مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یسوع مسیح کا جی اُٹھنا ہمارے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟‏

یسوع مسیح کا جی اُٹھنا ہمارے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟‏

‏”‏وہ .‏ .‏ .‏ جی اُٹھا۔‏‏“‏‏—‏متی 28:‏6‏۔‏

1،‏ 2.‏ ‏(‏الف)‏ کچھ مذہبی رہنما کیا جاننا چاہتے تھے؟‏ اور پطرس رسول نے اُنہیں کیا جواب دیا؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏ (‏ب)‏ پطرس اِتنی دلیری سے مذہبی رہنماؤں کو جواب کیوں دے پائے؟‏

یسوع مسیح کی موت کے چند ہفتے بعد پطرس رسول کو کچھ لوگوں کی طرف  سے  مخالفت  کا  سامنا کرنا پڑا۔‏ یہ یہودیوں کے وہی مذہبی رہنما تھے جنہوں نے یسوع مسیح کو مارنے کی سازش کی تھی۔‏ پطرس رسول نے ایک آدمی کو ٹھیک کر دیا تھا جو پیدایش سے لنگڑا تھا اور اِس وجہ سے یہ مذہبی رہنما شدید غصے میں تھے۔‏ وہ جاننا چاہتے تھے کہ پطرس نے یہ کام کس کی طاقت اور کس کے نام سے کِیا تھا۔‏ پطرس رسول نے بڑی دلیری سے اُن سے کہا:‏ ”‏یسوؔع مسیح ناصری جس کو تُم نے مصلوب کِیا اور خدا نے مُردوں میں سے جِلایا اُسی کے نام سے یہ شخص تمہارے سامنے تندرست کھڑا ہے۔‏“‏—‏اعما 4:‏5-‏10‏۔‏

2 چند ہفتے پہلے پطرس نے خوف کی وجہ سے تین بار یسوع مسیح کا اِنکار کِیا تھا۔‏ (‏مر 14:‏66-‏72‏)‏ لیکن اب وہ مذہبی رہنماؤں کے ساتھ اِتنی دلیری سے بات کرنے کے قابل کیسے ہو گئے؟‏ اِس میں پاک روح نے بہت اہم کردار ادا کِیا تھا۔‏ لیکن ایک اَور بات بھی تھی جس نے پطرس رسول میں اِتنی دلیری پیدا کی تھی۔‏ وہ اِس بات پر مضبوط ایمان رکھتے تھے کہ خدا نے یسوع مسیح کو مُردوں میں سے زندہ کر دیا ہے۔‏ لیکن پطرس اِس بات پر اِتنا مضبوط ایمان کیوں رکھتے تھے؟‏ اور ہمارے پاس اِس بات پر مضبوط ایمان رکھنے کی کیا وجہ ہے؟‏

3،‏ 4.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع مسیح کے شاگردوں کے زمانے سے بہت عرصہ پہلے خدا نے اپنے نبیوں کے ذریعے کس کس کو زندہ کِیا؟‏ (‏ب)‏ یسوع مسیح نے کس کس کو زندہ کِیا؟‏

 3 یسوع مسیح کے شاگرد جانتے تھے کہ مُردے زندہ ہو سکتے ہیں۔‏ اُن کے پیدا ہونے سے بہت عرصہ پہلے خدا نے اپنے نبیوں ایلیاہ اور اِلیشع کے ذریعے کچھ مُردوں کو زندہ کِیا تھا۔‏ (‏1-‏سلا 17:‏17-‏24؛‏ 2-‏سلا 4:‏32-‏37‏)‏ جب ایک مُردے کو اِلیشع کی قبر میں ڈالا گیا تو اِلیشع کی ہڈیوں کے ساتھ ٹکرانے سے ہی وہ زندہ ہو گیا۔‏ (‏2-‏سلا 13:‏20،‏ 21‏)‏ اِبتدائی مسیحی بھی ہماری طرح خدا کے کلام میں لکھی اِن باتوں پر مضبوط ایمان رکھتے تھے۔‏

4 یقیناً جب آپ بائبل میں اُن واقعات کو پڑھتے ہیں جب یسوع مسیح نے مُردوں کو زندہ کِیا تو یہ آپ کے دل کو چُھو لیتے ہیں۔‏ ذرا سوچیں کہ جب یسوع مسیح نے ایک بیوہ کے اِکلوتے بیٹے کو زندہ کر دیا تو اُس بیوہ کی خوشی کا ٹھکانا نہیں رہا ہوگا۔‏ (‏لو 7:‏11-‏15‏)‏ اِس کے علاوہ جب یسوع مسیح نے ایک 12 سالہ لڑکی کو زندہ کِیا تو غم سے نڈھال اُس کے ماں باپ کے چہرے خوشی سے کھل گئے ہوں گے۔‏ (‏لو 8:‏49-‏56‏)‏ اور جب لعزر زندہ ہو کر قبر سے نکلے ہوں گے تو یہ دیکھ کر لوگوں کی حیرت کی اِنتہا نہیں رہی ہوگی۔‏—‏یوح 11:‏38-‏44‏۔‏

یسوع مسیح کا زندہ ہو جانا منفرد کیوں تھا؟‏

5.‏ جس طرح سے یسوع مسیح کو زندہ کِیا گیا اور جس طرح اُن سے پہلے کچھ لوگوں کو زندہ کِیا گیا،‏ اُس میں کیا فرق تھا؟‏

5 رسول جانتے تھے کہ جس طرح سے یسوع مسیح کو زندہ کِیا گیا اور جس طرح اُن سے پہلے کچھ لوگوں کو زندہ کِیا گیا،‏ اُس میں فرق ہے۔‏ جن لوگوں کو یسوع مسیح سے پہلے زندہ کِیا گیا،‏ اُنہیں اِنسانی جسم کے ساتھ زندہ کِیا گیا اور وہ آخرکار دوبارہ مر گئے۔‏ لیکن خدا نے یسوع مسیح کو ایک ایسے روحانی جسم کے ساتھ مُردوں میں سے زندہ کِیا جسے ختم نہیں کِیا جا سکتا۔‏ ‏(‏اعمال 13:‏34 کو پڑھیں۔‏)‏ پطرس رسول نے لکھا کہ ”‏[‏مسیح]‏ جسم کے اِعتبار سے تو مارا گیا لیکن روح کے اِعتبار سے زندہ کِیا گیا۔‏“‏ اِس کے علاوہ اُنہوں نے لکھا کہ ”‏وہ آسمان پر جا کر خدا کی دہنی طرف بیٹھا ہے اور فرشتے اور اِختیارات اور قدرتیں اُس کے تابع کی گئی ہیں۔‏“‏ (‏1-‏پطر 3:‏18-‏22‏)‏ سچ ہے کہ جب یسوع مسیح سے پہلے مُردوں کو زندہ کِیا گیا تو یہ بہت بڑے معجزے تھے لیکن جس طرح یسوع مسیح کو زندہ کِیا گیا،‏ وہ اَور بھی بڑا معجزہ تھا۔‏

6.‏ یسوع مسیح کے زندہ ہو جانے سے اُن کے شاگردوں کی زندگی پر کیا اثر ہوا؟‏

6 یسوع مسیح کے مُردوں میں سے زندہ ہو  جانے  سے  اُن  کے شاگردوں کی زندگی پر بہت گہرا اثر ہوا۔‏ یسوع مسیح کے دُشمنوں کو یقین تھا کہ یسوع زندہ نہیں ہیں۔‏ لیکن یسوع مسیح ایک طاقت‌ور روحانی ہستی کے طور پر زندہ تھے اور اب کوئی بھی اِنسان اُنہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا۔‏ اُن کے دوبارہ زندہ ہو جانے سے اُن کے شاگردوں کا غم خوشی میں اور اُن کا ڈر دلیری میں بدل گیا اور یہ ثابت ہوا کہ یسوع مسیح خدا کے بیٹے ہیں۔‏ اگر یسوع مسیح مُردوں میں سے زندہ نہ ہوتے تو خدا کا مقصد پورا نہ ہوتا اور اُن کے شاگردوں نے جو خوش‌خبری سنائی،‏ وہ بھی بےمقصد ہوتی۔‏

7.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع مسیح آج کیا کام کر رہے ہیں؟‏ (‏ب)‏ ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟‏

7 خدا کے بندوں کے طور پر ہم یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یسوع مسیح صرف ایک عظیم اِنسان نہیں تھے۔‏ وہ زندہ ہیں اور مُنادی کے کام کی نگرانی کر رہے ہیں جو پوری دُنیا میں کِیا جا رہا ہے۔‏ خدا کی بادشاہت کے بادشاہ کے طور پر وہ جلد اِس دُنیا سے بُرائی کو ختم کر دیں گے اور زمین کو فردوس بنا دیں گے جس میں اِنسان ہمیشہ تک زندہ رہیں گے۔‏ اگر یسوع مسیح مُردوں میں سے زندہ نہ ہوتے تو یہ سب کام ممکن نہ ہوتے۔‏ لیکن ہم کس وجہ سے اِس بات پر مضبوط ایمان رکھ سکتے ہیں کہ خدا نے اُن کو زندہ کر دیا تھا؟‏ یسوع مسیح کا مُردوں میں سے زندہ ہو جانا ہمارے لیے کیا اہمیت رکھتا ہے؟‏

یہوواہ خدا نے ظاہر کِیا کہ اُسے موت پر اِختیار ہے

8،‏ 9.‏ ‏(‏الف)‏ یہودیوں کے مذہبی رہنما کیوں چاہتے تھے کہ یسوع مسیح کی قبر کی حفاظت کی جائے؟‏ (‏ب)‏ جب مریم مگدلینی اور دوسری مریم قبر پر آئیں تو کیا ہوا؟‏

8 جب یسوع مسیح کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا تو سردار  کاہن اور فریسی،‏ پیلاطُس کے پاس گئے اور اُن سے کہا:‏ ”‏خداوند!‏ ہمیں یاد ہے کہ اُس دھوکےباز نے جیتے جی کہا تھا مَیں تین دن کے بعد جی اُٹھوں گا۔‏ پس حکم دے کہ تیسرے دن تک قبر کی نگہبانی کی جائے۔‏ کہیں ایسا نہ ہو کہ اُس کے شاگرد آ کر اُسے چرا لے جائیں اور لوگوں سے کہہ دیں کہ وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا اور یہ پچھلا دھوکا پہلے سے بھی بُرا ہو۔‏“‏ پیلاطُس نے اُن سے کہا:‏ ”‏تمہارے پاس پہرے والے ہیں۔‏ جاؤ جہاں تک تُم سے ہو سکے اُس کی نگہبانی کرو۔‏“‏ سردار کاہنوں اور فریسیوں نے بالکل ایسا ہی کِیا۔‏—‏متی 27:‏62-‏66‏۔‏

9 یسوع مسیح کی لاش کو ایک ایسی قبر میں رکھا گیا جسے چٹان کے اندر تیار کِیا گیا تھا اور اِس کے مُنہ پر ایک بڑا سا پتھر رکھ دیا گیا۔‏ یہودیوں کے مذہبی رہنما چاہتے تھے کہ یسوع مسیح ہمیشہ تک یہاں پر بےجان پڑے رہیں۔‏ لیکن یہوواہ خدا کا اِرادہ کچھ اَور تھا۔‏ جب مریم مگدلینی اور دوسری مریم تیسرے دن قبر پر آئیں تو اُنہوں نے دیکھا کہ قبر کے مُنہ سے پتھر لڑھکا ہوا ہے اور ایک فرشتہ اُس پر بیٹھا ہے۔‏ فرشتے نے اُن عورتوں سے کہا کہ وہ قبر کے اندر دیکھیں کہ یہ خالی ہے۔‏ پھر اُس نے اِن عورتوں سے کہا:‏ ”‏وہ یہاں نہیں ہے کیونکہ .‏ .‏ .‏ [‏وہ]‏ جی اُٹھا ہے۔‏“‏ (‏متی 28:‏1-‏6‏)‏ یسوع مسیح زندہ ہو گئے تھے۔‏

10.‏ پولُس نے کیا بتایا جس سے ثابت ہوا کہ خدا نے یسوع مسیح کو زندہ کر دیا تھا؟‏

10 اگلے 40 دن میں جو کچھ ہوا،‏ اُس سے یہ بالکل واضح ہو گیا کہ یسوع مسیح مُردوں میں سے زندہ ہو گئے ہیں۔‏ پولُس رسول نے اِن واقعات کو مختصراً یوں بیان کِیا:‏ ”‏مَیں نے سب سے پہلے تُم کو وہی بات پہنچا دی جو مجھے پہنچی تھی کہ مسیح کتابِ‌مُقدس کے مطابق ہمارے گُناہوں کے لئے مؤا۔‏ اور دفن ہوا اور تیسرے دن کتابِ‌مُقدس کے مطابق جی اُٹھا۔‏ اور کیفاؔ کو اور اُس کے بعد اُن بارہ کو دِکھائی دیا۔‏ پھر پانچ سو سے زیادہ بھائیوں کو ایک ساتھ دِکھائی دیا۔‏ جن میں سے اکثر اب تک موجود ہیں اور بعض سو گئے۔‏ پھر یعقوؔب کو دِکھائی دیا۔‏ پھر سب رسولوں کو۔‏ اور سب سے پیچھے مجھ کو جو گویا ادھورے دنوں کی پیدایش ہوں دِکھائی دیا۔‏“‏—‏1-‏کر 15:‏3-‏8‏۔‏

ہم کیسے جانتے ہیں کہ یسوع مسیح کو زندہ کر دیا گیا تھا؟‏

11.‏ ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ یسوع مسیح کو ”‏کتابِ‌مُقدس کے مطابق“‏ زندہ کر دیا گیا تھا؟‏

11 پہلی وجہ:‏ یہ ”‏کتابِ‌مُقدس کے مطابق“‏  ہوا  تھا۔‏  خدا  کے کلام میں اِس بارے میں پہلے سے بتا دیا گیا تھا۔‏ مثال کے طور پر داؤد نے لکھا کہ خدا ”‏اپنے مُقدس“‏ کو پاتال میں نہیں چھوڑ دے گا۔‏ ‏(‏زبور 16:‏10 کو پڑھیں۔‏)‏ سن 33ء میں عیدِپنتِکُست کے موقعے پر پطرس رسول نے بتایا کہ یہ ”‏مُقدس“‏ یسوع مسیح ہیں۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏[‏داؤد]‏ نے پیشین گوئی کے طور پر مسیح کے جی اُٹھنے کا ذکر کِیا کہ نہ وہ عالمِ‌ارواح میں چھوڑا گیا نہ اُس کے جسم کے سڑنے کی نوبت پہنچی۔‏“‏—‏اعما 2:‏23-‏27،‏ 31‏۔‏

12.‏ یسوع مسیح کے زندہ ہو جانے کے بعد اُنہیں کس کس نے دیکھا؟‏

12 دوسری وجہ:‏ اِس کے بہت سے گواہ تھے۔‏ مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد یسوع مسیح 40 دن تک اپنے شاگردوں کو دِکھائی دیے۔‏ وہ اُنہیں اُس باغ میں ملے جہاں اُن کی قبر تھی۔‏ وہ اُنہیں اِماؤس کے راستے پر اور کچھ اَور جگہوں پر بھی ملے۔‏ (‏لو 24:‏13-‏15‏)‏ بعض موقعوں پر اُنہوں نے کچھ شاگردوں کے ساتھ اکیلے میں بات کی جیسے کہ پطرس کے ساتھ۔‏ اور دیگر موقعوں پر اُنہوں نے شاگردوں کے گروہ سے بات کی۔‏ ایک بار تو وہ 500 سے بھی زیادہ لوگوں کے گروہ کو دِکھائی دیے۔‏ یقیناً اِس بات کو نظرانداز نہیں کِیا جا سکتا کہ اِتنے زیادہ لوگوں نے یسوع مسیح کے زندہ ہو جانے کے بعد اُنہیں دیکھا۔‏

13.‏ یہ بات کیسے ظاہر ہوئی کہ شاگرد اِس بات پر پورا یقین رکھتے تھے کہ یسوع مسیح مُردوں میں سے زندہ ہو گئے ہیں؟‏

13 تیسری وجہ:‏ یسوع مسیح کے  شاگردوں  نے  بڑے  جوش  سے اِس کے بارے میں دوسروں کو بتایا۔‏ اِس وجہ سے اُنہیں اذیت پہنچائی گئی یہاں تک کہ کچھ کو تو مار دیا گیا۔‏ اگر یسوع مسیح  مُردوں میں سے زندہ نہ ہوتے تو بھلا پطرس اپنی جان کو خطرے میں ڈال  کر مذہبی رہنماؤں کو اِس بارے میں کیوں  بتاتے؟‏  دراصل  پطرس اور باقی شاگردوں کو پکا یقین تھا کہ یسوع مسیح زندہ ہیں اور مُنادی کے کام کی نگرانی کر رہے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ یسوع مسیح کے زندہ ہو جانے سے شاگردوں کا اِس بات پر ایمان مضبوط ہوا کہ خدا اُنہیں بھی زندہ کرے گا۔‏ مثال کے طور پر جب ستفنُس فوت ہوئے تو اُنہیں اِس بات کا پورا یقین تھا کہ خدا مُردوں کو زندہ کرے گا۔‏—‏اعما 7:‏55-‏60‏۔‏

14.‏ آپ اِس بات پر کیوں یقین رکھتے ہیں کہ یسوع مسیح زندہ ہیں؟‏

14 چوتھی وجہ:‏ اِس بات کا ثبوت ہے کہ یسوع  مسیح  حکمرانی  کر رہے ہیں اور کلیسیا کی سربراہی کر رہے ہیں۔‏ اِس وجہ سے سچے مسیحیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور وہ پوری دُنیا میں مُنادی کا کام کر رہے ہیں۔‏ اگر یسوع مسیح مُردوں میں سے زندہ نہ ہوتے تو کیا ایسا ہوتا؟‏ اگر خدا اُنہیں زندہ نہ کرتا تو شاید ہمیں اُن کے بارے میں کبھی پتہ بھی نہ چلتا۔‏ لیکن ہمارے پاس اِس بات کے پکے ثبوت ہیں کہ یسوع مسیح زندہ ہیں اور مُنادی کے کام میں ہماری رہنمائی کر رہے ہیں۔‏

یسوع مسیح کا زندہ ہو جانا ہمارے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟‏

15.‏ یہ جان کر کہ یسوع مسیح زندہ ہیں،‏ ہم دلیری سے مُنادی کرنے کے قابل کیوں ہو جاتے ہیں؟‏

15 یہ جان کر کہ یسوع مسیح زندہ ہیں،‏ ہم دلیری سے مُنادی کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔‏ خدا کے دُشمن تقریباً 2000 سال سے خوش‌خبری پھیلانے کے کام کو روکنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔‏ ایسا کرنے کے لیے وہ کلیسیا میں برگشتگی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں،‏ ہمیں بدنام کرتے ہیں،‏ ہمارے کام پر پابندی لگاتے ہیں،‏ ہمیں جسمانی اذیت پہنچاتے ہیں یہاں تک کہ خدا کے کچھ بندوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیتے ہیں۔‏ لیکن وہ ہمارے خلاف چاہے کوئی بھی ہتھیار بنا لیں،‏ وہ مُنادی کرنے اور شاگرد بنانے کے کام کو روک نہیں سکتے۔‏ (‏یسع 54:‏17‏)‏ ہم شیطان کی کٹھ‌پُتلیوں سے نہیں ڈرتے۔‏ یسوع مسیح اپنے وعدے کے مطابق ہمارے ساتھ ہیں۔‏ (‏متی 28:‏20‏)‏ ہمارے پاس دلیر ہونے کی ہر وجہ موجود ہے۔‏ ہمارے دُشمن چاہے کچھ بھی کر لیں،‏ وہ ہمیں خاموش نہیں کر سکتے۔‏

یہ جان کر کہ یسوع مسیح زندہ ہیں،‏ ہم دلیری سے مُنادی کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔‏ (‏پیراگراف 15 کو دیکھیں۔‏)‏

16،‏ 17.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع مسیح کے زندہ ہو جانے سے اُن کی تعلیمات کیسے سچی ثابت ہوئیں؟‏ (‏ب)‏ یوحنا 11:‏25 کے مطابق خدا نے یسوع مسیح کو کیا کرنے کی طاقت دی ہے؟‏

16 یسوع مسیح کے زندہ ہو جانے سے اُن کی  تعلیمات  سچی ثابت ہوئیں۔‏ پولُس نے لکھا کہ اگر یسوع مسیح مُردوں میں سے زندہ نہ ہوتے تو مسیحیوں کا ایمان اور اُن کی خدمت بےفائدہ ہوتی۔‏ بائبل کے ایک عالم نے لکھا:‏ ”‏اگر مسیح زندہ نہیں ہیں تو مسیحی اِنتہائی بےوقوف ہیں اور ایک بہت بڑے دھوکے کا شکار ہیں۔‏“‏ اگر یسوع مسیح مُردوں میں سے زندہ نہ ہوتے تو اِنجیل بس  ایک دُ کھی کہانی ہوتی جس کے آخر میں ایک بہت اچھے اور سمجھ‌دار اِنسان کو مار دیا جاتا ہے۔‏ لیکن یسوع مسیح زندہ ہوئے تھے اور یوں یہ بات ثابت ہو گئی کہ اُن کی تعلیمات اور پیش‌گوئیاں سچی تھیں۔‏‏—‏1-‏کرنتھیوں 15:‏14،‏ 15،‏ 20 کو پڑھیں۔‏

17 یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏مَیں وہ ہوں جو زندہ  کرتا  ہوں  اور زندگی دیتا ہوں۔‏ جو مجھ پر ایمان ظاہر کرتا ہے،‏ چاہے وہ مر بھی  جائے تو بھی دوبارہ زندہ ہوگا۔‏“‏ (‏یوح 11:‏25‏،‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن‏)‏ یسوع مسیح کا یہ شان‌دار وعدہ ضرور پورا ہوگا۔‏ یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کو نہ صرف لوگوں کو آسمان پر زندگی دینے کی قدرت دی ہے بلکہ زمین پر بھی کروڑوں لوگوں کو زندہ کرنے کی طاقت دی ہے تاکہ اِنہیں زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہنے کا موقع مل سکے۔‏ یسوع مسیح کی قربانی اور اُن کا مُردوں میں سے زندہ ہو جانا اِس بات کی ضمانت ہے کہ موت کو ختم کر دیا جائے گا۔‏ کیا اِس وجہ سے آپ کو حوصلہ نہیں ملتا کہ آپ ہر مشکل میں ثابت‌قدم رہیں اور جب آپ کو اپنے ایمان کی وجہ سے موت کا سامنا ہو تو اُس وقت بھی دلیر رہیں؟‏

18.‏ یسوع مسیح کا زندہ ہو جانا کس بات کی ضمانت ہے؟‏

18 یسوع مسیح کا زندہ ہو جانا اِس بات کی ضمانت ہے کہ اِنسانوں کا اِنصاف خدا کے راست معیاروں کے مطابق کِیا جائے  گا۔‏ پولُس نے شہر اتھینے میں کچھ لوگوں سے کہا:‏ ”‏[‏خدا]‏ راستی سے دُنیا کی عدالت اُس آدمی کی معرفت کرے گا جسے اُس نے مقرر کِیا ہے اور اُسے مُردوں میں سے جِلا کر یہ بات سب پر ثابت کر دی ہے۔‏“‏ (‏اعما 17:‏31‏)‏ یسوع مسیح کو یہوواہ خدا کی طرف سے اِنسانوں کا اِنصاف کرنے کے لیے مقرر کِیا گیا ہے اور ہم پورا یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ راستی اور محبت سے اِنصاف کریں گے۔‏‏—‏یسعیاہ 11:‏2-‏4 کو پڑھیں۔‏

19.‏ اِس بات پر ایمان رکھنے سے کہ یسوع مسیح زندہ ہو گئے،‏ ہمیں کیا کرنے کی ترغیب ملتی ہے؟‏

19 اِس بات پر ایمان رکھنے سے کہ یسوع مسیح مُردوں میں  سے زندہ ہو گئے،‏ ہمیں خدا کی مرضی پر چلنے کی ترغیب ملتی ہے۔‏ اگر یسوع مسیح اپنی جان قربان نہ کرتے اور بعد میں خدا اُن کو زندہ نہ کرتا تو ہمارے لیے گُناہ اور موت کی گِرفت سے آزادی حاصل کرنا ممکن نہ ہوتا۔‏ (‏روم 5:‏12؛‏ 6:‏23‏)‏ ہمارے پاس کوئی اُمید نہ ہوتی اور ہم بھی کہتے کہ ”‏آؤ کھائیں پئیں کیونکہ کل تو مر ہی جائیں گے۔‏“‏ (‏1-‏کر 15:‏32‏)‏ لیکن چونکہ ہمارے پاس مستقبل کی اِتنی شان‌دار اُمید ہے اِس لیے ہم اِس دُنیا کی آسائشوں کے پیچھے نہیں بھاگتے۔‏ اِس کی بجائے ہم خدا کی مرضی پر چلنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔‏

20.‏ یسوع مسیح کا زندہ ہو جانا یہ کیسے ثابت کرتا ہے کہ یہوواہ خدا عظیم ہے؟‏

20 یسوع مسیح کا زندہ ہو جانا اِس بات کا ثبوت ہے کہ یہوواہ خدا عظیم ہے اور وہ ”‏اپنے طالبوں کو بدلہ دیتا ہے۔‏“‏ ‏(‏عبر 11:‏6‏)‏ یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کو زندہ کرکے اُنہیں آسمان پر غیرفانی زندگی دی اور یوں ثابت کِیا کہ وہ کتنا طاقت‌ور اور ذہین ہے۔‏ اِس طرح یہوواہ خدا نے یہ بھی ظاہر کِیا کہ وہ اپنے ہر وعدے کو پورا کر سکتا ہے۔‏ اِن میں وہ وعدہ بھی شامل ہے جس کے مطابق ایک خاص ”‏نسل“‏ یہ ثابت کر دے گی کہ یہوواہ خدا ہی حکمرانی کرنے کا حق رکھتا ہے۔‏ اِس وعدے کی تکمیل کے لیے ضروری تھا کہ یسوع مسیح اپنی جان قربان کریں اور بعد میں خدا اُنہیں زندہ کرے۔‏—‏پید 3:‏15‏۔‏

21.‏ یہ اُمید آپ کے لیے کیا اہمیت رکھتی ہے کہ مستقبل میں مُردوں کو زندہ کر دیا جائے گا؟‏

21 ہم یہوواہ خدا کے کتنے شکر گزار ہیں کہ اُس نے ہمیں یہ اُمید دی ہے کہ مستقبل میں مُردوں کو زندہ کر دیا جائے گا۔‏ خدا کے کلام میں وعدہ کِیا گیا ہے کہ ”‏خدا کا خیمہ آدمیوں کے درمیان ہے اور وہ اُن کے ساتھ سکونت کرے گا اور وہ اُس کے لوگ ہوں گے اور خدا آپ اُن کے ساتھ رہے گا اور اُن کا خدا ہوگا۔‏ اور وہ اُن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔‏ اِس کے بعد نہ موت رہے گی اور نہ ماتم رہے گا۔‏ نہ آہ‌ونالہ نہ درد۔‏ پہلی چیزیں جاتی رہیں۔‏“‏ اِس وعدے کو یوحنا رسول نے درج کِیا اور اُن سے کہا گیا کہ ”‏لکھ لے کیونکہ یہ باتیں سچ اور برحق ہیں۔‏“‏ یہ پیغام کس کی طرف سے تھا؟‏ یسوع مسیح کی طرف سے جنہیں خدا نے مُردوں میں سے زندہ کر دیا تھا۔‏—‏مکا 1:‏1؛‏ 21:‏3-‏5‏۔‏