مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا سخاوت سے دُنیا کے مسائل حل ہوں گے؟‏

کیا سخاوت سے دُنیا کے مسائل حل ہوں گے؟‏

کیا سخاوت سے دُنیا کے مسائل حل ہوں گے؟‏

آجکل خبروں میں قدرتی آفتوں،‏ غربت،‏ بیماری،‏ خوراک کی کمی اور ماحولیاتی مسائل کا باربار ذکر آتا ہے۔‏ لیکن اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کی سخاوت اور دریا دلی کے لاتعداد واقعے بھی سننے میں آتے ہیں۔‏ کبھی‌کبھار خبروں میں بتایا جاتا ہے کہ فلاں کروڑپتی نے لاکھوں یاپھر کروڑوں ڈالر کی رقم کسی نہ کسی نیک کام کے لئے خیرات کر دی ہے۔‏ اداکار،‏ کھلاڑی یا دوسری نامور شخصیتیں اپنی شہرت کو کام میں لاتے ہوئے لوگوں کو معاشرے کے مختلف مسئلوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔‏ یہاں تک کہ جو لوگ امیر نہیں ہوتے وہ بھی دوسروں کی مدد کرنے کے لئے پیسے خیرات کرتے ہیں۔‏ اِس قسم کی مالی مدد کس حد تک کامیاب رہتی ہے؟‏ کیا سخاوت اور فلاح‌وبہبود کے کاموں سے معاشرے کو درپے مسائل حل ہو سکتے ہیں؟‏

‏”‏سخاوت کا سنہری دَور“‏

دُنیا کے کئی ممالک میں اُن لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو ہمدردی کی بِنا پر دوسروں کی مالی مدد کرتے ہیں۔‏ ایک کتاب میں لکھا ہے کہ ”‏اکیسویں صدی کے شروع میں دُنیا کے مختلف ممالک میں اتنے خیراتی ادارے موجود ہیں اور اُن کا سرمایہ اتنا ہے جتنا کہ تاریخ میں کبھی پہلے نہ تھا۔‏“‏ اس کی وجہ یوں بتائی جاتی ہے کہ دُنیا میں امیر لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور یوں اُن لوگوں میں اضافہ ہو رہا ہے جو دوسروں کی مالی مدد کر سکتے ہیں۔‏ اس کے علاوہ امیر لوگ اکثر اپنے وصیت‌ناموں میں اپنے مال کا کچھ حصہ خیراتی اداروں کے نام کر دیتے ہیں۔‏ اِن باتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایک برطانوی رسالے میں کہا گیا کہ انسانی تاریخ کا ایک نیا دَور شروع ہو رہا ہے یعنی ”‏سخاوت کا سنہری دَور۔‏“‏

دراصل آجکل حکومتیں عوام کو درپے مسائل حل کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہیں۔‏ افریقہ میں اقوامِ‌متحدہ کا ایک اہلکار جو ایڈز کی وبا کے سلسلے میں کام کر رہا ہے،‏ اُس کا کہنا ہے کہ فلمی ستاروں جیسی نامور شخصیتیں اس لئے علاج کے سلسلے میں غریبوں کی مالی مدد کر رہی ہیں کیونکہ ”‏سیاست‌دان ایسا کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔‏“‏ ایک مصنف نے خیراتی اداروں کے بارے میں اپنی کتاب میں لکھا کہ چاہے مسئلہ غربت،‏ علاج،‏ ماحولیات،‏ تعلیم یا بےانصافی کا ہو ”‏جہاں تک حکومتوں کی ملکی اور بین‌الاقوامی کوششوں کا تعلق ہے امیر لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔‏“‏ دوسروں کی مدد کرنے کے شوق میں کئی امیر کاروباری لوگ اُنہی اصولوں کے مطابق خیراتی ادارے چلانے لگے ہیں جن کی بِنا پر وہ اپنے کاروبار میں کامیاب رہے ہیں۔‏

سخاوت کے فائدے

بیسویں صدی کے شروع میں بھی لوگوں میں غریبوں کی مدد کرنا مقبول ہو گیا تھا۔‏ اُس وقت اینڈرو کارنیگی اور جان راک‌فلر نامی کروڑپتیوں نے اپنا مال دوسروں کی فلاح‌وبہبود کے لئے صرف کِیا۔‏ وہ سمجھ گئے تھے کہ محتاجوں کی مدد محض اِس بات سے نہیں ہوتی کہ جگہ جگہ لنگرخانے اور بچوں کے ہسپتال قائم کئے جائیں چونکہ ایسا کرنے سے مسئلے کی اصلی وجہ کو دُور نہیں کِیا جا سکتا ہے۔‏ لہٰذا اُنہوں نے ایسے اداروں اور تنظیموں کو وجود دیا جو معاشرے کے مسائل پر تحقیق کرکے اِن مسئلوں کو جڑ سے اُکھاڑنے کی تجویزیں پیش کرتی ہیں اور لوگوں کی سوچ میں نمایاں تبدیلیاں لانے کی کوشش کرتی ہیں۔‏ اُس وقت سے لے کر آج تک دُنیابھر میں ہزاروں ایسے ادارے وجود میں آئے ہیں۔‏ اِن میں سے کم سے کم ۵۰ ایسے ادارے ہیں جن کی پونجی ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔‏

اِس میں کوئی شک نہیں کہ اِن اداروں کی وجہ سے لوگوں کو بڑا فائدہ رہا ہے۔‏ اِس کا ثبوت وہ سکول،‏ لائبریریاں،‏ ہسپتال،‏ پارک اور عجائب‌گھر ہیں جو جگہ جگہ عوام کی خاطر بنائے گئے ہیں۔‏ کئی خیراتی اداروں میں کسانوں کو پیداوار بڑھانے کے طریقے سکھائے جاتے ہیں جس سے غریب ممالک کو بہت فائدہ رہا ہے۔‏ اس کے علاوہ بیماریوں کی تحقیق اور اُن کے علاج کے لئے جو پیسہ خیرات کِیا جاتا ہے اِس کی وجہ سے عوام کو طبی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں اور کئی بیماریوں کا وجود مٹا دیا گیا ہے،‏ مثلاً مچھر کے ذریعے پھیلنے والی یرقان کی ایک قسم جسے یلو فیور کہا جاتا ہے۔‏

آجکل لوگ دُنیا کے مسائل حل کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں اور اِس میں پہلے سے کہیں زیادہ رقم بھی لگا رہے ہیں۔‏ اِس وجہ سے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ انسان اپنے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوگا۔‏ امریکہ کے ایک سابقہ صدر نے ۲۰۰۶ میں خیراتی کام کرنے والے لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا:‏ ”‏جب لوگ مالی طور پر دوسروں کی مدد کرتے ہیں تو اِس کا عوام کو بڑا فائدہ ہوتا ہے۔‏“‏

تاہم تمام لوگ اتنے پُراُمید نہیں ہیں۔‏ لوری گیریٹ جو عالمی سطح پر ہونے والے صحت کے مسائل پر تحقیق کرتی ہیں،‏ انہوں نے لکھا:‏ ”‏کئی لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ ہمیں اتنی زیادہ رقم مہیا ہے اس لئے ہم جلد ہی عالمی پیمانے پر بیماریوں کی روک‌تھام کر سکیں گے۔‏ لیکن یہ اُن کی غلط‌فہمی ہے۔‏“‏ اِس کی وجوہات وہ یوں بتاتی ہیں کہ بہت سے لوگ صرف اپنے انتخاب کی بیماریوں کی روک‌تھام کے لئے فنڈ قائم کرتے ہیں مثلاً ایڈز کی بیماری کے لئے۔‏ اس کے علاوہ مختلف خیراتی ادارے ملکر کام نہیں کرتے اور اُن کی انتظامیہ کو کرپشن اور دوسرے مسائل کا بھی سامنا ہوتا ہے۔‏

اِن وجوہات کی بِنا پر لوری گیریٹ کا خیال ہے کہ جہاں تک صحت کا تعلق ہے ”‏اِس بات کے بڑے امکان ہیں کہ سخاوت کے اِس موجودہ دَور کے باوجود لوگوں کی اُمیدیں پوری نہیں ہوں گی اور حالات بہتر ہونے کی بجائے بدتر ہوتے جائیں گے۔‏“‏

کیا سخاوت سے دُنیا کے مسائل حل ہوں گے؟‏

بہتیرے فائدوں کے باوجود سخاوت کا اثر محدود ہوتا ہے۔‏ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ نہ تو پیسہ اور نہ ہی اعلیٰ تعلیم اُن مسائل کو مکمل طور پر حل کر سکتی ہے جو لالچ،‏ نفرت،‏ تعصب،‏ وطن‌پرستی اور جھوٹے عقیدوں کی وجہ سے اُٹھتے ہیں۔‏ لیکن یہ بھی تمام مسائل کی جڑ نہیں ہیں۔‏ آئیں دیکھیں کہ خدا کے کلام میں اِس کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے۔‏

دُنیا کے مسائل کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان پیدائش سے ہی گناہ کی طرف مائل ہوتا ہے۔‏ (‏رومیوں ۳:‏۲۳؛‏ ۵:‏۱۲‏)‏ اِس وجہ سے ہمارا دل ہمیں بُری سوچ اور بُرے کاموں کی طرف اُکساتا ہے۔‏ خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ ”‏انسان کے دل کا خیال لڑکپن سے بُرا ہے۔‏“‏ (‏پیدایش ۸:‏۲۱‏)‏ بُری خواہشوں پر عمل کرنے کی وجہ سے بہتیرے لوگ جنسی بداخلاقی کرتے اور منشیات لیتے ہیں اور ایسی حرکتوں کے نتیجے میں ایڈز جیسی وبائیں پھیلتی ہیں۔‏—‏رومیوں ۱:‏۲۶،‏ ۲۷‏۔‏

دُنیا کے مسائل کی دوسری بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان ایک دوسرے پر حکومت کرنے کے قابل ہی نہیں ہیں۔‏ خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ ”‏انسان .‏ .‏ .‏ اپنے قدموں کی راہنمائی نہیں کر سکتا۔‏“‏ (‏یرمیاہ ۱۰:‏۲۳‏)‏ چونکہ سیاست‌دان دُنیا کے مسائل حل کرنے میں ”‏دلچسپی نہیں لے رہے ہیں“‏ اِس لئے بہت سے لوگ غیرسرکاری خیراتی ادارے اور فنڈ قائم کر رہے ہیں۔‏ البتہ خدا کے کلام میں کہا گیا ہے کہ انسان اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کے قابل نہیں ہیں۔‏ اس لئے ہمیں اپنے خالق اور حاکم سے مدد کی التجا کرنی چاہئے۔‏—‏یسعیاہ ۳۳:‏۲۲‏۔‏

انسان کے خالق یہوواہ خدا نے اپنے کلام میں وعدہ کِیا ہے کہ وہ اُن تمام مسئلوں کو ختم کرے گا جن کا انسان کو سامنا ہے۔‏ ایسا کرنے کے لئے وہ بہت سے اقدام اُٹھا چکا ہے۔‏

ہمارا خالق ہماری مدد کو آئے گا

انسانوں سے کوئی بھی اتنی محبت نہیں رکھتا جتنا کہ ہمارا خالق رکھتا ہے۔‏ پاک صحائف میں لکھا ہے کہ ”‏خدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا اِکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔‏“‏ (‏یوحنا ۳:‏۱۶‏)‏ جی‌ہاں،‏ یہوواہ خدا نے انسانوں کو گناہ اور موت کے شکنجے سے چھڑانے کے لئے وہ چیز دی جو اُسے سب سے پیاری تھی یعنی اُس نے اپنے سب سے پیارے بیٹے کی جان ’‏بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے دی۔‏‘‏ (‏متی ۲۰:‏۲۸‏)‏ پطرس رسول نے یسوع مسیح کے بارے میں لکھا کہ وہ ”‏ہمارے گُناہوں کو اپنے بدن پر لئے ہوئے صلیب پر چڑھ گیا تاکہ ہم گُناہوں کے اعتبار سے مر کر راستبازی کے اعتبار سے جئیں اور اُسی کے مار کھانے سے تُم نے شفا پائی۔‏“‏—‏۱-‏پطرس ۲:‏۲۴‏۔‏

جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے انسان ایک دوسرے پر حکومت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔‏ اس لئے یہوواہ خدا نے زمین کے لئے ایک ایسی حکومت کو وجود دیا ہے جو آسمان سے حکومت کرے گی۔‏ اِس حکومت کو خدا کی بادشاہت کہا گیا ہے۔‏ یہ حکومت زمین پر سے تمام بُرائی کو مٹا دے گی جس کے بعد امن اور سلامتی کا دَور شروع ہوگا۔‏—‏زبور ۳۷:‏۱۰،‏ ۱۱؛‏ دانی‌ایل ۲:‏۴۴؛‏ ۷:‏۱۳،‏ ۱۴‏۔‏

یہوواہ خدا اُن چیزوں کو ختم کر سکتا ہے جو انسان کے دُکھ،‏ تکلیف اور مسائل کا باعث ہیں۔‏ اس طرح خدا وہ سب کچھ انجام دے گا جو انسان نہ تو انفرادی کوششوں اور نہ ہی مجموعی کوششوں کے ذریعے انجام دے سکتے ہیں۔‏ اِس وجہ سے یہوواہ کے گواہ خیراتی ادارے اور فنڈ قائم کرنے کی بجائے یسوع مسیح کی طرح اپنا وقت اور مال ”‏خدا کی بادشاہی کی خوشخبری“‏ سنانے میں صرف کرتے ہیں۔‏—‏متی ۲۴:‏۱۴؛‏ لوقا ۴:‏۴۳‏۔‏

‏[‏صفحہ ۱۴ پر بکس/‏تصویر]‏

‏”‏خدا خوشی سے دینے والے کو عزیز رکھتا ہے“‏

یہوواہ کے گواہ پاک صحائف میں درج اِس اصول پر عمل کرتے ہیں۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۹:‏۷‏)‏ دوسروں کی مدد کرنے کے لئے چاہے وہ اپنی طاقت،‏ اپنے وقت یا اپنے مال سے دیں وہ اِس تاکید پر عمل کرتے ہیں:‏ ”‏ہم کلام اور زبان ہی سے نہیں بلکہ کام اور سچائی کے ذریعہ سے بھی محبت کریں۔‏“‏—‏۱-‏یوحنا ۳:‏۱۸‏۔‏

جب کوئی قدرتی آفت آئے یا کوئی اَور ہنگامی صورت ہو تو یہوواہ کے گواہ متاثرہ علاقوں کے لوگوں کی مدد کرنے کو شرف خیال کرتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر جب ریاستہائےمتحدہ امریکہ کے جنوبی علاقے تین مختلف طوفانوں کی زد میں آئے (‏طوفان کٹرینا،‏ طوفان ریٹا اور طوفان ولما)‏ تو ہزاروں یہوواہ کے گواہوں نے اُن علاقوں میں جا کر امداد فراہم کی۔‏ اِن رضاکاروں نے مقامی یہوواہ کے گواہوں کے ۶۰۰،‏۵ گھر اور اُن کی ۹۰ عبادت‌گاہیں بحال کیں یعنی یہوواہ کے گواہوں کی وہ تقریباً تمام عمارتیں جن کو طوفان کی وجہ سے نقصان پہنچا تھا۔‏

یہوواہ کے گواہ نہ تو اپنی آمدنی کا دسواں حصہ خیرات کرتے ہیں اور نہ ہی چندہ مانگتے ہیں۔‏ وہ اپنا کام صرف اُس رقم سے چلاتے ہیں جو رضاکارانہ طور پر دی جاتی ہے۔‏—‏متی ۶:‏۳،‏ ۴؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۸:‏۱۲‏۔‏

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏

پیسہ خیرات کرنے سے مسائل کی بنیادی وجوہات کو ختم نہیں کِیا جا سکتا ہے

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Chris de Bode/​Panos Pictures ©