مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

سوالات از قارئین

سوالات از قارئین

سوالات از قارئین

زبور ۱۰۲:‏۲۶ بیان کرتی ہے کہ زمین اور آسمان ”‏نیست ہو جائیں گے۔‏“‏ کیا اسکا مطلب ہے کہ زمین تباہ‌وبرباد ہو جائے گی؟‏

یہوواہ سے دُعا کرتے ہوئے زبورنویس نے کہا:‏ ”‏تُو نے قدیم سے زمین کی بنیاد ڈالی۔‏ آسمان تیرے ہاتھ کی صنعت ہے۔‏ وہ نیست ہو جائیں گے پر تُو باقی رہے گا۔‏ بلکہ وہ سب پوشاک کی مانند پُرانے ہو جائیں گے۔‏ تُو اُنکو لباس کی مانند بدلے گا اور وہ بدل جائیں گے۔‏“‏ (‏زبور ۱۰۲:‏۲۵،‏ ۲۶‏)‏ اس زبور کی باقی آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ الفاظ زمین کی تباہی کی بجائے خدا کی ابدیت کے متعلق بیان کرتے ہیں۔‏ اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ یہ اہم سچائی خدا کے خادموں کیلئے تسلی کا باعث کیوں ہے۔‏

غالباً زبورنویس بابل کی اسیری میں تھا اسلئے وہ اس زبور کے شروع ہی میں اپنی مصیبتوں کا ذکر کرتا ہے۔‏ وہ افسردہ ہوتے ہوئے کہتا ہے کہ اسکی زندگی ”‏دھوئیں کی طرح“‏ ہے۔‏ شدید جذباتی اذیت کی وجہ سے اُس کی ہڈیاں ”‏ایندھن کی طرح“‏ جلتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔‏ وہ تھک چکا ہے اور ”‏گھاس کی طرح جُھلس کر سوکھ گیا“‏ ہے۔‏ وہ خود کو اُس ”‏گورے [‏پرندے]‏ کی مانند“‏ تنہا محسوس کرتا ہے ”‏جو چھت پر اکیلا ہو۔‏“‏ مشکلات کی وجہ سے اسکی بھوک بھی مٹ گئی ہے اور اسکی زندگی میں غم ہی غم ہے۔‏ (‏زبور ۱۰۲:‏۳-‏۱۱‏)‏ اسکے باوجود،‏ زبورنویس نااُمید نہیں ہے۔‏ اسکی کیا وجہ ہے؟‏ اسکی وجہ یہوواہ کا وہ وعدہ ہے جو اُس نے صیون یعنی یروشلیم کیساتھ کِیا تھا۔‏

اگرچہ صیون تباہ ہو چکا تھا توبھی یہوواہ کا وعدہ ہے کہ وہ اسے بحال کرے گا۔‏ (‏یسعیاہ ۶۶:‏۸‏)‏ اسلئے زبورنویس بڑے اعتماد کیساتھ یہوواہ سے کہتا ہے:‏ ”‏تُو .‏ .‏ .‏ صیوؔن پر رحم کرے گا کیونکہ اُس پر ترس کھانے کا وقت ہے۔‏ ہاں اُسکا معین وقت آ گیا ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ کیونکہ [‏یہوواہ]‏ نے صیوؔن کو بنایا ہے۔‏“‏ (‏زبور ۱۰۲:‏۱۳،‏ ۱۶‏)‏ اسکے بعد زبورنویس دوبارہ اپنی مصیبتوں کا ذکر کرتا ہے۔‏ وہ دلیل پیش کرتا ہے کہ اگر یہوواہ خدا اپنی طاقت سے تباہ‌شُدہ یروشلیم کو بحال کر سکتا ہے تو وہ اسے بھی اسکی مصیبت‌زدہ حالت سے ضرور نکالے گا۔‏ (‏زبور ۱۰۲:‏۱۷،‏ ۲۰،‏ ۲۳‏)‏ یہوواہ خدا کے ابدی ہونے کی وجہ سے بھی زبورنویس اُس پر مکمل بھروسا کرنے کے قابل ہوا۔‏

یہوواہ کی ابدی اور زبورنویس کی مختصر سی زندگی میں واضح فرق ہے۔‏ وہ یہوواہ سے کہتا ہے:‏ ”‏تیرے برس پُشت‌درپُشت ہیں۔‏“‏ (‏زبور ۱۰۲:‏۲۴‏)‏ اسکے بعد زبورنویس بیان کرتا ہے:‏ ”‏تُو نے قدیم سے زمین کی بنیاد ڈالی۔‏ آسمان تیرے ہاتھ کی صنعت ہے۔‏“‏—‏زبور ۱۰۲:‏۲۵‏۔‏

لہٰذا،‏ اگرچہ آسمان‌وزمین بڑے عرصے سے قائم ہیں توبھی انکا موازنہ یہوواہ کی ابدیت سے نہیں کِیا جا سکتا۔‏ زبورنویس مزید کہتا ہے:‏ ”‏وہ [‏زمین اور آسمان]‏ نیست ہو جائیں گے پر تُو باقی رہے گا۔‏“‏ (‏زبور ۱۰۲:‏۲۶‏)‏ جی‌ہاں،‏ آسمان‌وزمین ختم ہو سکتے ہیں۔‏ تاہم،‏ بائبل کے دیگر صحائف میں یہوواہ فرماتا ہے کہ یہ ہمیشہ قائم رہیں گے۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۹۰؛‏ واعظ ۱:‏۴‏)‏ لیکن اگر خدا چاہے تو انہیں نیست‌ونابود کر سکتا ہے۔‏ اسکے برعکس،‏ خدا ہمیشہ تک رہے گا۔‏ جبکہ ہماری کائنات فقط اسلئے ”‏ابدالآباد کیلئے قائم“‏ ہے کیونکہ یہ یہوواہ کی مرضی ہے۔‏ (‏زبور ۱۴۸:‏۶‏)‏ اگر یہوواہ ہماری کائنات کا خیال نہ رکھے تو وہ ’‏پوشاک کی مانند پُرانی ہو جائے گی۔‏‘‏ (‏زبور ۱۰۲:‏۲۶‏)‏ جیسے ایک شخص اپنا لباس پوری زندگی کیلئے نہیں رکھتا اسی طرح اگر یہوواہ چاہے تو کسی بھی وقت کائنات کو تباہ‌وبرباد کر سکتا ہے۔‏ تاہم،‏ دیگر صحائف کے مطالعہ سے ہم یہ بات جانتے ہیں کہ خدا کائنات کو تباہ‌وبرباد نہیں کرنا چاہتا۔‏ خدا کا کلام ہمیں یقین‌دہانی کراتا ہے کہ یہوواہ آسمان‌وزمین کو ہمیشہ تک قائم رکھے گا۔‏—‏زبور ۱۰۴:‏۵‏۔‏

یہ جاننا کتنا تسلی‌بخش ہے کہ یہوواہ اپنے وعدوں کو ہمیشہ پورا کرتا ہے۔‏ خواہ ہمیں کیسی ہی آزمائشوں کا سامنا کیوں نہ ہو ہم یہوواہ سے فریاد کرتے وقت یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ ’‏بیکسوں کی دُعا پر توجہ کرے گا اور اُنکی دُعا کو حقیر نہ جانے گا۔‏‘‏ (‏زبور ۱۰۲:‏۱۷‏)‏ جی‌ہاں،‏ زبور ۱۰۲ میں یہوواہ نے مدد کا جو وعدہ کِیا ہے وہ اس زمین سے کہیں زیادہ ٹھوس ہے جس پر ہم رہتے ہیں۔‏