مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آپ‌بیتی

ہمیں ”‏بہت ہی قیمتی موتی“‏ مل گیا!‏

ہمیں ”‏بہت ہی قیمتی موتی“‏ مل گیا!‏

ونسٹن اور پامیلا پین آسٹریلیشیا برانچ میں خدمت کر رہے ہیں۔‏ وہ بہت خوش‌گوار زندگی گزارتے آئے ہیں لیکن اِس دوران اُنہوں نے بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کِیا ہے۔‏ مثال کے طور پر اُنہیں خود کو نئی ثقافتوں کے مطابق ڈھالنا پڑا اور اُن کا بچہ بھی ضائع ہو گیا جو اُن کے لیے کافی دُکھ کا باعث تھا۔‏ اِس سب کے باوجود اُن کے دل میں یہوواہ اور اُس کے بندوں کے لیے محبت برقرار رہی اور خدا کی خدمت میں اُن کی خوشی بھی کم نہیں ہوئی۔‏ اِس اِنٹرویو میں ہم نے اُن سے اُن کی زندگی کے کچھ یادگار لمحوں کے بارے میں پوچھا ہے۔‏

بھائی ونسٹن،‏ ہمیں بتائیں کہ آپ نے خدا کو کیسے تلاش کِیا۔‏

مَیں آسٹریلیا کی ریاست کوئنزلینڈ میں ایک دُوردراز کھیت میں پلا بڑھا۔‏ اِس لیے اپنے گھر والوں کے علاوہ دوسروں سے میرا کم ہی واسطہ پڑتا تھا۔‏ میری پرورش ایک ایسے گھرانے میں ہوئی جو مذہبی نہیں تھا۔‏ جب مَیں تقریباً 12 سال کا تھا تو مَیں نے خدا کی تلاش شروع کر دی۔‏ مَیں نے دُعا میں اُس سے درخواست کی کہ وہ مجھے اپنے بارے میں سچائی بتائے۔‏ جب مَیں بڑا ہوا تو مَیں اپنا گھر چھوڑ کر ریاست جنوبی آسٹریلیا کے شہر ایڈلیڈ منتقل ہو گیا اور وہاں مجھے کام مل گیا۔‏ 21 سال کی عمر میں میری ملاقات پامیلا سے شہر سڈنی میں ہوئی جہاں مَیں چھٹیاں منانے گیا ہوا تھا۔‏ پامیلا نے مجھے ایک ایسے مذہبی گروہ کے بارے میں بتایا جس کے ارکان کا یہ دعویٰ تھا کہ برطانوی لوگ اِسرائیل کے کھوئے ہوئے قبیلوں کی نسل سے ہیں۔‏ اُن کے مطابق یہ قبیلے اِسرائیل کی شمالی سلطنت کے دس قبیلے تھے جو آٹھویں صدی قبل‌ازمسیح میں اسیر ہو گئے۔‏ جب مَیں ایڈلیڈ واپس گیا تو مَیں نے اِس موضوع پر اپنے ایک ساتھی کارکُن سے بات کی جو یہوواہ کے گواہوں سے بائبل کورس کر رہا تھا۔‏ چند ہی گھنٹے اُس کے ساتھ گواہوں کے عقیدوں پر بات کر کے مجھے پتہ چل گیا کہ میرے بچپن میں کی گئی دُعا کا جواب مجھے مل گیا ہے۔‏ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ مَیں اپنے خالق اور اُس کی بادشاہت کے بارے میں سیکھ رہا تھا۔‏ مجھے وہ ”‏بہت ہی قیمتی موتی مل گیا“‏ جس کا ذکر یسوع نے کِیا تھا۔‏—‏متی 13:‏45،‏ 46‏۔‏

بہن پامیلا،‏ آپ نے بھی چھوٹی عمر سے ہی اِس قیمتی موتی کی تلاش شروع کر دی تھی۔‏ آپ کو یہ کیسے ملا؟‏

مَیں ریاست نیو ساؤتھ ویلز کے شہر کافس ہاربر میں پلی بڑھی۔‏ میری پرورش ایک مذہبی گھرانے میں ہوئی۔‏ میرے امی ابو اور نانا نانی اُس مذہبی گروہ کا حصہ بن گئے جن کا ماننا تھا کہ برطانوی لوگ اِسرائیل کے کھوئے ہوئے قبیلوں کی نسل سے ہیں۔‏ مجھے،‏ میری بڑی بہن،‏ میرے چھوٹے بھائی اور میرے بہت سے کزنوں کو بچپن سے یہی سکھایا گیا تھا کہ اُن لوگوں کو خاص طور پر خدا کی خوشنودی حاصل ہے جن کا تعلق برطانیہ سے ہے۔‏ لیکن مَیں اِس عقیدے سے قائل نہیں تھی۔‏ لہٰذا جب مَیں 14 سال کی تھی تو مَیں مختلف مقامی چرچوں میں جانے لگی جن میں اینگلیکن چرچ،‏ بپٹسٹ چرچ اور سیونتھ ڈے ایڈونٹسٹ چرچ شامل تھے۔‏ لیکن پھر بھی میری روحانی بھوک اور پیاس دُور نہیں ہوئی۔‏

بعد میں میرے گھر والے سڈنی منتقل ہو گئے جہاں میری ملاقات ونسٹن سے ہوئی جو چھٹیاں منانے وہاں آئے ہوئے تھے۔‏ اور جیسے ونسٹن نے بتایا کہ ہمارے مذہبی موضوعات پر بات چیت کرنے کی وجہ سے وہ گواہوں کے ساتھ بائبل کورس کرنے لگے۔‏ شادی سے پہلے جب ہم ایک دوسرے کو خط لکھا کرتے تھے تو ونسٹن کے خط بائبل کی آیتوں سے بھرے ہوتے تھے۔‏ سچ کہوں تو شروع شروع میں مَیں اِن خطوں کو پڑھ کر پریشان ہوئی،‏ یہاں تک کہ ونسٹن سے ناراض بھی ہوئی۔‏ لیکن آہستہ آہستہ مَیں سمجھ گئی کہ جو کچھ وہ خطوں میں خدا کے بارے میں لکھ رہے ہیں،‏ وہ واقعی سچ ہے۔‏

سن 1962ء میں مَیں ایڈلیڈ منتقل ہو گئی جہاں ونسٹن رہ رہے تھے۔‏ اُنہوں نے میری رہائش کا بندوبست تھامس اور جانیس نامی ایک شادی‌شُدہ جوڑے کے ساتھ کر دیا جو یہوواہ کے گواہ تھے۔‏ اُنہوں نے کافی عرصے تک پاپوا نیوگنی میں مشنریوں کے طور پر خدمت کی تھی۔‏ اُنہوں نے میرے لیے بڑی مہربانی دِکھائی۔‏ جب مَیں اُن کے ساتھ رہنے لگی تو اُس وقت مَیں صرف 18 سال کی تھی۔‏ اُنہوں نے یہوواہ کو اَور اچھی طرح سے جاننے میں میری بہت مدد کی۔‏ مَیں نے بائبل کورس کرنا شروع کر دیا اور جلد ہی مجھے اِس بات کا پورا یقین ہو گیا کہ مجھے سچائی مل گئی ہے۔‏ پھر جب ہماری شادی ہوئی تو ہم نے فوراً ہی مل کر یہوواہ کی خدمت شروع کر دی۔‏ یوں ہم نے ایک ایسی بااجر زندگی کا آغاز کِیا جس میں مشکلیں تو آئیں لیکن جس نے ہمارے دل میں اُس قیمتی موتی کی قدر کو اَور بڑھایا جو ہمیں مل گیا تھا۔‏

بھائی ونسٹن،‏ ہمیں یہوواہ کی خدمت میں گزارے پہلے چند سالوں کے بارے میں بتائیں۔‏

1.‏ وہ جزائر جہاں بھائی ونسٹن نے بہن پامیلا کے ساتھ حلقے کے نگہبان کے طور پر دورہ کِیا۔‏

2.‏ کچھ جزیروں کی ڈاک کی ٹکٹیں کیریباتی اور ٹوالو کے جزائر جو پہلے گلبرٹ‌والیس کے جزائر کے نام سے مشہور تھے۔‏

3.‏ فونافوتی کا خوب‌صورت جزیرہ جو ٹوالو کے جزیروں میں شامل ہے۔‏ یہ اُن جزائر میں سے ایک ہے جہاں ہم گئے اور جہاں ہم سے پہلے کسی مشنری کو نہیں بھیجا گیا۔‏

ابھی ہماری شادی کو تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ یہوواہ نے ہمارے لیے ’‏خدمت کرنے کے وسیع دروازے کھولنے‘‏ شروع کیے۔‏ (‏1-‏کُر 16:‏9‏)‏ پہلا دروازہ جو یہوواہ نے ہمارے لیے کھولا،‏ وہ پہل‌کار کے طور پر خدمت تھی۔‏ بھائی جیک پورٹر اور اُن کی بیوی روسلین نے ہماری توجہ اِس خدمت پر دِلائی۔‏ اُس وقت بھائی جیک ہماری چھوٹی سی کلیسیا کے حلقے کے نگہبان تھے۔‏ (‏اب وہ میرے ساتھ آسٹریلیشیا برانچ کی کمیٹی کے رُکن ہیں۔‏)‏ ہم نے پانچ سال تک پہل‌کاروں کے طور پر خدمت کی اور ہمیں اِس شرف کو انجام دینے میں بہت مزہ آیا۔‏ 29 سال کی عمر میں مجھے جنوبی بحراُلکاہل کے جزائر میں حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت کرنے کو کہا گیا جو اُس وقت فیجی برانچ کی نگرانی میں تھے۔‏ اِن جزائر میں امریکی ساموا،‏ ساموا،‏ کیریباتی،‏ ناؤرو،‏ نیوئے،‏ ٹوکیلاؤ،‏ ٹونگا،‏ ٹوالو،‏ وانواٹو شامل تھے۔‏

چونکہ کلیسیائیں چھوٹی تھیں اِس لیے اِن میں سے کچھ ہمیں رہائش فراہم نہیں کر سکتی تھیں۔‏ لہٰذا ہم گاؤں کے مقامی لوگوں سے پوچھتے تھے کہ کیا ہم اُن کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔‏ ہمیں اِن دُوردراز جزیروں میں رہنے والے لوگوں کے ساتھ ہوشیاری اور سمجھ‌داری سے کام لینا پڑتا تھا کیونکہ وہ یہوواہ کے گواہوں کو اُن کے مذہب کی وجہ سے شک کی نظر سے دیکھتے تھے۔‏ (‏متی 10:‏16‏)‏ البتہ یہ لوگ بہت مہمان‌نواز تھے اور ہمیشہ ہمارے ساتھ مہربانی سے پیش آتے تھے۔‏

بھائی ونسٹن،‏ سنا ہے کہ آپ کو ترجمے کے کام میں بہت دلچسپی ہے۔‏ یہ دلچسپی کیسے پیدا ہوئی؟‏

ساموا میں بھائی ونسٹن بزرگوں کے سکول کے دوران بھائیوں کو تربیت دے رہے ہیں۔‏

اُس زمانے میں ٹونگا کے جزیرے پر رہنے والے بہن بھائیوں کے پاس ٹونگان زبان میں صرف کچھ ہی پرچے اور کتابچے تھے۔‏ مُنادی کے دوران وہ انگریزی زبان میں دستیاب کتاب ‏”‏سچائی جو باعثِ‌ابدی زندگی ہے“‏ سے لوگوں کو بائبل کورس کراتے تھے۔‏ لہٰذا جب چار ہفتوں کے لیے بزرگوں کا ایک سکول منعقد ہوا تو اِس دوران تین مقامی بزرگ جو کسی حد تک انگریزی سمجھ لیتے تھے،‏ اِس کتاب کا ترجمہ کرنے پر راضی ہو گئے۔‏ اُنہوں نے ترجمہ کر کے ہمیں دیا جسے پامیلا نے ٹائپ کر لیا۔‏ پھر ہم نے اِسے چھپائی کے لیے ریاستہائے متحدہ امریکہ کی برانچ میں بھیج دیا۔‏ پوری کتاب کے ترجمے میں آٹھ ہفتے لگے۔‏ سچ ہے کہ ترجمے کا معیار اِتنا اچھا نہیں تھا لیکن اِس کتاب کی مدد سے ٹونگان بولنے والے بہت سے لوگوں کو سچائی سیکھنے میں مدد ملی۔‏ پامیلا اور مَیں ترجمہ‌نگار تو نہیں ہیں لیکن اِس تجربے سے ہم ترجمے کے کام میں دلچسپی لینے لگے۔‏

بہن پامیلا،‏ آسٹریلیا کے مقابلے میں جزیروں پر زندگی گزارنا کیسا تھا؟‏

کلیسیاؤں کا دورہ کرتے وقت کبھی کبھار یہ گاڑی ہماری رہائش‌گاہ ہوتی تھی۔‏

بہت ہی فرق!‏ مختلف علاقوں میں ہمیں طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جیسے کہ مچھروں کے غول،‏ چوہے،‏ بیماری،‏ شدید گرمی اور حبس وغیرہ۔‏ کبھی کبھار تو ہمارے پاس کھانے کو بہت کم ہوتا تھا۔‏ لیکن وہاں رہنے کے کچھ فائدے بھی تھے۔‏ چونکہ اِن جزیروں کے روایتی گھروں کی کوئی دیواریں نہیں ہوتی تھیں اِس لیے ہر دن کے آخر پر ہمیں اپنی رہائش‌گاہ سے سمندر کا نظارہ کر کے بہت سکون ملتا تھا۔‏ کبھی کبھار رات کو چاند کی روشنی اِتنی تیز ہوتی تھی کہ ہمیں ناریل کے درخت صاف دِکھائی دیتے تھے اور سمندر پر چاند کا عکس نظر آتا تھا۔‏ ایسے نظارے دیکھ کر ہمیں سوچ بچار اور دُعا کرنے کی ترغیب ملتی تھی اور یوں ہمیں منفی باتوں پر سوچنے کی بجائے مثبت باتوں پر سوچنے میں مدد ملتی تھی۔‏

ہمیں وہاں کے بچے بہت اچھے لگنے لگے۔‏ اُن کی باتوں اور حرکتوں پر ہمیں بہت ہنسی آتی تھی۔‏ اُنہیں گوروں کو دیکھ کر بہت تجسّس ہوتا تھا۔‏ ایک دفعہ جب ہم نیوئے کا دورہ کر رہے تھے تو ایک چھوٹے لڑکے نے ونسٹن کے بازو پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا:‏ ”‏اُوئی،‏ اِتنے زیادہ بال!‏“‏ لگتا ہے کہ اُس نے بازؤوں پر اِتنے گھنے بال پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔‏

لوگوں کی غریبی کو دیکھ کر ہمارا دل بہت دُکھتا تھا۔‏ یہ لوگ اِتنی خوب‌صورت جگہ پر رہ رہے تھے لیکن افسوس کہ وہاں طبّی سہولتیں بہت کم تھیں اور پینے کے پانی کی بھی قلت تھی۔‏ مگر ہمارے بہن بھائی مایوسی کا شکار نہیں تھے۔‏ وہ ایسے حالات کے عادی تھے۔‏ اُنہیں خوشی تھی کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ ہیں،‏ اُن کے پاس عبادت کرنے کی جگہ ہے اور اُنہیں یہوواہ کی بڑائی کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔‏ اُن کی مثال سے ہمیں اپنی زندگی کو سادہ رکھنے اور زیادہ اہم باتوں پر توجہ مرکوز رکھنے کی ترغیب ملی۔‏

بہن پامیلا،‏ کبھی کبھار آپ کو پانی بھرنے خود جانا پڑتا تھا اور کھانا بنانے کے لیے کافی محنت کرنی پڑتی تھی۔‏ آپ یہ سب کیسے کر پائیں؟‏

ٹونگا میں رہتے وقت بہن پامیلا اپنے کپڑے دھو رہی ہیں۔‏

مَیں اپنے ابو کی بڑی شکرگزار ہوں کہ اُنہوں نے مجھے بہت سی کام کی باتیں سکھائیں جیسے کہ آگ کیسے جلانی ہے اور اِس پر کھانا کیسے پکانا ہے۔‏ اُنہوں نے مجھے تھوڑے پر گزارہ کرنا بھی سکھایا۔‏ ایک دفعہ کیریباتی کے جزیرے کا دورہ کرتے وقت ہم ایک چھوٹے سے گھر میں رُکے جس کی چھت کھجور کی ڈالیوں سے بنی تھی،‏ فرش مونگوں کے کنکروں کا بنا ہوا تھا اور دیواریں بانس کی تھیں۔‏ ایک سادہ سا کھانا بنانے کے لیے مَیں نے فرش میں ایک سوراخ کِیا تاکہ وہاں آگ جلائی جا سکے۔‏ آگ سلگانے کے لیے مَیں نے سوراخ میں ناریل کی چھال ڈالی۔‏ جہاں تک پانی بھرنے کا سوال ہے تو اِس کے لیے مَیں کنوئیں پر جاتی تھی اور مقامی عورتوں کے ساتھ قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا اِنتظار کرتی تھی۔‏ پانی کو کنوئیں سے نکالنے کے لیے یہ عورتیں چھ فٹ لمبی لکڑی اِستعمال کرتی تھیں جس کے آخر پر پتلی سی ڈوری بندھی ہوتی تھی۔‏ یہ اوزار مچھلی پکڑنے والی راڈ کی طرح تھا۔‏ لیکن فرق صرف اِتنا تھا کہ اِس ڈوری کے سرے پر کانٹا نہیں بلکہ ٹین کا ڈبہ لگا ہوتا تھا۔‏ ہر عورت اپنی باری آنے پر ڈوری کو کنوئیں میں ڈالتی اور صحیح لمحے پر اپنی کلائی کو جھٹکا دیتی۔‏ یوں ٹین کا ڈبہ ایک طرف کو جھک جاتا اور اُس میں پانی بھر جاتا۔‏ مَیں نے سوچا یہ تو بڑا آسان ہے۔‏ لیکن جب میری باری آئی تو مجھے پتہ چلا کہ یہ کتنا مشکل کام ہے۔‏ مَیں نے کئی بار ڈوری کو کنوئیں میں ڈالا لیکن ہر بار ٹین کا ڈبہ پانی سے ٹکرا کر بس اُوپر تیرنے لگتا۔‏ سب عورتیں مجھے دیکھ کر ہنسنے لگیں لیکن پھر ایک عورت نے میری مدد کی۔‏ وہاں کے مقامی لوگ بہت ہی مہربان اور دوسروں کے کام آنے والے تھے۔‏

آپ دونوں کو ہی جزیروں پر خدمت کرنے میں مزہ آنے لگا تھا۔‏ کیا آپ ہمیں اپنی کچھ خاص یادیں بتانا چاہیں گے؟‏

ونسٹن:‏ ہمیں بعض روایتوں کو سمجھنے میں تھوڑا وقت لگا۔‏ مثال کے طور پر جب بہن بھائی ہمیں اپنے گھر کھانے پر بلاتے تھے تو وہ سارے کا سارا کھانا ہمارے سامنے رکھ دیتے تھے۔‏ شروع شروع میں ہمیں نہیں پتہ تھا کہ ہمیں باقی گھر والوں کے لیے بھی کچھ کھانا چھوڑ دینا چاہیے۔‏ اِس لیے جو کچھ ہمیں پیش کِیا جاتا تھا،‏ ہم اُس میں سے کچھ بھی نہیں چھوڑتے تھے۔‏ ظاہری بات ہے کہ جب ہمیں اُن کی اِس روایت کا پتہ چلا تو ہم اُن کے لیے بھی کھانا بچا دیتے تھے۔‏ ہماری اِس طرح کی غلطیوں کو بہن بھائی خاطر میں نہیں لائے۔‏ جب ہم تقریباً ہر چھ مہینے میں حلقے کا دورہ کرتے تھے تو ہمارے آنے پر وہ بہت خوش ہوتے تھے۔‏ اُس وقت وہاں کے بہن بھائیوں کو اپنی کلیسیا کے علاوہ دوسری کلیسیاؤں کے بہن بھائیوں سے ملنے کا کوئی موقع نہیں ملتا تھا۔‏ لہٰذا ہم ہی وہ دو گواہ تھے جن سے وہ کبھی ملے تھے۔‏

بھائی ونسٹن نیوئے جزیرے پر رہنے والے بہن بھائیوں کے ساتھ مُنادی کے لیے جا رہے ہیں۔‏

ہمارے دوروں سے علاقے کے لوگوں کو بہت اچھی گواہی ملتی تھی۔‏ گاؤں کے بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ہمارے مقامی بہن بھائیوں کا مذہب،‏ اُن کا اپنا ایجاد کِیا ہوا ہے۔‏ لہٰذا جب مَیں اور پامیلا بہن بھائیوں سے ملنے جاتے تو وہاں کے مقامی لوگوں کی یہ غلط‌فہمی دُور ہو جاتی اور وہ ہماری تنظیم سے بہت متاثر ہوتے۔‏

پامیلا:‏ ایک واقعہ جو مَیں کبھی نہیں بھولوں گی،‏ وہ کیریباتی میں پیش آیا۔‏ وہاں کی کلیسیا میں چند ہی بہن بھائی تھے اور صرف ایک بزرگ تھا۔‏ اُس بزرگ نے اپنی طرف سے ہماری دیکھ‌بھال کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔‏ ایک دن جب وہ ہم سے ملنے آیا تو اُس کے ہاتھ میں ایک ٹوکری تھی جس میں صرف ایک انڈا تھا۔‏ اُس نے ہم سے کہا:‏ ”‏یہ آپ لوگوں کے لیے ہے۔‏“‏ اُس زمانے میں مُرغی کا انڈا ہمارے لیے کسی لذیذ کھانے سے کم نہیں تھا۔‏ حالانکہ وہ بھائی ہمارے لیے زیادہ کچھ نہیں کر پایا لیکن اُس کی فیاضی نے ہمارے دلوں کو چُھو لیا۔‏

بہن پامیلا،‏ کچھ سالوں بعد آپ کا حمل گِر گیا تھا۔‏ آپ اِس دُکھ کو کیسے سہہ پائیں؟‏

سن 1973ء میں جب ہم جنوبی بحراُلکاہل میں تھے تو مجھے پتہ چلا کہ مَیں حاملہ ہوں۔‏ ہم نے آسٹریلیا واپس جانے کا فیصلہ کِیا جہاں چار مہینے بعد میرا حمل گِر گیا۔‏ ونسٹن اور مَیں بچہ کھونے پر بالکل ٹوٹ گئے۔‏ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرا دُکھ کم تو ہو گیا لیکن یہ پوری طرح سے ختم اُس وقت ہوا جب مَیں نے 15 اپریل 2009ء کے ‏”‏دی واچ‌ٹاور“‏ میں ایک مضمون پڑھا۔‏ اُس میں یہ سوال پوچھا گیا تھا:‏ ”‏کیا ایسے بچے کے دوبارہ زندہ ہونے کی کوئی اُمید ہے جو اپنی ماں کے رحم میں ہی مر جاتا ہے؟‏“‏ اِس مضمون میں یہ یقین دِلایا گیا تھا کہ یہ معاملہ یہوواہ کے ہاتھ میں ہے جو ہمیشہ صحیح کام کرتا ہے۔‏ یہوواہ اپنے بیٹے کے ذریعے ”‏اِبلیس کے کاموں کو ختم کر دے“‏ گا اور ہمارے اُن زخموں کو بھر دے گا جو اِس بُری دُنیا کے ہاتھوں ہمیں لگے ہیں۔‏ (‏1-‏یوح 3:‏8‏)‏ اِس مضمون کے ذریعے ہم اُس قیمتی موتی کی پہلے سے بھی زیادہ قدر کرنے لگے جو خدا کے بندوں کے طور پر ہمارے پاس تھا۔‏ واقعی اگر ہمارے پاس بادشاہت کی اُمید نہ ہوتی تو ہمارا کیا ہوتا!‏

بچہ کھونے کے بعد ہم نے دوبارہ سے کُل‌وقتی خدمت شروع کرنے کا فیصلہ کِیا۔‏ ہم نے کچھ مہینے آسٹریلیا کے بیت‌ایل میں خدمت کی اور پھر ونسٹن دوبارہ سے حلقے کے نگہبان کے طور پر مقرر ہو گئے۔‏ چار سال ریاست نیو ساؤتھ ویلز کے دُوردراز علاقوں اور شہر سڈنی میں خدمت کرنے کے بعد 1981ء میں ہمیں آسٹریلیا کے بیت‌ایل میں خدمت کرنے کی دعوت دی گئی جو اب آسٹریلیشیا برانچ کہلاتی ہے۔‏ ہم تب سے یہاں خدمت کر رہے ہیں۔‏

بھائی ونسٹن،‏ بحراُلکاہل کے جزائر میں خدمت کر کے آپ کو جو تجربہ حاصل ہوا،‏ کیا یہ آسٹریلیشیا برانچ کی کمیٹی کے رُکن کے طور پر کام کرتے وقت آپ کے لیے مددگار ثابت ہوا؟‏

جی بالکل۔‏ کچھ سال پہلے امریکی ساموا اور ساموا میں ہونے والے کام کی نگرانی آسٹریلیا برانچ کو دی گئی تھی۔‏ اِس کے بعد نیو زی‌لینڈ برانچ کو بند کر کے اِسے آسٹریلیا برانچ میں شامل کر دیا گیا۔‏ اب آسٹریلیشیا برانچ آسٹریلیا،‏ امریکی ساموا،‏ ساموا،‏ کُک جزائر،‏ نیوئے،‏ مشرقی تیمور،‏ ٹوکیلاؤ اور ٹونگا میں ہونے والے کام کی نگرانی کرتی ہے۔‏ مجھے اِن میں سے کچھ ملکوں میں برانچ کے نمائندے کے طور پر جانے کا اعزاز بھی ملا۔‏ چونکہ مَیں نے اِن جزیروں میں بہن بھائیوں کے ساتھ کام کِیا تھا اِس لیے برانچ کے رُکن کے طور پر میرے لیے اُن بہن بھائیوں کی مدد کرنا اَور آسان ہو گیا۔‏

بھائی ونسٹن اور بہن پامیلا آسٹریلیشیا برانچ میں

آخر میں مَیں بس یہ کہنا چاہوں گا کہ صرف بالغ ہی خدا کی تلاش نہیں کرتے۔‏ مَیں اور پامیلا یہ بات اپنے تجربے سے کہہ سکتے ہیں۔‏ بچے اور نوجوان بھی ”‏قیمتی موتی“‏ حاصل کرنا چاہتے ہیں پھر چاہے اُن کے گھر والوں کو اِس میں دلچسپی نہ بھی ہو۔‏ (‏2-‏سلا 5:‏2،‏ 3؛‏ 2-‏توا 34:‏1-‏3‏)‏ یقین مانیں کہ ہمارا شفیق خدا یہوواہ چاہتا ہے کہ سب لوگ ہمیشہ کی زندگی حاصل کریں پھر چاہے وہ بچے ہوں یا بوڑھے۔‏

تقریباً 50 سال پہلے جب مَیں نے اور پامیلا نے خدا کو تلاش کرنا شروع کِیا تھا تو اُس وقت ہم جانتے بھی نہیں تھے کہ ہماری تلاش ہمیں کہاں لے جائے گی۔‏ اِس میں کوئی شک نہیں کہ بادشاہت کے بارے میں سچائی ایک انمول موتی ہے۔‏ ہمارا عزم ہے کہ ہم اِس موتی کو کبھی اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔‏