مواد فوراً دِکھائیں

پاک روح کیا ہے؟‏

پاک روح کیا ہے؟‏

پاک کلام کا جواب

 خدا کی پاک روح اُس کی باعمل قوت ہے۔ (‏میکاہ 3:‏8؛‏ لُوقا 1:‏35‏)‏ خدا وہاں اپنی روح بھیجتا ہے یعنی اپنی توانائی پہنچاتا ہے جہاں اُسے اپنا مقصد پورا کرنا ہوتا ہے۔—‏زبور 104:‏30؛‏ 139:‏7‏۔‏

 پاک کلام میں عبرانی لفظ ”‏رُوأخ“‏ اور یونانی لفظ ”‏پنوئما“‏ کا ترجمہ ”‏روح“‏ کِیا گیا ہے۔ زیادہ‌تر جگہوں پر یہ الفاظ خدا کی باعمل قوت یعنی اُس کی پاک روح کی طرف اِشارہ کرتے ہیں۔ (‏پیدایش 1:‏2‏)‏ لیکن پاک کلام میں یہ الفاظ دیگر مفہوم میں بھی اِستعمال ہوئے ہیں جیسے کہ:‏

 یہ تمام چیزیں ایسی ہیں جنہیں اِنسان دیکھ تو نہیں سکتے لیکن اِن کے اثرات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ جس طرح ”‏ہوا نظر نہیں آتی، اِسے چُھوا نہیں جا سکتا اور اِس میں بہت طاقت ہوتی ہے“‏ اُسی طرح خدا کی روح بھی ہے۔—‏مصنف ولیم وائن کی کتاب ‏”‏این ایکسپوزیٹری ڈکشنری آف نیو ٹیسٹامنٹ ورڈز۔“‏

 پاک کلام میں خدا کی پاک روح کا حوالہ اُس کی ”‏اُنگلیوں“‏ اور اُس کے ”‏ہاتھوں“‏ کے طور پر بھی دیا گیا ہے۔ (‏زبور 8:‏3؛‏ 19:‏1‏، اُردو جیو ورشن؛‏ لُوقا 11:‏20‏، فٹ‌نوٹ؛ متی 12:‏28 پر غور کریں۔)‏ جس طرح ایک کاریگر اپنا کام کرنے کے لیے اپنے ہاتھوں اور اُنگلیوں کو اِستعمال کرتا ہے اُسی طرح خدا نے اپنی پاک روح کے ذریعے یہ کام انجام دیے ہیں:‏

پاک روح کوئی ہستی نہیں ہے

 چونکہ پاک کلام میں خدا کی روح کا حوالہ اُس کے ”‏ہاتھوں،“‏ ”‏اُنگلیوں“‏ اور ”‏دم“‏ کے طور پر دیا گیا ہے اِس لیے پاک روح کوئی ہستی نہیں ہے۔ (‏خروج 15:‏8‏)‏ جس طرح ایک کاریگر کے ہاتھ اُس کے دماغ اور جسم سے الگ ہو کر کچھ نہیں کر سکتے اُسی طرح پاک روح کوئی ایسی شے نہیں ہے جو خدا کی مرضی سے آزاد ہو کر اپنے طور پر کچھ کر سکے۔ (‏لُوقا 11:‏13‏)‏ پاک کلام میں خدا کی روح کو پانی سے بھی تشبیہ دی گئی ہے۔ (‏یسعیاہ 44:‏3‏)‏ اِس کے علاوہ پاک کلام میں خدا کے ایک بندے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ ”‏ایمان اور روحُ‌القدس [‏یعنی پاک روح]‏ سے بھرا ہوا تھا۔“‏ (‏اعمال 6:‏5‏، اُردو ریوائزڈ ورشن‏)‏ پاک روح کا اِن چیزوں کے ساتھ موازنہ کرنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاک روح کوئی ہستی نہیں ہے۔‏

  پاک کلام میں یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کا نام بتایا گیا ہے۔ لیکن اِس میں کہیں بھی پاک روح کا بنام ذکر نہیں کِیا گیا۔ (‏یسعیاہ 42:‏8؛‏ لُوقا 1:‏31‏)‏ جب ستفنُس نامی مسیحی کو معجزانہ طور پر آسمان کا ایک منظر دِکھایا گیا تو اُنہوں نے تین نہیں بلکہ صرف دو ہستیوں کو دیکھا۔ پاک کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏ستفنُس نے جو پاک روح سے معمور تھے، آسمان کی طرف دیکھا اور اُنہیں خدا کی عظمت دِکھائی دی اور یسوع بھی دِکھائی دیے جو خدا کی دائیں طرف کھڑے تھے۔“‏ (‏اعمال 7:‏55‏)‏ لہٰذا پاک روح یعنی خدا کی باعمل قوت کے ذریعے ستفنُس اِس منظر کو دیکھنے کے قابل ہوئے۔‏

پاک روح کے بارے میں غلط نظریات

 غلط نظریہ:‏ پاک روح ایک ہستی ہے اور تثلیث کا حصہ ہے جیسے کہ کیتھولک ترجمے میں 1-‏یوحنا 5:‏7، 8 میں بتایا گیا ہے۔‏

 حقیقت:‏ کیتھولک ترجمے میں 1-‏یوحنا 5:‏7، 8 کا ترجمہ یوں کِیا گیا ہے:‏ ”‏تین ہیں جو گواہی دیتے ہیں یعنی [‏آسمان پر باپ اور بیٹا اور روحُ‌القدس اور یہ تینوں ایک ہی ہیں۔ اور تین ہی جو زمین پر گواہی دیتے ہیں۔]‏“‏ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ یوحنا رسول نے یہ الفاظ نہیں لکھے تھے اِس لیے یہ بائبل کا حصہ نہیں ہیں۔ پروفیسر بروس میٹسگر نے لکھا:‏ ”‏یہ بات یقینی ہے کہ یہ الفاظ من‌گھڑت ہیں اور اِنہیں نئے عہدنامے میں ہرگز شامل نہیں ہونا چاہیے۔“‏‏—‏اے ٹیکسچوئل کامنٹری آن دی گریک نیو ٹیسٹامنٹ۔‏

 غلط نظریہ:‏ پاک روح ایک ہستی ہے کیونکہ پاک کلام میں اِس کا ذکر کرتے ہوئے ایسی اِصطلا‌حیں اِستعمال کی گئی ہیں جو زندہ اشخاص اور ہستیوں کے ساتھ اِستعمال کی جاتی ہیں۔‏

 حقیقت:‏ یہ سچ ہے کہ پاک کلام میں پاک روح کا ذکر کرتے ہوئے ایسی اِصطلا‌حیں اِستعمال کی گئی ہیں جو زندہ اشخاص اور ہستیوں کے ساتھ اِستعمال کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر یسوع مسیح نے پاک روح کو ایک ”‏مددگار“‏ کہا اور فرمایا کہ یہ مددگار ثبوت پیش کرے گا، رہنمائی کرے گا، بولے گا، سنے گا، بتائے گا اور بڑائی کرے گا۔ (‏یوحنا 16:‏7-‏15‏)‏ لیکن اِس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پاک روح ایک ہستی ہے۔ پاک کلام میں ایسی اِصطلا‌حیں حکمت، موت اور گُناہ کا ذکر کرتے ہوئے بھی اِستعمال کی گئی ہیں۔ (‏امثال 1:‏20؛‏ رومیوں 5:‏17،‏ 21‏)‏ مثال کے طور پر اِس میں حکمت یعنی دانش‌مندی کے ”‏کاموں“‏ اور ”‏لڑکوں“‏ کا ذکر کِیا گیا ہے۔ اِس کے علاوہ اِس میں گُناہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ پھسلاتا ہے، مارتا ہے اور لالچ پیدا کرتا ہے۔—‏متی 11:‏19؛‏ لُوقا 7:‏35‏، اُردو ریوائزڈ ورشن؛‏ رومیوں 7:‏8،‏ 11‏۔‏

 غلط نظریہ:‏ یسوع مسیح کے رسول اور پہلی صدی عیسوی میں یسوع مسیح کے دیگر شاگرد یہ مانتے تھے کہ پاک روح ایک ہستی ہے۔‏

 حقیقت:‏ اِس بات کی حمایت نہ تو بائبل کرتی ہے اور نہ ہی تاریخ۔ اِنسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا میں بتایا گیا ہے:‏ ”‏381ء میں منعقد ہونے والی مجلسِ‌قسطنطنیہ میں یہ عقیدہ تشکیل پایا کہ پاک روح خدا کا درجہ رکھنے والی ایک الگ ہستی .‏.‏.‏ ہے۔“‏ اُس وقت یسوع مسیح کے آخری رسول کو فوت ہوئے 250 سال سے زیادہ عرصہ ہو چُکا تھا۔‏