مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏اپنی جوانی کی بیوی کے ساتھ شاد رہ“‏

‏”‏اپنی جوانی کی بیوی کے ساتھ شاد رہ“‏

‏”‏اپنی جوانی کی بیوی کے ساتھ شاد رہ“‏

‏”‏تُو اپنی جوانی کی بیوی کے ساتھ شاد رہ۔‏ .‏ .‏ .‏ تجھے بیگانہ عورت کیوں فریفتہ کرے؟‏“‏—‏امثال ۵:‏۱۸،‏ ۲۰‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے جو جنسی کشش محسوس کرتے ہیں اسے خدا کے کلام میں مبارک کیوں کہا گیا ہے؟‏

خدا کے کلام میں میاں بیوی کے تعلقات کے بارے میں کُھلی بات کی جاتی ہے۔‏ امثال ۵:‏۱۸،‏ ۱۹ میں یوں لکھا ہے:‏ ”‏تیرا سوتا مبارک ہو اور تُو اپنی جوانی کی بیوی کے ساتھ شاد رہ۔‏ پیاری ہرنی اور دلفریب غزال کی مانند اُس کی چھاتیاں تجھے ہر وقت آسودہ کریں اور اُس کی محبت تجھے ہمیشہ فریفتہ رکھے۔‏“‏

۲ اس آیت میں لفظ ”‏سوتا“‏ یعنی سرچشمہ استعمال ہوا ہے۔‏ یہ اُن تعلقات کی طرف اشارہ کرتا ہے جن سے جنسی تسکین حاصل کی جاتی ہے۔‏ ان کو مبارک کہا گیا ہے کیونکہ میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے جو پیار اور جنسی کشش محسوس کرتے ہیں یہ خدا کی طرف سے ایک تحفہ ہے۔‏ البتہ اس آیت میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ جنسی تعلقات صرف میاں بیوی کے درمیان جائز ہیں۔‏ اس لئے بادشاہ سلیمان،‏ جس نے امثال کی کتاب لکھی تھی،‏ آگے یوں سوال کرتا ہے:‏ ”‏اَے میرے بیٹے!‏ تجھے بیگانہ عورت کیوں فریفتہ کرے اور تُو غیر عورت سے کیوں ہم‌آغوش ہو؟‏“‏—‏امثال ۵:‏۲۰‏۔‏

۳.‏ (‏ا)‏ آجکل بہت سی شادیاں کس افسوس‌ناک حقیقت سے دوچار ہیں؟‏ (‏ب)‏ خدا زِنا کو کیسا خیال کرتا ہے؟‏

۳ شادی کے موقع پر دُلہا دُلہن ہمیشہ کیلئے ایک دوسرے سے محبت کرنے اور وفادار رہنے کا وعدہ کرتے ہیں۔‏ افسوس کی بات ہے کہ آجکل بہت سے شادی‌شُدہ لوگ اس وعدے کو نبھاتے نہیں۔‏ ایک تحقیق‌دان ۲۵ مختلف جائزوں پر غور کرنے کے بعد یہ اندازہ لگاتی ہے کہ تمام شادی‌شُدہ جوڑوں میں سے ”‏۲۵ فیصد بیویاں اور ۴۴ فیصد شوہر زِنا کر چکے ہیں۔‏“‏ پولس رسول نے تاکید کی کہ ”‏فریب نہ کھاؤ۔‏ نہ حرامکار خدا کی بادشاہی کے وارث ہوں گے نہ بُت‌پرست نہ زِناکار نہ عیاش۔‏ نہ لونڈےباز۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۶:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خدا زِنا کو ایک سنگین گُناہ خیال کرتا ہے۔‏ سچے مسیحیوں کو اپنے بیاہتا ساتھی سے بےوفائی کرنے سے خبردار رہنا چاہئے۔‏ لیکن مسیحی اپنے ’‏بیاہ کو ہر بات میں قابلِ‌عزت‘‏ اور اپنے ’‏ازدواجی بستر کو بےداغ‘‏ کیسے رکھ سکتے ہیں؟‏—‏عبرانیوں ۱۳:‏۴‏،‏ کیتھولک ترجمہ۔‏

حیلہ‌باز دل سے خبردار رہیں

۴.‏ ایک شادی‌شُدہ مسیحی کسی غیر سے عشق کرنے کے پھندے میں کیسے پڑ سکتا ہے؟‏

۴ دُنیا کا ماحول اس حد تک بگڑ چکا ہے کہ بہت سے لوگوں کی ”‏آنکھیں زِنا سے بھری ہیں اور گُناہ سے نہیں رُکتیں۔‏“‏ (‏۲-‏پطرس ۲:‏۱۴‏،‏ کیتھولک ترجمہ۔‏‏)‏ بہتیرے شادی‌شُدہ لوگوں نے دوسروں سے عشق کرنے کو کھیل سمجھ رکھا ہے۔‏ ایک شادی‌شُدہ مسیحی کسی غیر سے عشق کرنے کے پھندے میں کیسے پڑ سکتا ہے؟‏ چونکہ کئی ممالک میں عورتیں بھی ملازمت کرنے لگی ہیں اس وجہ سے اکثر اُن کو غیر مردوں کے ساتھ ملکر کام کرنا پڑتا ہے۔‏ ایسے ماحول میں عشق بازی کے موقعے پیدا ہو سکتے ہیں۔‏ اس کے علاوہ انٹرنیٹ کے ذریعے بہت سے ایسے لوگ دوسروں سے عشق کرنے لگے ہیں جو کھلم‌کُھلا ایسا کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔‏

۵،‏ ۶.‏ ایک مسیحی بہن زِنا کرنے کے خطرے میں کیسے پڑی اور ہم اس کے ساتھ ہونے والے واقعات سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۵ اس سلسلے میں ہم ایک ایسی مسیحی بہن کے ساتھ ہونے والے واقعات پر غور کرتے ہیں جو زِنا کرنے سے بال بال بچی۔‏ ہم اس بہن کو مریم کا نام دیں گے۔‏ مریم کا شوہر یہوواہ کا گواہ نہیں ہے۔‏ وہ اُس کے ساتھ بڑی بےرُخی سے پیش آتا تھا۔‏ کچھ سال پہلے کی بات ہے کہ مریم کو اپنے شوہر کے ایک ساتھی کارکُن سے ملاقات کا اتفاق ہوا۔‏ وہ آدمی بڑا مہذب تھا اور اُس نے مریم سے خدا کے کلام کے بارے میں بھی سوال کئے۔‏ مریم اُس آدمی کے بارے میں کہتی ہے کہ ”‏وہ اتنے اچھے تھے۔‏ اُن میں اور میرے شوہر میں زمین آسمان کا فرق تھا۔‏“‏ جلد ہی ان دونوں کو پیار ہو گیا۔‏ مریم یہ سوچ کر اپنے ضمیر کو ٹھنڈا کرتی کہ ”‏مَیں نے زِنا تو نہیں کِیا۔‏ یہ شخص تو خدا کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں اور مَیں اُن کی مدد کرنا چاہتی ہوں۔‏“‏

۶ اس سے پہلے کہ اُس کا پیار زِنا کی شکل اختیار کر لیتا مریم کو ہوش آ گیا۔‏ (‏گلتیوں ۵:‏۱۹-‏۲۱؛‏ افسیوں ۴:‏۱۹‏)‏ اُس نے اپنے ضمیر کی آواز پر کان لگا کر اُس شخص سے اپنے تعلقات ختم کر دئے۔‏ مریم کے ساتھ جو کچھ ہوا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ واقعی ”‏دل سب چیزوں سے زیادہ حیلہ‌باز اور لاعلاج ہے۔‏“‏ (‏یرمیاہ ۱۷:‏۹‏)‏ خدا کے کلام میں یوں تاکید کی گئی ہے:‏ ”‏اپنے دل کی خوب حفاظت کر۔‏“‏ (‏امثال ۴:‏۲۳‏)‏ لیکن ہم اپنے دل کی حفاظت کیسے کر سکتے ہیں؟‏

‏”‏ہوشیار بلا کو دیکھ کر چھپ جاتا ہے“‏

۷.‏ جب ایک مخالف جنس شخص کی شادی میں مسئلے ہوں تو ہمیں اُس کی مدد کرتے وقت کن صحیفوں کو یاد رکھنا چاہئے؟‏

۷ پولس رسول نے لکھا کہ ”‏جو کوئی اپنے آپ کو قائم سمجھتا ہے وہ خبردار رہے کہ گِر نہ پڑے۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۱۲‏)‏ اور امثال ۲۲:‏۳ میں ہم یوں پڑھتے ہیں:‏ ”‏ہوشیار بلا کو دیکھ کر چھپ جاتا ہے۔‏“‏ ان صحیفوں کے مطابق یہ سوچنا سراسر غلط ہے کہ ”‏چاہے مَیں کچھ بھی کروں مَیں زِنا کرنے کے خطرے میں نہیں پڑ سکتا۔‏“‏ ہمیں ان باتوں سے خبردار رہنا چاہئے جو ہمیں بُرائی کی راہ پر لے جا سکتی ہیں۔‏ مثال کے طور پر ہمیں ایک مخالف جنس شخص کے اتنے قریب نہیں ہونا چاہئے کہ وہ صرف ہم سے اپنی دل کی باتیں کرے خاص طور پر اگر اُس کی شادی میں مسئلے ہوں۔‏ (‏امثال ۱۱:‏۱۴‏)‏ اس کی بجائے ہمیں اُس کو اپنے بیاہتا ساتھی کے ساتھ ان مسئلوں کے بارے میں بات کرنے کا مشورہ دینا چاہئے۔‏ ہم اُسے اپنے جنس کے ایک مسیحی سے مشورہ کرنے کو کہہ سکتے ہیں جو اُس کی شادی کو بحال کرنے میں اُس کی مدد کرنا چاہتا ہے۔‏ اس کے علاوہ ہم اُسے کلیسیا کے بزرگوں سے بات کرنے کا مشورہ بھی دے سکتے ہیں۔‏ (‏ططس ۲:‏۳،‏ ۴‏)‏ اس سلسلے میں کلیسیا کے بزرگ بہت اچھی مثال قائم کرتے ہیں۔‏ جب اُن کو ایک مسیحی بہن کے ساتھ کسی مسئلے پر بات کرنی ہوتی ہے تو وہ اُس سے ایک ایسی جگہ پر بات کرتے ہیں جہاں دوسرے لوگ بھی موجود ہوں جیسا کہ کنگڈم ہال میں۔‏

۸.‏ جس جگہ ہم ملازمت کرتے ہیں وہاں ہمیں کس بات سے ہوشیار رہنا چاہئے؟‏

۸ جہاں آپ ملازمت کرتے ہیں وہاں بھی ایسی باتوں سے ہوشیار رہیں جن سے ناجائز تعلقات قائم ہونے کا خطرہ ہو۔‏ مثال کے طور پر شاید آپ کام کے مقررہ وقت کے علاوہ بھی کسی مخالف جنس کارکُن کے ساتھ گھنٹوں تک اکیلے میں کام کرتے ہیں۔‏ ایسی صورتحال میں آپ دونوں میں بےتکلفی بڑھ سکتی ہے۔‏ یہ بات آپ کی شادی کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔‏ آپ شادی‌شُدہ ہیں اس لئے اپنے چال‌چلن اور بول‌چال سے صاف ظاہر کریں کہ آپ کو کسی غیر سے عشق لڑانے میں کوئی دلچسپی نہیں۔‏ آپ ایک دیندار شخص ہیں اس لئے آپ دوسروں کے ساتھ میٹھی میٹھی،‏ ذومعنی باتیں نہیں کریں گے۔‏ اس کے علاوہ آپ کے لباس اور آپ کی اداؤں سے بھی ظاہر ہونا چاہئے کہ آپ ایک شریف آدمی ہیں جو اپنے بیاہتا ساتھی کا وفادار رہنا چاہتا ہے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۴:‏۸؛‏ ۶:‏۱۱؛‏ ۱-‏پطرس ۳:‏۳،‏ ۴‏)‏ اپنی ملازمت کی جگہ پر اپنے بیاہتا ساتھی اور بچوں کی تصویریں لگائیں۔‏ ان تصویروں کو دیکھ کر آپ اپنے خاندان کے وفادار رہنے کے عزم پر مضبوط رہیں گے اور آپ کے ساتھی کارکنوں کو یاد رہے گا کہ آپ شادی‌شُدہ ہیں۔‏ جی‌ہاں،‏ اس بات کو ٹھان لیں کہ آپ کسی غیر کی عشق بھری باتوں پر نہ تو کان لگائیں گے اور نہ ہی ان کو برداشت کریں گے۔‏—‏ایوب ۳۱:‏۱‏۔‏

‏”‏اُس بیوی کے ساتھ جو تیری پیاری ہے“‏

۹.‏ اس سلسلے کی وضاحت کریں جس میں پڑ کر ایک شادی‌شُدہ شخص کسی غیر سے عشق کرنے لگتا ہے۔‏

۹ شادی کے معاملے میں اپنے دل کی حفاظت کرنے کیلئے یہ کافی نہیں کہ ہم خطرناک صورتحال سے بچے رہیں۔‏ کسی غیر شخص میں دلچسپی لینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیاہتا ساتھی ایک دوسرے کی ضروریات پوری نہیں کر رہے ہیں۔‏ مثال کے طور پر کیا ایک بیوی کو یہ احساس چبھ رہا ہے کہ اُس کا شوہر اُسے متواتر نظرانداز کرتا ہے؟‏ یا کیا ایک بیوی دن‌رات اپنے شوہر کی نکتہ‌چینی کرتی ہے جس کی وجہ سے وہ اُکتا گیا ہے؟‏ ایسی صورتحال میں شاید اُس کا کسی ایسے شخص سے واسطہ پڑے جو اُس کے نزدیک اُن تمام خوبیوں کا مالک ہو جس کی کمی اُسے اپنے بیاہتا ساتھی میں محسوس ہوتی ہے۔‏ یہ شخص کلیسیا کا ایک رُکن یا پھر اُس کا کوئی ساتھی کارکُن ہو سکتا ہے۔‏ جلد ہی وہ اس غیر شخص سے بےتکلف ہو کر دوستی بڑھاتا ہے۔‏ اُسے یہ شخص اپنے بیاہتا ساتھی سے کہیں زیادہ دلکش لگنے لگتا ہے۔‏ یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جس کا ذکر خدا کے کلام میں یوں کِیا گیا ہے:‏ ”‏ہر شخص اپنی ہی خواہشوں میں کھنچ کر اور پھنس کر آزمایا جاتا ہے۔‏“‏—‏یعقوب ۱:‏۱۴‏۔‏

۱۰.‏ میاں بیوی اپنے بندھن کو مضبوط کیسے بنا سکتے ہیں؟‏

۱۰ بیاہتا ساتھی ایک دوسرے سے پیار،‏ دوستی اور سہارے کی توقع رکھتے ہیں۔‏ ہمیں ان ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کسی غیر سے رُجوع نہیں کرنا چاہئے بلکہ اپنے شادی کے بندھن کو مضبوط بنانا چاہئے۔‏ ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزاریں تاکہ آپ ایک دوسرے کے قریب رہیں۔‏ اُن باتوں کی یاد تازہ کریں جن کی وجہ سے آپ نے اپنے بیاہتا ساتھی کو پسند کِیا تھا۔‏ اُن احساسات کو دوبارہ سے محسوس کریں جو آپ شروع شروع میں ایک دوسرے کے لئے رکھتے تھے۔‏ اُن خوشیوں کو یاد کریں جو آپ دونوں نے ملکر دیکھی ہیں۔‏ خدا سے دُعا کریں کہ وہ آپ کی کوششوں کو کامیاب کرے۔‏ زبورنویس داؤد کی طرح آپ بھی یہوواہ خدا سے دُعا کر سکتے ہیں کہ ”‏اَے خدا!‏ میرے اندر پاک دل پیدا کر اور میرے باطن میں ازسرِنو مستقیم روح ڈال۔‏“‏ (‏زبور ۵۱:‏۱۰‏)‏ اس بات کا پکا ارادہ کر لیں کہ آپ اپنی زندگی کے سب دن ”‏اُس بیوی کے ساتھ“‏ گزاریں گے ’‏جو آپ کی پیاری ہے۔‏‘‏—‏واعظ ۹:‏۹‏۔‏

۱۱.‏ شادی کے بندھن کو مضبوط بنانے میں علم،‏ حکمت اور فہم کیسے کام آ سکتے ہیں؟‏

۱۱ شادی کے بندھن کو مضبوط بنانے میں علم،‏ حکمت اور فہم بھی ہمارے کام آ سکتے ہیں۔‏ امثال ۲۴:‏۳،‏ ۴ میں لکھا ہے کہ ”‏حکمت سے گھر تعمیر کِیا جاتا ہے اور فہم سے اُس کو قیام ہوتا ہے۔‏ اور علم کے وسیلہ سے کوٹھریاں نفیس‌ولطیف مال سے معمور کی جاتی ہیں۔‏“‏ اس آیت میں جس نفیس مال کا ذکر ہے اس میں محبت،‏ ایمان،‏ وفا اور دینداری جیسی خوبیاں بھی شامل ہیں۔‏ یہ خوبیاں ایک خاندان کی خوشی کا باعث بنتی ہیں۔‏ ان کو خود میں پیدا کرنے کے لئے ہمیں خدا کے بارے میں علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔‏ اس وجہ سے شادی‌شُدہ جوڑوں کو خدا کے کلام پر غور کرنے کا دستور قائم کرنا چاہئے۔‏ لیکن شادی کے بندھن کو مضبوط کرنے میں حکمت اور فہم یعنی سمجھ‌داری ہمارے کام کیسے آ سکتے ہیں؟‏ روزمرہ کے مسئلوں سے نپٹنے کے لئے ہمیں اُس علم کو کام میں لانا پڑتا ہے جو ہم خدا کے کلام سے حاصل کرتے ہیں۔‏ اسی کو حکمت کہتے ہیں۔‏ اور ایک فہیم شخص اپنے بیاہتا ساتھی کے خیالات اور احساسات کو سمجھتا ہے۔‏ (‏امثال ۲۰:‏۵‏)‏ سلیمان نے خدا کے الہام سے کہا:‏ ”‏اَے میرے بیٹے!‏ میری حکمت پر توجہ کر۔‏ میرے فہم پر کان لگا۔‏“‏—‏امثال ۵:‏۱‏۔‏

‏”‏تکلیف“‏ سہتے وقت

۱۲.‏ شادی‌شُدہ جوڑوں کو مسئلوں کا سامنا کیوں ہوتا ہے؟‏

۱۲ خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ میاں بیوی ”‏تکلیف پائیں گے۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۷:‏۲۸‏)‏ جی‌ہاں،‏ ہر شادی میں مسئلے کھڑے ہوتے ہیں۔‏ پریشانی،‏ بیماری اور اذیت جیسی مصیبتوں کی وجہ سے شادی کے بندھن پر دباؤ پڑ سکتا ہے۔‏ ایسی صورتحال میں ان مسئلوں کو ملکر حل کریں۔‏ اس طرح آپ ایک دوسرے کے وفادار رہتے ہوئے یہوواہ خدا کی خوشنودی میں رہیں گے۔‏

۱۳.‏ میاں اور بیوی کو خود سے کونسے سوال پوچھنے چاہئیں؟‏

۱۳ کبھی‌کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ بیاہتا ساتھی جس طرح سے ایک دوسرے سے پیش آتے ہیں اُس سے اُن کے شادی کے بندھن پر دباؤ پڑتا ہے۔‏ مثال کے طور پر شاید وہ ایک دوسرے سے بدزبانی کرنے کی عادت میں پڑ گئے ہوں۔‏ (‏امثال ۱۲:‏۱۸‏)‏ جیسا کہ ہم نے پچھلے مضمون میں دیکھا تھا ایسا رویہ شادی کو برباد کر سکتا ہے۔‏ خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ ”‏بیابان میں رہنا جھگڑالو اور چڑچڑی بیوی کے ساتھ رہنے سے بہتر ہے۔‏“‏ (‏امثال ۲۱:‏۱۹‏)‏ اگر آپ ایک بیوی ہیں تو خود سے پوچھیں کہ کیا میرا مزاج چڑچڑا ہے جس کی وجہ سے میرا شوہر مجھ سے اُکتا گیا ہے؟‏ خدا کے کلام میں شوہروں کی یوں تاکید کی گئی ہے:‏ ”‏اَے شوہرو!‏ اپنی بیویوں سے محبت رکھو اور ان سے تلخ‌مزاجی نہ کرو۔‏“‏ (‏کلسیوں ۳:‏۱۹‏)‏ اگر آپ ایک شوہر ہیں تو خود سے پوچھیں کہ کیا مَیں اپنی بیوی کے ساتھ بےرُخی سے پیش آتا ہوں جس کی وجہ سے وہ کسی غیر مرد سے اپنے دل کی باتیں کرکے تسلی حاصل کرنے کے خطرے میں ہے؟‏ یہ مثالیں دے کر زِنا کرنے کا بہانہ پیش نہیں کِیا جا رہا ہے بلکہ اس بات کو واضح کِیا جا رہا ہے کہ بیاہتا ساتھی زِنا کے پھندے میں کیسے پھنس سکتے ہیں۔‏ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ میاں بیوی کو کُھل کر ایسے مسئلوں پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔‏

۱۴،‏ ۱۵.‏ کسی غیر مرد یا عورت سے عشق کرنے سے خوشی کیوں نہیں حاصل ہوتی؟‏

۱۴ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر وہ اپنی شادی میں خوش نہیں ہیں تو اُنہیں کسی غیر سے عشق کرنے سے خوشی حاصل ہوگی۔‏ لیکن ایسے تعلقات رکھنے کا انجام کیا ہوتا ہے؟‏ اگر وہ اپنے بیاہتا ساتھی کو چھوڑ کر اپنے عاشق سے شادی کریں گے تو کیا ایسی شادی واقعی کامیاب رہے گی؟‏ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کا عاشق اُن کی تمام ضروریات اور خواہشات پر پورا اُترتا ہے اس لئے اُن کی نئی شادی ضرور کامیاب ہوگی۔‏ لیکن ایسی سوچ خود کو دھوکا دینے کے برابر ہے۔‏ ایک شخص جو اپنے بیاہتا ساتھی کو چھوڑنے پر راضی ہے یا پھر جو آپ کو اپنے بیاہتا ساتھی کو چھوڑنے پر اُکساتا ہے،‏ وہ شادی کے بندھن کو ایک پاکیزہ اور پائیدار بندھن کے طور پر خیال نہیں کرتا۔‏ کیا آپ ایک ایسے شخص سے شادی کرکے واقعی خوش رہیں گے؟‏

۱۵ اس مضمون میں مریم نامی ایک مسیحی بہن کا ذکر ہو چکا ہے۔‏ مریم کو احساس ہوا کہ اگر اُس نے زِنا کِیا تو وہ خدا سے دُور ہو جائے گی۔‏ (‏گلتیوں ۶:‏۷‏)‏ مریم کہتی ہے:‏ ”‏مَیں نے اپنے شوہر کے ساتھی کارکُن کے بارے میں اپنے احساسات کو پرکھا اور سمجھ گئی کہ میری وجہ سے وہ خدا کے بارے میں جاننے کی بجائے خدا سے دُور ہو جائے گا۔‏ مَیں یہ بھی جان گئی کہ اگر ہم نے زِنا کِیا تو سب پر بُرا اثر پڑے گا اور لوگ ٹھوکر بھی کھائیں گے۔‏“‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۶:‏۳‏۔‏

خدا کی قربت کو عزیز رکھیں

۱۶.‏ زِنا کے کچھ اثرات کا ذکر کریں۔‏

۱۶ خدا کے کلام میں ہمیں یوں خبردار کِیا گیا ہے:‏ ”‏بیگانہ عورت کے ہونٹوں سے شہد ٹپکتا ہے اور اُس کا مُنہ تیل سے زیادہ چکنا ہے پر اُس کا انجام ناگدونے کی مانند تلخ اور دو دھاری تلوار کی مانند تیز ہے۔‏“‏ (‏امثال ۵:‏۳،‏ ۴‏)‏ جی‌ہاں،‏ زِنا کا پھل بہت تکلیف‌دہ ہوتا ہے،‏ یہاں تک کہ اس کا انجام موت بھی ہو سکتا ہے۔‏ جو شخص زِنا کرتا ہے اُس کا ضمیر اُسے ٹوکتا رہتا ہے۔‏ کسی غیر سے جنسی تعلقات رکھنے کی وجہ سے اُسے ایک سنگین بیماری بھی لگ سکتی ہے۔‏ اور اُس بیاہتا ساتھی کی ذہنی اور جذباتی تکلیف کا تصور کریں جس سے بےوفائی کی گئی ہو۔‏ ان تمام باتوں پر غور کرنے کے بعد کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہم ایک ایسی راہ پر قدم رکھنے سے ہی گریز کریں جو ہمیں زِنا کی طرف لے جاتی ہے؟‏

۱۷.‏ مسیحیوں کے لئے زِنا سے کنارہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے؟‏

۱۷ یہوواہ خدا جس نے مرد اور عورت کو شادی کرنے اور جنسی تعلقات رکھنے کی صلاحیت عطا کی ہے،‏ اُس نے زِنا کو سنگین گُناہ قرار دیا ہے۔‏ اپنے نبی ملاکی کے ذریعے یہوواہ خدا نے کہا:‏ ”‏مَیں عدالت کے لئے تمہارے نزدیک آؤں گا۔‏ .‏ .‏ .‏ اَور زِناکاروں .‏ .‏ .‏ کے خلاف مستعد گواہ ہوں گا۔‏“‏ (‏ملاکی ۳:‏۵‏،‏ کیتھولک ترجمہ‏)‏ امثال ۵:‏۲۱ میں یہوواہ خدا کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ”‏انسان کی راہیں [‏یہوواہ]‏ کی آنکھوں کے سامنے ہیں اور وہ اُس کے تمام رستوں کو دیکھتا ہے۔‏“‏ (‏کیتھولک ترجمہ‏)‏ جی‌ہاں،‏ یہوواہ خدا جس کے سامنے ہم سب جوابدہ ہیں اُس کی ”‏نظروں میں سب چیزیں کُھلی اور بےپردہ ہیں۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۴:‏۱۳‏)‏ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص اپنے زِنا کو لوگوں سے چھپانے میں کامیاب رہے۔‏ شاید وہ زِنا کرنے کے باوجود بھی ہنسی خوشی زندگی گزار رہا ہے اور اُس پر کوئی بُرا اثر نہیں پڑا۔‏ لیکن کیا وہ اس حرکت کو یہوواہ خدا سے چھپا سکتا ہے؟‏ ہمیں یہوواہ خدا کی قربت عزیز ہے اس لئے ہم کوئی ایسی حرکت نہیں کرنا چاہتے ہیں جس سے ہم اُس سے دُور ہونے کے خطرے میں پڑیں۔‏ زِنا سے کنارہ کرنے کی یہی سب سے بڑی وجہ ہے۔‏

۱۸،‏ ۱۹.‏ یوسف کی مثال سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۸ خدا کی قربت میں رہنے کی خواہش ایک ایسی زوردار خواہش ہے جو ہمیں بُرائی کرنے سے روکتی ہے۔‏ اس سلسلے میں ذرا یعقوب کے بیٹے یوسف کی مثال پر غور کریں۔‏ یوسف کا آقا فوطیفار نامی ایک مصری تھا۔‏ وہ فرعون کا ایک حاکم تھا۔‏ یوسف فوطیفار کی نظر میں مقبول ٹھہرا اور اُس نے اپنے گھر کا سب کچھ یوسف کو سونپ دیا۔‏ فوطیفار کی بیوی نے دیکھا کہ ”‏یوؔسف خوبصورت اور حسین تھا۔‏“‏ وہ روزانہ یوسف کو زِنا کرنے پر اُکساتی۔‏ لیکن یوسف ایسا کرنے سے اِنکار کرتا رہتا۔‏ وہ اپنے آقا کی بیوی کی بات میں پڑنے سے کیسے بچا رہا؟‏ خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ یوسف اپنے آقا کی بیوی کی بات پر یوں جواب دیتا:‏ ”‏دیکھ میرے آقا .‏ .‏ .‏ نے تیرے سوا کوئی چیز مجھ سے باز نہیں رکھی کیونکہ تُو اُس کی بیوی ہے سو بھلا مَیں کیوں اَیسی بڑی بدی کروں اور خدا کا گنہگار بنوں؟‏“‏—‏پیدایش ۳۹:‏۱-‏۱۲‏۔‏

۱۹ شادی‌شُدہ نہ ہونے کے باوجود یوسف نے اپنے آقا کی بیوی سے جنسی تعلقات قائم کرنے سے انکار کِیا۔‏ امثال ۵:‏۱۵ میں شادی‌شُدہ مردوں کی یوں تاکید کی گئی ہے:‏ ”‏تُو پانی اپنے ہی حوض سے اور بہتا پانی اپنے ہی چشمہ سے پینا۔‏“‏ شادی‌شُدہ لوگوں کو کسی غیر عورت یا مرد سے عشق کرنے سے خبردار رہنا چاہئے۔‏ میاں بیوی کو ایک دوسرے کے لئے اپنی محبت کو تازہ رکھنا اور اپنے بندھن کو مضبوط بنانا چاہئے۔‏ اور اگر شادی میں مسئلے کھڑے ہو بھی جائیں تو ان کو حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔‏ اس طرح آپ ’‏اپنی جوانی کی بیوی کے ساتھ شاد رہیں گے۔‏‘‏—‏امثال ۵:‏۱۸‏۔‏

آپ نے کیا سیکھا ہے؟‏

‏• ایک مسیحی کسی غیر کے ساتھ عشق کرنے کے پھندے میں کیسے پڑ سکتا ہے؟‏

‏• شادی‌شُدہ مسیحی کسی غیر کے ساتھ عشق کرنے سے کیسے خبردار رہ سکتے ہیں؟‏

‏• جب شادی میں مسئلے کھڑے ہوتے ہیں تو میاں بیوی کو کیا کرنا چاہئے؟‏

‏• مسیحیوں کے لئے زِنا سے کنارہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

افسوس کی بات ہے کہ آجکل لوگ اپنی ملازمت کی جگہ کو عشق بازی کا میدان سمجھنے لگے ہیں

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏

‏”‏علم کے وسیلہ سے کوٹھریاں نفیس‌ولطیف مال سے معمور کی جاتی ہیں“‏