مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏یہوواہ اپنوں کو پہچانتا ہے‘‏

‏’‏یہوواہ اپنوں کو پہچانتا ہے‘‏

‏”‏جو کوئی خدا سے محبت رکھتا ہے اُس کو خدا پہچانتا ہے۔‏“‏—‏1-‏کر 8:‏3‏۔‏

1.‏ خدا کے کچھ بندے کس غلط سوچ میں پڑ گئے؟‏ بائبل سے اِس سلسلے میں ایک مثال دیں۔‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

ایک صبح سردارکاہن ہارون خیمۂ‌اِجتماع کے سامنے بخوردان لیے کھڑے تھے۔‏ اُن کے قریب ہی قورح اور اُس کے 250 حامی اپنے اپنے بخوردانوں کو ہاتھ میں لیے یہوواہ خدا کے حضور بخور گزران رہے تھے۔‏ (‏گن 16:‏16-‏18‏)‏ پہلی نظر میں تو یہی لگتا تھا کہ یہ سب آدمی یہوواہ کے وفادار بندے ہیں۔‏ لیکن ہارون کے سوا وہاں کھڑے سب لوگ باغی تھے جو کاہن کا عہدہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔‏ (‏گن 16:‏1-‏11‏)‏ وہ یہ سوچ کر خود کو دھوکا دے رہے تھے کہ خدا اُن کی عبادت قبول کرے گا۔‏ لیکن اُن کی یہ سوچ سراسر غلط تھی کیونکہ خدا جو دلوں کو جانچتا ہے،‏ اُن کی ریاکاری کو دیکھ سکتا تھا۔‏—‏یرم 17:‏10‏۔‏

2.‏ موسیٰ نے کیا پیش‌گوئی کی؟‏ اور یہ کیسے پوری ہوئی؟‏

2 اِس سے ایک دن پہلے موسیٰ نے پیش‌گوئی کی:‏ ”‏کل صبح [‏یہوواہ]‏ دِکھا دے گا کہ کون اُس کا ہے۔‏“‏ (‏گن 16:‏5‏)‏ موسیٰ کی یہ بات پوری ہوئی اور اگلی صبح ”‏[‏یہوواہ]‏ کے حضور سے آگ نکلی اور [‏قورح اور]‏ اُن ڈھائی سو آدمیوں کو جنہوں نے بخور گذرانا تھا بھسم کر ڈالا۔‏“‏ یوں یہوواہ خدا نے ظاہر کر دیا کہ کون اُس کے سچے پرستار ہیں اور کون نہیں۔‏ (‏گن 16:‏35؛‏ 26:‏10‏)‏ اور یہوواہ  خدا نے ہارون کو زندہ رکھ کر یہ ظاہر کِیا کہ ہارون کو اُس کی خوشنودی حاصل ہے اور وہی سچے کاہن ہیں۔‏‏—‏1-‏کرنتھیوں 8:‏3 کو پڑھیں۔‏

3.‏ ‏(‏الف)‏ پولُس رسول کے زمانے میں کلیسیاؤں میں کون‌سی صورتحال پیدا ہوئی؟‏ (‏ب)‏ پولُس رسول کس واقعے سے جان سکتے تھے کہ یہوواہ خدا باغیوں کو کیسا خیال کرتا ہے؟‏

3 اِس واقعے کے تقریباً 1500 سال بعد یعنی پولُس رسول کے زمانے میں اِسی طرح کی صورتحال پھر سے پیدا ہوئی۔‏ کلیسیا میں بعض ایسے لوگ تھے جو مسیحی ہونے کا دعویٰ تو کرتے تھے لیکن اُنہوں نے جھوٹی تعلیمات اپنا لی تھیں۔‏ سرسری سی نظر ڈالنے پر تو یہ لوگ سچے مسیحیوں جیسے ہی لگتے تھے لیکن دراصل وہ دوسرے مسیحیوں کے لیے ایک بڑا خطرہ تھے۔‏ وہ بھیڑوں کے بھیس میں بھیڑئے تھے جو ’‏بعض کا ایمان بگاڑ رہے تھے۔‏‘‏ (‏2-‏تیم 2:‏16-‏18‏)‏ لیکن یہوواہ خدا اِنسانوں کو سرسری نظر سے نہیں دیکھتا۔‏ پولُس رسول اِس بات سے واقف تھے کیونکہ اُنہیں معلوم تھا کہ صدیوں پہلے یہوواہ خدا نے قورح اور اُس کے حامیوں کے ساتھ کیا کِیا۔‏ آئیں،‏ اِس سلسلے میں پولُس رسول کے ایک دلچسپ بیان پر غور کریں اور دیکھیں کہ ہم اِس سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔‏

‏”‏مَیں [‏یہوواہ]‏ لاتبدیل ہوں“‏

4.‏ پولُس رسول کو کس بات کا یقین تھا؟‏ اور اُنہوں نے اِس یقین کا اِظہار کیسے کِیا؟‏

4 پولُس رسول کو یقین تھا کہ یہوواہ خدا اُن لوگوں کو پہچانتا ہے جو ریاکاری سے اُس کی عبادت کرتے ہیں اور اُن لوگوں کو بھی جانتا ہے جو اُس کے فرمانبردار ہیں۔‏ پولُس کا یہ اِعتماد اِس بات سے ظاہر ہوتا ہے جو اُنہوں نے خدا کے اِلہام سے تیمُتھیُس کو لکھی تھی۔‏ یہ بتانے کے بعد کہ خدا سے برگشتہ لوگ کلیسیا پر کیا بُرا اثر ڈال رہے تھے،‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏خدا کی مضبوط بنیاد قائم رہتی ہے اور اُس پر یہ مہر ہے کہ [‏یہوواہ]‏ اپنوں کو پہچانتا ہے اور جو کوئی [‏یہوواہ]‏ کا نام لیتا ہے ناراستی سے باز رہے۔‏“‏—‏2-‏تیم 2:‏18،‏ 19‏۔‏

5،‏ 6.‏ ‏(‏الف)‏ جس طرح سے پولُس نے اِصطلاح ”‏خدا کی مضبوط بنیاد“‏ اِستعمال کی،‏ اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ پولُس رسول کے الفاظ کا تیمُتھیُس پر کیا اثر ہوا ہوگا؟‏

5 پولُس رسول نے اِن آیتوں میں جو الفاظ اِستعمال کیے،‏ وہ بڑے دلچسپ ہیں۔‏ بائبل میں اِصطلاح ”‏خدا کی مضبوط بنیاد“‏ کا ذکر صرف ایک ہی بار آتا ہے۔‏ لفظ ”‏بنیاد“‏ کو بائبل میں مختلف چیزوں کی مشابہت کے طور پر اِستعمال کِیا گیا ہے،‏ مثلاً یہ لفظ قدیم اِسرائیل کے دارالحکومت یروشلیم کے سلسلے میں اِستعمال ہوا ہے۔‏ (‏زبور 87:‏1،‏ 2‏)‏ خدا کی مرضی کے پورا ہونے میں یسوع مسیح جو کردار ادا کرتے ہیں،‏ اِسے بھی ”‏نیو“‏ یعنی بنیاد سے تشبیہ دی گئی ہے۔‏ (‏1-‏کر 3:‏11‏)‏ لہٰذا جب پولُس رسول نے ”‏خدا کی مضبوط بنیاد“‏ کا ذکر کِیا تو وہ کس کی طرف اِشارہ کر رہے تھے؟‏

6 پولُس رسول نے ”‏خدا کی مضبوط بنیاد“‏ کا ذکر کرنے کے بعد ہی موسیٰ کے الفاظ کا حوالہ دیا جو اُنہوں نے گنتی 16:‏5 کے مطابق قورح اور اُس کے حامیوں سے کہے تھے۔‏ پولُس نے اِس واقعے کا ذکر اِس لیے کِیا کیونکہ وہ تیمُتھیُس کی حوصلہ‌افزائی کرنا چاہتے تھے اور اُنہیں یاد دِلانا چاہتے تھے کہ خدا باغیوں کو پہچانتا ہے اور اُنہیں بےسزا نہیں چھوڑتا۔‏ جس طرح قورح خدا کے مقصد کو پورا ہونے سے نہیں روک سکتا تھا اُسی طرح خدا سے برگشتہ لوگ بھی اِس میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔‏ پولُس رسول نے تفصیل سے نہیں بتایا کہ ”‏خدا کی مضبوط بنیاد“‏ کیا ہے۔‏ لیکن یہ اِصطلاح اِستعمال کرنے سے اُنہوں نے تیمُتھیُس کا یہ اِعتماد بڑھایا کہ خدا اپنا مقصد ضرور پورا کرے گا۔‏

7.‏ ہم کیوں یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہمیشہ شفقت اور صداقت سے کام لے گا؟‏

7 یہوواہ خدا کے معیار کبھی نہیں بدلتے۔‏ زبور 33:‏11 میں لکھا ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کی مصلحت ابد تک قائم رہے گی اور اُس کے دل کے خیال نسل‌درنسل۔‏“‏ دوسری آیتوں میں بتایا گیا ہے کہ خدا کی سلطنت،‏ شفقت،‏ صداقت اور سچائی ابدی ہیں۔‏ (‏خر 15:‏18؛‏ زبور 106:‏1؛‏ 112:‏9؛‏ 117:‏2‏)‏ ملاکی 3:‏6 میں لکھا ہے:‏ ”‏مَیں [‏یہوواہ]‏ لاتبدیل ہوں۔‏“‏ اِس کے علاوہ یعقوب 1:‏17 میں بتایا گیا ہے کہ  یہوواہ میں ”‏نہ کوئی تبدیلی ہو سکتی ہے اور نہ گردش کے سبب سے اُس پر سایہ پڑتا ہے۔‏“‏

خدا پر بھروسا مضبوط کرنے والی مہر

8،‏ 9.‏ مہر کی مثال اِستعمال کرنے سے پولُس رسول کیا سکھانا چاہتے تھے؟‏

8 پولُس رسول نے 2-‏تیمتھیس 2:‏19 میں جس بنیاد کا ذکر کِیا،‏ اُس پر ایک عبارت ہے جو ایک مہر کے ساتھ لگائی گئی ہے۔‏ قدیم زمانے میں جب لوگ کوئی عمارت بنواتے تھے تو بعض اوقات وہ اِس کی بنیاد پر ایک عبارت لکھتے تھے جس پر شاید یہ بتایا جاتا تھا کہ اِس عمارت کو کس نے بنایا ہے یا اِس کا مالک کون ہے۔‏ بائبل کو لکھنے والوں میں سے پولُس رسول وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے کسی بنیاد پر کچھ لکھنے کی مثال اِستعمال کی۔‏ * ”‏خدا کی مضبوط بنیاد“‏ پر جو مہر لگی ہے،‏ اُس پر دو پیغام لکھے ہیں۔‏ پہلا یہ کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ اپنوں کو پہچانتا ہے“‏ اور دوسرا یہ کہ ”‏جو کوئی [‏یہوواہ]‏ کا نام لیتا ہے ناراستی سے باز رہے۔‏“‏ اِس سے ہمیں گنتی 16:‏5 میں درج موسیٰ کی بات یاد آتی ہے۔‏ ‏(‏اِس آیت کو پڑھیں۔‏)‏

9 مہر کی مثال اِستعمال کرنے سے پولُس رسول کیا سکھانا چاہتے تھے؟‏ دراصل وہ دو ایسے اصولوں کا ذکر کر رہے تھے جن پر یہوواہ خدا ہمیشہ قائم رہتا ہے:‏ (‏1)‏ یہوواہ خدا اپنے وفادار بندوں سے محبت کرتا ہے اور (‏2)‏ وہ ناراستوں سے نفرت کرتا ہے۔‏ اِن دو اصولوں کا کلیسیا میں برگشتگی کے مسئلے سے کیا تعلق ہے؟‏

10.‏ خدا سے برگشتہ لوگوں کو کلیسیا میں دیکھ کر سچے مسیحیوں پر کیا اثر ہوا؟‏

10 تیمُتھیُس اور دوسرے مسیحی،‏ کلیسیا میں اُٹھ کھڑے ہونے والے برگشتہ لوگوں کی وجہ سے ضرور پریشان ہوئے ہوں گے۔‏ بعض مسیحیوں نے شاید سوچا ہو کہ خدا نے ایسے لوگوں کو کلیسیا میں کیوں رہنے دیا ہے؟‏ شاید اُن کے ذہن میں یہ آیا ہو کہ کیا خدا اِس بات پر دھیان دیتا ہے کہ کون اُس کا وفادار ہے اور کون ریاکاری سے کام لیتا ہے؟‏—‏اعما 20:‏29،‏ 30‏۔‏

تیمُتھیُس خدا سے برگشتہ لوگوں کے دھوکے میں نہیں آئے۔‏ (‏پیراگراف 10-‏12 کو دیکھیں۔‏)‏

11،‏ 12.‏ پولُس رسول کے خط پر غور کرنے سے تیمُتھیُس کا خدا پر بھروسا کیسے مضبوط ہوا ہوگا؟‏

11 پولُس رسول نے اپنے خط میں تیمُتھیُس کو یاد دِلایا کہ ہارون اور قورح کے ساتھ کیا ہوا تھا۔‏ اُس وقت یہوواہ خدا نے ظاہر کِیا کہ ہارون کو اُس کی خوشنودی حاصل ہے جبکہ اُس نے قورح اور اُس کے حامیوں کی ریاکاری سے پردہ اُٹھایا اور اُنہیں سزا دی۔‏ یقیناً اِس مثال پر غور کرنے سے تیمُتھیُس کا خدا پر بھروسا مضبوط ہوا ہوگا۔‏ پولُس رسول یہ ظاہر کر رہے تھے کہ حالانکہ کلیسیا میں جھوٹے مسیحی موجود ہیں لیکن خدا اپنے وفادار بندوں کو پہچانتا ہے،‏ بالکل اُسی طرح جیسے وہ موسیٰ کے زمانے میں اپنے سچے بندوں کو پہچانتا تھا۔‏

 12 یہوواہ خدا لاتبدیل ہے۔‏ ہم اُس پر پورا بھروسا رکھ سکتے ہیں۔‏ وہ ناراستی سے نفرت کرتا ہے اور وقت آنے پر وہ اُن لوگوں کو سزا دے گا جو اپنے بُرے کاموں سے توبہ نہیں کرتے۔‏ پولُس رسول نے تیمُتھیُس کو یہ بھی یاد دِلایا کہ یہوواہ کا نام لینے والے کے طور پر اُنہیں جھوٹے مسیحیوں کے ناراست کاموں سے دُور رہنا چاہیے۔‏ *

نیک‌نیتی سے خدا کی عبادت کریں

13.‏ ہم کس بات پر یقین رکھ سکتے ہیں؟‏

13 پولُس رسول کے الفاظ پر غور کرنے سے ہمارا حوصلہ بھی بڑھتا ہے۔‏ یہ جان کر کہ یہوواہ خدا ہماری وفاداری سے واقف ہے،‏ ہمیں بڑی حوصلہ‌افزائی ملتی ہے۔‏ وہ نہ صرف ہماری وفاداری سے واقف ہے بلکہ وہ اپنے بندوں کی گہری فکر بھی رکھتا ہے۔‏ بائبل میں لکھا ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کی آنکھیں ساری زمین پر پھرتی ہیں تاکہ وہ اُن کی اِمداد میں جن کا دل اُس کی طرف کامل ہے اپنے تیئں قوی دِکھائے۔‏“‏ (‏2-‏توا 16:‏9‏)‏ لہٰذا ہم پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ خدا کی خدمت میں جو کچھ ہم ”‏پاک دل“‏ سے کرتے ہیں،‏ وہ کبھی بےفائدہ نہیں جاتا۔‏—‏1-‏تیم 1:‏5؛‏ 1-‏کر 15:‏58‏۔‏

14.‏ یہوواہ خدا کس طرح کے لوگوں کی عبادت قبول نہیں کرتا؟‏

14 ہمیں یہ کبھی بھولنا نہیں چاہیے کہ یہوواہ خدا ریاکار لوگوں کی عبادت قبول نہیں کرتا۔‏ جب ”‏[‏یہوواہ]‏ کی آنکھیں ساری زمین پر پھرتی ہیں“‏ تو وہ دیکھ سکتا ہے کہ کن لوگوں کا ”‏دل اُس کی طرف کامل“‏ نہیں ہے۔‏ امثال 3:‏32 میں لکھا ہے:‏ ”‏کج‌رو سے [‏یہوواہ]‏ کو نفرت ہے۔‏“‏ اگر کوئی شخص جان‌بُوجھ کر دوسروں کو یہ تاثر دیتا ہے کہ وہ بڑا نیک ہے لیکن چھپ کر گُناہ کرتا ہے تو بِلاشُبہ وہ کج‌رو ہے۔‏ اِنسان شاید ایسے شخص سے دھوکا کھائے لیکن یہوواہ خدا کبھی دھوکا نہیں کھا سکتا۔‏ اُس کی طاقت لامحدود ہے اور وہ اِنصاف کو پسند کرتا ہے۔‏ اِس لیے کوئی ایسا شخص ”‏جو اپنے گُناہوں کو چھپاتا ہے کامیاب نہ ہوگا۔‏“‏—‏امثا 28:‏13؛‏ 1-‏تیمتھیس 5:‏24؛‏ عبرانیوں 4:‏13 کو پڑھیں۔‏

15.‏ ہمیں اپنے بہن‌بھائیوں کے بارے میں کیا نہیں سوچنا چاہیے؟‏ اور کیوں؟‏

15 خدا کے زیادہ‌تر بندے نیک‌نیتی سے اُس کی عبادت کرتے ہیں۔‏ کلیسیا میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو ریاکاری سے کام لیتا ہے۔‏ لیکن اگر موسیٰ کے زمانے میں اور پولُس رسول کے زمانے میں ایسے لوگ تھے تو آج بھی ہو سکتے ہیں۔‏ (‏2-‏تیم 3:‏1،‏ 5‏)‏ لیکن کیا ہمیں اپنے بہن‌بھائیوں کی نیت پر یا خدا کے لیے اُن کی وفاداری پر شک کرنا چاہیے؟‏ بالکل نہیں!‏ اپنے بہن‌بھائیوں پر بِلاوجہ شک کرنا غلط ہوگا۔‏ ‏(‏رومیوں 14:‏10-‏12؛‏ 1-‏کرنتھیوں 13:‏7 کو پڑھیں۔‏)‏ اِس کے علاوہ اگر ہم ہر معاملے میں اپنے بہن‌بھائیوں پر شک کرتے ہیں تو اِس کا خدا کے ساتھ ہماری دوستی پر بھی بُرا اثر پڑے گا۔‏

16.‏ ‏(‏الف)‏ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ریاکاری ہمارے دل میں جڑ نہ پکڑے؟‏ (‏ب)‏ بکس ”‏ اپنے آپ کو جانچو‏“‏ میں کون‌سی باتیں بتائی گئی ہیں جو اپنا جائزہ لینے کے لیے فائدہ‌مند ہوں گی؟‏

16 ہر مسیحی کو ’‏اپنے ہی کام کو آزمانا‘‏ چاہیے۔‏ (‏گل 6:‏4‏)‏ چونکہ ہم خطاکار ہیں اِس لیے ہمیں کبھی نہیں سوچنا چاہیے کہ ”‏مَیں ریاکار نہیں بن سکتا۔‏“‏ (‏عبر 3:‏12،‏ 13‏)‏ لہٰذا اچھا ہوگا کہ ہم وقتاًفوقتاً اپنا جائزہ لیں کہ ہم کس نیت سے خدا کی خدمت کر رہے ہیں۔‏ ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں:‏ ”‏کیا مَیں اِس لیے یہوواہ خدا کی عبادت کرتا ہوں کیونکہ مَیں اُس سے محبت رکھتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ وہ کائنات کا اعلیٰ حکمران ہے؟‏ یا پھر کیا میرا زیادہ‌تر دھیان اُن برکات پر ہے جو مجھے فردوس میں حاصل ہوں گی؟‏“‏ (‏مکا 4:‏11‏)‏ اگر ہم اپنے کاموں کو آزماتے اور اپنے دل سے ریاکاری کا ہر عنصر نکالتے ہیں تو بِلاشُبہ ہمیں بڑا فائدہ ہوگا۔‏

وفاداری کا صلہ

17،‏ 18.‏ ہمیں صحیح نیت اور سچے دل سے خدا کی عبادت کیوں کرنی چاہیے؟‏

17 جب ہم صحیح نیت اور سچے دل سے خدا کی عبادت کرتے ہیں تو ہمیں بہت سی برکتیں ملتی ہیں۔‏ زبور میں لکھا ہے:‏ ”‏مبارک  ہے وہ آدمی .‏ .‏ .‏ جس کے دل میں مکر نہیں۔‏“‏ (‏زبور 32:‏2‏)‏ جو شخص اپنے دل سے ریاکاری کو نکالتا ہے،‏ وہ نہ صرف اب بلکہ آنے والے زمانے میں بھی خوش رہے گا۔‏

18 وقت آنے پر یہوواہ خدا اُن سب لوگوں کا پردہ فاش کرے گا جو چھپ کر بُرے کام کرتے ہیں۔‏ پھر ”‏صادق اور شریر میں اور خدا کی عبادت کرنے والے اور نہ کرنے والے میں“‏ فرق صاف نظر آئے گا۔‏ (‏ملا 3:‏18‏)‏ جب تک ہم اُس وقت کا اِنتظار کرتے ہیں،‏ ہمیں اِس بات سے حوصلہ ملتا ہے کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ کی نظر راست‌بازوں کی طرف ہے اور اُس کے کان اُن کی دُعا پر لگے ہیں۔‏“‏—‏1-‏پطر 3:‏12‏۔‏

^ پیراگراف 8 مکاشفہ 21:‏14 میں ’‏بارہ بنیادوں‘‏ کا ذکر کِیا گیا ہے جن پر بارہ رسولوں کے نام لکھے ہیں۔‏ لیکن مکاشفہ کی کتاب تیمُتھیُس کے نام خط کے کئی سالوں بعد لکھی گئی تھی۔‏

^ پیراگراف 12 اگلے مضمون میں اِس بات پر غور کِیا جائے گا کہ خدا کے بندے ناراستی سے کیسے باز رہ سکتے ہیں۔‏