مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھیں‘‏

‏’‏اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھیں‘‏

‏”‏دوسرا [‏حکم]‏ .‏ .‏ .‏ یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔‏“‏—‏متی 22:‏39‏۔‏

1،‏ 2.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع مسیح کے مطابق شریعت کا دوسرا اہم حکم کون‌سا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟‏

یسوع مسیح کو آزمانے کے لیے ایک فریسی نے اُن سے پوچھا:‏ ”‏اَے اُستاد توریت میں کون‌سا حکم بڑا ہے؟‏“‏ جیسے کہ ہم نے پچھلے مضمون میں دیکھا تھا،‏ یسوع مسیح نے اُسے یوں جواب دیا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ۔‏ بڑا اور پہلا حکم یہی ہے۔‏“‏ پھر اُنہوں نے کہا:‏ ”‏دوسرا اِس کی مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔‏“‏—‏متی 22:‏34-‏39‏۔‏

2 یسوع مسیح نے کہا تھا کہ جس طرح ہم خود سے محبت رکھتے ہیں اُسی طرح ہمیں اپنے پڑوسی سے بھی محبت رکھنی چاہیے۔‏ لہٰذا ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے:‏ ہمارا پڑوسی کون ہے؟‏ اور ہم اپنے پڑوسی سے محبت کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

ہمارا پڑوسی کون ہے؟‏

3،‏ 4.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع مسیح نے کس مثال کے ذریعے اِس سوال کا جواب دیا کہ ”‏میرا پڑوسی کون ہے؟‏“‏ (‏ب)‏ سامری نے اُس آدمی کی مدد کیسے کی جسے ڈاکوؤں نے لُوٹ لیا تھا؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

3 جب ہم لفظ پڑوسی سنتے ہیں تو ہمارے ذہن میں ایسا شخص آتا ہے جو ہمارے محلے میں رہتا ہے اور جس کے ساتھ ہمارے دوستانہ تعلقات ہیں۔‏ (‏امثا 27:‏10‏)‏ لیکن غور کریں کہ یسوع مسیح  نے اُس شخص کو کیا جواب دیا جس نے اُن سے پوچھا تھا کہ ”‏میرا پڑوسی کون ہے؟‏“‏ یسوع مسیح نے اُسے نیک سامری کی مثال دی۔‏ ‏(‏لوقا 10:‏29-‏37 کو پڑھیں۔‏)‏ ہم شاید سوچیں کہ کاہن اور لاوی اُس آدمی کی مدد ضرور کریں گے جسے ڈاکوؤں نے لُوٹ لیا،‏ مارا پیٹا اور ادھ‌مؤا چھوڑ دیا۔‏ لیکن وہ اُس آدمی کی مدد کیے بغیر ہی اُس کے پاس سے گزر گئے۔‏ آخرکار ایک سامری نے اُس کی مدد کی۔‏ یہ حیرت کی بات تھی کیونکہ یہودی،‏ سامریوں کو حقیر جانتے تھے حالانکہ سامری موسیٰ کی شریعت کو مانتے تھے۔‏—‏یوح 4:‏9‏۔‏

4 اُس آدمی کے زخموں کو بھرنے کے لیے سامری نے اُن پر تیل اور مے لگائی۔‏ سامری نے اُس شخص کی دیکھ‌بھال کے لیے سرائے کے مالک کو دو دینار دیے جو دو دن کی مزدوری کے برابر تھے۔‏ (‏متی 20:‏2‏)‏ یہ بات ظاہر ہے کہ اُس آدمی کا پڑوسی کون ثابت ہوا۔‏ یسوع مسیح کی اِس مثال سے صاف ظاہر ہے کہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھنے کا کیا مطلب ہے۔‏

اپنے پڑوسیوں سے محبت رکھنے کی وجہ سے یہوواہ کے گواہ فوراً اُن کی مدد کو آتے ہیں۔‏ (‏پیراگراف 5 کو دیکھیں۔‏)‏

5.‏ ایک قدرتی آفت کے دوران یہوواہ کے گواہوں نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھتے ہیں؟‏

5 کم ہی لوگ نیک سامری کی طرح اپنے پڑوسی سے محبت ظاہر کرتے ہیں۔‏ یہ بات خاص طور پر اِس ”‏اخیر زمانہ“‏ میں سچ ہے کیونکہ بہت سے لوگ طبعی محبت سے خالی ہیں،‏ سنگدل ہیں اور نیکی کے دُشمن ہیں۔‏ (‏2-‏تیم 3:‏1-‏3‏)‏ جب کوئی قدرتی آفت آتی ہے تو لوگوں کی یہ خامیاں اَور بھی زیادہ نظر آتی ہیں۔‏ مثال کے طور پر اکتوبر 2012ء میں امریکہ کا شہر نیو یارک طوفان سینڈی کی زد میں آیا۔‏ ایک علاقے میں بجلی چلی گئی اور لوگوں کے پاس ضرورت کی دوسری چیزیں بھی نہیں تھیں۔‏ اِس مصیبت کے علاوہ وہاں لُوٹ‌پاٹ بھی شروع ہو گئی۔‏ لیکن اِسی علاقے میں یہوواہ کے گواہوں نے اپنے بہن‌بھائیوں اور دوسرے لوگوں کو اِمداد فراہم کرنے کا اِنتظام کِیا۔‏ سچے مسیحی ایسے کام اِس لیے کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھتے ہیں۔‏ ہم اپنے پڑوسی سے اَور کن طریقوں سے محبت ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

ہم اپنے پڑوسی سے محبت کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

6.‏ مُنادی کا کام اپنے پڑوسی سے محبت ظاہر کرنے کا ایک طریقہ کیوں ہے؟‏

6 لوگوں کو تسلی دیں۔‏ ایسا کرنے کے لیے ہم لوگوں کی توجہ اُن تسلیبخش باتوں پر دِلاتے ہیں جو پاک کلام میں پائی جاتی ہیں۔‏ (‏روم 15:‏4‏)‏ جب ہم اُنہیں مُنادی کے کام کے دوران بائبل کی سچائیاں بتاتے ہیں تو دراصل ہم اُن کے لیے محبت ظاہر کرتے ہیں۔‏ (‏متی 24:‏14‏)‏ یہ کتنے اعزاز کی بات ہے کہ ہم لوگوں کو اُس خدا کی طرف سے پیغام دے سکتے ہیں ”‏جو اُمید کا چشمہ ہے۔‏“‏—‏روم 15:‏13‏۔‏

7.‏ یسوع مسیح نے پہاڑی وعظ میں کون‌سا سنہرا اصول بتایا؟‏ اور اِس پر عمل کرنے سے کیا نتیجہ نکلے گا؟‏

7 دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔‏ یسوع مسیح نے پہاڑی وعظ میں یہ سنہرا اصول بتایا:‏ ”‏جو کچھ تُم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں وہی تُم بھی اُن کے ساتھ کرو کیونکہ توریت اور نبیوں کی تعلیم یہی ہے۔‏“‏ (‏متی 7:‏12‏)‏ جب ہم اِس اصول کے مطابق دوسروں سے سلوک کرتے ہیں تو ہم ”‏توریت“‏ (‏یعنی پیدایش سے استثنا کی کتابوں)‏ پر اور ”‏نبیوں کی تعلیم“‏ (‏یعنی عبرانی صحیفوں میں پائی جانے والی نبیوں کی کتابوں)‏ پر عمل کر رہے ہوتے ہیں۔‏ اِن کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ خدا اُن لوگوں کو برکت دیتا ہے جو دوسروں سے محبت ظاہر کرتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر یہوواہ خدا نے یسعیاہ نبی سے کہا:‏ ”‏عدل کو قائم رکھو اور صداقت کو عمل میں لاؤ۔‏ .‏ .‏ .‏ مبارک ہے وہ اِنسان جو اِس پر عمل کرتا ہے۔‏“‏ (‏یسع 56:‏1،‏ 2‏)‏ واقعی اگر ہم اپنے پڑوسی سے اِنصاف اور صداقت کے ساتھ پیش آتے ہیں تو ہم مبارک ہوں گے۔‏

8.‏ ہمیں اپنے دُشمنوں سے محبت کیوں رکھنی چاہیے؟‏ اور اِس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟‏

8 اپنے دُشمنوں سے محبت رکھیں۔‏ یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏تُم سُن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھ اور اپنے دُشمن سے عداوت۔‏ لیکن مَیں تُم سے یہ کہتا ہوں کہ اپنے دُشمنوں  سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کے لئے دُعا کرو تاکہ تُم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے بیٹے ٹھہرو۔‏“‏ (‏متی 5:‏43-‏45‏)‏ پولُس رسول نے بھی ایسی ہی بات کہی۔‏ اُنہوں نے لکھا:‏ ”‏اگر تیرا دُشمن بھوکا ہو تو اُس کو کھانا کھلا۔‏ اگر پیاسا ہو تو اُسے پانی پلا۔‏“‏ (‏روم 12:‏20؛‏ امثا 25:‏21‏)‏ موسیٰ کی شریعت میں یہ حکم تھا کہ اگر ایک شخص اپنے دُشمن کے جانور کو بوجھ تلے دبا ہوا دیکھے تو اُسے اپنے دُشمن کی مدد کرنی تھی۔‏ (‏خر 23:‏5‏)‏ ہو سکتا تھا کہ اِس طرح مل کر کام کرنے سے اُن کی دُشمنی دوستی میں بدل جاتی۔‏ چونکہ سچے مسیحی سب لوگوں سے محبت کرتے ہیں اِس لیے اُن کے کئی دُشمنوں نے یہوواہ کے گواہوں کے بارے میں اپنا نظریہ بدل لیا ہے۔‏ اگر ہم اپنے دُشمنوں سے محبت ظاہر کرتے ہیں،‏ یہاں تک کہ اُن سے بھی جو ہماری سخت مخالفت کرتے ہیں تو شاید اُن میں سے کچھ سچائی کو قبول کر لیں۔‏ یہ واقعی بڑی خوشی کی بات ہوگی!‏

9.‏ یسوع مسیح نے صلح کرنے کے سلسلے میں کیا کہا؟‏

9 ‏’‏سب کے ساتھ صلح سے رہیں۔‏‘‏ ‏(‏عبر 12:‏14‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ ظاہری بات ہے کہ اِس میں ہمارے مسیحی بہن‌بھائی بھی شامل ہیں۔‏ یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏اگر تُو قربانگاہ پر اپنی نذر گذرانتا ہو اور وہاں تجھے یاد آئے کہ میرے بھائی کو مجھ سے کچھ شکایت ہے تو وہیں قربانگاہ کے آگے اپنی نذر چھوڑ دے اور جا کر پہلے اپنے بھائی سے ملاپ کر۔‏ تب آ کر اپنی نذر گذران۔‏“‏ (‏متی 5:‏23،‏ 24‏)‏ اگر ہم اپنے بھائی سے محبت ظاہر کریں گے اور اُس سے صلح کرنے کے لیے فوراً قدم اُٹھائیں گے تو خدا ہمیں برکت ضرور دے گا۔‏

10.‏ ہمیں دوسروں میں نقص کیوں نہیں نکالنے چاہئیں؟‏

10 دوسروں میں نقص نہ نکالیں۔‏ یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏عیب‌جوئی نہ کرو کہ تمہاری بھی عیب‌جوئی نہ کی جائے۔‏ کیونکہ جس طرح تُم عیب‌جوئی کرتے ہو اُسی طرح تمہاری بھی عیب‌جوئی کی جائے گی اور جس پیمانہ سے تُم ناپتے ہو اُسی سے تمہارے واسطے ناپا جائے گا۔‏ تُو کیوں اپنے بھائی کی آنکھ کے تنکے کو دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کے شہتیر پر غور نہیں کرتا؟‏ اور جب تیری ہی آنکھ میں شہتیر ہے تو تُو اپنے بھائی سے کیوں‌کر کہہ سکتا ہے کہ لا تیری آنکھ میں سے تنکا نکال دوں؟‏ اَے ریاکار پہلے اپنی آنکھ میں سے تو شہتیر نکال پھر اپنے بھائی کی آنکھ میں سے تنکے کو اچھی طرح دیکھ کر نکال سکے گا۔‏“‏ (‏متی 7:‏1-‏5‏)‏ یوں یسوع مسیح نے بڑے مؤثر طریقے سے یہ بات سمجھائی کہ ہمیں دوسروں کی چھوٹی‌چھوٹی غلطیوں پر اُن کی تنقید نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ہم خود اِس سے بڑی غلطیاں کرتے ہیں۔‏

 پڑوسی سے محبت ظاہر کرنے کا ایک خاص طریقہ

11،‏ 12.‏ ہم کس خاص طریقے سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم اپنے پڑوسی سے محبت رکھتے ہیں؟‏

11 ہم ایک خاص طریقے سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم اپنے پڑوسی سے محبت رکھتے ہیں۔‏ ہم یسوع مسیح کی طرح بادشاہت کی خوش‌خبری سناتے ہیں۔‏ (‏لو 8:‏1‏)‏ یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو حکم دیا کہ ”‏سب قوموں کو شاگرد بناؤ۔‏“‏ (‏متی 28:‏19،‏ 20‏)‏ اِس حکم کے مطابق ہم اپنے پڑوسیوں کی مدد کرتے ہیں تاکہ وہ ہلاکت کی طرف لے جانے والے کُشادہ راستے کو چھوڑ دیں اور زندگی کی طرف لے جانے والے سکڑے راستے پر چلیں۔‏ (‏متی 7:‏13،‏ 14‏)‏ بِلاشُبہ یہوواہ خدا ایسی کوششوں میں برکت ڈالتا ہے۔‏

12 یسوع مسیح کی طرح ہم لوگوں میں یہ احساس پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ ”‏اُنہیں خدا کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔‏“‏ (‏متی 5:‏3‏،‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن‏)‏ جو لوگ ہماری کوششوں پر اچھا ردِعمل دِکھاتے ہیں،‏ ہم اُنہیں ’‏خدا کی خوش‌خبری‘‏ سناتے ہیں۔‏ (‏روم 1:‏1‏)‏ اور جب لوگ بادشاہت کے پیغام کو قبول کرتے ہیں تو یہوواہ خدا،‏ یسوع مسیح کے ذریعے اُن سے صلح کرتا ہے۔‏ (‏2-‏کر 5:‏18،‏ 19‏)‏ لہٰذا ہم مُنادی کے کام کے ذریعے ایک بہت ہی خاص طریقے سے اپنے پڑوسی سے محبت ظاہر کرتے ہیں۔‏

13.‏ آپ مُنادی کے کام میں حصہ لینے کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں؟‏

13 دلچسپی ظاہر کرنے والے لوگوں سے دوبارہ ملاقات کرنے اور اُن کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرنے سے ہم اُن کی مدد کرتے ہیں کہ وہ خدا کے معیار اپنا سکیں۔‏ یوں شاید اُن کی زندگی میں بڑی تبدیلیاں آئیں۔‏ (‏1-‏کر 6:‏9-‏11‏)‏ ہمیں یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی ہے کہ خدا لوگوں کی مدد کرتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلیاں لائیں اور اُس کی قربت میں آ جائیں۔‏ اِس طرح بہت سے لوگوں کی مایوسی خوشی میں بدل گئی اور اُن کی پریشانیاں دُور ہو گئیں کیونکہ اُنہوں نے خدا پر بھروسا رکھنا سیکھا۔‏ کیا آپ کو یہ سب کچھ دیکھ کر خوشی اور اِطمینان نہیں ملتا؟‏ مُنادی کے کام کے ذریعے اپنے پڑوسی سے محبت ظاہر کرنا واقعی ایک بڑا اعزاز ہے۔‏

سچی محبت کے پہلو

14.‏ اپنے الفاظ میں بتائیں کہ پولُس رسول نے 1-‏کرنتھیوں 13:‏4-‏8 میں محبت کے حوالے سے کیا کہا۔‏

14 پولُس رسول نے محبت کے حوالے سے جو کچھ لکھا،‏ اُس پر عمل کرنے سے پڑوسی کے ساتھ ہمارے تعلقات خوش‌گوار ہوں گے،‏ ہم بہت سے مسئلوں سے بچ سکیں گے اور ہمیں خدا کی برکت حاصل ہوگی۔‏ ‏(‏1-‏کرنتھیوں 13:‏4-‏8 کو پڑھیں۔‏)‏ آئیں،‏ پولُس رسول کی اِن باتوں پر غور کریں اور دیکھیں کہ ہم اپنے پڑوسی کے ساتھ اپنے تعلقات میں اِن پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔‏

15.‏ ‏(‏الف)‏ ہمیں صبر اور مہربانی سے کیوں کام لینا چاہیے؟‏ (‏ب)‏ ہمیں کیوں حسد نہیں کرنا چاہیے اور شیخی نہیں مارنی چاہیے؟‏

15 ‏”‏محبت صابر ہے اور مہربان۔‏“‏ جس طرح خدا گُناہگار اِنسانوں کے ساتھ صبر اور مہربانی سے پیش آتا ہے اُسی طرح ہمیں بھی اُس وقت صبر اور مہربانی سے کام لینا چاہیے جب دوسرے لوگ غلطیاں کرتے ہیں یا ہمیں ٹھیس پہنچاتے ہیں۔‏ ”‏محبت حسد نہیں کرتی“‏ اِس لیے ہم دوسروں کی چیزوں کا لالچ نہیں کرتے اور کلیسیا میں اُن لوگوں سے نہیں جلتے جن کے پاس ایسی ذمےداریاں ہیں جو ہمارے پاس نہیں ہیں۔‏ اِس کے علاوہ اگر ہمارے دل میں محبت ہے تو ہم شیخی نہیں ماریں گے اور غرور سے نہیں پھولیں گے کیونکہ ”‏بلندنظری اور دل کا تکبّر .‏ .‏ .‏ گُناہ ہے۔‏“‏—‏امثا 21:‏4‏۔‏

16،‏ 17.‏ ہم 1-‏کرنتھیوں 13:‏5،‏ 6 پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

16 پڑوسی سے محبت رکھنے کی وجہ سے ہم کوئی نازیبا کام نہیں کریں گے یعنی ہم نہ تو جھوٹ بولیں گے،‏ نہ چوری کریں گے اور نہ ہی کوئی اَور ایسا کام کریں گے جو خدا کے حکموں اور اصولوں کے خلاف ہو۔‏ اِس کے علاوہ ہم صرف اپنے ہی فائدہ کا نہیں سوچیں گے بلکہ دوسروں کے فائدے کا بھی۔‏—‏فل 2:‏4‏۔‏

17 سچی محبت جھنجھلاتی نہیں اور ”‏بدگمانی نہیں کرتی۔‏“‏ اُردو جیو ورشن میں اِس اِصطلاح کا ترجمہ یوں کِیا گیا ہے:‏ ”‏محبت  ‏.‏ .‏ .‏ دوسروں کی غلطیوں کا ریکارڈ نہیں رکھتی۔‏“‏ (‏1-‏تھس 5:‏15‏)‏ خدا ایسے لوگوں سے خوش نہیں ہے جو دوسروں سے خفا رہتے ہیں۔‏ اگر ہم ناراضگی کی چنگاری کو ہوا دیتے رہتے ہیں تو ہمارا غصہ ایک دم سے بھڑک سکتا ہے۔‏ اِس سے ہمیں نقصان پہنچے گا اور دوسروں کو بھی۔‏ (‏احبا 19:‏18‏)‏ محبت کی وجہ سے ہم ”‏راستی سے خوش“‏ ہوتے ہیں،‏ بدکاری سے نہیں۔‏ اگر کسی ایسے شخص کے ساتھ بُرائی یا نااِنصافی کی جاتی ہے جو ہم سے نفرت کرتا ہے تو ہم اُسے مصیبت میں دیکھ کر بھی خوش نہیں ہوتے۔‏‏—‏امثال 24:‏17،‏ 18 کو پڑھیں۔‏

18.‏ ہم 1-‏کرنتھیوں 13:‏7،‏ 8 سے محبت کے حوالے سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

18 محبت کے کچھ اَور پہلوؤں پر غور کریں۔‏ پولُس رسول نے کہا کہ محبت ”‏سب کچھ سہہ لیتی ہے۔‏“‏ اگر کوئی ہمیں ٹھیس پہنچاتا ہے مگر پھر معافی مانگتا ہے تو ہم محبت کی بِنا پر اُسے معاف کر دیتے ہیں۔‏ محبت اُن سب باتوں کا ”‏یقین کرتی ہے“‏ جو خدا کے کلام میں لکھی ہیں۔‏ اور محبت ہی کی وجہ سے ہم روحانی خوراک کے لیے شکر گزار ہیں۔‏ محبت اُن ”‏سب باتوں کی اُمید رکھتی ہے“‏ جو بائبل میں پائی جاتی ہیں اور محبت کی وجہ سے ہم دوسروں کو بھی اِس اُمید کے بارے میں بتاتے ہیں۔‏ (‏1-‏پطر 3:‏15‏)‏ مشکلات میں بھی ہم اُمید کا دامن نہیں چھوڑتے ہیں کیونکہ ہم خدا پر بھروسا رکھتے ہیں۔‏ محبت ”‏سب باتوں کی برداشت کرتی ہے،‏“‏ چاہے ہمارے خلاف گُناہ کِیا جائے،‏ ہمیں اذیت دی جائے یا ہمیں کسی اَور آزمائش کا سامنا ہو۔‏ اِس کے علاوہ ”‏محبت کو زوال نہیں“‏ کیونکہ خدا کے بندے ہمیشہ تک یہ خوبی ظاہر کریں گے۔‏

اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت کرتے رہیں

19،‏ 20.‏ بائبل کے کن اصولوں پر غور کرنے سے ہمارے دل میں یہ خواہش بڑھے گی کہ ہم اپنے پڑوسی سے محبت ظاہر کرتے رہیں؟‏

19 بائبل کے اصولوں پر عمل کرنے سے ہم اپنے پڑوسی سے محبت ظاہر کرتے رہیں گے۔‏ ہمیں صرف اپنی ہی قوم کے لوگوں سے نہیں بلکہ سب لوگوں سے محبت رکھنی چاہیے۔‏ یاد رکھیں کہ یسوع مسیح نے کہا تھا:‏ ”‏اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔‏“‏ (‏متی 22:‏39‏)‏ لہٰذا یہوواہ خدا اور یسوع مسیح دونوں ہم سے توقع کرتے ہیں کہ ہم اپنے پڑوسی سے محبت رکھیں۔‏ اگر کسی صورتحال میں ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ ہمیں اپنے پڑوسی سے کیسے پیش آنا چاہیے تو ہم خدا سے دُعا کر سکتے ہیں کہ وہ پاک روح کے ذریعے ہماری رہنمائی کرے۔‏ یوں ہمیں خدا کی برکت ملے گی اور ہم دوسروں کے ساتھ محبت سے پیش آ سکیں گے۔‏—‏روم 8:‏26،‏ 27‏۔‏

20 پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھنے کے حکم کو ”‏بادشاہی شریعت“‏ کہا گیا ہے۔‏ (‏یعقو 2:‏8‏)‏ موسیٰ کی شریعت کے کچھ حکموں کا ذکر کرنے کے بعد پولُس رسول نے کہا:‏ ”‏اِن کے سوا اَور جو کوئی حکم ہو اُن سب کا خلاصہ اِس بات میں پایا جاتا ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھ۔‏ محبت اپنے پڑوسی سے بدی نہیں کرتی۔‏ اِس واسطے محبت شریعت کی تعمیل ہے۔‏“‏ (‏روم 13:‏8-‏10‏)‏ اِس لیے ہمیں اپنے پڑوسی سے محبت ظاہر کرتے رہنا چاہیے۔‏

21،‏ 22.‏ ہمیں خدا سے اور اپنے پڑوسی سے محبت کیوں رکھنی چاہیے؟‏

21 اپنے پڑوسی سے محبت کرنے کے حکم کے حوالے سے ہمیں یسوع مسیح کی اِس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ خدا ”‏اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راست‌بازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے۔‏“‏ (‏متی 5:‏43-‏45‏)‏ چاہے ہمارا پڑوسی راست‌باز ہو یا ناراست،‏ ہمیں اُس کے لیے محبت ظاہر کرنی چاہیے۔‏ جیسے ہم نے دیکھا تھا،‏ محبت ظاہر کرنے کا خاص طریقہ یہ ہے کہ ہم اُسے بادشاہت کا پیغام سنائیں۔‏ اور اگر وہ خوش‌خبری کو قبول کر لیتا ہے تو اُس کا دامن برکتوں سے بھر جائے گا۔‏

22 ہمارے پاس پورے دل سے یہوواہ خدا سے محبت کرنے کی لاتعداد وجوہات ہیں۔‏ اِس کے علاوہ اپنے پڑوسی سے محبت ظاہر کرنے کے بھی بےشمار طریقے ہیں۔‏ خدا اور اپنے پڑوسی سے محبت کرنے سے ہم اُن حکموں پر عمل کر رہے ہوں گے جنہیں یسوع مسیح نے سب سے بڑے حکم کہا تھا۔‏ اور سب سے بڑھ کر ہم اپنے آسمانی باپ یہوواہ کا دل شاد کر رہے ہوں گے۔‏