مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اعمال کی کتاب سے اہم نکات

اعمال کی کتاب سے اہم نکات

یہوواہ کا کلام زندہ ہے

اعمال کی کتاب سے اہم نکات

رسولوں کے اعمال کی کتاب میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ مسیحی کلیسیا کیسے قائم ہوئی اور مسیحی مذہب مختلف علاقوں تک کیسے پھیلا۔‏ لوقا نامی طبیب نے اِس کتاب میں ۳۳ عیسوی سے لے کر ۶۱ عیسوی تک یعنی ۲۸ سال کے دوران ہونے والے واقعات کے بارے میں لکھا۔‏

اعمال میں پہلے تو پطرس رسول کے کاموں کا ذکر کِیا جاتا ہے اور پھر پولس رسول کے کاموں کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔‏ اِس کتاب میں باربار لفظ ”‏ہم“‏ استعمال ہوا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوقا نے کئی واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔‏ اعمال کی کتاب پر غور کرنے سے ہم بہتر طور پر سمجھ جائیں گے کہ خدا کا کلام اور اُس کی پاک روح کتنے مؤثر ہیں۔‏ (‏عبر ۴:‏۱۲‏)‏ ہم یہ بھی سمجھ جائیں گے کہ پورے دل سے خدا کی خدمت کرنا کتنا اہم ہے۔‏ اِس کے علاوہ خدا کی بادشاہت پر ہمارا ایمان اَور بھی مضبوط ہو جائے گا۔‏

پطرس رسول نے ”‏بادشاہی کی کُنجیاں“‏ استعمال کیں

‏(‏اعما ۱:‏۱–‏۱۱:‏۱۸‏)‏

جب رسولوں کو خدا کی پاک رُوح عطا کی گئی تو وہ بڑی دلیری سے گواہی دینے لگے۔‏ پطرس رسول نے ’‏آسمان کی بادشاہی کی کُنجیوں‘‏ میں سے پہلی کُنجی استعمال کی۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ اُن یہودیوں اور نومریدوں کو جنہوں نے ”‏اُس کا کلام قبول کِیا“‏ اُنہیں خدا کی بادشاہت میں داخل ہونے کا موقع ملا۔‏ (‏متی ۱۶:‏۱۹؛‏ اعما ۲:‏۵،‏ ۴۱‏)‏ پھر مسیحیوں کو سخت اذیت کا سامنا کرنا پڑا اور وہ دُور دراز علاقوں کو چلے گئے۔‏ لیکن اِس کے نتیجے میں اُن علاقوں میں بھی بادشاہت کی خوشخبری پہنچ گئی۔‏

یہ سُن کر کہ سامریہ کے لوگوں نے خدا کا کلام قبول کِیا ہے،‏ یروشلیم میں رسولوں نے پطرس اور یوحنا کو سامریہ بھیج دیا۔‏ پطرس رسول نے دوسری کُنجی استعمال کرتے ہوئے سامریوں کو بادشاہت میں داخل ہونے کا موقع فراہم کِیا۔‏ (‏اعما ۸:‏۱۴-‏۱۷‏)‏ یسوع مسیح کے جی اُٹھنے کے تقریباً ایک سال بعد ترسس کا ساؤل اپنی زندگی میں بہت بڑی تبدیلیاں لا کر مسیحی بن گیا۔‏ پھر ۳۶ عیسوی میں پطرس نے تیسری کُنجی استعمال کی اور غیرقوموں میں سے بعض ایسے لوگوں پر بھی خدا کی پاک رُوح نازل ہوئی جن کا ختنہ نہیں ہوا تھا۔‏—‏اعما ۱۰:‏۴۵‏۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۲:‏۴۴-‏۴۷؛‏ ۴:‏۳۴،‏ ۳۵‏—‏مسیحی اپنا مال‌واسباب بیچ کر اِسے آپس میں کیوں بانٹ دیتے تھے؟‏ ایمان لانے والوں میں سے بہتیرے دُور دراز علاقوں سے آئے ہوئے تھے۔‏ وہ اپنے ساتھ کھانےپینے کی جو اشیا لائے تھے یہ ختم ہو رہی تھیں۔‏ لیکن وہ یروشلیم میں مزید رُکنا چاہتے تھے تاکہ وہ مسیحی عقیدوں کے بارے میں سیکھ سکیں اور گواہی دینے کے کام میں شریک بھی ہو سکیں۔‏ ایسے لوگوں کی مدد کرنے کے لئے بعض مسیحیوں نے اپنا مال‌واسباب بیچ دیا۔‏

۴:‏۱۳‏—‏کیا پطرس اور یوحنا واقعی اَن‌پڑھ تھے؟‏ جی‌نہیں۔‏ اُنہیں اس لئے ”‏اَن‌پڑھ اور ناواقف آدمی“‏ کہا گیا کیونکہ اُنہوں نے ربّیوں کے مدرسوں میں مذہبی تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔‏

۵:‏۳۴-‏۳۹‏—‏لوقا کیسے جانتا تھا کہ گملی‌ایل نے صدرِعدالت میں کیا کہا تھا حالانکہ عوام کو اِس عدالت کے اجلاسوں پر حاضر ہونے کی اجازت نہیں تھی؟‏ اِس کی تین وجوہات ہو سکتی تھیں:‏ (‏۱)‏ پولس رسول جس نے گملی‌ایل سے تربیت پائی تھی اُس نے شاید لوقا کو اِس اجلاس کے بارے میں بتایا ہو۔‏ (‏۲)‏ شاید لوقا نے صدرِعدالت کے ایک ایسے رُکن سے یہ معلومات حاصل کی ہو جو مسیحیوں کو پسند کرتا تھا،‏ مثلاً نیکدیمس۔‏ (‏۳)‏ لوقا نے یہ معلومات خدا کے الہام سے حاصل کی ہوگی۔‏

۷:‏۵۹‏—‏کیا ستفنس نے واقعی یسوع مسیح سے دُعا کی؟‏ جی‌نہیں۔‏ ہمیں صرف یہوواہ خدا کی عبادت کرنی چاہئے۔‏ لہٰذا ہمیں صرف اُسی سے دُعا کرنی چاہئے۔‏ (‏لو ۴:‏۸؛‏ ۶:‏۱۲‏)‏ ستفنس عام طور پر یسوع مسیح کے نام سے یہوواہ خدا سے التجا کرتا۔‏ (‏یوح ۱۵:‏۱۶‏)‏ لیکن اِس موقعے پر ستفنس نے ایک رویا میں ’‏ابنِ‌آدم کو خدا کی دہنی طرف کھڑا دیکھا۔‏‘‏ (‏اعما ۷:‏۵۶‏)‏ اُسے یہ بھی معلوم تھا کہ یسوع مسیح مُردوں کو زندہ کرنے کی قوت رکھتا ہے۔‏ (‏یوح ۵:‏۲۷-‏۲۹‏)‏ اس لئے اُس نے یسوع مسیح سے التجا کی کہ ”‏میری رُوح کو قبول کر۔‏“‏ بائبل کی اصلی زبان سے واضح ہوتا ہے کہ ستفنس نے یسوع کو ”‏پکارا“‏ لیکن اُس سے دُعا نہیں کی۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۱:‏۸‏۔‏ یہوواہ کے خادم پوری دُنیا میں خوشخبری سنانے کا کام خدا کی پاک رُوح کی مدد کے بغیر نہیں انجام دے سکتے۔‏

۴:‏۳۶–‏۵:‏۱۱‏۔‏ کُپرس کے رہنے والے یوسف کو برنباس کہا جاتا تھا۔‏ بائبل کی اصلی زبان میں اِس کا مطلب ”‏تسلی کا بیٹا“‏ ہے۔‏ رسولوں نے اُسے یہ نام اس لئے دیا کیونکہ وہ نرم‌دل اور مہربان تھا اور دوسروں کی مدد کرنے کو تیار تھا۔‏ اُس کے برعکس حننیاہ اور سفیرہ ریاکار،‏ دھوکاباز اور بددیانت تھے۔‏ ہمیں اُن کی طرح نہیں بلکہ برنباس کی طرح بننا چاہئے۔‏

۹:‏۲۳-‏۲۵‏۔‏ جو شخص خوشخبری سنانے کے کام کو جاری رکھنے کی خاطر اپنے دُشمنوں سے بھاگ جاتا ہے وہ بزدل نہیں ہے۔‏

۹:‏۲۸-‏۳۰‏۔‏ کئی ایسے علاقے ہیں جہاں ہم منادی کرنے سے خود کو جسمانی،‏ اخلاقی یا روحانی لحاظ سے خطرے میں ڈال رہے ہوں گے۔‏ ایسی صورتحال میں دانشمندی کی بات یہ ہوگی کہ ہم کہیں اَور جا کر مُنادی کریں۔‏

۹:‏۳۱‏۔‏ جب ہمارے علاقے میں امن اور چین ہو تو ہمیں بائبل کا مطالعہ کرنے اور غوروخوض کرنے سے اپنے ایمان کو مضبوط بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔‏ اگر ہم سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرتے ہیں اور مُنادی کے کام میں بڑھ‌چڑھ کر حصہ لیتے ہیں تو ہم مشکل وقت میں بھی یہوواہ کے خوف میں چلیں گے۔‏

پولس رسول کی پُرجوش خدمت

‏(‏اعما ۱۱:‏۱۹–‏۲۸:‏۳۱‏)‏

سن ۴۴ عیسوی میں اگبُس نامی ایک نبی شہر انطاکیہ آیا جہاں برنباس اور ساؤل (‏یعنی پولس)‏ نے ”‏سال بھر تک“‏ لوگوں کو تعلیم دی۔‏ اگبُس نے پیشینگوئی کی کہ ”‏بڑا کال پڑے گا۔‏“‏ یہ بات دو سال بعد پوری ہوئی۔‏ (‏اعما ۱۱:‏۲۶-‏۲۸‏)‏ برنباس اور پولس یروشلیم گئے اور وہاں ”‏اپنی خدمت پوری کرکے“‏ انطاکیہ واپس لوٹے۔‏ (‏اعما ۱۲:‏۲۵‏)‏ سن ۴۷ عیسوی یعنی پولس کے مسیحی بننے کے تقریباً ۱۲ سال بعد روحُ‌القدس نے برنباس اور پولس کو دُور دراز علاقوں میں بھیجا تاکہ وہ وہاں بھی خوشخبری سنائیں۔‏ (‏اعما ۱۳:‏۱-‏۴‏)‏ سن ۴۸ عیسوی میں وہ پھر سے انطاکیہ لوٹے ”‏جہاں [‏وہ]‏ اُس کام کے لئے جو اُنہوں نے اب پورا کِیا خدا کے فضل کے سپرد کئے گئے تھے۔‏“‏—‏اعما ۱۴:‏۲۶‏۔‏

تقریباً نو مہینے بعد پولس رسول اپنے ساتھی سیلاس سمیت دوسری بار دُور دراز علاقوں کا دورہ کرنے کے لئے روانہ ہوا۔‏ (‏اعما ۱۵:‏۴۰‏)‏ راستے میں تیمتھیس اور لوقا اُن سے ملے اور اُن کے ساتھ ہو لئے۔‏ وہ لوقا کو شہر فلپی میں چھوڑ کر شہر اتھینے سے ہوتے ہوئے کرنتھس پہنچ گئے۔‏ وہاں پولس کی ملاقات اکوِلہ اور پرِسکلہ سے ہوئی اور اُس نے ڈیڑھ سال اُن کے ساتھ گزارے۔‏ (‏اعما ۱۸:‏۱۱‏)‏ تیمتھیس اور سیلاس شہر کرنتھس میں رہ گئے جبکہ پولس ۵۲ عیسوی کے شروع میں اکوِلہ اور پرِسکلہ کو اپنے ساتھ لے کر سوریہ کو روانہ ہو گیا۔‏ (‏اعما ۱۸:‏۱۸‏)‏ اکوِلہ اور پرِسکلہ نے شہر افسس تک پولس کا ساتھ دیا۔‏

سوریہ کے شہر انطاکیہ میں کچھ وقت گزارنے کے بعد پولس ۵۲ عیسوی میں تیسری بار دُور دراز علاقوں کا دورہ کرنے کے لئے روانہ ہوا۔‏ (‏اعما ۱۸:‏۲۳‏)‏ افسس میں ”‏[‏یہوواہ]‏ کا کلام زور پکڑ کر پھیلتا اور غالب ہوتا گیا۔‏“‏ (‏اعما ۱۹:‏۲۰‏)‏ پولس نے وہاں تقریباً تین سال گزارے۔‏ (‏اعما ۲۰:‏۳۱‏)‏ سن ۵۶ عیسوی کی عیدِپنتِکُست کے موقعے پر پولس رسول یروشلیم میں تھا۔‏ جب اُسے وہاں گرفتار کِیا گیا تو اُس نے بڑی دلیری سے اختیار والوں کو گواہی دی۔‏ پھر اُسے شہر رومہ بھیج دیا گیا جہاں وہ دو سال تک اپنے گھر میں قید رہا (‏تقریباً ۵۹-‏۶۱ عیسوی تک)‏ ۔‏ جو لوگ وہاں اُس سے ملنے کے لئے آتے پولس اُن کو بادشاہت کی خوشخبری کے بارے میں بتاتا اور ”‏خداوند یسوؔع مسیح کی باتیں سکھاتا رہا۔‏“‏—‏اعما ۲۸:‏۳۰،‏ ۳۱‏۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۱۴:‏۸-‏۱۳‏—‏لسترہ میں لوگوں نے کیوں ”‏برؔنباس کو زؔیوس کہا اور پولسؔ کو ہرمیسؔ“‏؟‏ لوگ زیوس کو یونانی دیوتاؤں کا سردار سمجھتے تھے۔‏ اُس کا بیٹا ہرمیس اپنی خوش‌کلامی کے لئے مشہور تھا۔‏ چونکہ عام طور پر پولس رسول لوگوں سے مخاطب ہوتا اس لئے اُنہوں نے اُسے ہرمیس کہا اور برنباس کو زیوس کہا۔‏

۱۶:‏۶،‏ ۷‏—‏روحُ‌القدس نے پولس اور اُس کے ساتھیوں کو آسیہ اور بتونیہ کے علاقوں میں مُنادی کرنے سے منع کیوں کِیا؟‏ مُنادی کرنے والوں کی تعداد بہت کم تھی۔‏ اس لئے روحُ‌القدس نے اُنہیں ایسے علاقوں میں جانے کی ہدایت دی جہاں نئے شاگرد بنانے کے زیادہ امکان تھے۔‏

۱۸:‏۱۲-‏۱۷‏—‏جب لوگ سوستھنیس کو مارنے لگے تو صوبہ‌دار گلیو نے اُن کو کیوں نہیں روکا؟‏ گلیو نے سوچا ہوگا کہ سوستھنیس ہی نے فساد شروع کِیا تھا۔‏ اس لئے اُسے شاید ایسا لگا ہو کہ سوستھنیس سزا کا حقدار ہے۔‏ البتہ اِس واقعے کا اچھا نتیجہ یہ نکلا کہ سوستھنیس مسیحی بن گیا۔‏ پولس رسول نے بعد میں اُسے ”‏بھائی سوستھنیسؔ“‏ کہا۔‏—‏۱-‏کر ۱:‏۱‏۔‏

۱۸:‏۱۸‏—‏پولس نے کونسی منت مانی تھی؟‏ کئی علما کا خیال ہے کہ اُس نے نذیر کی منت یعنی اپنے آپ کو یہوواہ کے لئے الگ رکھنے کی خاص منت مانی تھی۔‏ (‏گن ۶:‏۱-‏۲۱‏)‏ لیکن بائبل میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ اُس نے کونسی منت مانی تھی۔‏ پاک صحائف میں یہ بھی ظاہر نہیں کِیا گیا کہ آیا اُس نے یہ منت مسیحی بننے سے پہلے یا بعد میں مانی تھی یاپھر کہ منت کا عرصہ شروع ہو رہا تھا یا ختم ہو رہا تھا۔‏ بہرحال ایسی منت ماننا غلط نہیں تھا۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۱۲:‏۵-‏۱۱‏۔‏ ہمیں اپنے بہن‌بھائیوں کے لئے دُعا کرنی چاہئے۔‏

۱۲:‏۲۱-‏۲۳؛‏ ۱۴:‏۱۴-‏۱۸‏۔‏ ہیرودیس بادشاہ نے ایسی تمجید قبول کی جس کا صرف خدا ہی مستحق ہے۔‏ اس کے برعکس جب لوگوں نے پولس اور برنباس کی نامناسب تمجید کی تو دونوں نے اِسے فوراً رد کر دیا۔‏ جب ہم خدا کی خدمت میں کامیاب ہوتے ہیں تو ہمیں اپنی بڑائی کی خواہش نہیں رکھنی چاہئے۔‏

۱۴:‏۵-‏۷‏۔‏ مخالفت کا سامنا کرتے وقت ہم احتیاط برتنے سے مُنادی کے کام کو جاری رکھ سکتے ہیں۔‏—‏متی ۱۰:‏۲۳‏۔‏

۱۴:‏۲۲‏۔‏ مسیحی توقع کرتے ہیں کہ اُنہیں مصیبتوں کا سامنا ہوگا۔‏ وہ مشکلات سے بچنے کی خاطر مسیحی اصولوں کا سمجھوتا نہیں کرتے۔‏—‏۲-‏تیم ۳:‏۱۲‏۔‏

۱۶:‏۱،‏ ۲‏۔‏ مسیحی نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ جوش‌وجذبے کے ساتھ خدا کی خدمت کریں اور کلیسیا میں نیکنامی حاصل کرنے کے لئے یہوواہ خدا سے مدد مانگیں۔‏

۱۶:‏۳‏۔‏ ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے کہ لوگ خوشخبری کو قبول کریں لیکن ایسا کرنے کے لئے ہمیں خدا کے اصولوں کی خلاف‌ورزی نہیں کرنی چاہئے۔‏—‏۱-‏کر ۹:‏۱۹-‏۲۳‏۔‏

۲۰:‏۲۰،‏ ۲۱‏۔‏ گھر گھر جا کر مُنادی کرنا ہمارے تبلیغی کام کا ایک اہم پہلو ہے۔‏

۲۰:‏۲۴؛‏ ۲۱:‏۱۳‏۔‏ خدا کا وفادار رہنا اپنی جان بچانے سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔‏

۲۱:‏۲۱-‏۲۶‏۔‏ ہمیں اچھے مشورے قبول کرنے سے نہیں ہچکچانا چاہئے۔‏

۲۵:‏۸-‏۱۲‏۔‏ مسیحی آجکل بھی ”‏خوشخبری کی جواب‌دہی اور ثبوت“‏ پیش کرنے کے لئے عدالتوں سے رجوع کر سکتے ہیں۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ ہم تبلیغی کام کے لئے قانون کی حفاظت حاصل کر سکتے ہیں۔‏—‏فل ۱:‏۷‏۔‏

۲۶:‏۲۴،‏ ۲۵‏۔‏ ہمیں ہمیشہ ”‏سچائی اور ہوشیاری کی باتیں“‏ کرنی چاہئیں،‏ چاہے یہ ”‏نفسانی آدمی“‏ کے نزدیک بیوقوفی کی باتیں کیوں نہ ہوں۔‏—‏۱-‏کر ۲:‏۱۴‏۔‏

‏[‏صفحہ ۳۰ پر تصویر]‏

پطرس رسول نے ”‏بادشاہی کی کُنجیاں“‏ کن موقعوں پر استعمال کیں؟‏

‏[‏صفحہ ۳۱ پر تصویر]‏

یہوواہ کے خادم پوری دُنیا میں خوشخبری سنانے کا کام خدا کی پاک رُوح کی مدد کے بغیر نہیں انجام دے سکتے