مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آپکے خیال میں کیا آپکو غلط سمجھا گیا ہے؟‏

آپکے خیال میں کیا آپکو غلط سمجھا گیا ہے؟‏

آپکے خیال میں کیا آپکو غلط سمجھا گیا ہے؟‏

انٹونیو پریشان رہتا تھا۔‏ اچانک اور کسی وضاحت کے بغیر اس کے عزیز دوست لیونارڈو نے اُس کے ساتھ بےرُخی برتنا شروع کر دی تھی۔‏ * اکثراوقات انٹونیو کے سلام کا جواب بھی نہیں دیا جاتا تھا اور جب بھی وہ دونوں ایک دوسرے کیساتھ ہوتے تو ایسا لگتا تھا کہ اُنکی دوستی میں کوئی دیوار حائل ہو گئی ہے۔‏ انٹونیو ڈرنے لگا کہ اُسکے دوست کو اُسکے کسی قول‌وفعل سے ضرور کوئی غلط‌فہمی ہوئی ہے۔‏ مگر یہ کیا ہو سکتا ہے؟‏

غلط‌فہمیاں عام ہیں۔‏ بعض معمولی ہونے کی وجہ سے آسانی سے درست کی جا سکتی ہیں۔‏ دیگر زیادہ مایوس‌کُن ہو سکتی ہیں بالخصوص اس وقت جب یہ غلط تاثرات دُور کر دینے کی تمام‌تر کوششوں کے باوجود قائم رہتی ہیں۔‏ غلط‌فہمیاں کیوں پیدا ہو جاتی ہیں؟‏ غلط‌فہمی کا شکار لوگ کیسے متاثر ہوتے ہیں؟‏ اگر دوسرے آپ کے کسی فعل سے غلط‌فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟‏ تاہم کیا اس سے واقعی کوئی فرق پڑتا ہے کہ دوسرے آپ کی بابت کیا سوچتے ہیں؟‏

ایک ناگزیر حقیقت

چونکہ دوسرے لوگ ہمارے خیالات اور اغراض‌ومقاصد کو نہیں پڑھ سکتے لہٰذا،‏ جلد یا بدیر کوئی نہ کوئی ہمارے قول‌وفعل کا غلط مطلب نکال سکتا ہے۔‏ غلط‌فہمیوں کا بہت زیادہ امکان ہے۔‏ بعض‌اوقات،‏ ہم واضح اور درست طریقے سے اپنے خیالات کا اظہار کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔‏ اردگرد ہونے والا شور اور توجہ منتشر کرنے والی دیگر باتیں دوسروں کیلئے ہماری بات پر توجہ دینے کو مشکل بنا سکتی ہیں۔‏

مخصوص طورطریقے بھی اکثر غلط مطلب اخذ کرنے کا سبب بنتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر کسی شرمیلے شخص کی بابت سردمہر،‏ بےاعتنا یا مغرور ہونے کی غلط‌فہمی ہو سکتی ہے۔‏ بعض حالات میں ماضی کے ذاتی تجربات مثبت کی بجائے منفی اثرات پیدا کر سکتے ہیں۔‏ ثقافتی اور لسانی اختلافات کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کا ایک دوسرے کو سمجھنا آسان نہیں ہوتا۔‏ اگر اس میں غلط‌بیانی اور فضول‌گوئی کو بھی شامل کر لیا جائے تو ہمیں اِس بات سے حیران نہیں ہونا چاہئے کہ بعض‌اوقات کسی کے قول‌وفعل کا جو مطلب لیا جاتا ہے اُسکا مطلب ہرگز وہ نہیں ہوتا۔‏ بیشک جو لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ انکے اغراض‌ومقاصد کو غلط مطلب دیا گیا ہے اُن کیلئے یہ کسی بھی طرح اطمینان کا باعث نہیں ہوتا۔‏

مثال کے طور پر،‏ اینا نے اپنی ایک سہیلی کی غیرموجودگی میں اُسکی مقبولیت کی بابت مذاق میں کچھ کہہ دیا۔‏ لہٰذا جب ایک دوسرے موقع پر اس مذاق کو ایک مختلف پیرائے میں دہرایا گیا تو اینا کو یہ دیکھ کر سخت حیرت اور مایوسی ہوئی کہ اُسکی سہیلی نے کئی لوگوں کے سامنے غصے سے اس پر یہ الزام لگایا کہ وہ ایک لڑکے کیساتھ اُسکی دوستی سے جلتی ہے۔‏ اینا کے مذاق کو بالکل غلط معنی دے دئے گئے تھے اور اپنی سہیلی کو یہ یقین دلانے کی تمام کوششیں لاحاصل ثابت ہوئیں کہ اس کا مقصد ہرگز اسے نقصان پہنچانا نہیں تھا۔‏ یہ صورتحال اینا کے لئے بڑے دکھ کا باعث بنی اور اس غلط‌فہمی کو مکمل طور پر دُور کرنے میں اُسے بہت وقت لگا۔‏

دوسرے آپکی بابت کیا رائے قائم کرتے ہیں اسکا انحصار اکثر آپ کے ارادوں کی بابت ان کی سمجھ پر ہوتا ہے۔‏ لہٰذا جب لوگ آپ کے محرک کو غلط معنی دیتے ہیں تو بُرا محسوس کرنا قدرتی بات ہے۔‏ آپ برہم ہو کر سوچ سکتے ہیں کہ کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ کسی وجہ کے بغیر آپ کو غلط سمجھے۔‏ جب آپ غیرمنصفانہ جائزہ لینے والوں کی رائے پر غور کرتے ہیں تو آپ کے نزدیک ایسے اندازے تعصب،‏ نکتہ‌چینی پر مبنی ہونے کے علاوہ بالکل غلط اور بہت تکلیف‌دہ بھی ہو سکتے ہیں۔‏

آپ اپنی بابت لوگوں کی سوچ سے جھنجھلا سکتے ہیں تاہم دوسروں کی رائے کا احترام کرنا موزوں ہے۔‏ دوسروں کی سوچ کی پرواہ نہ کرنا ایک مسیحی کو زیب نہیں دیتا اس کے علاوہ ہم اپنے قول‌وفعل سے دوسرے لوگوں کو نقصان پہنچانا نہیں چاہیں گے۔‏ (‏متی ۷:‏۱۲؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۸:‏۱۲‏)‏ لہٰذا وقتاًفوقتاً آپ کو اپنے بارے میں کسی کی قائم‌کردہ غلط رائے کی درستی کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔‏ تاہم،‏ مقبولیت حاصل کرنے کے لئے حد سے زیادہ فکرمندی عزتِ‌نفس کھونے یا ٹھکرائے جانے کا احساس پیدا کر سکتی ہے۔‏ تاہم،‏ آپ کی حقیقی قدروقیمت کا انحصار دوسروں کی سوچ پر نہیں ہے۔‏

اس کے برعکس،‏ شاید آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ پر کی جانے والی تنقید معقول ہے۔‏ یہ بھی تکلیف‌دہ ہو سکتا ہے لیکن اگر آپ اپنی ناکاملیتوں کو خوشی اور دیانتداری کیساتھ تسلیم کرتے ہیں تو ایسے تجربات مثبت اور آپکو تبدیلی لانے کی تحریک دے سکتے ہیں۔‏

منفی نتائج

غلط‌فہمیوں کا سنگین نتائج پر منتج ہونا ضروری نہیں ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ اگر آپ کسی شخص کو ایک ریسٹورنٹ میں بلند آواز سے باتیں کرتے سنتے ہیں تو آپ یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ وہ بہت لفاظ یا ملنسار ہے یا محض دکھاوا ہے۔‏ آپ کا اندازہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔‏ ممکن ہے کہ جس شخص سے وہ مخاطب ہے وہ اُونچا سنتا ہو۔‏ شاید کوئی سیل‌کلرک ناراض دکھائی دے مگر درحقیقت اسکی طبیعت خراب ہو سکتی ہے۔‏ ایسی غلط‌فہمیاں منفی تاثرات کا باعث بننے کے باوجود زیادہ سنگین یا دیرپا نتائج کی حامل نہیں ہوتیں۔‏ تاہم،‏ بعض‌اوقات غلط‌فہمیاں تباہ‌کُن ہو سکتی ہیں۔‏ قدیم اسرائیل کی تاریخ سے دو مثالوں پر غور کریں۔‏

جب عمون کا بادشاہ ناحس مرگیا تو داؤد نے اُس کے بیٹے حنون کے پاس تعزیت کے لئے پیامبر روانہ کئے جو اپنے باپ کے بعد تخت‌نشین ہو گیا تھا۔‏ تاہم پیامبروں کی آمد کا غلط مطلب لیا گیا کہ وہ عمون کے ملک کی جاسوسی کرنے آئے ہیں لہٰذا،‏ اس سے حنون نے پہلے پیامبروں کی تذلیل کی اور پھر اسرائیل پر حملہ کر دیا۔‏ نتیجتاً،‏ کم‌ازکم ۰۰۰،‏۴۷ لوگ مارے گئے جو محض نیک‌نیتی کو غلط سمجھنے کی وجہ سے ہوا تھا۔‏—‏۱-‏تواریخ ۱۹:‏۱-‏۱۹‏۔‏

اس سے پہلے اسرائیل کی تاریخ میں،‏ ایک دوسری غلط‌فہمی کو بالکل مختلف طریقے سے حل کِیا گیا تھا۔‏ روبن اور جد اور منسی کے آدھے قبیلے نے یردن کے پار ایک شاندار مذبح بنایا۔‏ باقی اسرائیلیوں نے اسے یہوواہ کے خلاف بےوفائی اور سرکشی خیال کِیا۔‏ لہٰذا وہ جنگ کرنے کے لئے جمع ہو گئے۔‏ تاہم کوئی بھی انتہائی قدم اُٹھانے سے پہلے اسرائیلیوں نے ایسی بےوفائی پر اپنی برہمی کا اظہار کرنے کے لئے قاصد بھیجے۔‏ اچھا ہوا کہ اُنہوں نے ایسا کِیا کیونکہ مذبح کے بنانے والوں نے جواب دیا کہ اُن کا سچی پرستش سے پھرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔‏ اس کے برعکس،‏ مذبح یہوواہ کے لئے ان کی وفاداری کی یادگار تھا۔‏ یہ غلط‌فہمی قتل‌وغارت کا سبب بن سکتی تھی لیکن حکمت ایسے خوفناک نتائج سے بچنے کا باعث بنی تھی۔‏—‏یشوع ۲۲:‏۱۰-‏۳۴‏۔‏

پُرمحبت طریقے سے معاملات کی وضاحت کریں

ان سرگزشتوں کا موازنہ کرنا مفید ہے۔‏ صاف ظاہر ہے کہ مسئلے کی وضاحت کرنا دانشمندانہ روش ہے۔‏ دوسری سرگزشت میں ہم نے دیکھا کہ باہمی گفتگو کی وجہ سے کتنی زندگیاں بچ گئی تھیں؟‏ بیشتر معاملات میں،‏ اگر آپ دوسروں کے حقیقی ارادوں کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں تو اس سے اگر زندگیوں کو نہیں تو دوستی کو ضرور خطرہ ہو سکتا ہے۔‏ لہٰذا اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ کوئی شخص آپ کیساتھ نامناسب طور پر پیش آیا ہے تو کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ معاملات کو صحیح طور پر سمجھ رہے ہیں یا کیا آپ انکا غلط مطلب نکال رہے ہیں؟‏ دوسرے شخص کے محرکات کیا تھے؟‏ اس سے پوچھیں۔‏ کیا آپ کو غلط سمجھا گیا ہے؟‏ اس کی بابت بات‌چیت کریں۔‏ تکبّر کو راہ میں حائل نہ ہونے دیں۔‏

یسوع نے غلط‌فہمی کو دُور کرنے کے سلسلے میں شاندار حوصلہ‌افزائی فراہم کی:‏ ”‏پس اگر تُو قربانگاہ پر اپنی نذر گذرانتا ہو اور وہاں تجھے یاد آئے کہ میرے بھائی کو مجھ سے کچھ شکایت ہے۔‏ تو وہیں قربانگاہ کے آگے اپنی نذر چھوڑ دے اور جا کر پہلے اپنے بھائی سے ملاپ کر۔‏ تب آ کر اپنی نذر گذران۔‏“‏ (‏متی ۵:‏۲۳،‏ ۲۴‏)‏ لہٰذا دوسروں کو شامل کئے بغیر اس شخص سے خلوت میں بات‌چیت کرنا بہتر ہوتا ہے۔‏ اگر دُکھ پہنچانے والا شخص آپ کی شکایت پہلے کسی دوسرے شخص سے سن لیتا ہے تو اس سے معاملہ اَور بگڑ سکتا ہے۔‏ (‏امثال ۱۷:‏۹‏)‏ آپ کا مقصد محبت کے ساتھ صلح کرنا ہونا چاہئے۔‏ مسئلے کی بابت سادہ،‏ واضح الفاظ اور الزام‌تراشی کے بغیر پُرسکون ماحول میں بات‌چیت کریں۔‏ وضاحت کریں کہ آپ صورتحال کی بابت کیسا محسوس کرتے ہیں۔‏ پھر غیرجذباتی طور پر دوسرے شخص کے نقطۂ‌نظر کو سنیں۔‏ محرکات کا غلط مطلب نکالنے میں جلدبازی نہ کریں۔‏ دوسرے شخص کو بھی شک کا فائدہ دیں۔‏ یاد رکھیں محبت ”‏سب کچھ یقین کرتی ہے۔‏“‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۳:‏۷‏۔‏

بیشک،‏ غلط‌فہمیوں کے دُور ہو جانے کے باوجود بھی تکلیف‌دہ احساسات یا منفی نتائج قائم رہ سکتے ہیں۔‏ کیا کِیا جا سکتا ہے؟‏ ضرورت کے تحت معاملات کو درست کرنے کے لئے پُرخلوص معذرت کرنا یقیناً موزوں ہوتا ہے اور اِس کے ساتھ دیگر ضروری قدم بھی اُٹھائے جا سکتے ہیں۔‏ ایسی تمام صورتوں میں متاثرہ فریق کے لئے اس صحیفائی مشورت پر عمل کرنا اچھا ہوگا:‏ ”‏اگر کسی کو دوسرے کی شکایت ہو تو ایک دوسرے کی برداشت کرے اور ایک دوسرے کے قصور معاف کرے۔‏ جیسے خداوند نے تمہارے قصور معاف کئے ویسے ہی تم بھی کرو۔‏ اور ان سب کے اُوپر محبت کو جو کمال کا پٹکا ہے باندھ لو۔‏“‏—‏کلسیوں ۳:‏۱۳،‏ ۱۴؛‏ ۱-‏پطرس ۴:‏۸‏۔‏

جب تک ہم ناکامل ہیں تکلیف‌دہ احساسات اور غلط‌فہمیاں پیدا ہوتی رہینگی۔‏ کوئی بھی شخص غلطی کر سکتا ہے یا کٹھورپن سے کوئی سخت بات کہہ سکتا ہے۔‏ بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏ہم سب کے سب اکثر خطا کرتے ہیں۔‏ کامل شخص وہ ہے جو باتوں میں خطا نہ کرے۔‏ وہ سارے بدن کو بھی قابو میں رکھ سکتا ہے۔‏“‏ (‏یعقوب ۳:‏۲‏)‏ اِس بات سے بخوبی واقف ہوتے ہوئے یہوواہ خدا نے ہمیں یہ ہدایات فراہم کی ہیں:‏ ”‏تُو اپنے جی میں خفا ہونے میں جلدی نہ کر کیونکہ خفگی احمقوں کے سینوں میں رہتی ہے۔‏ نیز اُن سب باتوں کے سننے پر جو کہی جائیں کان نہ لگا۔‏ ایسا نہ ہو کہ تُو سن لے کہ تیرا نوکر تجھ پر لعنت کرتا ہے۔‏ کیونکہ تُو تو اپنے دل سے جانتا ہے کہ تُو نے آپ اِسی طرح سے اوروں پر لعنت کی ہے۔‏“‏—‏واعظ ۷:‏۹،‏ ۲۱،‏ ۲۲‏۔‏

‏”‏یہوواہ دلوں کو جانچتا ہے“‏

اگر آپ اپنی بابت کسی کے غلط تاثر کو درست کرنا ناممکن پاتے ہیں تو کیا ہو؟‏ مایوس نہ ہوں۔‏ جہاں تک ممکن ہو مسیحی خوبیاں ظاہر کرتے رہیں۔‏ جہاں آپ کو بہتری لانے کی ضرورت ہے اُس کیلئے یہوواہ سے مدد کیلئے دعا کریں۔‏ ایک شخص کے طور پر آپ کی حقیقی قدروقیمت کا تعیّن حتمی طور پر دوسرے لوگ نہیں کر سکتے۔‏ صرف یہوواہ ہی ’‏دلوں کو جانچ‘‏ سکتا ہے۔‏ (‏امثال ۲۱:‏۲‏)‏ یسوع کو بھی آدمیوں نے حقیر اور بےوقعت جانا تھا لیکن اس سے اُسکی بابت یہوواہ کا نظریہ متاثر نہیں ہوا تھا۔‏ (‏یسعیاہ ۵۳:‏۳‏)‏ اگرچہ کوئی شخص آپ کے بارے میں غلط سوچ رکھتا ہے تو بھی اس یقین کیساتھ ”‏اپنے دل کا حال“‏ یہوواہ کے سامنے ’‏کھول دیں‘‏ کہ وہ آپ کو سمجھتا ہے ”‏کیونکہ [‏یہوواہ]‏ انسان کی مانند نظر نہیں کرتا اِسلئے کہ انسان ظاہری صورت کو دیکھتا ہے پر [‏یہوواہ]‏ دل پر نظر کرتا ہے۔‏“‏ (‏زبور ۶۲:‏۸؛‏ ۱-‏سموئیل ۱۶:‏۷‏)‏ اگر آپ درست کام کرنے میں ثابت‌قدم رہتے ہیں تو آپ کی بابت غلط رائے رکھنے والے لوگوں کو وقت آنے پر اپنی غلطی کا احساس ہو سکتا ہے اور وہ اپنی رائے بدل سکتے ہیں۔‏—‏گلتیوں ۶:‏۹؛‏ ۲-‏تیمتھیس ۲:‏۱۵‏۔‏

کیا آپ کو انٹونیو کی بابت یاد ہے جسکا ذکر اس مضمون کے شروع میں کِیا گیا ہے؟‏ اس نے صحیفائی مشورت پر عمل کرنے کیلئے ہمت باندھی اور اپنے دوست لیونارڈو سے بات‌چیت کی اور پوچھا کہ اس نے ایسی کونسی غلطی کی ہے جس سے وہ پریشان ہے۔‏ اسکا کیا نتیجہ نکلا؟‏ لیونارڈو ہکابکا رہ گیا۔‏ اس نے جواب دیا کہ انٹونیو نے ایسا کوئی کام نہیں کِیا جس سے وہ پریشان ہو اور اسے یقین دلایا کہ وہ اُسکے ساتھ اسطرح سے پیش آنا نہیں چاہتا تھا۔‏ اُسکی خاموشی شاید کسی سوچ کی وجہ سے ہو۔‏ لیونارڈو معاملے کو توجہ میں لانے کیلئے اسکا ممنون ہوا اور معذرت کی کہ اس نے نادانستہ طور پر اپنے دوست کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔‏ اُس نے یہ بھی کہا کہ وہ آئندہ زیادہ محتاط رہیگا تاکہ دوسروں کو بھی ایسا تاثر نہ دے۔‏ تمام اُلجھن دُور ہو گئی اور دونوں دوست ایک بار پھر قریب آ گئے۔‏

غلط‌فہمی کا پیدا ہو جانا کبھی بھی خوشی کا باعث نہیں ہوتا۔‏ تاہم اگر آپ معاملات کی وضاحت کرنے نیز محبت اور رحم کے صحیفائی اصولوں کا اطلاق کرنے کیلئے تمام ممکنہ اقدام اُٹھاتے ہیں تو غالباً آپ کو بھی ایسے ہی اچھے نتائج حاصل ہونگے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 2 اس مضمون میں بعض متبادل نام استعمال کئے گئے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویریں]‏

محبت اور معاف کرنے کے جذبے کیساتھ معاملات کو درست کرنا خوشگوار نتائج کا باعث بن سکتا ہے