مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 13

مُنادی کے دوران ہمدردی ظاہر کریں

مُنادی کے دوران ہمدردی ظاہر کریں

‏”‏اُنہیں اُن پر بڑا ترس آیا .‏ .‏ .‏ اور وہ اُن کو بہت سی باتوں کی تعلیم دینے لگے۔‏“‏‏—‏مر 6:‏34‏۔‏

گیت نمبر 44‏:‏ فصل کی کٹائی میں شریک ہو

مضمون پر ایک نظر *

1.‏ یسوع مسیح کی شخصیت کا کون سا شان‌دار پہلو ہمارے دل کو چُھو لیتا ہے؟‏

یسوع مسیح کی شخصیت کا ایک شان‌دار پہلو جو ہمارے دل کو چُھو لیتا ہے،‏ یہ ہے کہ وہ ہم عیب‌دار اِنسانوں کی مشکلات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔‏ جب وہ زمین پر تھے تو وہ اُن لوگوں کے ساتھ ’‏خوش ہوئے جو خوش تھے‘‏ اور اُن لوگوں کے ساتھ ’‏روئے جو رو رہے تھے۔‏‘‏ (‏روم 12:‏15‏)‏ مثال کے طور پر جب یسوع کے 70 شاگردوں کو مُنادی کی مہم میں بہت اچھے نتائج حاصل ہوئے تو وہ خوشی خوشی اُن کے پاس لوٹے۔‏ اُنہیں خوش دیکھ کر یسوع مسیح بھی خوشی سے بھر گئے۔‏ (‏لُو 10:‏17-‏21‏)‏ اِس کے برعکس جب یسوع مسیح نے دیکھا کہ لعزر کی موت پر اُن کے عزیز کتنے دُکھی ہیں تو ”‏اُنہوں نے دل ہی دل میں گہری آہ بھری اور بہت پریشان ہو گئے۔‏“‏—‏یوح 11:‏33‏۔‏

2.‏ یسوع مسیح دوسروں کے لیے ہمدردی ظاہر کرنے کے قابل کیسے ہوئے؟‏

2 حالانکہ یسوع مسیح بےعیب اِنسان تھے لیکن وہ عیب‌دار اِنسانوں کے ساتھ بڑی رحم‌دلی اور ہمدردی سے پیش آئے۔‏ وہ ایسا کرنے کے قابل کیسے ہوئے؟‏ سب سے پہلی وجہ تو یہ تھی کہ وہ اِنسانوں سے بہت محبت کرتے تھے۔‏ جیسا کہ ہم نے پچھلے مضمون میں ذکر کِیا تھا،‏ اُنہیں ”‏بنی‌آدم کی صحبت میں .‏ .‏ .‏ خوشی ملتی تھی۔‏“‏ (‏امثا 8:‏31‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ اِنسانوں سے محبت رکھنے کی وجہ سے ہی وہ اُنہیں اچھی طرح سے جانتے تھے۔‏ اِسی لیے یوحنا رسول نے یسوع کے بارے میں کہا:‏ ”‏وہ جانتے تھے کہ اِنسان کے دل میں کیا ہے۔‏“‏ (‏یوح 2:‏25‏)‏ لوگ اُس محبت کو محسوس کر سکتے تھے جو یسوع مسیح اُن کے لیے رکھتے تھے اور اِسی لیے وہ خوشی سے اُن کا پیغام سنتے تھے۔‏ لہٰذا ہم اپنے دل میں دوسروں کے لیے جتنی زیادہ ہمدردی بڑھائیں گے اُتنی ”‏اچھی طرح سے [‏ہم]‏ خدا کی خدمت انجام“‏ دے پائیں گے۔‏—‏2-‏تیم 4:‏5‏۔‏

3،‏ 4.‏ ‏(‏الف)‏ اگر ہم میں ہمدردی کا جذبہ ہے تو ہم مُنادی کے کام کو کیسا خیال کریں گے؟‏ (‏ب)‏ اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟‏

3 پولُس رسول جانتے تھے کہ مُنادی کرنا اُن پر فرض ہے۔‏ اور یہ بات ہم بھی جانتے ہیں۔‏ (‏1-‏کُر 9:‏16‏)‏ لیکن اگر ہم میں ہمدردی کا جذبہ ہے تو ہم صرف فرض سمجھ کر ہی نہیں بلکہ اِس لیے بھی مُنادی کا کام کریں گے کیونکہ ہمیں لوگوں کی فکر ہے اور ہم دل سے اُن کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔‏ ہم جانتے ہیں کہ ”‏لینے کی نسبت دینے میں زیادہ خوشی ہے۔‏“‏ (‏اعما 20:‏35‏)‏ اگر ہم دوسروں کی مدد کرنے کی غرض سے مُنادی کریں گے تو ہمیں اِس کام سے زیادہ خوشی ملے گی۔‏

4 اِس مضمون میں ہم اِس بات پر غور کریں گے کہ مُنادی کے دوران ہم دوسروں کے لیے ہمدردی کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏ لیکن اِس سے پہلے ہم یہ دیکھیں گے کہ یسوع مسیح لوگوں کے لیے کیسے احساسات رکھتے تھے۔‏ پھر ہم غور کریں گے کہ ہم کن چار طریقوں سے یسوع کی مثال پر عمل کر سکتے ہیں۔‏—‏1-‏پطر 2:‏21‏۔‏

یسوع مسیح نے مُنادی کے دوران ہمدردی ظاہر کی

چونکہ یسوع مسیح کو دوسروں سے ہمدردی تھی اِس لیے وہ اُنہیں تسلی کا پیغام سناتے تھے۔‏ (‏پیراگراف نمبر 5،‏ 6 کو دیکھیں۔‏)‏

5،‏ 6.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع مسیح نے کن کے لیے ہمدردی ظاہر کی؟‏ (‏ب)‏ یسعیاہ 61:‏1،‏ 2 میں درج پیش‌گوئی کی روشنی میں بتائیں کہ یسوع مسیح کو اُن لوگوں پر کیوں ترس آیا جن کو اُنہوں نے تعلیم دی۔‏

5 ذرا ایک واقعے پر غور کریں جب یسوع مسیح نے ہمدردی ظاہر کی۔‏ وہ اور اُن کے شاگرد بہت تھکے ہوئے تھے کیونکہ وہ کافی دیر سے بغیر آرام کیے مُنادی کر رہے تھے۔‏ وہ اِتنے مصروف تھے کہ ”‏اُن کے پاس کھانا کھانے کی بھی فرصت نہیں تھی۔‏“‏ اِس لیے یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو ایک ”‏سنسان جگہ“‏ پر چلنے کو کہا تاکہ وہ سب ”‏اکیلے میں کچھ وقت گزار سکیں اور تھوڑا سا آرام کر سکیں۔‏“‏ مگر اُن کے وہاں جانے سے پہلے ہی لوگوں کی ایک بڑی بِھیڑ بھاگی بھاگی اُس جگہ پہنچ گئی۔‏ جب یسوع مسیح نے وہاں پہنچ کر لوگوں کو دیکھا تو اُن کا کیا ردِعمل تھا؟‏ بائبل میں لکھا ہے:‏ ”‏اُنہیں اُن پر بڑا ترس * آیا کیونکہ وہ ایسی بھیڑوں کی طرح تھے جن کا کوئی چرواہا نہ ہو اور وہ اُن کو بہت سی باتوں کی تعلیم دینے لگے۔‏“‏—‏مر 6:‏30-‏34‏۔‏

6 یسوع مسیح نے اُن لوگوں کے لیے ترس یا ہمدردی کیوں محسوس کی؟‏ کیونکہ وہ لوگ ”‏ایسی بھیڑوں کی طرح تھے جن کا کوئی چرواہا نہ ہو۔‏“‏ شاید یسوع مسیح نے دیکھا کہ اُن میں سے کچھ لوگ غریب ہیں اور اپنے گھر والوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بڑی محنت کر رہے ہیں۔‏ اور ہو سکتا ہے کہ اُن لوگوں میں سے بعض اپنے عزیزوں کی موت کا غم سہہ رہے تھے۔‏ اگر ایسا تھا تو غالباً یسوع مسیح اُن کی صورتحال کو سمجھ سکتے تھے۔‏ جیسے کہ پچھلے مضمون میں بتایا گیا تھا،‏ شاید یسوع مسیح نے بھی کچھ ایسے ہی مسئلوں کا سامنا کِیا ہو۔‏ چونکہ یسوع کو دوسروں کی بہت فکر تھی اِس لیے وہ اُنہیں تسلی کا پیغام سناتے تھے۔‏‏—‏یسعیاہ 61:‏1،‏ 2 کو پڑھیں۔‏

7.‏ ہم یسوع مسیح کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

7 ہم یسوع مسیح کی مثال سے کیا سیکھتے ہیں؟‏ یسوع کی طرح ہمارے اِردگِرد بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جو ”‏ایسی بھیڑوں کی طرح [‏ہیں]‏ جن کا کوئی چرواہا نہ ہو۔‏“‏ وہ اپنی زندگی کی کئی پریشانیوں سے لڑ رہے ہیں۔‏ اور ہمارے پاس ایک ایسی چیز ہے جس کی اِن لوگوں کو اشد ضرورت ہے یعنی بادشاہت کا پیغام۔‏ (‏مکا 14:‏6‏)‏ اپنے مالک یسوع کی طرح ہم لوگوں کو خوش‌خبری سناتے ہیں کیونکہ ہم بھی ”‏غریب اور محتاج پر ترس“‏ کھاتے ہیں۔‏ (‏زبور 72:‏13‏)‏ ہم اُن کے درد کو محسوس کرتے ہیں اور اُن کی مدد کرنے کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔‏

ہم دوسروں کے لیے ہمدردی کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

ہر شخص کی ضروریات کو مدِنظر رکھیں۔‏ (‏پیراگراف نمبر 8،‏ 9 کو دیکھیں۔‏)‏

8.‏ مُنادی کے دوران ہمدردی ظاہر کرنے کا ایک طریقہ کیا ہے؟‏ مثال دیں۔‏

8 ہم مُنادی کے دوران لوگوں کے لیے ہمدردی کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏ ہم خود کو اُن کی جگہ پر رکھ کر سوچ سکتے ہیں۔‏ اور پھر اُن کے ساتھ ویسے ہی پیش آ سکتے ہیں جس طرح ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ایسی صورتحال میں پیش آیا جائے۔‏ * (‏متی 7:‏12‏)‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ ہم کن چار طریقوں سے ایسا کر سکتے ہیں۔‏ سب سے پہلا طریقہ یہ ہے کہ ہم ہر شخص کی ضروریات کے بارے میں سوچیں۔‏ جب ہم خوش‌خبری کی مُنادی کرتے ہیں تو ایک لحاظ سے ہم ایک ڈاکٹر کی طرح ہوتے ہیں۔‏ ایک اچھا ڈاکٹر اپنے ہر مریض کی حالت پر غور کرتا ہے۔‏ وہ اپنے مریض سے سوال پوچھتا ہے اور جب مریض اُسے اپنی حالت کے بارے میں بتا رہا ہوتا ہے تو وہ بڑے دھیان سے اِسے سنتا ہے۔‏ وہ فوراً ہی ایسی دوائی تجویز نہیں کر دیتا جو اُس کے ذہن میں آتی ہے۔‏ اِس کی بجائے وہ کچھ وقت گزرنے دیتا ہے تاکہ وہ مریض کی بیماری کا مشاہدہ کر سکے۔‏ اِس کے بعد ہی وہ اُس کا صحیح طریقے سے علاج کر سکتا ہے۔‏ اِسی طرح مُنادی کے دوران ہم ہر شخص کو ایک ہی طریقے سے گواہی نہیں دیتے۔‏ اِس کی بجائے ہم ہر فرد کی صورتحال اور نظریات کو مدِنظر رکھ کر اُسے بادشاہت کا پیغام سناتے ہیں۔‏

9.‏ ہمیں مُنادی کے دوران اپنی طرف سے کیا اندازے نہیں لگانے چاہئیں؟‏

9 جب ہم مُنادی میں کسی سے ملتے ہیں تو ہمیں خود سے یہ اندازہ نہیں لگا لینا چاہیے کہ کوئی شخص کن صورتحال سے گزر رہا ہے یا اُس کے عقیدے کیا ہیں اور وہ کیوں اِنہیں مانتا ہے۔‏ (‏امثا 18:‏13‏)‏ اِس کی بجائے ہم اُس سے سمجھ‌داری سے کچھ سوال پوچھ سکتے ہیں۔‏ (‏امثا 20:‏5‏)‏ اگر آپ کی ثقافت میں یہ مناسب ہے تو اُس شخص سے اُس کے کام،‏ گھر والوں،‏ پس‌منظر اور نظریات کے بارے میں پوچھیں۔‏ جب لوگ اِس طرح کے سوالوں کے جواب دیتے ہیں تو ہم بھانپ لیتے ہیں کہ اُنہیں کن مسئلوں کا سامنا ہے۔‏ پھر ہم یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرتے ہوئے اُن کے لیے ہمدردی ظاہر کر سکتے ہیں اور اُن کی صورتحال کے مطابق اُن کی مدد کر سکتے ہیں۔‏—‏1-‏کُرنتھیوں 9:‏19-‏23 پر غور کریں۔‏

یہ تصور کریں کہ جس شخص کو آپ گواہی دینے والے ہیں،‏ اُس کی زندگی میں کیا چل رہا ہوگا۔‏ (‏پیراگراف نمبر 10،‏ 11 کو دیکھیں۔‏)‏

10،‏ 11.‏ دوسرا کُرنتھیوں 4:‏7،‏ 8 سے مُنادی کے دوران ہمدردی ظاہر کرنے کا کون سا طریقہ پتہ چلتا ہے؟‏ مثال دیں۔‏

10 دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم تصور کرنے کی کوشش کریں کہ ایک شخص کی زندگی میں کیا چل رہا ہے۔‏ چونکہ ہم بھی عیب‌دار ہیں اور مسائل سے آزاد نہیں ہیں اِس لیے ہم عموماً لوگوں کی صورتحال کو سمجھ سکتے ہیں۔‏ (‏1-‏کُر 10:‏13‏)‏ ہم جانتے ہیں کہ اِس آخری زمانے میں رہتے ہوئے زندگی آسان نہیں ہے۔‏ ہم صرف یہوواہ کی طاقت سے ہی مشکلات کو برداشت کر سکتے ہیں۔‏ ‏(‏2-‏کُرنتھیوں 4:‏7،‏ 8 کو پڑھیں۔‏)‏ لیکن ذرا سوچیں کہ جن لوگوں کو یہوواہ کی قُربت حاصل نہیں ہے،‏ اُن کے لیے یہوواہ کی مدد کے بغیر اپنی پریشانیوں سے لڑنا کتنا مشکل ہے۔‏ یسوع مسیح کی طرح ہمیں بھی اُن لوگوں کی حالت پر ترس آتا ہے اور اِسی لیے ہم اُنہیں ”‏خوشی کا پیغام“‏ سنانا چاہتے ہیں۔‏—‏یسع 52:‏7‏،‏ اُردو جیو ورشن۔‏

11 ذرا بھائی سرگے کی مثال پر غور کریں۔‏ سچائی سیکھنے سے پہلے بھائی سرگے بہت خاموش طبیعت اور شرمیلے تھے اور اِس لیے اُنہیں دوسروں سے بات کرنا بہت مشکل لگتا تھا۔‏ لیکن پھر اُنہوں نے بائبل کورس کرنے کی پیشکش قبول کر لی۔‏ بھائی سرگے کہتے ہیں:‏ ”‏بائبل کا مطالعہ کرنے سے مَیں نے سیکھا کہ مسیحیوں پر یہ فرض ہے کہ وہ دوسروں کو اپنے ایمان کے بارے میں بتائیں۔‏ لیکن مجھے لگا کہ مَیں کبھی ایسا نہیں کر پاؤں گا۔‏“‏ مگر پھر بھائی سرگے نے اُن لوگوں کا سوچا جن کے پاس ابھی تک سچائی نہیں پہنچی تھی۔‏ اُنہیں احساس تھا کہ اُن لوگوں کی زندگی کتنی مشکل ہے جو یہوواہ کو نہیں جانتے۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏جو سچائیاں مَیں پاک کلام سے سیکھ رہا تھا،‏ اُن سے مجھے بہت خوشی اور اِطمینان ملا۔‏ مَیں جانتا تھا کہ دوسروں کو بھی یہ سچائیاں سیکھنے کی ضرورت ہے۔‏“‏ جوں‌جوں بھائی سرگے کے دل میں ہمدردی کا جذبہ بڑھا،‏ مُنادی کرنے کے لیے اُن کی دلیری بھی بڑھی۔‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏مجھے اِس بات سے بہت حیرانی ہوئی کہ دوسروں کو بائبل کی سچائیاں بتانے سے مَیں پُراِعتماد ہوتا گیا۔‏ دوسروں کو اپنے عقیدوں کے بارے میں بتانے سے اِن عقیدوں پر میرا اپنا ایمان بھی اَور زیادہ مضبوط ہو گیا۔‏“‏ *

ایک شخص کو نئی سچائیوں کو قبول کرنے میں وقت لگ سکتا ہے۔‏ (‏پیراگراف نمبر 12،‏ 13 کو دیکھیں۔‏)‏

12،‏ 13.‏ ہمیں اُن لوگوں کے ساتھ صبر سے پیش کیوں آنا چاہیے جنہیں ہم تعلیم دیتے ہیں؟‏ مثال دیں۔‏

12 تیسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم اُن لوگوں کے ساتھ صبر سے پیش آئیں جنہیں ہم تعلیم دیتے ہیں۔‏ یاد رکھیں کہ پاک کلام کی جن سچائیوں کو ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں،‏ شاید لوگوں نے اِن سچائیوں پر کبھی غور نہیں کِیا۔‏ اور بہت سے لوگوں کو اپنے عقیدوں سے بڑا لگاؤ ہوتا ہے۔‏ شاید اُنہیں لگتا ہے کہ اُن کے عقیدے بہت اہم ہیں کیونکہ اِنہی کی بدولت وہ اپنے گھر والوں،‏ اپنی ثقافت اور اپنی برادری سے جُڑے ہوئے ہیں۔‏ ہم ایسے لوگوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟‏

13 اِس سلسلے میں ذرا اِس مثال پر غور کریں۔‏ جب ایک پُرانے اور خستہ‌حال پُل کو بدلنا ہوتا ہے تو کیا کِیا جاتا ہے؟‏ ایک نیا پُل تعمیر کِیا جاتا ہے۔‏ لیکن جب اِسے تعمیر کِیا جا رہا ہوتا ہے تو اکثر اِس دوران لوگ پُرانے پُل کو اِستعمال کرتے ہیں۔‏ پھر جب نیا پُل تیار ہو جاتا ہے تو پُرانے پُل کو ڈھا دیا جاتا ہے۔‏ اِسی طرح اِس سے پہلے کہ ہم لوگوں کو اُن کے پُرانے عقیدے چھوڑنے کو کہیں جو اُنہیں بہت عزیز ہوتے ہیں،‏ ہمیں نئی سچائیوں کو سیکھنے میں اُن کی مدد کرنی چاہیے اور اُن کے دل میں اِن سچائیوں کے لیے قدر بڑھانی چاہیے۔‏ اِس کے بعد ہی وہ اپنے پُرانے نظریات کو چھوڑنے کے لیے تیار ہوں گے۔‏ لیکن یہ سب کرنے میں لوگوں کو وقت لگ سکتا ہے۔‏—‏روم 12:‏2‏۔‏

14،‏ 15.‏ ہم اُن لوگوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں جو زمین پر ہمیشہ کی زندگی پانے کی اُمید کے بارے میں نہیں جانتے؟‏ ایک مثال دیں۔‏

14 اگر ہم مُنادی میں ملنے والے لوگوں کے ساتھ صبر سے پیش آئیں گے تو ہم اُن سے یہ توقع نہیں کریں گے کہ وہ پاک کلام کی سچائیوں کو پہلی بار سنتے ہی قبول کر لیں۔‏ اِس کی بجائے ہم ہمدردی ظاہر کرتے ہوئے اُنہیں بائبل سے دلیلیں دیں گے اور اِن سچائیوں کو قبول کرنے کے لیے وقت دیں گے۔‏ مثال کے طور پر غور کریں کہ آپ کسی کو زمین پر ہمیشہ کی زندگی پانے کی اُمید کے بارے میں کیسے سکھا سکتے ہیں۔‏ بہت سے لوگ اِس اُمید کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں یا پھر بالکل ہی نہیں جانتے۔‏ شاید وہ یہ مانتے ہیں کہ مرنے کے بعد ایک اِنسان زندہ نہیں ہو سکتا۔‏ یا شاید وہ یہ سوچتے ہیں کہ سب اچھے لوگ آسمان پر چلے جاتے ہیں۔‏ ہم اُن کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟‏

15 ذرا غور کریں کہ ایک بھائی اِس سلسلے میں کیا طریقہ اپناتا ہے۔‏ سب سے پہلے وہ پیدایش 1:‏28 کو پڑھتا ہے۔‏ پھر وہ صاحبِ‌خانہ سے پوچھتا ہے کہ ”‏خدا کہاں چاہتا تھا کہ اِنسان رہیں اور وہ اُن کے لیے کیسی زندگی چاہتا تھا؟‏“‏ زیادہ‌تر لوگ جواب دیتے ہیں کہ خدا چاہتا تھا کہ اِنسان زمین پر اچھے حالات میں رہیں۔‏ اِس کے بعد وہ بھائی یسعیاہ 55:‏11 کو پڑھتا ہے اور پوچھتا ہے کہ ”‏کیا خدا کا مقصد بدل گیا ہے؟‏“‏ اکثر صاحبِ‌خانہ اِس سوال کا جواب ناں میں دیتے ہیں۔‏ پھر آخر میں بھائی زبور 37:‏10،‏ 11 کو پڑھتا ہے اور یہ سوال پوچھتا ہے کہ ”‏اِنسانوں کا مستقبل کیسا ہوگا؟‏“‏ بائبل سے ایسی دلیلیں دے کر اُس نے کچھ لوگوں کی یہ سمجھنے میں مدد کی ہے کہ خدا آج بھی اچھے لوگوں کو زمین پر فردوس میں ہمیشہ کی زندگی دینا چاہتا ہے۔‏

ہماری چھوٹی سی مہربانی سے دوسروں کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے جیسے کہ ایک کارڈ یا خط وغیرہ سے۔‏ (‏پیراگراف نمبر 16،‏ 17 کو دیکھیں۔‏)‏

16،‏ 17.‏ امثال 3:‏27 کے پیشِ‌نظر ہم کن عملی طریقوں سے لوگوں کے لیے ہمدردی ظاہر کر سکتے ہیں؟‏ مثال دیں۔‏

16 چوتھا طریقہ یہ ہے کہ ہم اِس بارے میں سوچیں کہ ہم کن عملی طریقوں سے لوگوں کے لیے ہمدردی ظاہر کر سکتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر کبھی کبھار ایسا ہو سکتا ہے کہ ہم صاحبِ‌خانہ سے ملنے جائیں اور وہ اُس وقت مصروف ہو۔‏ ایسی صورت میں ہم اُس سے معذرت کر سکتے ہیں اور اُس سے دوبارہ کسی مناسب وقت پر ملنے کا بندوبست بنا سکتے ہیں۔‏ آپ اُس صورت میں کیا کر سکتے ہیں اگر صاحبِ‌خانہ کو کسی چھوٹے موٹے کام کے لیے مدد کی ضرورت ہو،‏ خاص طور پر ایسے صاحبِ‌خانہ کو جو بوڑھا اور بیمار ہے اور گھر سے باہر نہیں جا سکتا؟‏ اِس طرح کی صورتحال میں ہم اُس کے ضروری کام‌کاج کرنے سے اُس کی مدد کر سکتے ہیں۔‏‏—‏امثال 3:‏27 کو پڑھیں۔‏

17 اِس حوالے سے ایک بہن کی مثال پر غور کریں۔‏ اُس نے ایک خاندان کے لیے مہربانی ظاہر کرتے ہوئے ایک ایسا کام کِیا جو شاید معمولی لگے لیکن اُس کے بڑے اچھے نتائج نکلے۔‏ اُس خاندان میں ایک بچہ اپنی پیدائش کے دن ہی فوت ہو گیا۔‏ اُس بہن نے ہمدردی کے جذبے سے ترغیب پا کر اُس خاندان کو ایک خط لکھا۔‏ اُس خط میں بہن نے بائبل سے کچھ تسلی‌بخش آیتیں بھی لکھیں۔‏ خط کو پڑھ کر اُس خاندان کا کیا ردِعمل تھا؟‏ سوگوار ماں نے لکھا:‏ ”‏میرا کل کا دن بہت ہی کرب میں گزرا۔‏ آپ سوچ بھی نہیں سکتیں کہ آپ کے خط کا مجھ پر اور میرے گھر والوں پر کتنا گہرا اثر ہوا۔‏ مَیں آپ کا جتنا شکریہ ادا کروں،‏ کم ہے۔‏ کل مَیں نے آپ کا خط 20 سے زیادہ بار پڑھا۔‏ مَیں آپ کو بتا بھی نہیں سکتی کہ اِس خط میں لکھی باتوں سے مجھے کس قدر تسلی اور حوصلہ ملا۔‏ مَیں دل کی گہرائیوں سے آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔‏“‏ جب ہم مصیبت‌زدہ لوگوں کے درد کو محسوس کرتے ہیں اور پھر اُن کی مدد کرنے کے لیے کچھ کرتے ہیں تو بِلاشُبہ اِس کے بہت اچھے نتائج نکلتے ہیں۔‏

اپنی طرف سے پوری کوشش کریں

18.‏ پہلا کُرنتھیوں 3:‏6،‏ 7 کو ذہن میں رکھتے ہوئے بتائیں کہ ہمیں مُنادی کے کام کے حوالے سے کیا یاد رکھنا چاہیے اور کیوں۔‏

18 بِلاشُبہ جہاں تک ہم سے ہو سکتا ہے،‏ ہم مُنادی کے دوران لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔‏ یہ سچ ہے کہ لوگوں کو یہوواہ کے بارے میں سکھانے سے ہم ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن ہمارا کردار سب سے اہم نہیں ہے۔‏ ‏(‏1-‏کُرنتھیوں 3:‏6،‏ 7 کو پڑھیں۔‏)‏ یہوواہ ہی لوگوں کو اپنی قُربت میں لاتا ہے۔‏ (‏یوح 6:‏44‏)‏ اِس کے علاوہ یہ ایک شخص کے دل کی حالت پر منحصر ہے کہ وہ خوش‌خبری کو قبول کرے گا یا نہیں۔‏ (‏متی 13:‏4-‏8‏)‏ یاد رکھیں کہ یسوع کے پیغام کو بھی زیادہ‌تر لوگوں نے قبول نہیں کِیا تھا حالانکہ وہ تمام اِنسانوں سے کہیں زیادہ ماہر اُستاد تھے۔‏ لہٰذا اگر ہماری لاکھ کوششوں کے باوجود بھی لوگ ہمارے پیغام کو قبول نہیں کرتے تو ہمیں بےحوصلہ نہیں ہونا چاہیے۔‏

19.‏ مُنادی کے دوران ہمدردی ظاہر کرنے کے کون سے اچھے نتائج نکلتے ہیں؟‏

19 اگر ہم مُنادی کے دوران دوسروں کے لیے ہمدردی ظاہر کریں گے تو ہمیں اچھے نتائج دیکھنے کو ملیں گے۔‏ مثال کے طور پر ہمیں اِس کام کو کرنے میں اَور زیادہ مزہ آئے گا اور ہمیں اُس خوشی کا تجربہ ہوگا جو دینے سے ملتی ہے۔‏ اِس کے علاوہ اُن لوگوں کے لیے خوش‌خبری کو قبول کرنا زیادہ آسان ہو جائے گا ”‏جو ہمیشہ کی زندگی کی راہ پر چلنے کی طرف مائل“‏ ہیں۔‏ (‏اعما 13:‏48‏)‏ لہٰذا ”‏جب تک ہمارے پاس موقع ہے،‏ آئیں،‏ سب کے ساتھ بھلائی کریں۔‏“‏ (‏گل 6:‏10‏)‏ یوں ہم اپنے آسمانی باپ کی بڑائی کریں گے جس سے ہمیں بہت خوشی ملے گی۔‏—‏متی 5:‏16‏۔‏

گیت نمبر 42‏:‏ کمزوروں کی مدد کرو

^ پیراگراف 5 جب ہم مُنادی کے دوران دوسروں کے لیے ہمدردی ظاہر کرتے ہیں تو ہماری خوشی میں اِضافہ ہوتا ہے اور اِس بات کا زیادہ اِمکان ہوتا ہے کہ دوسرے ہمارے پیغام میں دلچسپی لیں۔‏ اِس مضمون میں ہم اِس بات پر غور کریں گے کہ ہم یسوع مسیح کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ ہم چار ایسے طریقوں پر غور کریں گے جن کے ذریعے ہم مُنادی میں ملنے والے لوگوں کے لیے ہمدردی دِکھا سکتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 5 اِصطلاح کی وضاحت:‏ اِس آیت اور مضمون میں لفظ ‏”‏ترس“‏ کا مطلب ہمدردی ہے جو اُن لوگوں کے لیے محسوس کی جاتی ہے جنہیں تکلیفوں یا بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو۔‏ اِس احساس سے ہمیں یہ ترغیب ملتی ہے کہ ہم لوگوں کی مدد کرنے کے لیے جو بھی کر سکتے ہیں،‏ وہ کریں۔‏

^ پیراگراف 8 ‏”‏مینارِنگہبانی،‏“‏ 15 مئی 2014ء میں مضمون ”‏مُنادی کے کام کے لیے ایک سنہرا اصول‏“‏ کو دیکھیں۔‏

^ پیراگراف 11 اِس تجربے کی ویڈیو دیکھنے کے لیے جےڈبلیو براڈکاسٹنگ پر جائیں اور حصہ ”‏اِنٹرویوز اور آپ‌بیتیاں“‏ کے تحت ”‏خدا کے کلام سے سچائی زندگی بدلتی ہے“‏ میں اِس ویڈیو کو چلائیں:‏ ”‏اُمید کا دامن نہ چھوڑیں!‏—‏سرگے بوتانِکن۔‏“‏