۸:‏۱۷،‏ ۲۴،‏ ۲۵‏)‏ یہوواہ کے غیرمستحق فضل کے لئے اُن کی بےقدری نے پولس کو کتنا دُکھ پہنچایا ہوگا!‏ اس سلسلے میں اُس کے شدید جذبات کا اظہار اُس خط سے ہوتا ہے جو اُس نے روم کی کلیسیا کے نام لکھا تھا:‏ ”‏مجھے بڑا غم ہے اور میرا دل برابر دُکھتا رہتا ہے۔‏ کیونکہ مجھے یہاں تک منظور ہو تاکہ اپنے بھائیوں کی خاطر جو جسم کی رَو سے میرے قرابتی ہیں مَیں خود مسیح سے محروم ہو جاتا۔‏“‏ (‏رومیوں ۹:‏۲،‏ ۳‏)‏ تاہم،‏ رومہ میں ہی اُسے وفادار اور سچے دوست ملے جن کی دلیری اور محبت نے اُسے دلی سکون بخشا۔‏ وہ اُس کے اصلی روحانی بھائی تھے۔‏

۷ وہ پانچ بھائی کیسے تسلی کا باعث بنے؟‏ پولس کی قید اُنہیں اُس سے دُور نہ رکھ سکی۔‏ بلکہ اُنہوں نے خوشی اور محبت سے پولس کی خدمت کی اور اُس کے لئے وہ سب کام کئے جو وہ قید ہونے کی وجہ سے نہیں کر سکتا تھا۔‏ مثال کے طور پر،‏ اُنہوں نے قاصدوں کے طور پر پولس کے خطوط اور زبانی ہدایات کو مختلف کلیسیاؤں تک پہنچایا اور پھر روم اور دیگر جگہوں پر رہنے والے بھائیوں کی طرف سے حوصلہ‌افزا رپورٹس پولس تک پہنچائیں۔‏ غالباً اُنہوں نے پولس کے لئے سردیوں کے لئے گرم کپڑے،‏ طومار اور لکھنے کا سامان بھی فراہم کِیا۔‏ (‏افسیوں ۶:‏۲۱،‏ ۲۲؛‏ ۲-‏تیمتھیس ۴:‏۱۱-‏۱۳‏)‏ ایسے تمام کاموں نے قید میں پولس رسول کو تقویت اور حوصلہ‌افزائی بخشی اور یوں پولس دیگر لوگوں اور کلیسیاؤں کے لئے ”‏تسلی کا باعث“‏ بنا۔‏—‏رومیوں ۱:‏۱۱،‏ ۱۲‏۔‏

‏”‏تسلی کا باعث“‏ کیسے بنیں

۸.‏ پولس کے فروتنی کے ساتھ ”‏تسلی“‏ کے لئے مدد کے خواہاں ہونے سے ہم کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏

۸ پولس اور اُس کے ساتھیوں کی اس سرگزشت سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ آیئے ایک خاص سبق پر غور کریں:‏ کسی کی مشکل میں اُس کے کام آنے کے لئے حوصلے اور خودایثاری کے جذبے کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ یہ تسلیم کرنے کے لئے فروتنی درکار ہے کہ ہمیں مشکل کے وقت میں مدد کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔‏ پولس نے نہ صرف اس بات کا اعتراف کِیا کہ اُسے مدد کی ضرورت ہے بلکہ اُس نے اس امداد کو قبول بھی کِیا اور جن لوگوں نے یہ مدد پیش کی اُن کی تعریف بھی کی۔‏ اُس نے دوسروں سے مدد لینے کو ایک کمزوری یا تذلیل قرار نہ دیا اور نہ ہی ہمیں ایسا کرنا چاہئے۔‏ اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمیں مدد کی ضرورت نہیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ ہم کوئی مافوق‌البشر انسان ہیں۔‏ یاد رکھیں،‏ یسوع کی مثال ظاہر کرتی ہے کہ کامل انسان بھی بعض‌اوقات مدد کے لئے پکار سکتا ہے۔‏—‏عبرانیوں ۵:‏۷‏۔‏

۹،‏ ۱۰.‏ جب ایک شخص یہ سمجھتا ہے کہ اُسے مدد کی ضرورت ہے تو اس کے کونسے اچھے نتائج نکل سکتے ہیں،‏ نیز اس کا خاندان اور کلیسیا کے دیگر لوگوں پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟‏

۹ جب ذمہ‌دارانہ عہدوں پر فائز بھائی اپنی کمزوریوں کو تسلیم کرتے اور دوسروں سے مدد کے طلبگار ہوتے ہیں تو اس کے اچھے نتائج نکل سکتے ہیں۔‏ (‏یعقوب ۳:‏۲‏)‏ ایسے اعترافات اختیار والوں اور اُن کے تابع لوگوں کے درمیان بندھن کو تقویت دیتے اور پُرتپاک اور آزادانہ رابطے کو فروغ دیتے ہیں۔‏ مدد قبول کرنے کے لئے تیار لوگوں کی فروتنی اسی طرح کی حالت سے دوچار لوگوں کے لئے ایک معروضی سبق ہے۔‏ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیشوائی کرنے والے لوگ بھی انسان ہیں اور اُن تک رسائی ممکن ہے۔‏—‏واعظ ۷:‏۲۰‏۔‏

۱۰ مثال کے طور پر،‏ جب بچے یہ جانتے ہیں کہ اُن کے والدین کو بھی بچپن میں ایسی ہی مشکلات کا سامنا تھا تو اُن کے لئے مسائل اور آزمائشوں کا مقابلہ کرتے وقت اپنے والدین کی مدد کو قبول کرنا آسان ہوتا ہے۔‏ (‏کلسیوں ۳:‏۲۱‏)‏ اس طرح بچے اور والدین کے مابین رابطہ کھلا رہ سکتا ہے۔‏ یوں صحیفائی حل کو مؤثر طور پر بیان کِیا اور آسانی سے قبول کِیا جا سکتا ہے۔‏ (‏افسیوں ۶:‏۴‏)‏ اسی طرح،‏ کلیسیا کے افراد بھی جب یہ سمجھتے ہیں کہ بزرگوں کو بھی مسائل،‏ اندیشوں اور پیچیدگیوں کا سامنا ہوتا ہے تو وہ اُن سے مدد حاصل کرنے کے لئے تیار ہوں گے۔‏ (‏رومیوں ۱۲:‏۳؛‏ ۱-‏پطرس ۵:‏۳‏)‏ اسی صورت میں یہاں بھی اچھا رابطہ قائم کِیا جا سکتا،‏ صحیفائی مشورت دی جا سکتی ہے اور اس طرح کلیسیائی حلقوں میں رابطہ ایمان کی مضبوطی پر منتج ہو سکتا ہے۔‏ یار رکھیں،‏ ہمارے بھائیوں اور بہنوں کو پہلے کی نسبت اب تسلی کی زیادہ ضرورت ہے۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱‏۔‏

۱۱.‏ آجکل اتنے زیادہ لوگوں کو ”‏تسلی“‏ کی ضرورت کیوں ہے؟‏

۱۱ خواہ ہم کہیں بھی رہتے ہوں،‏ کوئی بھی ہوں،‏ کسی بھی عمر سے تعلق رکھتے ہوں ہم سب کو زندگی میں کبھی نہ کبھی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔‏ یہ آج کی دُنیا کا حصہ ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۱۲‏)‏ ایسی جسمانی اور جذباتی طور پر پریشان‌کُن حالتیں ہمارے ایمان کو آزماتی ہیں۔‏ کام کی جگہ پر،‏ سکول میں،‏ خاندانی حلقے یا کلیسیا میں ایسی مشکل حالتیں پیدا ہو سکتی ہیں۔‏ کوئی سنگین بیماری یا حادثہ اس کا سبب بن سکتا ہے۔‏ اگر ایک بیاہتا ساتھی،‏ بزرگ یا ایک دوست حوصلہ‌افزائی کرتا اور مدد کے لئے ہاتھ بڑھاتا ہے تو یہ کسقدر تسلی‌بخش ہو سکتا ہے!‏ یہ جِلد پر لگے زخم پر مرہم لگانے کے مترادف ہے!‏ لہٰذا،‏ اگر آپ دیکھتے ہیں کہ آپ کا کوئی بھائی ایسی صورتحال سے دوچار ہے تو اُس کے لئے تسلی کا باعث بنیں۔‏ یا اگر کوئی کٹھن مشکل آپ کو پریشان کر رہی ہے تو روحانی طور پر لائق اشخاص سے مدد حاصل کریں۔‏—‏یعقوب ۵:‏۱۴،‏ ۱۵‏۔‏

کلیسیا کیسے مدد کر سکتی ہے

۱۲.‏ کلیسیا میں ہر ایک اپنے بھائی کی حوصلہ‌افزائی کرنے کے لئے کیا کر سکتا ہے؟‏

۱۲ کلیسیا میں بچوں سمیت سب لوگ ایک دوسرے کی حوصلہ‌افزائی کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ کر سکتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ اجلاسوں اور میدانی خدمت میں آپ کا باقاعدہ جانا دوسروں کے ایمان کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔‏ (‏عبرانیوں ۱۰:‏۲۴،‏ ۲۵‏)‏ پاک خدمت میں آپ کی مستقل‌مزاجی یہوواہ کے لئے آپ کی وفاداری کا ثبوت پیش کرتے ہوئے یہ ظاہر کرتی ہے کہ آپ مشکلات کے باوجود روحانی طور پر بیدار ہیں۔‏ (‏افسیوں ۶:‏۱۸‏)‏ ایسی مستقل‌مزاجی دوسروں پر حوصلہ‌افزا اثر ڈال سکتی ہے۔‏—‏یعقوب ۲:‏۱۸‏۔‏

۱۳.‏ بعض لوگ کیوں سُست پڑ سکتے ہیں اور اُن کی مدد کرنے کے لئے کیا کِیا جا سکتا ہے؟‏

۱۳ بعض‌اوقات،‏ زندگی کی فکریں یا مشکلات بعض کے سُست پڑ جانے یا میدانی خدمت میں بےقاعدہ ہو جانے کا باعث بن سکتی ہیں۔‏ (‏مرقس ۴:‏۱۸،‏ ۱۹‏)‏ شاید ہم ایسے لوگوں کو کلیسیائی اجلاسوں میں بھی کم ہی دیکھیں۔‏ تاہم،‏ شاید اُن کے دل میں یہوواہ کے لئے محبت ابھی باقی ہے۔‏ اُن کے ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے کیا کِیا جا سکتا ہے؟‏ بزرگ اُن کے پاس جاکر مدد کی پیشکش کر سکتے ہیں۔‏ (‏اعمال ۲۰:‏۳۵‏)‏ کلیسیا کے دیگر افراد سے بھی مدد کی درخواست کی جا سکتی ہے۔‏ ایسی مشفقانہ ملاقاتیں ایمان میں کمزور لوگوں کو تازہ‌دم کرنے کے لئے صحیح دوا ثابت ہو سکتی ہیں۔‏

۱۴،‏ ۱۵.‏ دوسروں کو تقویت دینے کی بابت پولس کیا نصیحت کرتا ہے؟‏ ایک کلیسیا کی مثال دیں جس نے پولس کی مشورت کا اطلاق کِیا تھا؟‏

۱۴ بائبل ہمیں ’‏کم‌ہمتوں کو دلاسا دینے اور کمزوروں کو سنبھالنے اور سب کے ساتھ تحمل سے پیش آنے‘‏ کی نصیحت کرتی ہے۔‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۵:‏۱۴‏)‏ ایسے ’‏کم‌ہمت اشخاص‘‏ محسوس کر سکتے ہیں کہ اُن کا حوصلہ پست ہو رہا ہے اور وہ کسی کی مدد کے بغیر درپیش مشکلات پر قابو نہیں پا سکتے۔‏ کیا آپ اُنہیں مدد کی پیشکش کر سکتے ہیں؟‏ ’‏کمزوروں کو سنبھالو‘‏ کی اصطلاح کا ترجمہ کمزور شخص کو ’‏تھامے رہنے‘‏ یا ’‏اُن سے چپکے‘‏ رہنے کِیا گیا ہے۔‏ یہوواہ اپنی سب بھیڑوں کو عزیز جانتا اور اُن سے محبت رکھتا ہے۔‏ وہ اُنہیں کم اہم خیال نہیں کرتا اور نہ ہی یہ چاہتا ہے کہ اُن میں سے کوئی بہہ کر دُور چلی جائے۔‏ کیا آپ کلیسیا کی مدد کر سکتے ہیں کہ وہ روحانی طور پر کمزور اشخاص کو مضبوط ہونے تک ’‏تھامے‘‏ رہیں؟‏—‏عبرانیوں ۲:‏۱‏۔‏

۱۵ ایک بزرگ ایک شادی‌شُدہ جوڑے کے پاس گیا جو چھ سال سے سُست تھا۔‏ بزرگ لکھتا ہے:‏ ‏”‏پوری کلیسیا نے اُن کے لئے جو مہربانہ اور مشفقانہ فکرمندی ظاہر کی اُس کا اُن پر اتنا اچھا اثر پڑا کہ وہ واپس گلّے میں شامل ہو گئے۔‏“‏ ایک سُست پڑ جانے والی بہن نے کلیسیا کے افراد کی طرف سے ملاقاتوں کی بابت کیسا محسوس کِیا؟‏ اب وہ کہتی ہے:‏ ”‏جس چیز نے ہمیں دوبارہ سرگرم بننے میں مدد دی وہ یہ تھی کہ آنے والی بہنوں اور بھائیوں نے کبھی بھی ہمارے لئے تنقیدی میلان ظاہر نہیں کِیا تھا۔‏ بلکہ اُنہوں نے سمجھداری کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ صحیفائی حوصلہ‌افزائی بھی پیش کی۔‏“‏

۱۶.‏ جن لوگوں کو تسلی کی ضرورت ہے اُن کی مدد کرنے کے لئے کون ہمیشہ تیار ہے؟‏

۱۶ یقیناً ایک مسیحی دوسروں کے لئے تسلی کا باعث بننے سے خوش ہوتا ہے۔‏ لہٰذا جب ہماری زندگیوں میں حالات تبدیل ہوتے ہیں تو ہم خود بھی اپنے بھائیوں کے تسلی‌بخش کاموں سے مستفید ہو سکتے ہیں۔‏ تاہم،‏ سچ ہے کہ شاید ضرورت کے وقت کوئی انسانی مدد دستیاب نہ ہو۔‏ تاہم،‏ تسلی کا ایک ذریعہ ہمیشہ دستیاب ہے اور وہ یہوواہ خدا ہے جو کہ ہماری مدد کے لئے ہمیشہ تیار ہے۔‏—‏زبور ۲۷:‏۱۰‏۔‏

یہوواہ—‏تسلی کا حقیقی سرچشمہ

۱۷،‏ ۱۸.‏ یہوواہ نے اپنے بیٹے یسوع مسیح کو کیسے تسلی فراہم کی؟‏

۱۷ یسوع نے سولی پر پکارا:‏ ”‏اَے باپ!‏ مَیں اپنی روح تیرے ہاتھوں میں سونپتا ہوں۔‏“‏ (‏لوقا ۲۳:‏۴۶‏)‏ اس کے بعد وہ مر گیا۔‏ کچھ ہی گھنٹے پہلے اُسے گرفتار کِیا گیا تھا اور اُس کے قریبی دوست خوف کے مارے اُسے چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔‏ (‏متی ۲۶:‏۵۶‏)‏ یسوع کے پاس تسلی کا صرف ایک ہی ذریعہ باقی تھا اور وہ اُس کا آسمانی باپ تھا۔‏ یہوواہ پر اُس کا بھروسا بیکار نہیں تھا۔‏ یسوع کی وفاداری کے انعام میں یہوواہ نے اپنی وفادارانہ مدد فراہم کی۔‏—‏زبور ۱۸:‏۲۵؛‏ عبرانیوں ۷:‏۲۶‏۔‏

۱۸ زمین پر یسوع کی خدمتگزاری کے دوران،‏ یہوواہ نے اپنے بیٹے کو آخری دم تک اپنی راستی پر قائم رہنے کے لئے درکار مدد مہیا کی۔‏ مثال کے طور پر،‏ یسوع کے بپتسمے کے فوراً بعد،‏ اُس کی خدمتگزاری کے شروع میں،‏ اُسے اپنے آسمانی باپ کی آواز سنائی دی جو یسوع کے لئے اُس کی محبت کی تصدیق کر رہی تھی۔‏ جب یسوع کو مدد کی ضرورت پڑی تو یہوواہ نے اپنے فرشتوں کو بھیجا۔‏ جب زمینی زندگی کے اختتام پر یسوع کو سب سے بڑی آزمائش کا سامنا تھا تو یہوواہ نے اُس کی دُعائیں اور التجائیں سنیں۔‏ یقیناً یہ سب یسوع کے لئے تسلی کا باعث تھا۔‏—‏مرقس ۱:‏۱۱،‏ ۱۳؛‏ لوقا ۲۲:‏۴۳‏۔‏

۱۹،‏ ۲۰.‏ ہم اس بات کا یقین کیسے کر سکتے ہیں کہ یہوواہ ہماری ضرورت کے وقت مدد کرے گا؟‏

۱۹ یہوواہ ہمارے لئے بھی تسلی کا سرچشمہ بننا چاہتا ہے۔‏ (‏۲-‏تواریخ ۱۶:‏۹‏)‏ تمام قوت اور طاقت کا سرچشمہ مصیبت کے وقت ہمارے لئے تسلی کا باعث بننا چاہتا ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۴۰:‏۲۶‏)‏ جنگ،‏ غربت،‏ بیماری،‏ موت یا ہماری ناکاملیتیں ہم پر بہت زیادہ دباؤ ڈال سکتی ہیں۔‏ جب زندگی کی مشکلات ایک ”‏طاقتور دشمن“‏ نظر آئیں تو یہوواہ ہماری قوت اور ہمارا زور ثابت ہو سکتا ہے۔‏ (‏زبور ۱۸:‏۱۷؛‏ خروج ۱۵:‏۲‏)‏ اُس کے پاس ہماری مدد کا سب سے طاقتور ذریعہ یعنی اُس کی پاک رُوح ہے۔‏ اپنی پاک رُوح کی مدد سے یہوواہ ”‏تھکے ہوئے کو زور“‏ بخش سکتا ہے تاکہ وہ ”‏عقابوں کی مانند بال‌وپر سے“‏ اُڑنے لگے۔‏—‏یسعیاہ ۴۰:‏۲۹،‏ ۳۱‏۔‏

۲۰ خدا کی پاک رُوح کائنات کی سب سے بڑی طاقت ہے۔‏ پولس نے بیان کِیا:‏ ”‏جو مجھے طاقت بخشتا ہے اُس میں مَیں سب کچھ کر سکتا ہوں۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ ہمارا آسمانی باپ ہمیں ”‏حد سے زیادہ قدرت“‏ عطا کر سکتا ہے تاکہ ہم اُس وقت تک تمام مشکلات کو برداشت کر سکیں جب تک وہ اپنے موعودہ فردوس میں ”‏سب چیزوں کو نیا“‏ نہیں بنا دیتا۔‏—‏فلپیوں ۴:‏۱۳؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۷؛‏ مکاشفہ ۲۱:‏۴،‏ ۵‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 4 وائنز ایکسپوزیٹری ڈکشنری آف اولڈ اینڈ نیو ٹسٹامنٹ ورڈز بیان کرتی ہے:‏ ”‏لفظ ‏[‏پیری‌گوریا‏]‏ کے فعل سے مشتق قسم ایسی ادویات کی نشاندہی کرتی ہے جو سوزش یا جلن کو کم کرتی ہیں۔‏“‏

کیا آپ کو یاد ہے؟‏

‏• روم کے بھائی پولس کے لئے ”‏تسلی کا باعث“‏ کیسے ثابت ہوئے تھے؟‏

‏• کن طریقوں سے ہم کلیسیا میں ”‏تسلی کا باعث“‏ بن سکتے ہیں؟‏

‏• کس طرح یہوواہ ہمارے لئے تسلی کا سرچشمہ ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

بھائی پولس کو اپنی حمایت،‏ حوصلہ‌افزائی اور نجی خدمات پیش کرکے اُس کے لئے ”‏تسلی کا باعث“‏ بنے

‏[‏صفحہ ۲۱ پر تصویر]‏

بزرگ گلّے کو تسلی دینے میں پیشوائی کرتے ہیں