مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آپ‌بیتی

شہرت سے حقیقی خوشی تک کا سفر

شہرت سے حقیقی خوشی تک کا سفر

مَیں عام سی لڑکی تھی لیکن 1984ء میں میری زندگی بالکل بدل گئی۔‏ یہ اُس وقت کی بات ہے جب مَیں نے مقابلہ‌حسن جیت لیا اور مس ہانگکانگ بن گئی۔‏ راتوں رات میری تصویریں اخباروں اور رسالوں کے صفحۂ‌اوّل پر چھپنے لگیں۔‏ مس ہانگکانگ کے طور پر مَیں گانے گاتی،‏ ڈانس کرتی،‏ تقریریں دیتی،‏ ٹی‌وی شوز کی میزبانی کرتی،‏ خوب‌صورت کپڑے پہنتی اور ہانگکانگ کے گورنر جیسے اثرورسوخ والے لوگوں کے ساتھ اُٹھتی بیٹھتی۔‏

1985ء میں مَیں نے فلموں میں کام کرنا شروع کِیا۔‏ مَیں نے بہت سی  فلموں میں مرکزی کردار ادا کِیا۔‏ مَیں بہت مقبول تھی۔‏ صحافی میرے بارے میں لکھنا چاہتے تھے،‏ فوٹوگرافر میری تصویر لینا چاہتے تھے اور لوگ مجھے طرح طرح کی تقریبات پر مہمانِ‌خصوصی کے طور پر مدعو کرنا چاہتے تھے۔‏ مَیں جہاں بھی جاتی،‏ لوگوں کی توجہ کا مرکز ہوتی۔‏

ایکشن سین کرتے وقت

لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے احساس ہوا کہ یہ سب کچھ اِتنا شان‌دار نہیں ہے جتنا کہ مَیں نے سوچا تھا۔‏ عام طور پر مَیں ایکشن فلموں میں کام کرتی تھی۔‏ یہ کافی خطرناک تھا کیونکہ ہانگکانگ میں بننے والی فلموں میں اداکار عموماً اپنے سٹنٹ خود ہی کرتے تھے۔‏ مجھے بھی اپنے سٹنٹ خود کرنے پڑے،‏ مثلاً گاڑی پر سے موٹرسائیکل گزارنا وغیرہ۔‏ جن فلموں میں مَیں نے کام کِیا،‏ اُن میں اکثر بےحیائی،‏ ظلم‌وتشدد اور جادوٹونا بھی دِکھایا جاتا تھا۔‏

1995ء میں مَیں نے ایک فلم پروڈیوسر سے شادی کر لی۔‏ میرے پاس سب کچھ تھا:‏ شہرت،‏ دولت اور ایک اچھا شوہر۔‏ لیکن اِس کے باوجود مَیں مایوس اور افسردہ تھی۔‏ مَیں نے فلموں میں کام کرنا چھوڑ دیا۔‏

بچپن کی یادیں

مَیں اُس وقت کو یاد کرنے لگی جب مَیں چھوٹی تھی۔‏ میری بہن اور مَیں ہر ہفتے کو جوزف میک‌گرا کے گھر جاتے تھے جو یہوواہ کے گواہ تھے۔‏ وہ ہم دونوں بہنوں کو اور اپنی تین بیٹیوں کو پاک کلام سے تعلیم دیتے تھے۔‏ اُن کے گھر کا ماحول بہت خوش‌گوار تھا۔‏ انکل جوزف اپنی بیوی اور بیٹیوں سے بڑی شفقت سے پیش آتے تھے۔‏ مَیں بڑے شوق سے اُن کے ساتھ مذہبی اِجلاسوں اور اِجتماعوں پر جاتی تھی۔‏ وہ کتنا اچھا وقت تھا!‏ یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ مَیں خود کو محفوظ محسوس کرتی تھی۔‏

لیکن میرے اپنے گھر کا ماحول بالکل فرق تھا۔‏ میرے باپ کے طرزِزندگی کی وجہ سے میری امی کو بہت تکلیف سے گزرنا پڑا اور وہ شدید افسردگی کا شکار ہو گئیں۔‏ جب مَیں 10 سال کی تھی تو میری امی نے یہوواہ کے گواہوں سے ملنا جلنا بند کر دیا۔‏ لیکن مَیں نے ایسا نہیں کِیا اور 17 سال کی عمر میں یہوواہ کی ایک گواہ کے طور پر بپتسمہ لے لیا۔‏ لیکن کچھ عرصے بعد ہی مَیں نے غلط راہ اِختیار کر لی جس کی وجہ سے مَیں یہوواہ کے گواہوں کی جماعت کا حصہ نہیں رہی۔‏

خدا کی طرف واپسی

میری شادی کے کچھ عرصے بعد یہوواہ کے گواہوں کے دو مذہبی پیشوا مجھ سے ملنے آئے۔‏ اُنہوں نے مجھے بتایا کہ مَیں دوبارہ سے یہوواہ خدا کی قربت میں آنے کے لیے کیا کر سکتی ہوں۔‏ اُنہوں نے میری مدد کرنے کے لیے سینڈی نامی ایک مشنری کو بھی میرے پاس بھیجا۔‏ میرا ایمان بہت کمزور ہو چُکا تھا اِس لیے مَیں نے سینڈی سے کہا کہ وہ ثابت کر کے دِکھائے کہ بائبل واقعی خدا کی طرف سے ہے۔‏ اُنہوں نے مجھے بائبل سے بہت سی پیش‌گوئیاں دِکھائیں جو پوری ہو گئی ہیں۔‏ آہستہ آہستہ ہم بہت اچھے دوست بن گئے اور سینڈی نے مجھے بائبل کورس کی پیشکش کی۔‏ مَیں نے اِس پیشکش کو قبول کر لیا اور بائبل کی بنیادی تعلیمات حاصل کرنے لگی۔‏ اب جا کر مَیں سمجھی کہ یہوواہ خدا کی ذات محبت ہے اور وہ چاہتا ہے کہ مَیں خوش رہوں۔‏

مَیں پھر سے یہوواہ کے گواہوں کے مذہبی اِجلاسوں پر جانے لگی۔‏ مجھے اِن لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا فلمی دُنیا کے لوگوں کے ساتھ وقت گزرانے سے زیادہ اچھا لگتا تھا۔‏ لیکن مَیں نے بچپن میں جو کچھ سہا تھا،‏ اُس کی وجہ سے مجھے دوسروں پر بھروسا کرنا مشکل لگتا تھا اور مَیں احساسِ‌کمتری کا شکار تھی۔‏ مگر یہوواہ کی ایک گواہ نے میری مدد کی۔‏ اُس نے مجھے پاک کلام سے بتایا کہ مَیں اپنے منفی احساسات پر کیسے قابو پا سکتی ہوں۔‏ وقت کے ساتھ ساتھ مَیں نے اچھے دوست بنانا بھی سیکھ لیا۔‏

مطمئن زندگی کی طرف قدم

1997ء میں میرے شوہر اور مَیں امریکہ کے مشہور علاقے ہالیوڈ منتقل ہو گئے۔‏ وہاں مَیں پاک کلام کی تعلیم دینے میں پہلے سے زیادہ وقت صرف کرنے لگی۔‏ اِس کام سے مجھے جتنی خوشی ملی،‏ وہ مجھے فلموں میں کام کرنے سے کبھی نہیں ملی۔‏ اِس سلسلے میں مَیں آپ کو ایک واقعہ بتاتی ہوں۔‏ 2002ء میں مَیں شیری سے ملی جن کو مَیں ہانگکانگ سے جانتی تھی۔‏ ہماری زندگی میں بہت سی باتیں ملتی جلتی تھیں۔‏ وہ مجھ سے ایک سال پہلے مس ہانگکانگ بنی تھیں۔‏ اُنہوں نے ہی مجھے مس ہانگکانگ کا تاج پہنایا تھا۔‏ اُنہوں نے بھی فلموں میں کام کِیا اور بعد میں پروڈیوسر بنیں اور بڑے بڑے فلم ڈائریکٹروں کے ساتھ کام کِیا۔‏ وہ بھی ہالیوڈ منتقل ہو گئی تھیں۔‏

مجھے یہ سُن کر شیری پر بہت ترس آیا کہ اُن کے منگیتر دل کا دورہ پڑنے سے اچانک فوت ہو گئے تھے۔‏ شیری بدھ‌مت مذہب سے تعلق رکھتی تھیں لیکن اُن کو اپنے مذہب سے کوئی تسلی نہیں ملی۔‏ اُن کو وہ شہرت تو ملی جس کا دوسرے بس خواب ہی دیکھتے ہیں لیکن وہ افسردہ رہتی تھیں اور اُنہیں بھی دوسروں پر بھروسا کرنا مشکل لگتا تھا۔‏ مَیں نے اُن کو اُن باتوں سے تسلی دینے کی کوشش کی جو مَیں نے پاک کلام سے سیکھی تھیں۔‏ لیکن چونکہ وہ بدھ‌مت مذہب سے تعلق رکھتی تھیں اِس لیے اُنہیں یہ باتیں قبول کرنا مشکل لگا۔‏

میری دوست شیری فلم کے سیٹ پر

پھر 2003ء میں ایک دن شیری نے مجھے کینیڈا کے شہر وینکوور سے فون کِیا جہاں وہ ایک فلم بنا رہی تھیں۔‏ وہ بہت خوش تھیں۔‏ ہوا یہ تھا کہ وہ گاڑی میں بیٹھی ایک بڑے خوب‌صورت علاقے سے گزر رہی تھیں اور دلکش منظروں سے لطف‌اندوز ہو رہی تھیں۔‏ سفر کے دوران وہ اُونچی آواز میں دُعا کرنے لگیں کہ ”‏مجھے بتا کہ سچا خدا کون ہے؟‏ تیرا نام کیا ہے؟‏“‏ اُسی لمحے وہ یہوواہ کے گواہوں کی ایک عبادت‌گاہ کے سامنے سے گزریں جس پر نام ”‏یہوواہ“‏ لکھا تھا۔‏ شیری کو لگا کہ خدا نے اُن کے سوال کا جواب دے دیا ہے۔‏ اِس لیے وہ جلد سے جلد یہوواہ کے گواہوں سے ملنا چاہتی تھیں۔‏ مَیں نے اُن کی مدد کی اور چند دنوں بعد وہ وینکوور میں چینی زبان بولنے والے یہوواہ کے گواہوں کے اِجلاس پر گئیں۔‏

شیری نے مجھے بتایا کہ ”‏اِن لوگوں کو واقعی میرا خیال ہے۔‏ مَیں اِن کو اپنے دل کی بات بتا سکتی ہوں۔‏“‏ یہ سُن کر مجھے بڑی خوشی ہوئی کیونکہ شیری نے فلم اِنڈسٹری میں کبھی دوست نہیں بنائے تھے۔‏ وہ یہوواہ کے گواہوں کے مذہبی اِجلاسوں پر جاتی رہیں۔‏ لیکن پھر 2005ء میں اُنہوں نے چین میں دو بڑی فلمیں بنانے کی پیشکش قبول کر لی جس کی وجہ سے اُن کو واپس ہانگکانگ جانا پڑا۔‏ خوشی کی بات ہے کہ اُنہوں نے 2006ء میں اپنی زندگی یہوواہ خدا کے لیے وقف کر دی اور یہوواہ کی گواہ کے طور پر بپتسمہ لے لیا۔‏ وہ یہوواہ خدا کی راہ میں بہت کچھ کرنا چاہتی تھیں لیکن فلم اِنڈسٹری میں مصروفیت کی وجہ سے اُن کے لیے یہ مشکل تھا۔‏ اِس وجہ سے وہ بہت دُکھی تھیں۔‏

ہمیں حقیقی خوشی مل گئی

پھر 2009ء میں شیری کی زندگی بالکل بدل گئی۔‏ اُنہوں نے فلم اِنڈسٹری میں کام کرنا چھوڑ دیا تاکہ وہ خدا کی راہ میں زیادہ وقت صرف کر سکیں۔‏ اُنہوں نے یہوواہ کے گواہوں کی جماعت میں بہت سے نئے دوست بنائے۔‏ وہ اپنا زیادہ‌تر وقت تبلیغی سرگرمیوں میں صرف کرنے لگیں اور جب اِس کے نتیجے میں لوگوں کی زندگی سنور جاتی تو اُنہیں بڑی خوشی ملتی۔‏—‏متی 24:‏14‏۔‏

پھر شیری نے فیصلہ کِیا کہ وہ نیپالی زبان سیکھیں گی تاکہ وہ ہانگکانگ میں رہنے والے نیپالی لوگوں کو پاک کلام کی تعلیم دے سکیں۔‏ عموماً ہانگکانگ میں نیپالیوں کو نظرانداز کِیا جاتا ہے یا حقیر خیال کِیا جاتا ہے کیونکہ وہ انگریزی اور چینی زبان اِتنی اچھی نہیں بول سکتے اور اُن کے طورطریقے بھی فرق ہیں۔‏ لیکن شیری بڑے شوق سے اِن لوگوں کو پاک کلام کی تعلیم دیتی ہیں۔‏ اُنہوں نے مجھے بتایا کہ ایک دن تبلیغ کرتے وقت اُنہیں ایک نیپالی عورت ملی جو یسوع مسیح کے بارے میں تو تھوڑا بہت جانتی تھی لیکن سچے خدا کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی۔‏ شیری نے اِس عورت کو پاک کلام سے دِکھایا کہ یسوع مسیح نے یہوواہ خدا سے دُعا کی۔‏ جب اُس عورت کو پتہ چلا کہ وہ بھی یہوواہ خدا سے دُعا کر سکتی ہے تو اُس نے پاک کلام کے پیغام کو قبول کر لیا۔‏ جلد ہی اُس کا شوہر اور بیٹی بھی پاک کلام سے تعلیم حاصل کرنے لگے۔‏—‏زبور 83:‏18؛‏ لُوقا 22:‏41،‏ 42‏۔‏

شیری پاک کلام کی تعلیم دیتے ہوئے

مَیں بھی دوبارہ سے ہانگکانگ منتقل ہو چکی تھی۔‏ جب مَیں نے دیکھا کہ شیری کو کُلوقتی طور پر پاک کلام کی تعلیم دینے سے کتنی خوشی مل رہی ہے تو مَیں نے سوچا کہ ”‏کیوں نہ مَیں بھی ایسا ہی کروں؟‏“‏ لہٰذا مَیں نے اپنے معمول میں تبدیلی کی۔‏ مجھے لوگوں سے بات‌چیت کرنے اور اُنہیں خدا کے کلام کی تعلیم دینے سے حقیقی خوش ملتی ہے۔‏

پاک کلام کی تعلیم دینے سے مجھے حقیقی خوشی ملتی ہے۔‏

مثال کے طور پر ایک بار مَیں ویت‌نام کی ایک عورت سے ملی جو بہت ہی افسردہ رہتی تھی۔‏ اُس کی آنکھیں ہمیشہ نم رہتی تھیں۔‏ لیکن جب اُس نے پاک کلام کی تعلیم حاصل کرنا شروع کِیا تو اُسے بہت فائدہ ہوا۔‏ وہ خوش رہنے لگی اور یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ میل جول رکھنے کی وجہ سے اُسے اچھے دوست بھی مل گئے۔‏

شیری اور مجھے ایک ایسی چیز ملی ہے جو شہرت سے کہیں بڑھ کر ہے۔‏ ہمیں فلم اِنڈسٹری میں کام کرنے سے شہرت تو ملی لیکن حقیقی خوشی تب ہی ملی جب ہم پاک کلام کی تعلیم دینے لگے کیونکہ ایسا کرنے سے یہوواہ خدا کی بڑائی ہوتی ہے۔‏ یسوع مسیح نے کتنا سچ کہا کہ ”‏لینے کی نسبت دینے میں زیادہ خوشی ہے۔‏“‏—‏اعمال 20:‏35‏،‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن۔‏