مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مسیحیوں کے لیے خاکساری کی اہمیت

مسیحیوں کے لیے خاکساری کی اہمیت

‏”‏خاکساروں کے ساتھ حکمت ہے۔‏“‏‏—‏امثال 11:‏2‏۔‏

گیت:‏ 38،‏  11

1،‏ 2.‏ یہوواہ نے ساؤل کو بادشاہ کے طور پر کیوں رد کر دیا؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

جب یہوواہ خدا نے ساؤل کو بادشاہ بنایا تو ساؤل بہت خاکسار تھے۔‏ (‏1-‏سموئیل 9:‏1،‏ 2،‏ 21؛‏ 10:‏20-‏24‏)‏ لیکن بادشاہ بننے کے بعد وہ مغرور ہو گئے۔‏ ایک موقعے پر ہزاروں فلستی فوجی بنی‌اِسرائیل سے لڑنے کے لیے آئے۔‏ ساؤل نے سموئیل نبی کا اِنتظار کِیا جنہوں نے آ کر یہوواہ کے لیے قربانی پیش کرنی تھی۔‏ لیکن سموئیل مقررہ وقت پر نہیں آئے۔‏ اِس دوران بہت سے اِسرائیلی فوجی،‏ دُشمن کے ڈر کے مارے ساؤل کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔‏ یہ دیکھ کر ساؤل نے معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور خود یہوواہ کے حضور قربانی چڑھا دی۔‏ ساؤل کو ایسا کرنے کا کوئی اِختیار نہیں تھا اور اِس وجہ سے یہوواہ خدا اُن سے بہت ناراض ہوا۔‏—‏1-‏سموئیل 13:‏5-‏9‏۔‏

2 جب سموئیل وہاں پہنچے تو اُنہوں نے ساؤل کی اِصلا‌ح کی۔‏ مگر ساؤل نے یہ اِصلا‌ح قبول نہیں کی۔‏ اِس کی بجائے وہ اپنی نافرمانی کے لیے بہانے بنانے لگے اور اُنہوں نے اپنی غلطی دوسروں کے سر ڈال دی۔‏ (‏1-‏سموئیل 13:‏10-‏14‏)‏ اِس واقعے کے بعد ساؤل نے اَور بھی بہت سے ایسے کام کیے جن سے اُن کا غرور چھلکتا تھا۔‏ لہٰذا یہوواہ نے اُن کو بادشاہ کے طور پر رد کر دیا۔‏ (‏1-‏سموئیل 15:‏22،‏ 23‏)‏ بِلا‌شُبہ ساؤل کی زندگی کی شروعات تو بہت اچھی تھی لیکن انجام بہت بُرا ہوا۔‏—‏1-‏سموئیل 31:‏1-‏6‏۔‏

3.‏ ‏(‏الف)‏ خاکساری کے بارے میں دُنیا کا نظریہ کیا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟‏

3 دُنیا میں یہ نظریہ عام ہے کہ خاکسار لوگ کبھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔‏ اِس لیے بہت سے لوگ اپنی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے اور خود کو دوسروں سے افضل ظاہر کرنے کی دُھن میں رہتے ہیں۔‏ ایک مشہور اداکار اور سیاست‌دان نے بڑے فخر سے کہا:‏ ”‏میرا اور خاکساری کا دُور دُور تک کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی کبھی ہوگا۔‏“‏ لیکن مسیحیوں کے لیے خاکساری کی خوبی اہم کیوں ہے؟‏ خاکسار شخص کی پہچان کیا ہے؟‏ اِن سوالوں کے جواب اِس مضمون میں دیے جائیں گے۔‏ اور اگلے مضمون میں ہم اِس سوال پر غور کریں گے کہ کس طرح کی صورتحال ہماری خاکساری کے لیے آزمائش بن سکتی ہیں؟‏

خاکساری کی اہمیت

4.‏ غرور میں آ کر ہم کس طرح کے کام کرنے کے پھندے میں پھنس سکتے ہیں؟‏

4 بائبل کے مطابق تکبّر یعنی غرور خاکساری کی ضد ہے۔‏ ‏(‏امثال 11:‏2 کو پڑھیں۔‏)‏ داؤد نے یہوواہ سے اِلتجا کی کہ ”‏تُو اپنے خادم کو غرور سے بھی باز رکھ۔‏“‏ (‏زبور 19:‏13‏،‏ کیتھولک ترجمہ‏)‏ لیکن غرور کرنا اِتنا خطرناک کیوں ہے؟‏ کیونکہ غرور میں آ کر ہم اکثر ایسے کام کرتے ہیں جو ہمارے دائرۂاِختیار سے باہر ہوتے ہیں۔‏ سچ ہے کہ ہم سب کبھی نہ کبھی ایسے کام کر بیٹھتے ہیں۔‏ لیکن اگر ہم بادشاہ ساؤل کی طرح اپنے اِختیار کی حد پار کرنے کی عادت ڈال لیں گے تو یہوواہ خدا ہم سے بھی ناراض ہوگا۔‏ زبور 119:‏21 میں لکھا ہے کہ ’‏یہوواہ مغروروں کو جھڑکتا ہے۔‏‘‏ وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟‏

خاکسار ہونے سے ہم اپنے حاکم یہوواہ کا احترام کرتے ہیں۔‏

5.‏ غرور کرنے کے کیا نقصانات ہوتے ہیں؟‏

5 دراصل جو شخص اپنے دائرۂاِختیار سے ہٹ کر کوئی کام کرتا ہے،‏ وہ اپنے حاکم یہوواہ کا احترام نہیں کرتا۔‏ جب کوئی شخص اپنے اِختیار کی حد پار کرتا ہے تو اِس بات کا زیادہ اِمکا‌ن ہوتا ہے کہ اُس کی دوسروں کے ساتھ اَن‌بن ہو جائے۔‏ (‏امثال 13:‏10‏)‏ اور جب لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ اُس نے کوئی ایسا کام کِیا ہے جس کا اُسے حق نہیں تھا تو اُسے شرمندگی اُٹھانی پڑتی ہے۔‏ (‏لُوقا 14:‏8،‏ 9‏)‏ اِن باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ غرور کرنے سے ہم اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔‏ اِس لیے یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم خاکسار ہوں۔‏

خاکسار شخص کی پہچان

6،‏ 7.‏ ایک خاکسار شخص کی پہچان کیا ہے؟‏

6 ایک خاکسار شخص ’‏جھگڑالو اور اناپرست نہیں ہوتا بلکہ دوسروں کو اپنے سے بڑا سمجھتا ہے۔‏‘‏ (‏فِلپّیوں 2:‏3‏)‏ وہ اپنی خوبیوں،‏ خامیوں اور صلا‌حیتوں سے واقف ہوتا ہے اور اپنی غلطیاں تسلیم کرتا ہے۔‏ وہ دوسروں کے مشوروں پر دھیان دیتا ہے۔‏ بِلا‌شُبہ یہوواہ خدا ایسے شخص سے بہت خوش ہوتا ہے۔‏

7 پاک کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک خاکسار شخص اِس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ کچھ کام اُس کے بس سے باہر ہیں۔‏ وہ اِس بات کو بھی قبول کرتا ہے کہ اُسے کچھ کام کرنے کی اِجازت نہیں۔‏ وہ دوسروں کا احترام کرتا ہے اور اُن سے اچھا سلوک کرتا ہے۔‏

8.‏ غرور ہمارے دل میں کیسے سر اُٹھا سکتا ہے؟‏

8 کبھی کبھار ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا کہ غرور ہمارے دل میں سر اُٹھا رہا ہے۔‏ شاید ہم کلیسیا میں ذمےداریاں رکھتے ہیں یا ہم کسی بااِختیار بھائی کے اچھے دوست ہیں اور اِس لیے ہم خود کو دوسروں سے بہتر سمجھنے لگتے ہیں۔‏ (‏رومیوں 12:‏16‏)‏ شاید ہم دوسروں کی توجہ اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہم ہی ہر طرف چھائے ہوں۔‏ (‏1-‏تیمُتھیُس 2:‏9،‏ 10‏)‏ یا پھر ہم اپنی رائے کو اِتنا اہم خیال کرتے ہیں کہ ہم اِسے دوسروں پر تھوپنے لگتے ہیں۔‏—‏1-‏کُرنتھیوں 4:‏6‏۔‏

9.‏ کچھ لوگ اپنے اِختیار کی حد کیوں پار کرتے ہیں؟‏ بائبل میں سے کچھ مثالیں دیں۔‏

9 ہم اُس وقت بھی اپنے اِختیار کی حد پار کرنے کے خطرے میں ہوتے ہیں جب ہم اپنے جذبات اور خواہشات کو قابو میں نہیں رکھتے۔‏ بہت سے لوگ اپنی بڑائی کے شوق،‏ حسد یا بےلگا‌م غصے کی وجہ سے غرور کی راہ پر چل دیے۔‏ مثال کے طور پر ابی‌سلوم،‏ عُزیاہ اور نبوکدنضر نے غرور میں آ کر جسم کے کام کیے۔‏ یہوواہ نے اِن لوگوں کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔‏—‏2-‏سموئیل 15:‏1-‏6؛‏ 18:‏9-‏17؛‏ 2-‏تواریخ 26:‏16-‏21؛‏ دانی‌ایل 5:‏18-‏21‏۔‏

10.‏ ہمیں دوسروں کی نیت پر شک کیوں نہیں کرنا چاہیے؟‏ بائبل میں سے مثالیں دیں۔‏

10 کبھی کبھار ایک شخص کوئی ایسا کام کرتا ہے جس سے ہمیں لگتا ہے کہ وہ مغرور ہے لیکن شاید ایسا نہ ہو۔‏ ذرا اِس سلسلے میں پیدایش 20:‏2-‏7 اور متی 26:‏31-‏35 پر غور کریں جن میں ابی‌ملک اور پطرس کے بارے میں بتایا گیا ہے۔‏ کیا یہ آدمی واقعی مغرور تھے؟‏ یا پھر کیا اُنہوں نے جو کچھ کِیا،‏ بس انجانے میں یا بِلا‌سوچے سمجھے کِیا؟‏ ہم نہیں جانتے کہ کسی کے دل میں کیا ہے اِس لیے ہمیں لوگوں کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے۔‏‏—‏یعقوب 4:‏12 کو پڑھیں۔‏

کلیسیا میں اپنے کردار سے مطمئن رہیں

11.‏ ایک خاکسار شخص کس بات کو قبول کرتا ہے؟‏

11 ایک خاکسار شخص اُس کردار سے مطمئن رہتا ہے جو اُسے خدا کی طرف سے ملتا ہے۔‏ یاد رکھیں کہ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ سب باتیں منظم انداز میں کی جائیں۔‏ اُس نے کلیسیا میں ہر ایک کو کوئی نہ کوئی کردار دیا ہے۔‏ اِس کے ساتھ ساتھ اُس نے ہم سب کو فرق فرق نعمتیں،‏ ہنر اور صلا‌حیتیں عطا کی ہیں۔‏ (‏رومیوں 12:‏4-‏8‏)‏ اگر ہم خاکسار ہیں تو ہم اِن نعمتوں کو خدا کی بڑائی کرنے اور دوسروں کی مدد کرنے کے لیے اِستعمال کریں گے اور یوں خدا کی عظیم رحمت کے اچھے مختار ثابت ہوں گے۔‏‏—‏1-‏پطرس 4:‏10 کو پڑھیں۔‏

جب خدا کی خدمت میں ہماری ذمےداریاں بدل جاتی ہیں تو ہم یسوع سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ (‏پیراگراف 12-‏14 کو دیکھیں۔‏)‏

12،‏ 13.‏ یہ حیرانی کی بات کیوں نہیں کہ کبھی کبھار خدا کی خدمت میں ہمارا کردار بدل جاتا ہے؟‏

12 یہوواہ خدا نے ہمیں جو کردار دیا ہے،‏ وہ کبھی کبھار بدل بھی جاتا ہے۔‏ ذرا یسوع مسیح کی مثال لیں۔‏ شروع میں وہ اپنے باپ کے ساتھ آسمان پر اکیلے تھے۔‏ (‏امثال 8:‏22‏)‏ پھر اُنہوں نے فرشتوں،‏ کائنات اور اِنسانوں کو بنانے میں اپنے باپ کا ہاتھ بٹایا۔‏ (‏کُلسّیوں 1:‏16‏)‏ اِس کے بعد خدا نے اُنہیں زمین پر ایک کردار دیا۔‏ وہ اِنسان کے طور پر پیدا ہوئے اور بڑے ہو کر اُنہوں نے لوگوں کو خدا کے بارے میں تعلیم دی۔‏ (‏فِلپّیوں 2:‏7‏)‏ اپنی جان قربان کرنے کے بعد وہ آسمان پر واپس چلے گئے اور 1914ء میں وہ خدا کی بادشاہت کے بادشاہ بن گئے۔‏ (‏عبرانیوں 2:‏9‏)‏ لیکن مستقبل میں اُن کا کردار پھر سے بدل جائے گا کیونکہ 1000 سال حکمرانی کرنے کے بعد وہ اپنی بادشاہت کو یہوواہ کے سپرد کر دیں گے ”‏تاکہ خدا سب کا حاکم ہو۔‏“‏—‏1-‏کُرنتھیوں 15:‏28‏۔‏

13 لہٰذا ہم اِس بات کی توقع کر سکتے ہیں کہ بدلتی صورتحال کی وجہ سے خدا کی خدمت میں ہمارا کردار بھی بدل جائے گا۔‏ کبھی کبھار یہ ہمارے اپنے فیصلوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔‏ مثال کے طور پر شاید آپ غیرشادی‌شُدہ تھے لیکن پھر آپ نے شادی کرنے کا فیصلہ کِیا اور اب آپ کے بچے ہیں۔‏ یا پھر شاید آپ کے بچے بڑے ہو گئے ہیں اور آپ نے فیصلہ کِیا ہے کہ آپ کُل‌وقتی طور پر خدمت کریں گے۔‏ اِس طرح کے فیصلوں کے نتیجے میں ہمیں کچھ شرف بھی ملتے ہیں اور ہم پر کچھ ذمےداریاں بھی آتی ہیں۔‏ ہم خدا کی خدمت میں جو کچھ کر سکتے ہیں،‏ یہ صورتحال کے مطابق بدل بھی سکتا ہے۔‏ یہوواہ خدا اِس بات کو خاطر میں لاتا ہے کہ ہم جوان ہیں یا بوڑھے،‏ صحت‌مند ہیں یا بیمار۔‏ وہ جانتا ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں کر سکتے اور اِسی کے مطابق وہ ہمیں ایسا کردار دیتا ہے جو ہم نبھا بھی سکیں۔‏ وہ ہماری خدمت کی بہت قدر کرتا ہے،‏ چاہے ہم کم کر سکیں یا زیادہ۔‏—‏عبرانیوں 6:‏10‏۔‏

14.‏ ایک خاکسار شخص کلیسیا میں اپنے کردار سے مطمئن کیوں رہتا ہے؟‏

14 یسوع مسیح کو اپنے باپ کی طرف سے جو بھی کردار ملا،‏ وہ اِس سے مطمئن رہے۔‏ (‏امثال 8:‏30،‏ 31‏)‏ ہم اُن کی مثال پر عمل کر سکتے ہیں۔‏ ایک خاکسار شخص اُن ذمےداریوں پر راضی رہتا ہے جو اُسے کلیسیا میں دی گئی ہیں۔‏ اُس کا دھیان اِس بات پر نہیں رہتا کہ دوسروں کو کون سی ذمےداریاں ملی ہیں بلکہ وہ اُن ذمےداریوں کو اچھی طرح سے نبھانے کی کوشش کرتا ہے جو اُسے ملی ہیں۔‏ وہ جانتا ہے کہ اُسے کلیسیا میں جو کردار ملا ہے،‏ وہ یہوواہ خدا کی طرف سے ہے۔‏ ایک خاکسار شخص اِس بات کو بھی تسلیم کرتا ہے کہ خدا نے کلیسیا میں دوسروں کو بھی اپنا اپنا کردار دیا ہے۔‏ اِس لیے وہ اُن کا احترام کرتا ہے اور اُن کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔‏—‏رومیوں 12:‏10‏۔‏

نئی ذمےداریوں کے بارے میں صحیح نظریہ اپنائیں

15.‏ ہم جدعون سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

15 جدعون نے خاکساری کی عمدہ مثال قائم کی۔‏ جب یہوواہ خدا نے اُنہیں بنی‌اِسرائیل کو مِدیانیوں کے ہاتھ سے چھڑانے کی ذمےداری دی تو جدعون نے کہا:‏ ”‏اَے مالک!‏ مَیں کس طرح بنی‌اِسرائیل کو بچاؤں؟‏ میرا گھرانا منسیؔ میں سب سے غریب ہے اور مَیں اپنے باپ کے گھر میں سب سے چھوٹا ہوں۔‏“‏ (‏قضاة 6:‏15‏)‏ اِس کے باوجود جدعون نے یہوواہ خدا پر بھروسا کِیا اور اِس ذمےداری کو قبول کِیا۔‏ اِس سلسلے میں اُنہوں نے خدا سے رہنمائی بھی مانگی۔‏ (‏قضاة 6:‏36-‏40‏)‏ جدعون نہ صرف طاقت‌ور اور بہادر تھے بلکہ دانش‌مند اور محتاط بھی تھے۔‏ (‏قضاة 6:‏11،‏ 27‏)‏ اُنہوں نے اپنی ذمےداری کو زیادہ اِختیار حاصل کرنے کا موقع نہیں خیال کِیا۔‏ مثال کے طور پر جب اُنہوں نے فتح حاصل کر لی تو بنی‌اِسرائیل اُنہیں اپنا حاکم بنانا چاہتے تھے۔‏ لیکن جدعون نے صاف اِنکا‌ر کر دیا۔‏ جونہی اُنہوں نے وہ ذمےداری پوری کر لی جو خدا نے اُنہیں دی تھی،‏ وہ اپنے گھر واپس لوٹ گئے۔‏—‏قضاة 8:‏22،‏ 23،‏ 29‏۔‏

16،‏ 17.‏ روحانی طور پر ترقی کرنے کے سلسلے میں ایک خاکسار شخص کن باتوں کو مدِنظر رکھتا ہے؟‏

16 مگر خاکسار ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کلیسیا میں ذمےداریاں حاصل کرنے کی خواہش نہ رکھیں۔‏ بائبل میں تو خدا کے بندوں کی حوصلہ‌افزائی کی گئی ہے کہ وہ روحانی طور پر ترقی کرنے کی کوشش کریں۔‏ (‏1-‏تیمُتھیُس 4:‏13-‏15‏)‏ لیکن کیا روحانی طور پر ترقی کرنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ ہم نئی ذمےداریاں حاصل کریں؟‏ نہیں۔‏ چاہے کسی کے پاس ذمےداریاں ہوں یا نہ ہوں،‏ ہر مسیحی اپنی شخصیت اور صلا‌حیتوں میں نکھار لانے سے روحانی طور پر ترقی کر سکتا ہے اور یوں خدا اور اپنے بہن بھائیوں کی بہتر طور پر خدمت کر سکتا ہے۔‏

17 ایک خاکسار شخص کوئی بھی ذمےداری قبول کرنے سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ اِس میں کیا کچھ شامل ہے۔‏ وہ اِس ذمےداری کے سلسلے میں دُعا کرتا ہے اور پھر اِس طرح کے سوالوں پر غور کرتا ہے:‏ ”‏اگر مَیں اِس ذمےداری کو قبول کروں گا تو کیا میرے پاس دوسرے اہم کاموں کے لیے وقت اور توانائی بچے گی؟‏ اگر ایسا نہیں ہے تو کیا مَیں اپنی حالیہ ذمےداریوں میں سے کچھ کسی اَور کے سپرد کر سکتا ہوں تاکہ مَیں اِس نئی ذمےداری کو قبول کر سکوں؟‏“‏ اِس طرح سے اپنی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد اگر اُس شخص کو لگے کہ وہ اِس نئی ذمےداری کو اچھی طرح سے نہیں نبھا پائے گا تو بہتر ہوگا کہ وہ اِسے قبول نہ کرے۔‏ یہی خاکساری کی راہ ہوگی۔‏

18.‏ ‏(‏الف)‏ ایک خاکسار شخص اُس وقت کیا کرے گا جب اُسے کوئی نئی ذمےداری دی جاتی ہے؟‏ (‏ب)‏ رومیوں 12:‏3 خاکساری کی خوبی پیدا کرنے میں ہمارے کام کیسے آ سکتی ہے؟‏

18 جب ہم کوئی نئی ذمےداری قبول کرتے ہیں تو جدعون کی طرح ہمیں بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہم یہوواہ کی رہنمائی اور برکت سے ہی اِسے کامیابی سے پورا کر سکتے ہیں۔‏ یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم ’‏اُس کے حضور فروتنی سے چلیں۔‏‘‏ (‏میکا‌ہ 6:‏8‏)‏ لہٰذا جب ہمیں کوئی نئی ذمےداری سونپی جاتی ہے تو ہمیں اُن ہدایات پر غور کرنا چاہیے جو خدا کے کلام اور اُس کی تنظیم کی طرف سے اِس ذمےداری کے سلسلے میں دی گئی ہیں۔‏ یوں ہم یہوواہ اور اُس کی تنظیم کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلیں گے۔‏ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہم خدا کی خدمت میں جو کچھ کرتے ہیں،‏ یہ ہم اپنی صلا‌حیتوں کی وجہ سے نہیں بلکہ یہوواہ کی مدد سے کر پاتے ہیں۔‏ (‏زبور 18:‏35‏)‏ ایک خاکسار شخص ’‏خود کو اپنی حیثیت سے زیادہ اہم نہیں سمجھتا۔‏‘‏‏—‏رومیوں 12:‏3 کو پڑھیں۔‏

19.‏ مسیحیوں کو خاکسار کیوں ہونا چاہیے؟‏

19 ایک خاکسار شخص اِس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ صرف یہوواہ خدا ”‏عظمت اور عزت اور طاقت کے لائق ہے“‏ کیونکہ وہ ہی کائنات کا خالق اور مالک ہے۔‏ (‏مکا‌شفہ 4:‏11‏)‏ خاکساری کی بِنا پر ہم اُس کردار سے مطمئن رہیں گے جو ہمیں خدا کی طرف سے ملا ہے۔‏ ہم اپنے بہن بھائیوں کے احساسات اور نظریات کا احترام کریں گے جس کے نتیجے میں کلیسیا کا اِتحاد قائم رہے گا۔‏ ہم کوئی بھی قدم اُٹھانے سے پہلے سوچ بچار کریں گے اور یوں بڑی بڑی غلطیاں کرنے سے بچیں گے۔‏ اِس لیے یہوواہ خدا کو خاکساری کی خوبی بہت پسند ہے اور ہم بھی اِسے بڑی اہمیت دیتے ہیں۔‏ مگر کچھ ایسی صورتحال ہیں جو ہماری خاکساری کے لیے آزمائش بن سکتی ہیں۔‏ اگلے مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ ہم ایسی صورتحال میں بھی خاکساری سے کام کیسے لے سکتے ہیں۔‏