باب 10
حقیقی ایمان رکھنے والوں کا دُشمن
زمین کو خلق کرنے سے مُدتوں پہلے یہوواہ خدا نے آسمان پر فرشتوں کو خلق کِیا۔ ایک وقت آیا جب ایک فرشتے کے دل میں یہ خواہش اُبھری کہ اُس کی عبادت کی جائے حالانکہ صرف خدا عبادت کے لائق ہے۔ جب اِس فرشتے نے اپنی خواہش پوری کرنے کے لئے قدم اُٹھائے تو وہ شیطان کہلانے لگا۔ شیطان کا لفظی مطلب مخالف ہے اور یہ موزوں بھی ہے کیونکہ اُس نے خدا کے اختیار کے خلاف بغاوت کی۔ آئیں دیکھیں کہ اُس نے بغاوت کیسے کی۔
شیطان نے باغِعدن میں حوا کو خدا کی نافرمانی کرنے پر اُکسایا۔ وہ جانتا تھا کہ خدا نے آدم اور حوا کو ایک خاص درخت کا پھل کھانے سے منع کِیا ہے۔ اُس نے بڑی چالاکی سے حوا کو یہ تاثر دیا کہ خدا اُس کو ایک اچھی چیز سے محروم رکھ رہا ہے۔ پھر شیطان نے خدا پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا۔ اُس نے حوا کو خدا کی رہنمائی ترک کرنے پر ورغلایا۔ شیطان نے حوا سے درخت کے پھل کے بارے میں کہا: ”خدا جانتا ہے کہ جس دن تُم اُسے کھاؤ گے تمہاری آنکھیں کُھل جائیں گی اور تُم خدا کی مانند نیکوبد کے جاننے والے بن جاؤ گے۔“ (پیدایش 3:5) حوا شیطان کے دھوکے میں آ گئی اور اُس نے خدا کے حکم کی خلافورزی کی۔ بعد میں اُس نے اپنے شوہر آدم کو بھی ایسا کرنے پر اُکسایا۔ اُس وقت سے لے کر آج تک شیطان اُن لوگوں کا دُشمن ہے جو حقیقی ایمان رکھتے ہیں۔ آئیں دیکھیں کہ اُس نے لوگوں کو کیسے گمراہ کِیا ہے۔
شیطان نے لوگوں کو کیسے گمراہ کِیا؟
شیطان نے بُتپرستی اور غلط قسم کی روایتوں کے ذریعے بنیاسرائیل کو گمراہ کِیا۔ یسوع مسیح نے بنیاسرائیل کے مذہبی پیشواؤں سے کہا کہ اُن کی عبادت بےفائدہ ہے کیونکہ وہ ”انسانی احکام کی تعلیم دیتے ہیں۔“ (متی 15:9) جب اِس قوم نے یسوع کو مسیح کے طور پر قبول نہیں کِیا تو خدا نے اِسے ترک کر دیا۔ یسوع مسیح نے بنیاسرائیل سے کہا: ”خدا کی بادشاہی تُم سے لے لی جائے گی اور اُس قوم کو جو اُس کے پھل لائے دے دی جائے گی۔“ (متی 21:43) لہٰذا خدا نے یسوع مسیح کے پیروکاروں کو اپنے بندوں کے طور پر چن لیا۔
اب شیطان یسوع مسیح کے پیروکاروں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ کیا وہ اپنی کوششوں میں کامیاب رہا؟ اِس سلسلے میں یسوع مسیح نے ایک پیشینگوئی کی جو ایک تمثیل کی شکل میں تھی۔ اِس تمثیل میں ایک آدمی نے اپنے کھیت میں گیہوں کا اچھا بیج بویا۔ بعد میں ایک دُشمن نے کھیت میں جنگلی بوٹیوں کے کڑوے دانے بوئے۔ جب کھیت کے مالک کو یہ پتہ چلا تو اُس نے دونوں قسم کے بیج کو کٹائی کے وقت تک اکٹھے بڑھنے دیا۔ پھر جب کٹائی کا وقت آیا تو پہلے جنگلی بوٹیوں کو جمع کر کے جلا دیا گیا۔ اِس کے بعد گیہوں کو جمع کرکے اُس آدمی کے گودام میں پہنچا دیا گیا۔
تمثیل دینے کے بعد یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو اِس کا مطلب سمجھایا۔ اُنہوں نے بتایا کہ کھیت میں اچھا بیج بونے والا آدمی وہ خود ہیں۔ پھر اُنہوں نے کہا کہ ”اچھا بیج بادشاہی کے فرزند اور کڑوے دانے اُس شریر کے فرزند ہیں۔ جس دُشمن نے اُن کو بویا وہ اِبلیسؔ ہے اور کٹائی دُنیا کا آخر ہے اور کاٹنے والے فرشتے ہیں۔“ (متی 13:38، 39) یسوع مسیح نے کہا کہ گیہوں سے مُراد اُن کے سچے پیروکار ہیں جبکہ کڑوے دانے وہ لوگ ہیں جو اُن کے پیروکار ہونے کا محض دعویٰ کرتے ہیں۔ شیطان نے اِن کڑوے دانوں کو یسوع مسیح کے سچے پیروکاروں کے بیچ میں بو دیا۔ یسوع مسیح کی پیشینگوئی کے عین مطابق، اُن کی موت کے بعد اُن کے پیروکاروں میں ایسے لوگ بھی شامل ہوئے جو یسوع مسیح کی تعلیم میں ردوبدل کرنے لگے۔ اِن لوگوں نے جھوٹے عقیدوں کو فروغ دیا، مثلاً تثلیث کے عقیدے کو جس کے مطابق ایک خدا میں تین اشخاص ہیں۔ اِس کے علاوہ اُنہوں نے بُتوں کی پرستش شروع کر دی اور وہ سیاسی معاملوں میں دخل دینے لگے۔ کم ہی لوگ ایسے تھے جو واقعی یسوع مسیح کی تعلیمات پر عمل کر رہے تھے۔ یہ سلسلہ صدیوں تک جاری رہا۔
حقیقی ایمان رکھنے والوں کی فتح
البتہ یسوع مسیح کی تمثیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ اِس صورتحال میں تبدیلی آنی تھی۔ تمثیل میں بتایا گیا ہے کہ خدا کے فرشتے ایسے لوگوں کو تباہی کے لئے جمع کریں گے جو یسوع مسیح کے پیروکار ہونے کا محض دعویٰ کرتے ہیں۔ یوں اُن لوگوں کو پہچاننا زیادہ آسان ہو جائے گا جو یسوع مسیح کے سچے پیروکار ہیں اور حقیقی ایمان رکھتے ہیں۔ آخرکار شیطان کو بھی تباہوبرباد کر دیا جائے گا۔ یوں حقیقی ایمان رکھنے والوں کے دُشمن کا نامونشان مٹ جائے گا۔
لیکن اُن لوگوں کی پہچان کیا ہے جو حقیقی ایمان رکھتے ہیں؟ اِس سوال کا جواب اگلے باب میں دیا جائے گا۔