یوحنا 10‏:1‏-‏42

  • چرواہا اور بھیڑخانے (‏1-‏21‏)‏

    • یسوع اچھے چرواہے ہیں (‏11-‏15‏)‏

    • ‏”‏میری اَور بھی بھیڑیں ہیں“‏ (‏16‏)‏

  • عیدِتقدیس پر یہودی یسوع کو گھیر لیتے ہیں (‏22-‏39‏)‏

    • بہت سے یہودی یسوع پر یقین نہیں کرتے (‏24-‏26‏)‏

    • ‏”‏میری بھیڑیں میری آواز سنتی ہیں“‏ (‏27‏)‏

    • باپ اور بیٹا متحد ہیں (‏30‏،‏ 38‏)‏

  • دریائے‌اُردن کے پار بہت سے لوگ ایمان لاتے ہیں (‏40-‏42‏)‏

10  یسوع نے کہا:‏ ”‏مَیں آپ سے بالکل سچ کہتا ہوں کہ جو شخص بھیڑخانے میں دروازے سے داخل نہیں ہوتا بلکہ کہیں اَور سے چڑھ کر آتا ہے، وہ چور اور ڈاکو ہے۔ 2  لیکن جو دروازے سے اندر آتا ہے، وہ بھیڑوں کا چرواہا ہے۔ 3  چوکیدار اُس کے لیے دروازہ کھولتا ہے اور بھیڑیں اُس کی آواز سنتی ہیں۔ وہ اپنی بھیڑوں کو نام سے بلا‌تا ہے اور اُنہیں باہر نکالتا ہے۔ 4  جب وہ اپنی سب بھیڑوں کو نکال لیتا ہے تو وہ اُن کے آگے آگے چلتا ہے اور بھیڑیں اُس کے پیچھے پیچھے جاتی ہیں کیونکہ وہ اُس کی آواز پہچانتی ہیں۔ 5  وہ کسی اجنبی کے پیچھے بالکل نہیں جاتیں بلکہ اُس سے بھاگتی ہیں کیونکہ وہ اجنبیوں کی آواز نہیں پہچانتیں۔“‏ 6  یسوع نے اُنہیں یہ مثال دی لیکن اُن لوگوں کو اُن کی بات سمجھ نہیں آئی۔‏ 7  لہٰذا یسوع نے دوبارہ کہا:‏ ”‏مَیں آپ سے بالکل سچ کہتا ہوں کہ مَیں بھیڑوں کے لیے دروازہ ہوں۔ 8  جو لوگ میری جگہ آئے ہیں، وہ سب چور اور ڈاکو ہیں۔ لیکن بھیڑوں نے اُن کی نہیں سنی۔ 9  مَیں دروازہ ہوں۔ جو کوئی مجھ سے داخل ہوتا ہے، وہ نجات پائے گا اور اندر جائے گا اور باہر آئے گا اور اُسے چراگاہیں ملیں گی۔ 10  چور صرف چوری کرنے، مار ڈالنے اور تباہ کرنے کے لیے آتا ہے۔ لیکن مَیں اِس لیے آیا ہوں کہ بھیڑوں کو زندگی ملے بلکہ کثرت سے ملے۔ 11  مَیں اچھا چرواہا ہوں۔ اچھا چرواہا بھیڑوں کے لیے اپنی جان دے دیتا ہے۔ 12  جس آدمی کو بھیڑوں کی دیکھ‌بھال کے لیے دیہاڑی پر رکھا جاتا ہے، وہ نہ تو چرواہا ہوتا ہے اور نہ ہی بھیڑوں کا مالک۔ اِس لیے جب وہ بھیڑیے کو آتے دیکھتا ہے تو بھیڑوں کو چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔ پھر بھیڑیا بھیڑوں کو چیر پھاڑ دیتا ہے اور گلّے کو بکھیر دیتا ہے۔ 13  وہ آدمی اِس لیے بھیڑوں کو چھوڑ دیتا ہے کیونکہ وہ دیہاڑی پر کام کرتا ہے اور اُس کو بھیڑوں کی فکر نہیں ہوتی۔ 14  مَیں اچھا چرواہا ہوں۔ مَیں اپنی بھیڑوں کو جانتا ہوں اور میری بھیڑیں مجھے جانتی ہیں، 15  بالکل ویسے ہی جیسے باپ مجھے جانتا ہے اور مَیں باپ کو جانتا ہوں۔ مَیں بھیڑوں کے لیے اپنی جان دیتا ہوں۔‏ 16  میری اَور بھی بھیڑیں ہیں جو اِس بھیڑخانے کی نہیں ہیں۔ لازمی ہے کہ مَیں اُن کو بھی اندر لاؤں۔ وہ میری آواز سنیں گی اور میری سب بھیڑیں ایک گلّہ بن جائیں گی اور اُن کا ایک چرواہا ہوگا۔ 17  میرا باپ اِس لیے مجھ سے محبت کرتا ہے کیونکہ مَیں اپنی جان دیتا ہوں تاکہ اِسے دوبارہ حاصل کروں۔ 18  مَیں اپنی مرضی سے اِسے دیتا ہوں۔ کوئی شخص اِسے مجھ سے چھین نہیں سکتا۔ مجھے اپنی جان دینے اور اِسے دوبارہ حاصل کرنے کا اِختیار ہے۔ یہ حکم مجھے اپنے باپ سے ملا ہے۔“‏ 19  اِن باتوں کو سُن کر ایک بار پھر یہودیوں میں اِختلاف پیدا ہو گیا۔ 20  اُن میں سے بہت سے کہنے لگے:‏ ”‏اِس میں کوئی بُرا فرشتہ گھسا ہوا ہے۔ اِس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ تُم لوگ اِس کی باتیں کیوں سُن رہے ہو؟“‏ 21  دوسروں نے کہا:‏ ”‏کیا ایسا شخص جس میں بُرا فرشتہ ہو، ایسی باتیں کہہ سکتا ہے؟ ایک بُرا فرشتہ تو اندھوں کی آنکھیں ٹھیک نہیں کر سکتا نا؟“‏ 22  اُس وقت یروشلیم میں عیدِتقدیس منائی جا رہی تھی۔ یہ سردیوں کا موسم تھا 23  اور یسوع ہیکل*‏ میں سلیمان کے برآمدے میں ٹہل رہے تھے۔ 24  یہودیوں نے اُنہیں گھیر لیا اور کہنے لگے:‏ ”‏تُم کب تک ہمیں*‏ اُلجھن میں رکھو گے؟ اگر تُم مسیح ہو تو صاف صاف کیوں نہیں کہتے؟“‏ 25  یسوع نے جواب دیا:‏ ”‏مَیں آپ کو بتا چُکا ہوں لیکن آپ نے میری بات کا یقین نہیں کِیا۔ جو کام مَیں اپنے باپ کے نام سے کرتا ہوں، وہ میرے بارے میں گواہی دیتے ہیں۔ 26  لیکن آپ یقین نہیں کرتے کیونکہ آپ میری بھیڑیں نہیں ہیں۔ 27  میری بھیڑیں میری آواز سنتی ہیں اور میرے پیچھے چلتی ہیں۔ مَیں اُن کو جانتا ہوں 28  اور اُنہیں ہمیشہ کی زندگی دیتا ہوں۔ وہ ہرگز کبھی ہلاک نہیں ہوں گی اور کوئی اُنہیں میرے ہاتھ سے نہیں چھینے گا۔ 29  اُنہیں میرے باپ نے مجھے دیا ہے اور وہ دوسری تمام چیزوں سے زیادہ اہم ہیں۔ کوئی بھی اُنہیں میرے باپ کے ہاتھ سے نہیں چھین سکتا۔ 30  مَیں اور میرا باپ ایک*‏ ہیں۔“‏ 31  ایک بار پھر یہودیوں نے یسوع کو سنگسار کرنے کے لیے پتھر اُٹھا لیے۔ 32  یسوع نے اُن سے کہا:‏ ”‏مَیں نے آپ کے سامنے باپ کی طرف سے بہت سے اچھے کام کیے ہیں۔ آپ اِن میں سے کس کام کی وجہ سے مجھے سنگسار کرنا چاہتے ہیں؟“‏ 33  یہودیوں نے جواب دیا:‏ ”‏ہم تمہیں اِس لیے سنگسار نہیں کر رہے کہ تُم نے کوئی اچھا کام کِیا ہے بلکہ اِس لیے کہ تُم نے کفر بکا ہے۔ کیونکہ تُم اِنسان ہو کر خود کو خدا کہتے ہو۔“‏ 34  یسوع نے اُن سے کہا:‏ ”‏کیا آپ کی شریعت میں نہیں لکھا کہ ”‏مَیں نے کہا:‏ ”‏تُم لوگ خدا*‏ ہو“‏ “‏؟ 35  خدا نے اِس صحیفے میں ایسے لوگوں کو ”‏خدا“‏ کہا جن کو اُس نے قصوروار ٹھہرایا اور صحیفوں کو غلط ثابت نہیں کِیا جا سکتا۔ 36  اور مَیں تو وہ شخص ہوں جسے خدا نے مخصوص کِیا اور دُنیا میں بھیجا۔ پھر بھی آپ لوگ کہہ رہے ہیں کہ مَیں نے کفر بکا ہے کیونکہ مَیں نے کہا ہے کہ ”‏مَیں خدا کا بیٹا ہوں۔“‏ 37  اگر مَیں اپنے باپ کے کام نہیں کر رہا تو میرا یقین نہ کریں۔ 38  لیکن اگر مَیں اُس کے کام کر رہا ہوں تو بھلے آپ میرا یقین نہ کریں، مگر اِن کاموں کا تو یقین کریں تاکہ آپ جان لیں اور آئندہ بھی جانتے رہیں کہ باپ میرے ساتھ متحد ہے اور مَیں باپ کے ساتھ متحد ہوں۔“‏ 39  اِس پر اُنہوں نے دوبارہ سے یسوع کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ اُن کے ہاتھ نہیں آئے۔‏ 40  پھر یسوع دریائے‌اُردن کے پار اُس جگہ گئے جہاں یوحنا شروع شروع میں بپتسمہ دیتے تھے اور وہیں رہے۔ 41  بہت سے لوگ وہاں آئے اور کہنے لگے:‏ ”‏یوحنا نے کوئی معجزہ تو نہیں کِیا لیکن اُنہوں نے اِس آدمی کے بارے میں جو کچھ کہا، وہ سچ تھا۔“‏ 42  اور اُس جگہ بہت سے لوگ یسوع پر ایمان لے آئے۔‏

فٹ‌ نوٹس

یعنی خدا کا گھر
یونانی میں:‏ ”‏ہماری جانوں کو“‏
یا ”‏متحد“‏
یا ”‏خدا کی طرح“‏