مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 14

شمال سے ٹڈیوں کا حملہ!‏

شمال سے ٹڈیوں کا حملہ!‏

‏”‏میرے ملک پر ایک قوم چڑھ آئی ہے۔‏“‏‏—‏یوایل 1:‏6‏۔‏

گیت نمبر 95‏:‏ سچائی کی روشنی بڑھتی جا رہی ہے

مضمون پر ایک نظر *

1.‏ بھائی چارلس رسل اور اُن کے ساتھیوں نے تحقیق کرنے کا کون سا طریقہ اپنایا اور یہ طریقہ مؤثر کیوں تھا؟‏

آج سے تقریباً 100 سال پہلے کی بات ہے کہ بھائی چارلس رسل اور اُن کے ساتھیوں کے ایک چھوٹے سے گروہ نے مل کر بائبل پر تحقیق کرنی شروع کی۔‏ وہ جاننا چاہتے تھے کہ یہوواہ خدا،‏ یسوع مسیح،‏ مُردوں کی حالت اور فدیے کے متعلق بائبل کی صحیح تعلیم کیا ہے۔‏ اُن کا تحقیق کرنے کا طریقہ بڑا سادہ تھا۔‏ اُن میں سے کوئی ایک شخص کسی موضوع پر سوال اُٹھاتا اور پھر وہ سب اُس موضوع کے بارے میں بائبل کی تمام آیتوں کا جائزہ لیتے۔‏ پھر وہ اُن تمام باتوں کو لکھ لیتے جو تحقیق کرنے کے بعد سامنے آتیں۔‏ یہوواہ نے اُن بھائیوں کی مدد کی کہ وہ بائبل کی بنیادی تعلیمات کو سمجھ سکیں اور یہ تعلیمات آج بھی ہمارے ایمان کا اہم حصہ ہیں۔‏

2.‏ جب ہم بائبل کی کسی پیش‌گوئی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم کس وجہ سے کسی غلط نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں؟‏

2 بھائی چارلس رسل اور اُن کے ساتھیوں کو جلد ہی یہ احساس ہو گیا کہ بائبل کی بنیادی تعلیمات کو سمجھنا اِتنا مشکل نہیں جتنا کہ بائبل میں درج کسی پیش‌گوئی کے صحیح مطلب کو سمجھنا ہے۔‏ لیکن کیوں؟‏ ایک بات تو یہ ہے کہ ہم بائبل میں درج پیش‌گوئیوں کو اکثر تب زیادہ اچھی طرح سمجھ پاتے ہیں جب وہ پوری ہو رہی ہوتی ہیں یا ہو چُکی ہوتی ہیں۔‏دوسری بات یہ ہے کہ کسی پیش‌گوئی کو صحیح طرح سمجھنے کے لیے ہمیں عموماً پوری پیش‌گوئی پر غور کرنا پڑتا ہے۔‏ اگر ہم پیش‌گوئی کے صرف ایک پہلو پر غور کرتے ہیں اور باقی پہلوؤں کو نظرانداز کر دیتے ہیں تو ہم کسی غلط نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔‏ ایسا لگتا ہے کہ یوایل کی کتاب میں درج ایک پیش‌گوئی کے سلسلے میں بھی ہم سے ایسا ہی ہوا ہے۔‏ آئیں،‏ اُس پیش‌گوئی پر دوبارہ غور کریں اور دیکھیں کہ ہمیں اِس پیش‌گوئی کے حوالے سے اپنی وضاحت میں تبدیلی لانے کی ضرورت کیوں پڑی۔‏

3،‏ 4.‏ اب تک ہم یوایل 2:‏7-‏9 میں درج پیش‌گوئی کی کیا وضاحت پیش کرتے آئے ہیں؟‏

3 یوایل 2:‏7-‏9 کو پڑھیں۔‏ یوایل نے پیش‌گوئی کی کہ ٹڈیوں کا ایک دَل ملک اِسرائیل کو تباہ کر دے گا۔‏ اُنہوں نے بتایا کہ اُن ٹڈیوں کے دانت اور داڑھیں شیروں جیسی ہوں گی اور وہ اِسرائیل کے تمام پودوں کو چٹ کر جائیں گی۔‏ (‏یوایل 1:‏4،‏ 6‏)‏ بہت سالوں تک ہم یہ مانتے آئے ہیں کہ یہ پیش‌گوئی یہوواہ کے گواہوں کے مُنادی کے کام کی طرف اِشارہ کرتی ہے کیونکہ وہ ٹڈیوں کے ایک ایسے دَل کی طرح مُنادی کرتے رہتے ہیں جسے روکا نہیں جا سکتا۔‏ ہم سمجھتے تھے کہ اِس کام کا ”‏ملک“‏ یعنی اُن لوگوں پر تباہ‌کُن اثر ہوگا جو مذہبی رہنماؤں کے اِشاروں پر ناچتے ہیں۔‏ *

4 اگر ہم صرف یوایل 2:‏7-‏9 کو پڑھیں تو شاید ہمیں لگے کہ ہماری پُرانی وضاحت بالکل ٹھیک ہے۔‏ لیکن جب ہم اِس پیش‌گوئی کے تمام پہلوؤں پر غور کرتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ ہمیں اِسے فرق زاویے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔‏آئیں،‏ اِس حوالے سے چار وجوہات پر غور کریں۔‏

پُرانی وضاحت میں تبدیلی کی چار وجوہات

5،‏ 6.‏ اِن آیتوں پر غور کرنے سے کون سا سوال پیدا ہوتا ہے:‏ (‏الف)‏ یوایل 2:‏20‏؟‏ (‏ب)‏ یوایل 2:‏25‏؟‏

5 سب سے پہلے ذرا یہوواہ کے اِس وعدے پر غور کریں:‏”‏[‏مَیں]‏ شمالی لشکر [‏یعنی ٹڈیوں]‏ کو تُم سے دُور کروں گا۔‏“‏ (‏یوایل 2:‏20‏)‏ اگر ٹڈیاں یہوواہ کے بندوں کی طرف اِشارہ کرتی ہیں جو یسوع کے حکم کے مطابق مُنادی کرنے اور شاگرد بنانے کا کام کرتے ہیں تو پھر یہوواہ اُنہیں دُور کیوں کرے گا؟‏ (‏حِز 33:‏7-‏9؛‏ متی 28:‏19،‏ 20‏)‏ ظاہری بات ہے کہ یہوواہ نے اپنے وفادار بندوں کو نہیں بلکہ ایسے لوگوں یا چیزوں کو دُور کرنے کا وعدہ کِیا ہوگا جو اُس کے بندوں کے راستے میں رُکاوٹ کھڑی کرتی ہیں۔‏

6 دوسری وجہ کو سمجھنے کے لیے ذرا دیکھیں کہ یوایل 2:‏25 میں کیا لکھا ہے:‏ ”‏[‏مَیں]‏اُن برسوں کا حاصل جو میری تمہارے خلاف بھیجی ہوئی فوجِ‌ملخ[‏”‏ٹڈیوں کی بڑی فوج،‏“‏ اُردو جیو ورشن‏]‏ نگل گئی اور کھا کر چٹ کر گئی تُم کو واپس دوں گا۔‏“‏ غور کریں کہ یہوواہ نے اُس نقصان کی بھرپائی کرنے کا وعدہ کِیا ہے جو ٹڈیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔‏ اگر ٹڈیاں بادشاہت کی مُنادی کرنے والوں کی طرف اِشارہ کرتی ہیں تو اِس کا مطلب یہ ہوا کہ جو پیغام وہ سناتے ہیں،‏ وہ نقصان کا باعث بنتا ہے۔‏ مگر ایسا ہرگز نہیں ہے۔‏ خدا کے بندے جو پیغام سناتے ہیں،‏ وہ تو زندگیاں بچاتا ہے اور بُرے لوگوں کو توبہ کرنے کی طرف مائل کرتا ہے۔‏ (‏حِز 33:‏8،‏ 19‏)‏ ایسا پیغام اُن لوگوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔‏

7.‏ یوایل 2:‏28،‏ 29 میں درج الفاظ ”‏اِس کے بعد“‏ پر غور کرنے سے ہم کیا سمجھ پاتے ہیں؟‏

7 یوایل 2:‏28،‏ 29 کو پڑھیں۔‏ تیسری وجہ کا تعلق پیش‌گوئی میں درج واقعات کی ترتیب سے ہے۔‏ ذرا غور کریں کہ یہوواہ خدا نے کہا:‏ ”‏اِس کے بعد مَیں ہر فردِبشر پر اپنی روح نازل کروں گا۔‏“‏ اِس کا مطلب ہے کہ یہوواہ ٹڈیوں کا کام مکمل ہونے کے بعد اپنے بندوں پر اپنی پاک روح نازل کرے گا۔‏ اگر ٹڈیاں بادشاہت کی مُنادی کرنے والوں کی طرف اِشارہ کرتی ہیں تو آپ کے خیال میں کیا یہوواہ مُنادی کا کام مکمل ہونے کے بعد اُنہیں اپنی پاک روح دے گا؟‏بےشک نہیں۔‏ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر یہوواہ خدا اُنہیں اپنی پاک روح نہ دے رہا ہوتا تو وہ اِتنے سالوں سے مخالفت اور پابندیوں کے باوجود مُنادی کا کام ہرگز نہ کر پاتے۔‏

بھائی جوزف رتھرفورڈ اور مُنادی کے کام کی پیشوائی کرنے والے دیگر مسح‌شُدہ بھائیوں نے دلیری سے اِس بات کی مُنادی کی کہ خدا اِس بُری دُنیا کو ختم کر دے گا۔‏ (‏پیراگراف نمبر 8 کو دیکھیں۔‏)‏

8.‏ مکاشفہ 9:‏1-‏11 میں جن ٹڈوں کا ذکر کِیا گیا ہے،‏ وہ کن کی طرف اِشارہ کرتے ہیں؟‏ (‏سرِورق کی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

8 مکاشفہ 9:‏1-‏11 کو پڑھیں۔‏ آئیں،‏ اب چوتھی وجہ پر غور کرتے ہیں۔‏ ماضی میں ہم ایک اَور بِنا پر بھی یوایل کی ٹڈیوں والی پیش‌گوئی کو مُنادی کے کام سے جوڑتے تھے۔‏ دراصل ٹڈیوں کے حوالے سے جیسی پیش‌گوئی یوایل کی کتاب میں درج ہے ویسی ہی ایک پیش‌گوئی مکاشفہ کی کتاب میں بھی درج ہے۔‏ مکاشفہ کی کتاب میں ٹڈوں کے ایک دَل کے بارے میں بتایا گیا ہے جن کے چہرے اِنسانوں کی طرح ہیں اور جن کے ”‏سروں پر سونے کے تاج جیسا کچھ“‏ ہے۔‏ (‏مکا 9:‏7‏)‏ وہ ”‏اُن لوگوں [‏یعنی خدا کے دُشمنوں]‏ کو جن کے ماتھے پر خدا کی مُہر نہیں ہے،‏“‏ پانچ مہینوں تک اذیت پہنچاتے ہیں۔‏ ایک ٹڈے کی عمر عموماً پانچ مہینے ہی ہوتی ہے۔‏ (‏مکا 9:‏4،‏ 5‏)‏ ایسا لگتا ہے کہ یہ پیش‌گوئی یہوواہ کے مسح‌شُدہ بندوں کے بارے میں ہے۔‏ وہ بڑی دلیری سے اُس سزا کا پیغام سناتے ہیں جو خدا اِس بُری دُنیا پر نازل کرنے والا ہے۔‏ یوں وہ ایک لحاظ سے اُن لوگوں کو اذیت پہنچاتے ہیں جو اِس دُنیا کی حمایت کرتے ہیں۔‏

9.‏ یوایل اور یوحنا کی پیش‌گوئیوں میں کون سی باتیں فرق ہیں؟‏

9 سچ ہے کہ مکاشفہ کی کتاب میں درج پیش‌گوئی یوایل کی پیش‌گوئی سے ملتی جلتی ہے۔‏ لیکن اِن دونوں پیش‌گوئیوں میں کچھ باتیں بالکل فرق ہیں۔‏ یوایل کی پیش‌گوئی میں ٹڈیوں نے پودوں کو تباہ کر دیا۔‏ (‏یوایل 1:‏4،‏ 6،‏ 7‏)‏ اِس کے برعکس یوحنا نے جو رُویا دیکھی،‏ اُس میں ٹڈوں سے ”‏کہا گیا کہ وہ زمین کے پودوں ‏.‏ .‏ .‏ کو نقصان نہ پہنچائیں۔‏“‏ (‏مکا 9:‏4‏)‏ یوایل نے جن ٹڈیوں کو دیکھا،‏ وہ شمال سے آئی تھیں۔‏ (‏یوایل 2:‏20‏)‏ یوحنا نے جن ٹڈوں کو دیکھا،‏ وہ اتھاہ گڑھے سے نکلے تھے۔‏ (‏مکا 9:‏2،‏ 3‏)‏ جن ٹڈیوں کا ذکر یوایل نے کِیا،‏ اُنہیں دُور کر دیا گیا جبکہ مکاشفہ میں جن ٹڈوں کا ذکر ہے،‏ اُنہیں دُور نہیں کِیا گیا بلکہ اپنا کام مکمل کرنے کی اِجازت دی گئی۔‏ اور بائبل میں کہیں اِس بات کا اِشارہ نہیں ملتا کہ یہوواہ اُن سے ناخوش تھا۔‏—‏بکس ”‏ ٹڈیوں کے متعلق دو ملتی جلتی مگر فرق پیش‌گوئیاں‏“‏ کو دیکھیں۔‏

10.‏ بائبل سے ایک مثال دے کر واضح کریں کہ یوایل نے جن”‏ٹڈیوں“‏ کا ذکر کِیا،‏ وہ اُن ”‏ٹڈوں“‏ سے فرق ہیں جن کا مکاشفہ کی کتاب میں ذکر ہے۔‏

10 یوایل اور یوحنا کی پیش‌گوئیوں میں نمایاں فرق یہ ثابت کرتا ہے کہ اِن دونوں پیش‌گوئیوں کا آپس میں تعلق نہیں ہے۔‏تو پھر کیا جن ”‏ٹڈیوں“‏ کا یوایل نے ذکر کِیا،‏ وہ اُن ”‏ٹڈوں“‏ سے فرق ہیں جن کا مکاشفہ کی کتاب میں ذکر ہے؟‏ جی ہاں۔‏ بائبل میں کبھی کبھار دو مختلف جگہوں پر ایک ہی تشبیہ اِستعمال ہوتی ہے لیکن اُس کے مطلب فرق ہوتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر مکاشفہ 5:‏5 میں یسوع کو”‏یہوداہ کے قبیلے کا شیر“‏ کہا گیا ہے جبکہ 1-‏پطرس 5:‏8 میں شیطان کو ”‏ایک دھاڑتے ہوئے ببر شیر“‏ سے تشبیہ دی گئی ہے۔‏ ہم نے یوایل کی پیش‌گوئی کے حوالے سے جن چار وجوہات پر غور کِیا ہے،‏ اُن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ پیش‌گوئی ہمارے مُنادی کے کام کی طرف اِشارہ نہیں کرتی۔‏ تو پھر اِس پیش‌گوئی کی صحیح وضاحت کیا ہو سکتی ہے؟‏

یوایل کی پیش‌گوئی کا کیا مطلب ہے؟‏

11.‏ یوایل 1:‏6 اور 2:‏1،‏ 8،‏ 11 سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد کیسے ملتی ہے کہ ٹڈیاں کس کی طرف اِشارہ کرتی ہیں؟‏

11 یوایل کی پیش‌گوئی کے باقی حصوں پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یوایل فوجیوں کے حملے کے بارے میں بات کر رہے تھے۔‏ (‏یوایل 1:‏6؛‏ 2:‏1،‏ 8،‏ 11‏)‏ یہوواہ نے کہا کہ وہ اپنی ”‏بڑی فوج“‏ (‏یعنی بابل کے فوجیوں)‏ کے ذریعے نافرمان اِسرائیلیوں کو سزا دے گا۔‏ (‏یوایل 2:‏25‏،‏ اُردو جیو ورشن‏)‏ اِس فوج کو ”‏شمالی لشکر“‏ کہنا بالکل درست ہے کیونکہ بابلیوں نے ملک اِسرائیل پر شمال کی طرف سے حملہ کِیا۔‏ (‏یوایل 2:‏20‏)‏ یہ فوج ٹڈیوں کے ایک منظم دَل جیسی تھی۔‏ اِس فوج کے بارے میں بات کرتے ہوئے یوایل نے کہا:‏ ”‏ہر ایک [‏فوجی]‏ اپنی راہ پر چلا جاتا ہے۔‏ ‏.‏ .‏ .‏ وہ شہر میں کود پڑتے اور دیواروں اور گھروں پر چڑھکر چوروں کی طرح کھڑکیوں سے گھس جاتے ہیں۔‏“‏ (‏یوایل 2:‏8،‏ 9‏)‏ کیا آپ اِس منظر کا تصور کر سکتے ہیں؟‏ ہر طرف فوجی ہی فوجی ہیں اور اُن سے فرار حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔‏ بابلیوں کی تلوار سے کوئی نہیں بچ سکتا ہے۔‏

12.‏ ٹڈیوں کے حوالے سے یوایل کی پیش‌گوئی کیسے پوری ہوئی؟‏

12 بابلیوں (‏یا کسدیوں)‏ نے ٹڈیوں کی طرح 607 قبل‌ازمسیح میں یروشلیم پر حملہ کر دیا۔‏ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ خدا ”‏کسدیوں کے بادشاہ کو اُن پر چڑھا لایا جس نے اُن کے مقدِس کے گھر میں اُن کے جوانوں کو تلوار سے قتل کِیا اور اُس نے کیا جوان مرد کیا کنواری کیا بڈھا یا عمررسیدہ کسی پر ترس نہ کھایا۔‏ اُس نے سب کو اُس کے ہاتھ میں دے دیا۔‏ اور اُنہوں نے خدا کے گھر کو جلا دیا اور یرؔوشلیم کی فصیل ڈھا دی اور اُس کے تمام محل آگ سے جلا دئے اور اُس کے سب قیمتی ظروف کو برباد کِیا۔‏“‏ (‏2-‏توا 36:‏17،‏ 19‏)‏ جب بابلیوں نے یروشلیم پر فتح پا لی اور اِسے تباہ و برباد کر دیا تو لوگ یروشلیم کی سرزمین کے بارے میں یہ کہنے لگے:‏ ”‏وہاں نہ اِنسان ہے نہ حیوان۔‏ وہ کسدیوں کے حوالہ کِیا گیا۔‏“‏—‏یرم 32:‏43‏۔‏

13.‏ یرمیاہ 16:‏16،‏ 18 کی وضاحت کریں۔‏

13 یوایل کی پیش‌گوئی کے کوئی 200 سال بعد یہوواہ نے یرمیاہ کے ذریعے بابلیوں کے حملے کے بارے میں کچھ اَور باتوں کی پیش‌گوئی کی۔‏ یرمیاہ نے کہا کہ اُن اِسرائیلیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالا جائے گا جو بُرے کاموں میں ملوث ہیں اور اُنہیں قیدی بنا لیا جائے گا۔‏ یہوواہ نے فرمایا:‏ ”‏دیکھ مَیں بہت سے ماہی‌گیروں کو بلواؤں گا اور وہ اُن کو شکار کریں گے اور پھر مَیں بہت سے شکاریوں کو بلواؤں گا اور وہ ہر پہاڑ سے اور ہر ٹیلے سے اور چٹانوں کے شگافوں سے اُن کو پکڑ نکالیں گے۔‏ اور مَیں ‏.‏ .‏ .‏ اُن کی بدکرداری اور خطاکاری کی دونی سزا دوں گا۔‏“‏ جن اِسرائیلیوں نے اپنی بُری روِش سے باز نہیں آنا تھا،‏اُنہیں نہ تو سمندر میں اور نہ ہی جنگل میں بابلی فوجیوں سے چھپنے کی کوئی جگہ ملنی تھی۔‏—‏یرم 16:‏16،‏ 18‏۔‏

بحالی کی پیش‌گوئی

14.‏ یوایل 2:‏28،‏ 29 میں درج پیش‌گوئی کب پوری ہوئی؟‏

14 ٹڈیوں کے دَل کے حملے کے بارے میں پیش‌گوئی کرنے کے بعد یوایل نے ایک خوشی کی خبر سنائی۔‏ اُنہوں نے کہا کہ زمین پر پھر سے فصلوں کی پیداوار ہونے لگے گی۔‏ (‏یوایل 2:‏23-‏26‏)‏ اِس کے بعد مستقبل میں کسی وقت خدا کے بندوں کو وافر مقدار میں روحانی کھانا ملے گا۔‏ یہوواہ نے کہا:‏ ”‏مَیں ہر فردِبشر پر اپنی روح نازل کروں گا اور تمہارے بیٹے بیٹیاں نبوّت کریں گے۔‏ .‏ .‏ .‏ بلکہ مَیں ‏.‏ .‏ .‏ غلاموں اور لونڈیوں پر اپنی روح نازل کروں گا۔‏“‏ (‏یوایل 2:‏28،‏ 29‏)‏ لیکن خدا کے بندوں پر اُس کی پاک روح نازل ہونے کی یہ پیش‌گوئی اُس وقت پوری نہیں ہوئی جب وہ بابل کی غلامی سے آزاد ہوئے۔‏ اِس کی بجائے یہ پیش‌گوئی صدیوں بعد 33ء کی عیدِپنتِکُست پر پوری ہوئی۔‏ ہم ایسا کیوں کہہ سکتے ہیں؟‏

15.‏ جب پطرس نے اعمال 2:‏16،‏ 17 میں یوایل 2:‏28 کو دُہرایا تو اُنہوں نے کون سے فرق الفاظ اِستعمال کیے اور اِس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟‏

15 خدا کے اِلہام سے پطرس رسول نے یوایل 2:‏28،‏ 29 کو اُس شان‌دار واقعے سے جوڑا جو عیدِپنتِکُست کے دن پیش آیا۔‏ تقریباً صبح 9 بجے کا وقت تھا کہ خدا کی پاک روح حیران‌کُن طریقے سے اُس کے بندوں پر نازل ہوئی۔‏ جن لوگوں کو پاک روح ملی،‏ وہ فرق فرق زبانوں میں ”‏خدا کے شان‌دار کاموں کے بارے میں“‏ بات کرنے لگے۔‏ (‏اعما 2:‏11‏)‏ جب پطرس نے خدا کے اِلہام سے یوایل کی پیش‌گوئی کو دُہرایا تو اُنہوں نے تھوڑے فرق الفاظ اِستعمال کیے۔‏ کیا آپ نے غور کِیا کہ پطرس نے کون سے فرق الفاظ اِستعمال کیے؟‏ ‏(‏اعمال 2:‏16،‏ 17 کو پڑھیں۔‏)‏ اُنہوں نے یوایل کی طرح شروع میں”‏اِس کے بعد“‏ کہنے کی بجائے”‏آخری زمانے میں“‏ کہا۔‏ اِس سیاق‌وسباق میں ”‏آخری زمانے“‏ سے مُراد وہ عرصہ ہے جب یروشلیم اور اِس میں موجود ہیکل تباہ ہونے والی تھی۔‏ اُس وقت خدا کی پاک روح ”‏ہر طرح کے لوگوں پر“‏ نازل ہونی تھی۔‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب یوایل نے یوایل 2:‏28 میں درج پیش‌گوئی کی تو اِس کے کافی عرصے بعد یہ پیش‌گوئی پوری ہوئی۔‏

16.‏ پہلی صدی عیسوی میں پاک روح کا مُنادی کے کام پر کیا اثر ہوا اور آج پاک روح کا مُنادی کے کام پر کیا اثر ہو رہا ہے؟‏

16 پہلی صدی عیسوی میں جب حیران‌کُن طریقے سے پاک روح نازل ہوئی تو اِس کے بعد مُنادی کا کام بڑے پیمانے پر ہونا شروع ہو گیا۔‏ جب پولُس رسول نے 61ء میں کُلسّیوں کے نام خط لکھا تو اُنہوں نے کہا کہ خوش‌خبری کی مُنادی ”‏آسمان کے نیچے ہر جگہ“‏ کی جا چُکی ہے۔‏ (‏کُل 1:‏23‏)‏ پولُس کے زمانے میں ”‏آسمان کے نیچے ہر جگہ“‏سے مُراد وہ تمام علاقے تھے جہاں پولُس اور دوسرے مسیحی سفر کر کے جا سکتے تھے۔‏ یہوواہ کی طاقت‌ور پاک روح کی مدد سے ہمارے زمانے میں مُنادی کا کام اَور بھی زیادہ وسیع پیمانے پر یعنی ”‏زمین کی اِنتہا تک“‏ کِیا جا رہا ہے۔‏—‏اعما 13:‏47‏؛‏ بکس ’‏ مَیں اپنی روح نازل کروں گا‏‘‏ کو دیکھیں۔‏

ہماری وضاحت میں تبدیلی مگر مُنادی کے لیے ہمارے جوش میں نہیں

17.‏ یوایل نے ٹڈیوں کے حوالے سے جو پیش‌گوئی کی،‏ اُس کی وضاحت میں کیا تبدیلی کی گئی ہے؟‏

17 اب ہم یوایل 2:‏7-‏9 میں درج پیش‌گوئی کو صحیح طور پر سمجھ گئے ہیں۔‏ مختصر لفظوں میں کہیں تو یہ آیتیں ہمارے مُنادی کے کام کی طرف اِشارہ نہیں کرتیں جسے ہم جوش‌وخروش سے انجام دے رہے ہیں بلکہ یہ آیتیں بابلی فوج کے اُس حملے کی طرف اِشارہ کرتی ہیں جو اُنہوں نے 607 قبل‌ازمسیح میں یروشلیم پر کِیا تھا۔‏

18.‏ ہماری نئی وضاحت سے کس چیز میں تبدیلی نہیں آئی ہے؟‏

18 یہ سچ ہے کہ یوایل 2:‏7-‏9 میں درج پیش‌گوئی کے حوالے سے ہماری وضاحت میں تبدیلی آئی ہے لیکن مُنادی کے کام کے لیے ہمارے جوش میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔‏ یہوواہ کے بندے اب بھی ہر جگہ خوش‌خبری کی مُنادی کر رہے ہیں اور اِس کے لیے ہر ممکن طریقہ اِستعمال کر رہے ہیں۔‏ (‏متی 24:‏14‏)‏ حکومتوں کی طرف سے کسی بھی طرح کی پابندی ہمیں مُنادی کے سلسلے میں یسوع کے حکم پر عمل کرنے سے نہیں روک سکتی۔‏ چونکہ ہم پر یہوواہ کا ہاتھ ہے اِس لیے ہم دلیری سے اور پہلے سے زیادہ سرگرمی سے بادشاہت کی خوش‌خبری کی مُنادی کر رہے ہیں۔‏ ہم بائبل میں درج پیش‌گوئیوں کو سمجھنے کے لیے خاکساری سے یہوواہ کی طرف رُجوع کرتے ہیں اور اِس بات پر بھروسا رکھتے ہیں کہ صحیح وقت آنے پر وہ ہمیں اِس قابل بنائے گا کہ ہم ”‏سچائی کو پوری طرح سمجھ جائیں۔‏“‏—‏یوح 16:‏13‏۔‏

گیت نمبر 97‏:‏ خدا کا زندگی‌بخش کلام

^ پیراگراف 5 بہت سالوں سے ہم یہ مانتے آئے ہیں کہ یوایل کی کتاب کے پہلے اور دوسرے باب میں جو پیش‌گوئی کی گئی ہے،‏ وہ ہمارے زمانے میں ہونے والے مُنادی کے کام کی طرف اِشارہ کرتی ہے۔‏ لیکن چار وجوہات کی بِنا پر ہمیں یوایل کی پیش‌گوئی کے ایک حصے کے حوالے سے اپنی وضاحت میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔‏یہ کون سی وجوہات ہیں؟‏

^ پیراگراف 3 ہماری پُرانی وضاحت کے حوالے سے ‏”‏مینارِنگہبانی،‏“‏ 1 اپریل 2009،‏ میں مضمون ”‏خلقت سے یہوواہ خدا کی حکمت ظاہر ہوتی ہے‏“‏ کے پیراگراف 14-‏16 کو دیکھیں۔‏