مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏جاگتے رہو“‏ کیونکہ عدالت کا وقت آ پہنچا ہے!‏

‏”‏جاگتے رہو“‏ کیونکہ عدالت کا وقت آ پہنچا ہے!‏

‏”‏جاگتے رہو“‏ کیونکہ عدالت کا وقت آ پہنچا ہے!‏

مطالعے کے اس مضمون کی معلومات جاگتے رہو!‏ بروشر سے لی گئی ہے جو ۲۰۰۴/‏۲۰۰۵ میں منعقد ہونے والے ڈسٹرکٹ کنونشن پر ریلیز کِیا گیا تھا۔‏

‏”‏جاگتے رہو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ تمہارا خداوند کس دن آئے گا۔‏“‏—‏متی ۲۴:‏۴۲‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ یسوع نے اپنی آمد کو موزوں طور پر کس سے تشبِیہ دی؟‏

اگر آپکو معلوم ہو کہ ایک چور آپکے علاقے میں چوری کی واردات کرنے کیلئے موقع کی تلاش میں ہے تو آپ کیا کریں گے؟‏ کیا آپ اپنے عزیزوں اور اپنی قیمتی چیزوں کی حفاظت کیلئے چوکس اور ہوشیار نہیں ہو جائیں گے؟‏ یقیناً!‏ کیونکہ کوئی چور آپ کو اپنی آمد کی بابت خط لکھ کر مطلع نہیں کرے گا۔‏ وہ چپکے سے اور بِن‌بلائے ایسے وقت پر آئے گا جب آپ اسکی توقع بھی نہ کرتے ہوں گے۔‏

۲ یسوع مسیح نے کئی مواقع پر چور کی تمثیل استعمال کی۔‏ (‏لوقا ۱۰:‏۳۰؛‏ یوحنا ۱۰:‏۱۰‏)‏ آخری دنوں اور اسکی عدالت سے پہلے رُونما ہونے والے واقعات کے متعلق یسوع نے خبردار کِیا:‏ ”‏پس جاگتے رہو کیونکہ تُم نہیں جانتے کہ تمہارا خداوند کس دن آئے گا۔‏ لیکن یہ جان رکھو کہ اگر گھر کے مالک کو معلوم ہوتا کہ چور رات کے کون سے پہر آئے گا تو جاگتا رہتا اور اپنے گھر میں نقب نہ لگانے دیتا۔‏“‏ (‏متی ۲۴:‏۴۲،‏ ۴۳‏)‏ پس،‏ یسوع نے بھی اپنی آمد کو ایک چور کے بغیر بتائے آ جانے سے تشبِیہ دی یعنی جب لوگ اُمید بھی نہ کر رہے ہوں گے یسوع آ جائے گا۔‏

۳،‏ ۴.‏ (‏ا)‏ ہم یسوع کی اپنی آمد کی بابت دی جانے والی آگاہی پر دھیان کیسے دے سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ کونسے سوال پوچھنا مناسب ہے؟‏

۳ یہ تمثیل نہایت موزوں تھی کیونکہ یسوع کی آمد کی بالکل صحیح تاریخ کسی کو بھی پتہ نہیں ہوگی۔‏ اسی پیشینگوئی کے اُوپر والے الفاظ میں یسوع نے بیان کِیا:‏ ”‏اُس دن اور اُس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا۔‏ نہ آسمان کے فرشتے نہ بیٹا مگر صرف باپ۔‏“‏ (‏متی ۲۴:‏۳۶‏)‏ پس،‏ یسوع نے اپنے سننے والوں کو نصیحت کی:‏ ”‏تُم بھی تیار رہو۔‏“‏ (‏متی ۲۴:‏۴۴‏)‏ اس سے قطع‌نظر کہ یہوواہ کے نمائندے کے طور پر یسوع مسیح کب عدالت کرنے کیلئے آئے گا اسکی نصیحت پر دھیان دینے والے بالکل تیار ہوں گے۔‏

۴ اس سلسلے میں کچھ اہم سوال کھڑے ہوتے ہیں:‏ کیا یسوع کی آگاہی صرف دُنیا کے لوگوں کیلئے تھی؟‏ یا کیا مسیحیوں کو بھی ”‏جاگتے“‏ رہنے کی ضرورت ہے؟‏ ”‏جاگتے“‏ رہنا اتنا ضروری کیوں ہے؟‏ اور ہم کیسے جاگتے رہ سکتے ہیں؟‏

یہ آگاہی کن کیلئے ہے؟‏

۵.‏ ہم یہ کیسے جانتے ہیں کہ ”‏جاگتے“‏ رہنے کی آگاہی سچے مسیحیوں کیلئے ہے؟‏

۵ تباہی لوگوں کے سروں پر کھڑی ہے۔‏ انہیں آگاہی بھی دی جا رہی لیکن وہ اس پر کان نہیں دھرتے۔‏ لہٰذا،‏ یسوع کی آمد دُنیا کے لوگوں کیلئے چور کی مانند ہوگی۔‏ (‏۲-‏پطرس ۳:‏۳-‏۷‏)‏ تاہم،‏ سچے مسیحیوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟‏ پولس رسول نے مسیحیوں کو لکھا:‏ ”‏تُم آپ خوب جانتے ہو کہ خداوند کا دِن اِسطرح آنے والا ہے جسطرح رات کو چور آتا ہے۔‏“‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۵:‏۲‏)‏ ہمارے ذہنوں میں کسی قسم کا کوئی شُبہ نہیں ہے کہ ”‏خداوند کا دن .‏ .‏ .‏ آنے والا ہے۔‏“‏ کیا اسکا یہ مطلب ہے کہ ہمیں جاگتے رہنے کی ضرورت نہیں ہے؟‏ غور کریں کہ یسوع نے یہ بات اپنے شاگردوں سے کہی تھی:‏ ”‏جس گھڑی تمکو گمان بھی نہ ہوگا ابنِ‌آدم آ جائے گا۔‏“‏ (‏متی ۲۴:‏۴۴‏)‏ اس سے پہلے جب یسوع نے اپنے شاگردوں کو بادشاہت کی تلاش کرنے کی نصیحت کی تو اُس نے اُنہیں خبردار کِیا:‏ ”‏تُم بھی تیار رہو کیونکہ جس گھڑی تمہیں گمان بھی نہ ہوگا ابنِ‌آدم آ جائے گا۔‏“‏ (‏لوقا ۱۲:‏۳۱،‏ ۴۰‏)‏ پس،‏ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ جب یسوع نے خبردار کِیا کہ ”‏جاگتے رہو“‏ تو اُسکے ذہن میں اسکے شاگرد تھے۔‏

۶.‏ ہمیں ”‏جاگتے“‏ رہنے کی ضرورت کیوں ہے؟‏

۶ ہمیں ”‏جاگتے“‏ اور ”‏تیار“‏ رہنے کی ضرورت کیوں ہے؟‏ یسوع نے وضاحت کی:‏ ”‏اُس وقت دو آدمی کھیت میں ہوں گے ایک لے لیا جائے گا اور دوسرا چھوڑ دیا جائے گا۔‏ دو عورتیں چکی پیستی ہوں گی۔‏ ایک لے لی جائے گی اور دوسری چھوڑ دی جائے گی۔‏“‏ (‏متی ۲۴:‏۴۰،‏ ۴۱‏)‏ جب بیدین دُنیا تباہ ہوگی تو جو تیار ہوں گے وہ ”‏لے“‏ لئے یا بچا لئے جائیں گے۔‏ دیگر ”‏چھوڑ“‏ دئے جائیں گے کیونکہ وہ اپنے مفاد کے پیچھے بھاگ رہے ہوں گے۔‏ ان میں وہ اشخاص بھی شامل ہوں گے جو علم ہونے کے باوجود جاگتے نہ رہے۔‏

۷.‏ خاتمے کا صحیح وقت نہ جاننے سے ہمیں کیا ظاہر کرنے کا موقع ملتا ہے؟‏

۷ اس دُنیا کے خاتمے کا صحیح وقت نہ جاننے سے ہمیں یہ ظاہر کرنے کا موقع ملتا ہے کہ ہم سچے دل سے خدا کی خدمت کرتے رہیں۔‏ ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏ شاید ایسا لگے کہ خاتمہ آنے میں ابھی کافی دیر ہے۔‏ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض مسیحیوں نے ایسا ہی محسوس کِیا اور یہوواہ کی خدمت میں انکا جوش ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔‏ تاہم،‏ اپنی مخصوصیت پر ہم نے یہوواہ کی خدمت کرنے کے لئے خود کو پیش کرتے وقت کی کوئی شرط نہیں رکھی تھی۔‏ خداشناس لوگ جانتے ہیں کہ آخری وقت پر دکھایا جانے والا جوش کسی کام نہیں آئے گا۔‏ یہوواہ دلوں کو جانچتا ہے۔‏—‏۱-‏سموئیل ۱۶:‏۷‏۔‏

۸.‏ یہوواہ کی محبت ہمیں جاگتے رہنے کی تحریک کیسے دیتی ہے؟‏

۸ ہم خدا سے سچی محبت کرتے ہیں۔‏ اس وجہ سے ہم اسکی مرضی پوری کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔‏ (‏زبور ۴۰:‏۸؛‏ متی ۲۶:‏۳۹‏)‏ ہم ابد تک یہوواہ کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔‏ اگرچہ ہم نے اپنی توقع سے زیادہ انتظار کِیا ہے توبھی اس امکان کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔‏ ہمارے جاگتے رہنے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ہم بڑے اشتیاق کیساتھ اُس وقت کا انتظار کرتے ہیں جب یہوواہ کا دن اسکے مقصد کی تکمیل میں اہم کردار ادا کرے گا۔‏ خدا کو خوش کرنے کی ہماری دلی خواہش ہمیں خدا کے کلام پر عمل کرنے اور اپنی زندگی میں اسکی بادشاہت کو پہلا درجہ دینے کی تحریک دے گی۔‏ (‏متی ۶:‏۳۳؛‏ ۱-‏یوحنا ۵:‏۳‏)‏ آئیے اس بات پر غور کریں کہ جاگتے رہنا ہمارے فیصلوں اور زندگی گزارنے کے طریقوں پر کیسے اثرانداز ہوتا ہے۔‏

زندگی کے سفر میں آپکی منزل کیا ہے؟‏

۹.‏ لوگوں کو ہمارے زمانے میں اہم باتوں کیلئے جلد بیدار ہونے کی ضرورت کیوں ہے؟‏

۹ بہت سے لوگ اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ سنگین مسائل اور دہلا دینے والے واقعات روزمرّہ کا معمول بن گئے ہیں۔‏ وہ اپنی زندگی سے بھی خوش نہیں ہیں۔‏ تاہم،‏ کیا وہ واقعی جانتے ہیں کہ دُنیا کی ان حالتوں کا ہمارے لئے کیا مطلب ہے؟‏ کیا وہ اس بات کو پہچانتے ہیں کہ ہم ”‏دُنیا کے آخر“‏ میں رہ رہے ہیں؟‏ (‏متی ۲۴:‏۳‏)‏ کیا وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ خودغرض،‏ پُرتشدد یہانتک‌کہ بیدین رُجحانات ”‏اخیر زمانہ“‏ کا نشان ہیں؟‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱-‏۵‏)‏ انہیں ان باتوں کے سلسلے میں جلد بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔‏ انہیں اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ زندگی کے سفر میں انکی منزل کیا ہے؟‏

۱۰.‏ ہمیں ہمیشہ جاگتے اور بیدار رہنے کا یقین کیوں کر لینا چاہئے؟‏

۱۰ ہماری بابت کیا ہے؟‏ ہمیں ہر روز اپنی ملازمت،‏ اپنی صحت،‏ اپنے خاندان اور اپنی پرستش کے سلسلے میں فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔‏ ہم بائبل کی باتوں کو جانتے ہیں اور ان پر عمل کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔‏ لہٰذا،‏ ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے:‏ ”‏کیا زندگی کی فکروں نے مجھے میرے روحانی نشانوں سے ہٹا تو نہیں دیا؟‏ کیا مَیں انتخاب کرتے وقت دُنیاوی فیلسوفیوں یعنی اسکی سوچ کا سہارا تو نہیں لیتا؟‏“‏ (‏لوقا ۲۱:‏۳۴-‏۳۶؛‏ کلسیوں ۲:‏۸‏)‏ اپنی عقل پر بھروسا کرنے کی بجائے ہمیں ہر وقت یہوواہ پر توکل کرنا چاہئے۔‏ (‏امثال ۳:‏۵‏)‏ اسطرح ہم ”‏حقیقی زندگی پر قبضہ“‏ کریں گے۔‏ یہ حقیقی زندگی خدا کی نئی دُنیا میں ابدی زندگی ہے۔‏—‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۲،‏ ۱۹‏۔‏

۱۱-‏۱۳.‏ ہم نوح اور لوط کے دنوں کی مثالوں سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

۱۱ بائبل میں ایسی بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں جن سے ہمیں عبرت حاصل کرنی چاہئے۔‏ یہ جاگتے رہنے میں ہماری مدد کرتی ہیں۔‏ غور کریں کہ نوح کے دنوں میں کیا ہوا تھا۔‏ خدا نے وقت سے بہت پہلے ہی آگاہی دے دی تھی۔‏ لیکن نوح اور اُسکے خاندان کے علاوہ کسی نے دھیان نہیں دیا۔‏ (‏۲-‏پطرس ۲:‏۵‏)‏ یسوع نے اسکے متعلق بیان کِیا:‏ ”‏جیسا نوؔح کے دنوں میں ہوا ویسا ہی ابنِ‌آدم کے آنے کے وقت ہوگا۔‏ کیونکہ جسطرح طوفان سے پہلے کے دنوں میں لوگ کھاتے پیتے اور بیاہ شادی کرتے تھے اُس دن تک کہ نوؔح کشتی میں داخل ہوا۔‏ اور جب تک طوفان آ کر اُن سب کو بہا نہ لے گیا اُنکو خبر نہ ہوئی اُسی طرح ابنِ‌آدم کا آنا ہوگا۔‏“‏ (‏متی ۲۴:‏۳۷-‏۳۹‏)‏ ہم اس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ اگر دُنیا کی فکریں یہانتک کہ زندگی کے روزمرّہ کے کام بھی اُن روحانی کاموں کی جگہ لے لیتے ہیں جنہیں ہمارا خدا زندگی میں پہلا درجہ دینے کا حکم دیتا ہے تو ہمیں اپنی صورتحال پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔‏—‏رومیوں ۱۴:‏۱۷‏۔‏

۱۲ لوط کے دنوں پر غور کریں۔‏ لوط اور اُسکا خاندان سدوم کے شہر میں رہتا تھا۔‏ یہ شہر مادی لحاظ سے خوشحال اور اخلاقی لحاظ سے تباہ‌حال تھا۔‏ یہوواہ نے اس علاقے کو برباد کرنے کیلئے اپنے فرشتوں کو بھیجا۔‏ فرشتوں نے لوط اور اسکے خاندان کو شہر سے بھاگ جانے کی نصیحت کی اور کہا کہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں۔‏ فرشتوں کے ہمت دلانے پر اُنہوں نے شہر چھوڑ دیا۔‏ لوط کی بیوی کو سدوم میں اپنے گھر کی یاد بہت ستا رہی تھی۔‏ اس نے نافرمانی کی اور پیچھے مڑ کر دیکھ لیا۔‏ یوں وہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔‏ (‏پیدایش ۱۹:‏۱۵-‏۲۶‏)‏ یسوع نے آنے والے وقت کی بابت یہ کہتے ہوئے خبردار کِیا:‏ ”‏لوؔط کی بیوی کو یاد رکھو۔‏“‏ کیا ہم لوط کی بیوی کی طرح پیچھے مڑکر تو نہیں دیکھ رہے ہیں؟‏—‏لوقا ۱۷:‏۳۲‏۔‏

۱۳ جو لوگ خدا کی آگاہی پر دھیان دیتے ہیں وہ بچ جاتے ہیں۔‏ یہ بات نوح اور اسکے خاندان اور لوط اور اسکی بیٹیوں کے سلسلے میں سچ ثابت ہوئی۔‏ (‏۲-‏پطرس ۲:‏۹‏)‏ جب ہم ان آگاہیوں پر دھیان دیتے ہیں تو راستبازی سے محبت رکھنے والوں کیلئے ان آگاہیوں میں پائے جانے والے نجات کے پیغام سے ہماری حوصلہ‌افزائی ہوتی ہے۔‏ اس سے ”‏نئے آسمان اور نئی زمین“‏ کے خدا کے وعدے پر ہماری اُمید پُختہ ہوتی ہے ”‏جن میں راستبازی بسی رہے گی۔‏“‏—‏۲-‏پطرس ۳:‏۱۳‏۔‏

عدالت کا وقت آ پہنچا ہے!‏

۱۴،‏ ۱۵.‏ (‏ا)‏ عدالت کے ”‏وقت“‏ میں کیا کچھ شامل ہے؟‏ (‏ب)‏ خدا سے ڈرنے اور اُسکی تمجید کرنے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

۱۴ جب ہم جاگتے رہتے ہیں تو ہم کس بات کی توقع کر سکتے ہیں؟‏ مکاشفہ کی کتاب خدا کے مقصد کی تکمیل میں سلسلہ‌وار اقدام کے بارے میں بیان کرتی ہے۔‏ اگر ہم تیار رہنا چاہتے ہیں تو جوکچھ یہ بیان کرتی ہے اس پر عمل کرنا اہم ہے۔‏ پیشینگوئی ”‏خداوند کے دن“‏ میں رُونما ہونے والے واقعات کو واضح طور پر بیان کرتی ہے۔‏ سن ۱۹۱۴ میں ”‏خداوند کا دن“‏ شروع ہوا تھا۔‏ اُس وقت یسوع مسیح آسمان پر تخت‌نشین ہوا۔‏ (‏مکاشفہ ۱:‏۱۰‏)‏ مکاشفہ کی کتاب ہماری توجہ فرشتے کی بات پر دلاتی ہے جسکے پاس ”‏سنانے کیلئے ابدی خوشخبری تھی۔‏“‏ وہ بلند آواز کیساتھ اعلان کرتا ہے:‏ ”‏خدا سے ڈرو اور اُسکی تمجید کرو کیونکہ اُسکی عدالت کا وقت آ پہنچا ہے۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۱۴:‏۶،‏ ۷‏)‏ عدالت کا وقت ایک مختصر وقت ہے۔‏ اس میں اُن فیصلوں کا اعلان اور تعمیل شامل ہے جسے اس پیشینگوئی میں بیان کِیا گیا ہے۔‏ اب ہم اس وقت میں رہ رہے ہیں۔‏

۱۵ عدالت کا وقت ختم ہونے سے پہلے،‏ ہمیں تاکید کی گئی:‏ ”‏خدا سے ڈرو اور اُسکی تمجید کرو۔‏“‏ اس میں کیا کچھ شامل ہے؟‏ خدا کا خوف مانکر ہمیں بدی سے باز رہنا چاہئے۔‏ (‏امثال ۸:‏۱۳‏)‏ اگر ہم خدا کو جلال دیں تو ہم بڑے احترام کیساتھ اسکی بات سنیں گے۔‏ ہم دوسرے کاموں میں اسقدر مگن نہیں ہو جائیں گے کہ ہمیں اُسکے کلام بائبل کو باقاعدگی کیساتھ پڑھنے کا وقت ہی نہ ملے۔‏ ہم مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہونے کی مشورت کو بھی اہم خیال کریں گے۔‏ (‏عبرانیوں ۱۰:‏۲۴،‏ ۲۵‏)‏ ہم خدا کی بادشاہت کا اعلان کرنے کو ایک اعزاز خیال کریں گے اور سرگرمی کیساتھ ایسا کریں گے۔‏ ہم ہر وقت اپنے سارے دل سے یہوواہ پر توکل کریں گے۔‏ (‏زبور ۶۲:‏۸‏)‏ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہوواہ کائنات کا حاکم ہے اسلئے ہم اپنی زندگی کے حاکم کے طور پر خوشی کیساتھ اُسکی اطاعت کرتے ہیں۔‏ کیا آپ خدا سے ڈرتے اور ان تمام طریقوں سے اُسکی تمجید کرتے ہیں؟‏

۱۶.‏ ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ مکاشفہ ۱۴:‏۸ میں بڑے بابل کے خلاف بیان کی جانے والی عدالت ہو چکی ہے؟‏

۱۶ مکاشفہ کی کتاب کا ۱۴ باب آگے چل کر مزید واقعات بیان کرتا ہے جو عدالت کے وقت میں رُونما ہوتے ہیں۔‏ سب سے پہلے بڑے بابل کا ذکر کِیا گیا ہے۔‏ یہ جھوٹے مذہب کی عالمی مملکت ہے۔‏ ”‏اِسکے بعد ایک اَور دوسرا فرشتہ یہ کہتا ہوا آیا کہ گِر پڑا۔‏ وہ بڑا شہر بابلؔ گر پڑا۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۱۴:‏۸‏)‏ جی‌ہاں،‏ خدا کی نظر میں بڑا بابل پہلے ہی گر چکا ہے۔‏ سن ۱۹۱۹ میں یہوواہ کے ممسوح خادموں کو اُن بابلی عقائد اور کاموں سے آزاد کرایا گیا جن میں صدیوں سے لوگ اور قومیں مگن ہیں۔‏ (‏مکاشفہ ۱۷:‏۱،‏ ۱۵‏)‏ لہٰذا اب سے وہ سچی پرستش کو فروغ دینے کیلئے خود کو وقف کر سکتے ہیں۔‏ خدا کی بادشاہت کی خوشخبری کی منادی اُسوقت سے ساری دُنیا میں ہو رہی ہے۔‏—‏متی ۲۴:‏۱۴‏۔‏

۱۷.‏ بڑے بابل سے نکلنے کے لئے ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟‏

۱۷ بڑے بابل کے خلاف عدالت میں کچھ اَور باتیں بھی شامل ہیں۔‏ اسکی آخری تباہی جلد ہوگی۔‏ (‏مکاشفہ ۱۸:‏۲۱‏)‏ اسلئے بائبل لوگوں کو تاکید کرتی ہے:‏ ”‏اُس [‏بڑے بابل]‏ میں سے نکل آؤ تاکہ تُم اُسکے گناہوں میں شریک نہ ہو۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۱۸:‏۴،‏ ۵‏)‏ ہم بڑے بابل سے کیسے نکلتے ہیں؟‏ اس میں صرف جھوٹے مذہب سے قطع‌تعلق کر لینا کافی نہیں۔‏ بابلی اثر مقبولِ‌عام تقریبات اور رسومات میں پایا جاتا ہے۔‏ یہ اثر دُنیا کی بداخلاقی اور ایسی تفریح میں بھی پایا جاتا ہے جو ارواح‌پرستی کو فروغ دیتی ہے۔‏ جاگتے رہنے کا یہ مطلب ہے کہ ہم اپنے کاموں اور دل کی خواہشات سے اس بات کا ثبوت دیں کہ ہم واقعی ہر لحاظ سے بڑے بابل سے جُدا ہیں۔‏

۱۸.‏ مکاشفہ ۱۴:‏۹،‏ ۱۰ میں پائے جانے والے بیان کے پیشِ‌نظر مسیحی کس بات سے محتاط رہتے ہیں؟‏

۱۸ مکاشفہ ۱۴:‏۹،‏ ۱۰ میں عدالت کے وقت کے ایک اَور پہلو پر بات کی گئی ہے۔‏ ایک اَور فرشتہ کہتا ہے:‏ ”‏جو کوئی اُس حیوان اور اُسکے بُت کی پرستش کرے اور اپنے ماتھے یا اپنے ہاتھ پر اُسکی چھاپ لے لے۔‏ وہ خدا کے قہر کی اُس خالص مے کو پئے گا۔‏“‏ کیوں؟‏ ”‏حیوان اور اُسکا بُت“‏ انسانی حکومتوں کی علامت ہیں۔‏ یہ انسانی حکومتیں یہوواہ کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتیں۔‏ ہوشیار مسیحی اس سلسلے میں خبردار رہتے ہیں کہ کہیں اپنے کاموں یا رُجحان سے حیوان اور اُسکے بُت کا نشان لیکر ان لوگوں میں شامل نہ ہو جائیں جو سچے خدا یہوواہ کی اعلیٰ‌ترین حاکمیت کو تسلیم نہ کرنے سے سزا پائیں گے۔‏ مسیحی جانتے ہیں کہ خدا کی بادشاہت پہلے ہی سے آسمان میں قائم ہو چکی ہے جو انسانی حکومتوں کو نیست کرکے ابد تک قائم رہے گی۔‏—‏دانی‌ایل ۲:‏۴۴‏۔‏

وقت کی نزاکت کو کبھی نہ بھولیں!‏

۱۹،‏ ۲۰.‏ (‏ا)‏ جوں جوں ہم خاتمے کے نزدیک جا رہے ہیں شیطان کیا کرنے کی کوشش کرے گا؟‏ (‏ب)‏ ہمیں کیا کرنے کا عزم کرنا چاہئے؟‏

۱۹ جوں جوں ہم خاتمے کے نزدیک جا رہے ہیں دباؤ اور آزمائشیں بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔‏ جبتک ہم اس فرسودہ نظام میں زندہ ہیں ہمیں اپنی ناکاملیت کے باعث خراب صحت،‏ بڑھاپے اور عزیزوں کی موت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‏ ہمارے جذبات کو بھی ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔‏ جب ہم بڑی کوشش کرکے خدا کے کلام کی منادی کرتے ہیں تو لوگوں کی بےحسی ہمیں مایوس کر سکتی ہے۔‏ اس بات کو کبھی نہ بھولیں کہ اس دباؤ سے فائدہ اُٹھا کر شیطان ہماری ہمت توڑنا چاہتا ہے۔‏ وہ چاہتا ہے کہ ہم بےحوصلہ ہوکر منادی بند کر دیں یا خدا کے معیاروں کے مطابق زندگی بسر کرنا چھوڑ دیں۔‏ (‏افسیوں ۶:‏۱۱-‏۱۳‏)‏ پس ہمیں ان آخری دنوں میں رہتے ہوئے وقت کی نزاکت کو یاد رکھنا چاہئے!‏

۲۰ یسوع جانتا تھا کہ ہمیں حوصلہ‌شکنی کا سامنا کرنا پڑے گا اسلئے اُس نے مشورہ دیا:‏ ”‏جاگتے رہو کیونکہ تُم نہیں جانتے کہ تمہارا خداوند کس دن آئے گا۔‏“‏ (‏متی ۲۴:‏۴۲‏)‏ پس ہم وقت کے جس دھارے میں ہیں اس میں ہمیں اَور بھی زیادہ چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔‏ پس آئیے شیطان کے ہتھکنڈوں سے خبردار رہیں جو ہمیں سچائی میں سُست کر سکتے یا سچائی چھوڑنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔‏ آئیے یہ عہد کریں کہ ہم خدا کی بادشاہت کی خوشخبری کی منادی اَور زیادہ جوش اور ولولے کیساتھ کرتے رہیں۔‏ یسوع کی اس آگاہی پر دھیان دیتے ہوئے وقت کی نزاکت کو مت بھولیں:‏ ”‏جاگتے رہو۔‏“‏ ایسا کرنے سے ہم یہوواہ کو جلال دیں گے اور ابدی برکات حاصل کریں گے۔‏

آپ کیسے جواب دیں گے؟‏

‏• ہم یہ کیسے جانتے ہیں کہ ”‏جاگتے رہو“‏ کی یسوع کی آگاہی سچے مسیحیوں پر عائد ہوتی ہے؟‏

‏• ”‏جاگتے“‏ رہنے کے سلسلے میں بائبل کی کونسی عبرتناک مثالیں ہماری مدد کر سکتی ہیں؟‏

‏• عدالت کا وقت کیا ہے اور اسکے ختم ہونے سے پہلے ہمیں کیا کرنے کی تاکید کی گئی ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

یسوع نے اپنی آمد کو ایک چور سے تشبِیہ دی

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

بڑے بابل کی تباہی نزدیک ہے

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویریں]‏

آئیے اَور زیادہ جوش‌وولولے کیساتھ منادی کریں