مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ہم بائبل کی چار انجیلوں پر اعتماد کیوں رکھ سکتے ہیں؟‏

ہم بائبل کی چار انجیلوں پر اعتماد کیوں رکھ سکتے ہیں؟‏

ہم بائبل کی چار انجیلوں پر اعتماد کیوں رکھ سکتے ہیں؟‏

برازیل کا ایک رسالہ بیان کرتا ہے:‏ ”‏بہت سے لوگوں نے اِن میں دلچسپی دکھائی۔‏ اِن پر بڑی لاگت والی کئی فلمیں بنائی گئیں۔‏ .‏ .‏ .‏ اِن پر سب سے زیادہ بکنے والی کتابیں لکھی گئیں۔‏ .‏ .‏ .‏ مسیحی فرقے اِنہیں ماننے لگے۔‏ اِن سے نئے فرقوں نے بھی جنم لیا۔‏ اِن کی وجہ سے لوگ سوچنے لگے کہ مذہبی عالموں نے سچائی کو چھپانے کی سازش کی ہے۔‏“‏

یہ سنسنی‌خیز خبر کس کے بارے میں تھی؟‏ یہ رسالہ بیسویں صدی کے دوران ناج حمادی اور مصر کے دیگر علاقوں سے ملنے والی تحریروں میں لوگوں کی دلچسپی کا ذکر کر رہا تھا۔‏ بعض عالموں کا دعویٰ تھا کہ اِن تحریروں کا تعلق مسیحی مذہب سے ہے۔‏ ایسی تحریروں کو عموماً غناسطی یا اپاکرفا تحریریں کہا جاتا ہے۔‏ *

کیا واقعی کوئی سازش ہوئی تھی؟‏

آجکل بائبل اور چرچ پر لوگوں کا ایمان کمزور پڑ گیا ہے۔‏ مگر غناسطی یا اپاکرفا تحریروں میں اُن کی دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔‏ اِن تحریروں نے یسوع مسیح کی تعلیمات اور مسیحی مذہب کے بارے میں لوگوں کی سوچ پر گہرا اثر کِیا ہے۔‏ اِس سلسلے میں ایک رسالے نے بیان کِیا:‏ ”‏توما کی انجیل اور دیگر اپاکرفا تحریریں ایسے لوگوں میں مقبول ہیں جو خدا کو جاننا تو چاہتے ہیں مگر مذہب پر یقین نہیں رکھتے۔‏ ایسے لوگوں کی تعداد روزبروز بڑھتی جا رہی ہے۔‏“‏ مثال کے طور پر،‏ ایک اندازے کے مطابق صرف برازیل میں ”‏۳۰ ایسے گروہ ہیں جن کے عقائد اپاکرفا تحریروں پر مبنی ہیں۔‏“‏

اِن تحریروں کی دریافت کی وجہ سے بہتیرے لوگ یہ سوچنے لگے کہ چوتھی صدی عیسوی میں کیتھولک چرچ نے یسوع مسیح کے متعلق سچائی کو چھپانے کی کوشش کی تھی۔‏ اُن کا خیال تھا کہ اپاکرفا تحریروں میں درج باتوں کو دبا دیا گیا اور اُن چار انجیلوں کو بدل دیا گیا جو آج بائبل میں موجود ہیں۔‏ ایک مذہبی عالم ایلین پاگلز اِس بات کو یوں بیان کرتا ہے:‏ ”‏اب ہم سمجھ گئے ہیں کہ مسیحی روایات اور عقائد چند ایسی تحریروں پر مبنی ہیں جنہیں دیگر بہت سی تحریروں میں سے چنا گیا ہے۔‏“‏

پاگلز جیسے عالموں کا خیال ہے کہ مسیحی ایمان صرف بائبل پر ہی نہیں بلکہ دیگر کتابوں جیسےکہ اپاکرفا تحریروں پر بھی مبنی ہونا چاہئے۔‏ مثال کے طور پر،‏ بی‌بی‌سی کے ایک پروگرام ”‏مریم مگدلینی دراصل کون تھی“‏ میں یہ واضح کِیا گیا کہ اپاکرفا تحریروں کے مطابق مریم مگدلینی ”‏دوسرے شاگردوں کی رُوحانی پیشوا تھی۔‏ وہ صرف شاگرد ہی نہیں بلکہ رسولوں کو سکھانے والی بھی تھی۔‏“‏ مریم مگدلینی کے کردار پر بات کرتے ہوئے وان اریاس برازیل کے ایک اخبار میں یوں لکھتا ہے:‏ ”‏آج ہمارے پاس اِس بات پر ایمان رکھنے کی تمام شہادتیں موجود ہیں کہ یسوع مسیح نے جس مذہب کی بنیاد ڈالی اُس میں عورتوں کو ایک اہم مقام حاصل تھا۔‏ مثلاً ابتدائی کلیسیا عبادت کے لئے عورتوں کے گھروں میں جمع ہوتی تھی جہاں وہ نگہبانوں کے طور پر خدمت انجام دیتی تھیں۔‏“‏

بہت سے لوگوں کی نظر میں اپاکرفا تحریریں بائبل کی نسبت زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔‏ لیکن اِس سے کچھ اہم سوال پیدا ہوتے ہیں۔‏ کیا اپاکرفا تحریریں مسیحی ایمان کی دُرست بنیاد ہیں؟‏ جب اپاکرفا تحریریں بائبل کی تعلیم سے فرق معلومات دیتی ہیں تو ہمیں کس پر ایمان رکھنا چاہئے؟‏ بائبل پر یا اپاکرفا تحریروں پر؟‏ کیا چوتھی صدی میں واقعی کوئی سازش ہوئی تھی جس کے تحت اپاکرفا تحریروں میں درج باتوں کو دبا دیا گیا اور چار انجیلوں میں سے یسوع مسیح،‏ مریم مگدلینی اور دیگر اشخاص کے متعلق ضروری معلومات کو نکال دیا گیا تھا؟‏ اِن سوالوں کے جواب حاصل کرنے کے لئے آئیں چار انجیلوں میں سے یوحنا کی انجیل پر غور کریں۔‏

یوحنا کی انجیل سے ثبوت

بیسویں صدی کے آغاز میں مصر سے یوحنا کی انجیل کا ایک ٹکڑا ملا جسے اب پیپرس ریلینڈز ۴۵۷ (‏52P)‏ کہا جاتا ہے۔‏ یہ ٹکڑا جان ریلینڈز لائبریری،‏ مانچسٹر،‏ انگلینڈ میں محفوظ ہے۔‏ یہ ٹکڑا آج کل ہمارے پاس موجود بائبل میں یوحنا ۱۸:‏۳۱-‏۳۳،‏ ۳۷،‏ ۳۸ کے حصے پر مشتمل ہے۔‏ یہ ٹکڑا مسیحی یونانی صحائف کے نسخوں میں سب سے پُرانا ہے۔‏ بہتیرے عالموں کا ماننا ہے کہ یہ ٹکڑا تقریباً ۱۲۵ عیسوی یعنی یوحنا رسول کی موت کے صرف پچّیس سال بعد لکھا گیا تھا۔‏ دلچسپی کی بات ہے کہ اِس ٹکڑے کے متن اور اِس کے بعد لکھے جانے والے نسخوں کے متن میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے۔‏ یوحنا کی انجیل کی نقل ۱۲۵ عیسوی تک مصر پہنچ چکی تھی جہاں سے یہ ٹکڑا ملا۔‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ انجیل پہلی صدی میں یوحنا نے خود تحریر کی تھی۔‏ لہٰذا،‏ اِس انجیل میں یوحنا کے آنکھوں دیکھے واقعات درج ہیں۔‏

اِس کے برعکس اپاکرفا تحریریں دوسری صدی سے لکھی جانے لگیں۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ اپاکرفا تحریریں اُن واقعات کے ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ بعد لکھی گئیں جو اِن میں بیان کئے گئے ہیں۔‏ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ اپاکرفا تحریریں پُرانی کتابوں یا روایات پر مبنی ہیں مگر اِس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔‏ پس یہ سوال پوچھنا مناسب ہے کہ آپ کس پر ایمان رکھیں گے؟‏ آنکھوں دیکھے واقعات پر یا اُن لوگوں پر جنہوں نے واقعات پیش آنے کے سو سال بعد اِنہیں لکھا؟‏ *

کیا یہ دعویٰ سچ ہے کہ بائبل کی انجیلوں کو بدل کر یسوع مسیح کے بارے میں سچائی کو چھپانے کی کوشش کی گئی تھی؟‏ مثال کے طور پر،‏ کیا اِس بات کی کوئی شہادت ہے کہ چوتھی صدی میں سچائی کو پوشیدہ رکھنے کے لئے یوحنا کی انجیل بدل دی گئی تھی؟‏ اِس سوال کے جواب کے لئے ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ آجکل ہمارے پاس موجود بائبل جن قدیم نسخوں پر مبنی ہے اُن میں سے ایک نسخہ ویٹیکن ۱۲۰۹ ہے۔‏ یہ نسخہ چوتھی صدی عیسوی میں لکھا گیا تھا۔‏ اب ذرا سوچیں کہ اگر ہماری بائبل میں وہ تبدیلیاں ہوتیں جو چوتھی صدی میں کی گئی تھیں توپھر یہی تبدیلیاں اِس نسخے میں بھی نظر آنی چاہئیں تھیں۔‏ لیکن ایسا نہیں ہے۔‏ اِس کا ثبوت ہمیں ایک اَور نسخے سے ملتا ہے جو بوڈمر ۱۴،‏ ۱۵ (‏75P)‏ کہلاتا ہے۔‏ یہ نسخہ ۱۷۵ عیسوی تا ۲۲۵ عیسوی میں لکھا گیا اور لوقا اور یوحنا کے بیشتر حصوں پر مشتمل ہے۔‏ ماہرین کے مطابق اِس کا متن ویٹیکن ۱۲۰۹ کے متن سے کافی حد تک ملتا ہے۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ بائبل کی انجیلوں میں کوئی خاص تبدیلیاں نہیں کی گئی تھیں۔‏

ہمارے پاس اِس بات کی کوئی شہادت نہیں کہ یوحنا کی انجیل یا دیگر انجیلوں میں چوتھی صدی کے دوران کوئی تبدیلی کی گئی تھی۔‏ مصر سے ملنے والے مختلف نسخوں کا جائزہ لینے کے بعد کیمبرج یونیورسٹی کے ایک عالم پیٹر ہیڈ نے لکھا:‏ ”‏یہ نسخے انسیال تحریروں [‏چوتھی صدی سے گول بڑے حروف میں لکھی جانے والی تحریریں]‏ کے متن کی تصدیق کرتے ہیں جن پر جدید بائبلیں مبنی ہیں۔‏ لہٰذا،‏ اِس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ چوتھی صدی میں نئے عہد نامے کی نقل کرتے وقت کوئی بڑی تبدیلی واقع ہوئی تھی۔‏“‏

نتیجہ کیا نکلا؟‏

اِس بات کی شہادتیں موجود ہیں کہ دوسری صدی کے وسط تک مسیحی متی،‏ مرقس،‏ لوقا اور یوحنا کی انجیلوں پر ایمان رکھتے تھے۔‏ مثال کے طور پر،‏ ایک مسیحی عالم ططیان نے ۱۶۰ عیسوی اور ۱۷۵ عیسوی میں دیاطسرون (‏ایک یونانی اصطلاح جس کا مطلب ہے  ‏”‏چاروں پر مشتمل“‏‏)‏ کو تحریر کِیا جسے کافی زیادہ استعمال کِیا جاتا تھا۔‏ یہ غناسطی انجیلوں پر نہیں بلکہ صرف چار انجیلوں پر مبنی تھا۔‏ (‏بکس ”‏انجیلوں کے حق میں قدیم ثبوت“‏ کو دیکھیں۔‏)‏ اِس سلسلے میں دوسری صدی ہی کے ایرینیس کی دلیل بھی قابلِ‌غور ہے۔‏ اُس نے کہا کہ چونکہ زمین کے چار کونے اور چار ہوائیں ہیں اِس لئے انجیلیں بھی چار ہی ہونی چاہئیں۔‏ اُس کی دلیل پر اگرچہ بہت سے سوال اُٹھائے جا سکتے ہیں توبھی اُس کی بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اُس وقت صرف چار انجیلوں کو ہی مانا جاتا تھا۔‏

اِن حقائق سے کیا ثابت ہوتا ہے؟‏ اِن سے پتہ چلتا ہے کہ دوسری صدی کے دوران چار انجیلوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی تھی۔‏ اِس بات کا بھی کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے کہ چوتھی صدی میں کسی الہامی کتاب کی باتوں کو چھپانے کی سازش کی گئی تھی۔‏ اِس کے برعکس بائبل کے ایک عالم بروس نے لکھا:‏ ”‏دوسری صدی کے آخر تک نہ صرف بحیرۂروم بلکہ برطانیہ سے مسوپتامیہ کے علاقے کی کلیسیائیں بھی اِس بات پر متفق تھیں کہ نئے عہدنامے میں کونسی کتابیں شامل ہونی چاہئیں۔‏“‏

پولس رسول اور پطرس رسول دونوں ہی اِس بات کے زبردست حمایتی تھے کہ خدا کا کلام سچا ہے۔‏ دونوں نے ہی ساتھی مسیحیوں کو اَور طرح کی تعلیم قبول کرنے کے خلاف آگاہ کِیا۔‏ مثال کے طور پر،‏ پولس رسول نے تیمتھیس کے نام خط میں لکھا:‏ ”‏اَے تیمتھیسؔ اِس امانت کو حفاظت سے رکھ اور جس علم کو علم کہنا ہی غلط ہے اُس کی بیہودہ بکواس اور مخالفت پر توجہ نہ کر۔‏ بعض اُس کا اقرار کرکے ایمان سے برگشتہ ہو گئے ہیں۔‏“‏ پطرس رسول نے بھی کچھ ایسی ہی بات کہی:‏ ”‏جب ہم نے تمہیں اپنے خداوند یسوؔع مسیح کی قدرت اور آمد سے واقف کِیا تھا تو دغابازی کی گھڑی ہوئی کہانیوں کی پیروی نہیں کی تھی بلکہ خود اُس کی عظمت کو دیکھا تھا۔‏“‏—‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۲۰،‏ ۲۱؛‏ ۲-‏پطرس ۱:‏۱۶‏۔‏

اِس سے صدیوں پہلے یسعیاہ نبی نے الہام سے کہا تھا:‏ ”‏ہاں گھاس مرجھاتی ہے۔‏ پھول کملاتا ہے پر ہمارے خدا کا کلام ابد تک قائم ہے۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۴۰:‏۸‏)‏ ہم بھی یہی ایمان رکھ سکتے ہیں کہ جس نے پاک صحائف کو لکھنے کا الہام بخشا اُسی نے یقیناً مختلف زمانوں کے دوران اِنہیں محفوظ بھی رکھا ہے تاکہ ”‏سب آدمی نجات پائیں اور سچائی کی پہچان تک پہنچیں۔‏“‏—‏۱-‏تیمتھیس ۲:‏۴‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 3 ‏”‏غناسطی“‏ اور ”‏اپاکرفا“‏ ایسے یونانی الفاظ سے نکلے ہیں جن کا مطلب ”‏پوشیدہ علم“‏ اور ”‏پوشیدہ یا چھپا ہوا“‏ ہے۔‏ یہ اصطلاحیں اُن جھوٹی یا غیرالہامی تحریروں کے لئے استعمال ہوتی ہیں جو مسیحی یونانی صحائف میں انجیلوں اور دیگر کتابوں کے متعلق اضافی معلومات پیش کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں۔‏

^ پیراگراف 11 ایک اَور مسئلہ یہ ہے کہ اب اپاکرفا تحریروں کے بہت کم نسخے باقی رہ گئے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ مریم مگدلینی کی انجیل کے صرف تین ٹکڑے باقی رہ گئے ہیں جن میں سے دو بہت چھوٹے ہیں جبکہ تیسرے ٹکڑے کا آدھا متن غائب ہے۔‏ اِس کے علاوہ جو ٹکڑے موجود ہیں اُن میں بھی اختلافات پائے جاتے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۹ پر عبارت]‏

پیپرس ریلینڈز ۴۵۷ (‏52P)‏ دوسری صدی سے یوحنا کی انجیل کا ایک ٹکڑا جسے اصلی متن کے کچھ ہی سال بعد لکھا گیا

‏[‏صفحہ ۱۱ پر بکس/‏تصویر]‏

 انجیلوں کے حق میں قدیم ثبوت

مسیحی مذہب کے آغاز میں ہی بعض لوگ یہ تنقید کرنے لگے کہ انجیلوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔‏ اِس لئے اِن پر ایمان نہیں رکھنا چاہئے۔‏ لیکن ایک سُریانی عالم ططیان (‏تقریباً ۱۱۰-‏۱۸۰ عیسوی)‏ نے انجیلوں کے حق میں آواز اُٹھائی۔‏ اُس کا خیال تھا کہ اگر چاروں انجیلوں کو اکٹھا کر دیا جائے تو یہ اختلاف خودبخود ختم ہو جائے گا۔‏

لہٰذا،‏ ططیان نے چاروں انجیلوں کو ایک ہی تحریر میں اکٹھا کرنا شروع کِیا۔‏ ہمیں یہ تو معلوم نہیں کہ اُس نے یونانی زبان میں لکھنا شروع کِیا یاپھر سُریانی زبان میں۔‏ بہرحال اُس نے تقریباً ۱۷۰ عیسوی میں اپنی تحریر مکمل کر لی جسے دیاطسرون کہا جاتا ہے۔‏ یہ ایک یونانی لفظ ہے جس کا مطلب ہے ”‏چاروں پر مشتمل۔‏“‏ ہمیں اِس غیرالہامی تحریر میں دلچسپی کیوں لینی چاہئے؟‏

اُنیسویں صدی میں بعض عالموں نے اِس نظریے کو فروغ دینا شروع کِیا کہ کوئی بھی انجیل دوسری صدی کے وسط سے پہلے نہیں لکھی گئی تھی۔‏ اِس لئے تاریخی لحاظ سے اِن کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔‏ تاہم بعد میں دیاطسرون کے کچھ نسخے دریافت ہوئے جن سے یہ ثابت ہوا کہ دوسری صدی کے وسط تک مسیحی کلیسیا متی،‏ مرقس،‏ لوقا اور یوحنا کی چار انجیلوں کو قبول کر چکی تھی جبکہ دیگر تحریروں کو الہامی خیال نہیں کِیا جاتا تھا۔‏

دیاطسرون کے علاوہ عربی،‏ آرمینی،‏ یونانی اور لاطینی زبان میں اِس کی تفسیر بھی دریافت ہوئی جس نے بائبل کے ایک عالم سر فریڈرک کینیان کو یہ لکھنے پر مجبور کر دیا:‏ ”‏اِن نسخوں کی دریافت سے ہمیں یہ پتہ چل گیا ہے کہ دیاطسرون صرف چار انجیلوں پر مشتمل تھا۔‏ اب یہ ثابت ہو گیا ہے کہ تقریباً ۱۷۰ عیسوی میں لوگ صرف چار انجیلوں پر ایمان رکھتے تھے جنہیں ہمارے منجّی خداوند یسوع کی زندگی کے متعلق باقی تمام تحریروں پر فوقیت حاصل تھی۔‏“‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

ویٹیکن ۱۲۰۹

چوتھی صدی کے نسخے ویٹیکن ۱۲۰۹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انجیلوں کے متن میں بہت معمولی تبدیلی ہوئی ہے

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

1868 ,From the book Bibliorum Sacrorum Graecus Codex Vaticanus

‏[‏صفحہ ۸ پر چارٹ]‏

‏(‏تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

۳۳ عیسوی

یسوع مسیح کی وفات

تقریباً ۴۱ عیسوی

متی کی انجیل لکھی گئی

تقریباً ۵۸ عیسوی

لوقا کی انجیل لکھی گئی

تقریباً ۶۵ عیسوی

مرقس کی انجیل لکھی گئی

تقریباً ۹۸ عیسوی

یوحنا کی انجیل لکھی گئی

۱۲۵ عیسوی

ریلینڈز ۴۵۷ (‏P52)‏

تقریباً ۱۴۰ عیسوی

اپاکرفا تحریروں کا آغاز

تقریباً ۱۷۵ عیسوی

بوڈمر ۱۴،‏ ۱۵ (‏P75)‏

چوتھی صدی

ویٹیکن ۱۲۰۹

‏[‏تصویریں]‏

ططیان

عربی زبان میں دیاطسرون

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویروں کے حوالہ‌جات]‏

The Trustees of the Chester Beatty Library, Dublin ©