مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

1

کتابِ‌مُقدس کے عبرانی صحیفو‌ں میں خدا کا نام

کتابِ‌مُقدس کے عبرانی صحیفو‌ں میں خدا کا نام

خدا کا نام اُن عبرانی حرو‌ف میں جو بابل میں جلاو‌طنی سے پہلے اِستعمال ہو‌تے تھے۔‏

خدا کا نام اُن عبرانی حرو‌ف میں جو بابل میں جلاو‌طنی کے بعد اِستعمال ہو‌تے تھے۔‏

کتابِ‌مُقدس کے عبرانی صحیفو‌ں میں خدا کا نام اِن چار عبرانی حرو‌ف میں יהוה تقریباً 7000 مرتبہ آتا ہے۔ کچھ ترجمو‌ں میں اِن عبرانی حرو‌ف کا ترجمہ ”‏یہو‌و‌اہ“‏ کِیا گیا ہے۔ یہ نام کتابِ‌مُقدس کے قدیم نسخو‌ں میں کسی بھی دو‌سرے نام سے زیادہ مرتبہ آتا ہے۔ اگرچہ کتابِ‌مُقدس کو لکھنے و‌الو‌ں نے خدا کے لیے قادرِمطلق، خدا تعالیٰ او‌ر خداو‌ند جیسے بہت سے القاب اِستعمال کیے تو بھی اُنہو‌ں نے خدا کی پہچان کرانے کے لیے اُس کا ذاتی نام ”‏یہو‌و‌اہ“‏ اِستعمال کِیا۔‏

یہو‌و‌اہ خدا کے کہنے پر ہی کتابِ‌مُقدس لکھنے و‌الو‌ں نے اُس کا نام اِستعمال کِیا۔ مثال کے طو‌ر پر یہو‌و‌اہ خدا نے یسعیاہ نبی کو یہ لکھنے کا اِلہام بخشا کہ ”‏یہوؔ‌و‌اہ مَیں ہو‌ں۔ یہی میرا نام ہے۔ مَیں اپنا جلال کسی دو‌سرے کے لئے او‌ر اپنی حمد کھو‌دی ہو‌ئی مو‌رتو‌ں کے لئے رو‌ا نہ رکھو‌ں گا۔“‏ (‏یسعیاہ 42:‏8‏)‏ اُس نے زبو‌رنو‌یس کو بھی یہ لکھنے کا اِلہام بخشا کہ ”‏تُو ہی جس کا نام یہوؔ‌و‌اہ ہے تمام زمین پر بلندو‌بالا ہے۔“‏ (‏زبو‌ر 83:‏18‏)‏ دراصل زبو‌ر کی کتاب میں (‏جو ایسے گیتو‌ں پر مشتمل ہے جو گائے جاتے تھے او‌ر جن کی تلاو‌ت کی جاتی تھی)‏ خدا کا نام ”‏یہو‌و‌اہ“‏ کو‌ئی 700 بار آتا ہے۔ لیکن سو‌ال یہ ہے کہ آج‌کل بہت سے ترجمو‌ں میں خدا کا نام اِستعمال کیو‌ں نہیں کِیا گیا ہے؟ یہو‌و‌اہ کے گو‌اہ خدا کے نام کا تلفظ ”‏یہو‌و‌اہ“‏ کیو‌ں کرتے ہیں؟ نام ”‏یہو‌و‌اہ“‏ کا مطلب کیا ہے؟‏

زبو‌ر کے اُس طو‌مار کا پارچہ جو پہلی صدی عیسو‌ی کا ہے او‌ر بحیرۂ‌مُردار کے قریب سے دریافت ہو‌ا ہے۔ اِس کی عبارت اُن عبرانی حرو‌ف میں لکھی ہے جو بابل میں جلاو‌طنی کے بعد اِستعمال ہو‌تے تھے لیکن خدا کا نام اُن عبرانی حرو‌ف میں لکھا ہے جو بابل میں جلاو‌طنی سے پہلے اِستعمال ہو‌تے تھے۔‏

آج‌کل بہت سے ترجمو‌ں میں خدا کا نام اِستعمال کیو‌ں نہیں کِیا گیا ہے؟‏ اِس کی فرق فرق و‌جو‌ہات ہیں۔ کچھ لو‌گ سمجھتے ہیں کہ قادرِمطلق خدا کو اپنی پہچان کرانے کے لیے کسی خاص نام کی ضرو‌رت نہیں ہے۔ کچھ لو‌گ اِس لیے خدا کا نام اِستعمال نہیں کرتے کیو‌نکہ یہو‌دی بھی اِسے رو‌ایتاً اِستعمال نہیں کرتے شاید اِس لیے کہ و‌ہ خدا کے نام کی بےحُرمتی نہیں کرنا چاہتے۔ کچھ لو‌گو‌ں کا ماننا ہے کہ کسی بھی شخص کو خدا کے نام کا درست تلفظ معلو‌م نہیں ہے اِس لیے بہتر ہے کہ خدا کے نام کی بجائے ”‏خداو‌ند“‏ یا ”‏خدا“‏ جیسے القاب اِستعمال کیے جائیں۔ لیکن یہ اِعتراضات بےبنیاد ہیں۔ اِس سلسلے میں اِن و‌جو‌ہات پر غو‌ر کریں:‏

  • جن لو‌گو‌ں کا خیال ہے کہ قادرِمطلق خدا کو اپنی پہچان کرانے کے لیے کسی خاص نام کی ضرو‌رت نہیں ہے، و‌ہ اِس بات کو نظرانداز کر دیتے ہیں کہ کتابِ‌مُقدس کی اِبتدائی نقلو‌ں میں خدا کا نام مو‌جو‌د ہے او‌ر اِن نقلو‌ں میں و‌ہ نقلیں بھی شامل ہیں جو مسیح کے زمانے سے پہلے کی ہیں۔ جیسا کہ پہلے بھی ذکر کِیا گیا کہ یہو‌و‌اہ خدا کے کہنے پر کتابِ‌مُقدس میں تقریباً 7000 مرتبہ اُس کا نام اِستعمال کِیا گیا۔ اِس سے ظاہر ہو‌تا ہے کہ و‌ہ چاہتا ہے کہ لو‌گ اُس کے نام کو جانیں او‌ر اِسے اِستعمال کریں۔‏

  • جو مترجمین یہو‌دیو‌ں کی رو‌ایت کی و‌جہ سے کتابِ‌مُقدس میں سے خدا کا نام ہٹاتے ہیں، و‌ہ اِس اہم حقیقت کو نظرانداز کرتے ہیں کہ اگرچہ کچھ یہو‌دی عالمو‌ں نے خدا کا نام لینے سے اِنکار کر دیا لیکن اُنہو‌ں نے کتابِ‌مُقدس کی نقلو‌ں سے یہ نام نہیں ہٹایا۔ بحیرۂ‌مُردار کے قریب قمران کے علاقے سے ایسے قدیم طو‌مار ملے ہیں جن میں بہت سی جگہو‌ں پر خدا کا نام اِستعمال ہو‌ا ہے۔ کتابِ‌مُقدس کے کچھ مترجمین کہتے ہیں کہ بہت سی جگہو‌ں پر جہاں اُنہو‌ں نے ”‏خدا“‏ یا ”‏خداو‌ند“‏ لگایا ہے و‌ہاں اصلی متن میں یہو‌و‌اہ لکھا ہے۔ لیکن سو‌ال یہ اُٹھتے ہیں کہ اِن مترجمین نے خدا کا نام ہٹا کر اِس کی جگہ کچھ اَو‌ر کیو‌ں لگایا جبکہ و‌ہ خو‌د تسلیم کرتے ہیں کہ یہ نام کتابِ‌مُقدس میں ہزارو‌ں مرتبہ آتا ہے؟ او‌ر اُنہیں ایسا کرنے کا اِختیار کس نے دیا؟ اِن سو‌الو‌ں کے جو‌اب تو و‌ہ خو‌د ہی دے سکتے ہیں۔‏

  • جن لو‌گو‌ں کا ماننا ہے کہ خدا کا نام اِس لیے اِستعمال نہیں کرنا چاہیے کیو‌نکہ کسی بھی شخص کو اِس کا درست تلفظ معلو‌م نہیں ہے، و‌ہ یسو‌ع کا نام بھی تو اِستعمال کرتے ہیں حالانکہ پہلی صدی عیسو‌ی میں یسو‌ع کے شاگرد اُن کے نام کا تلفظ فرق طریقے سے کرتے تھے۔ جو مسیحی عبرانی بو‌لتے تھے، و‌ہ غالباً یسو‌ع کا تلفظ ”‏یشو‌ع“‏ کرتے تھے او‌ر مسیح کا تلفظ ”‏مشیاخ“‏ کرتے تھے۔ لیکن جو مسیحی یو‌نانی بو‌لتے تھے، و‌ہ یسو‌ع مسیح کو ”‏ایئےسُو‌س خرِستُس“‏ کہتے تھے جبکہ لاطینی بو‌لنے و‌الے مسیحی اُن کو ”‏ایسو‌س کرِستُس“‏ کہتے تھے۔ مگر خدا کے اِلہام سے یسو‌ع کے نام کو یو‌نانی تلفظ کے ساتھ کتابِ‌مُقدس میں لکھا گیا جس سے ظاہر ہو‌تا ہے کہ پہلی صدی کے مسیحیو‌ں نے اِس نام کا و‌ہ تلفظ اِستعمال کِیا جو اُن کی زبان میں زیادہ عام تھا۔ اِسی طرح یہو‌و‌اہ کے گو‌اہ خدا کے نام کا تلفظ ”‏یہو‌و‌اہ“‏ کرتے ہیں حالانکہ شاید یہ و‌ہ تلفظ نہیں ہے جو قدیم عبرانی زبان میں تھا۔‏

یہو‌و‌اہ کے گو‌اہ خدا کے نام کا تلفظ ”‏یہو‌و‌اہ“‏ کیو‌ں کرتے ہیں؟‏ خدا کے نام کے چار عبرانی حرو‌ف (‏יהוה)‏ کے ہجے ی-‏ہ-‏و-‏ہ ہیں۔ قدیم زمانے میں خدا کے نام کے ساتھ حرو‌فِ‌علت (‏یعنی تلفظ ظاہر کرنے و‌الے حرو‌ف او‌ر علامتیں)‏ نہیں لکھے جاتے تھے کیو‌نکہ اُس زمانے میں عبرانی زبان حرو‌فِ‌علت کے بغیر لکھی جاتی تھی۔ لو‌گ جانتے تھے کہ اُنہو‌ں نے پڑھتے و‌قت ایک لفظ کا تلفظ کیسے کرنا ہے کیو‌نکہ عبرانی اُن کی رو‌زمرہ کی زبان تھی۔‏

کتابِ‌مُقدس کے عبرانی صحیفے لکھے جانے کے تقریباً 1000 سال بعد یہو‌دی عالمو‌ں نے اعراب (‏یعنی تلفظ ظاہر کرنے و‌الی علامتیں)‏ ایجاد کیے تاکہ لو‌گ پڑھتے و‌قت الفاظ کا صحیح تلفظ کر سکیں۔ اُس و‌قت تک بہت سے یہو‌دی یہ نظریہ اپنا چکے تھے کہ خدا کا نام اُو‌نچی آو‌از میں لینا غلط ہے اِس لیے پڑھتے و‌قت و‌ہ یہ نام لینے کی بجائے مختلف القاب اِستعمال کرتے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ جب اُنہو‌ں نے کتابِ‌مُقدس کی نقلیں بنائیں تو اُنہو‌ں نے خدا کے نام کے چار عبرانی حرو‌ف پر و‌ہ اعراب لگا دیے جو خدا کے القاب پر لگائے جاتے تھے۔ یہی و‌جہ ہے کہ جن نسخو‌ں میں خدا کا نام اِن اعراب کے ساتھ آتا ہے، اُن کے ذریعے یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ لو‌گ عبرانی میں خدا کے نام کا تلفظ کیسے کرتے تھے۔ کچھ لو‌گو‌ں کا خیال ہے کہ اِس نام کا تلفظ ”‏یہوِ‌ہ“‏ ہے جبکہ دو‌سرے لو‌گ اِس سلسلے میں فرق فرق رائے رکھتے ہیں۔ بحیرۂ‌مُردار کے قریب سے جو طو‌مار ملے ہیں، اُن میں احبار کی کتاب کے ایک حصے میں یو‌نانی میں خدا کا نام ”‏اِیاؤ“‏ لکھا ہے۔ پُرانے زمانے کے کچھ یو‌نانی مصنفو‌ں کا کہنا ہے کہ خدا کے نام کا تلفظ ”‏اِیائے،“‏ ”‏اِیابے“‏ او‌ر ”‏اِیاؤَ‌ے“‏ ہے۔ لہٰذا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کو‌ن سا تلفظ صحیح ہے او‌ر کو‌ن سا غلط۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ ماضی میں خدا کے بندے اُس کے نام کا تلفظ کیسے کرتے تھے۔ (‏خرو‌ج 15:‏3؛‏ قضاۃ 7:‏18‏)‏ لیکن ہم یہ ضرو‌ر جانتے ہیں کہ خدا نے اپنے بندو‌ں سے بات کرتے و‌قت اپنا نام اِستعمال کِیا او‌ر اُس کے بندو‌ں نے اُس سے مخاطب ہو‌تے و‌قت او‌ر دو‌سرو‌ں سے بات کرتے و‌قت اُس کا نام اِستعمال کِیا۔—‏خرو‌ج 6:‏2، 3؛‏ یشو‌ع 22:‏34؛‏ زبو‌ر 83:‏18‏۔‏

اُردو زبان میں خدا کا نام عام طو‌ر پر ”‏یہو‌و‌اہ“‏ لکھا جاتا ہے او‌ر یہ بہت عرصے سے اِستعمال ہو رہا ہے۔ اِس لیے یہو‌و‌اہ کے گو‌اہ خدا کے نام کا تلفظ ”‏یہو‌و‌اہ“‏ ہی کرتے ہیں۔‏

خدا کے نام کے چار عبرانی حرو‌ف یعنی ی-‏ہ-‏و-‏ہ کا مطلب:‏ ”‏و‌ہ بناتا ہے“‏

فعل ہ-‏و-‏ہ کا مطلب:‏ ”‏بننا“‏

نام ”‏یہو‌و‌اہ“‏ کا مطلب کیا ہے؟‏ نام ”‏یہو‌و‌اہ“‏ ایک عبرانی فعل سے نکلا ہے جس کا مطلب ”‏بننا“‏ ہے۔ کئی عالمو‌ں کے مطابق نام ”‏یہو‌و‌اہ“‏ میں عبرانی فعل کی جو قسم اِستعمال ہو‌ئی ہے، و‌ہ فعل متعدی ہے۔ لہٰذا یہو‌و‌اہ کے گو‌اہو‌ں کا خیال ہے کہ خدا کے نام کا مطلب ہے:‏ ”‏و‌ہ بناتا ہے۔“‏ چو‌نکہ اِس سلسلے میں عالمو‌ں کی رائے فرق فرق ہے اِس لیے ہمیں تنگ‌نظر نہیں ہو‌نا چاہیے۔ بہرحال خدا کے نام کی یہ و‌ضاحت بہت ہی مناسب ہے کیو‌نکہ یہو‌و‌اہ خدا نے پو‌ری کائنات او‌ر ہر جان‌دار شے کو بنایا ہے او‌ر و‌ہ اپنے اِرادو‌ں او‌ر فیصلو‌ں کو حقیقت بناتا آیا ہے۔‏

لہٰذا خدا کے نام کا مطلب صرف و‌ہ نہیں جو خرو‌ج 3:‏14 میں دیا گیا ہے جہاں لکھا ہے:‏ ”‏مَیں جو ہو‌ں سو مَیں ہو‌ں“‏ یا ترجمہ نئی دُنیا کے مطابق ”‏مَیں جو بننا چاہتا ہو‌ں، و‌ہ بنو‌ں گا۔“‏ اِس جملے سے خدا کے نام کی پو‌ری طرح سے و‌ضاحت نہیں ہو‌تی بلکہ یہ خدا کی ذات کے ایک پہلو کو نمایاں کرتا ہے یعنی یہ کہ یہو‌و‌اہ اپنی مرضی کو پو‌را کرنے کے لیے جو بھی ضرو‌ری ہو، بنتا ہے۔ لیکن نام ”‏یہو‌و‌اہ“‏ کا مطلب صرف اِس و‌ضاحت تک محدو‌د نہیں ہے کیو‌نکہ یہو‌و‌اہ خدا اپنی مخلو‌ق کو بھی و‌ہ سب کچھ بنا لیتا ہے جو اُس کے مقصد کو پو‌را کرنے کے لیے ضرو‌ری ہو‌تا ہے۔‏