مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ماری—‏قدیم زمانے کا شاندار شہر

ماری—‏قدیم زمانے کا شاندار شہر

ماری—‏قدیم زمانے کا شاندار شہر

مُلک شام میں دریائےفرات کے کنارے ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔‏ اسکا نام ابو کمال ہے۔‏ اس گاؤں کے نزدیک تل‌حریری نامی ایک پہاڑی ہے۔‏ سن ۱۹۳۴ میں فرانس کا ایک ماہرِآثارِقدیمہ،‏ آنڈرے پارو،‏ تل‌حریری پر کھدائی کر رہا تھا۔‏ اُس نے ابھی ابھی ایک عجیب مجسّمہ دریافت کِیا تھا۔‏ جب اُس نے مجسّمے پر کُندہ کی ہوئی تحریر کو پڑھا تو وہ بہت حیران ہوا۔‏ اس پر لکھا تھا:‏ ”‏ماری کا بادشاہ لامگی-‏ماری جو اَن‌لیل دیوتا کا پنڈت بھی ہے۔‏“‏ اس رات پارو نے اپنے ساتھیوں کیساتھ ایک بہت بڑا جشن منایا۔‏ آخر اس مجسّمے میں اتنی خاص بات کیا تھی؟‏

یہ مجسّمہ اس بات کا ثبوت تھا کہ تل‌حریری کے کھنڈرات دراصل قدیم شہر ماری کے کھنڈرات ہیں۔‏ بائبل کا مطالعہ کرنے والے اشخاص شہر ماری میں دلچسپی کیوں لیتے ہیں؟‏ آئیں ہم ذرا اس شہر کی تاریخ پر غور کرتے ہیں۔‏

ماری کی تاریخ

علماء جانتے تھے کہ ماری ایک زمانے میں ایک بڑی سلطنت کا دارالحکومت رہا تھا۔‏ اس سلطنت نے کچھ عرصے تک تمام مسوپتامیہ پر حکمرانی کی تھی۔‏ لیکن علماء یہ نہیں جانتے تھے کہ ماری کہاں واقع ہے۔‏ پارو کی دریافت سے آخرکار یہ بھید کُھل گیا۔‏ ماری ایک اہم تجارتی مرکز تھا۔‏ خلیجِ‌فارس کے علاقے سے اسُور،‏ مسوپتامیہ،‏ اناطولیا (‏تُرکی)‏ اور بحیرۂروم کے ساحل تک پہنچنے والی تمام شاہ‌راہیں یہیں سے گزرتی تھیں۔‏ تاجر ان شاہ‌راہوں پر لکڑی،‏ دھات اور پتھر مسوپتامیہ تک لیجاتے تھے جہاں ان چیزوں کی کمی تھی۔‏ ماری کے حکمران اِس مال پر محصول لگاتے تھے۔‏ اسطرح نہ صرف انکی دولت اور شان میں بلکہ انکی فوجی طاقت میں بھی اضافہ ہوا۔‏ اسلئے وہ اپنا اختیار دُور دُور تک جما سکتے تھے۔‏ البتہ جب مُلک اَکاد کے بادشاہ سرجون نے شام کے اِس علاقے پر قبضہ کر لیا تو ماری کا یہ اختیار ختم ہو گیا۔‏

تقریباً ۳۰۰ سال تک مختلف اَکادی صوبہ‌داروں نے ماری پر حکومت کی۔‏ انکی حکمرانی کے تحت ماری کی شان اَور بھی چمک اُٹھی۔‏ لیکن ماری کے آخری حکمران،‏ زمری-‏لیم کے دَور میں شہر کے حالات بگڑ گئے۔‏ زمری-‏لیم نے معاہدے اور شادی کے رشتے باندھنے اور جنگی معرکوں سے اپنی حکومت کو زیادہ مضبوط بنانے کی بہت کوشش کی۔‏ لیکن ۱۷۶۰ ق.‏س.‏ع.‏ میں بابل کے بادشاہ ہمورابی نے ماری کو شکست دے کر اس شہر کو تباہ‌وبرباد کر دیا۔‏ اس سلسلے میں آنڈرے پارو نے کہا:‏ ”‏ایسا کرنے سے ہمورابی نے قدیم دُنیا کی سب سے ترقی‌یافتہ تہذیبوں میں سے ایک کو بالکل ختم کر دیا۔‏“‏

ماری کی زیادہ‌تر عمارتیں کچی مٹی کی اینٹوں سے بنی تھیں۔‏ جب ہمورابی کے لشکروں نے ان عمارتوں کو گِرایا تو جو چیزیں گھروں میں رہ گئی تھیں وہ سب دیواروں کے نیچے محفوظ ہو گئیں۔‏ اسطرح ماری کے مندروں اور محلوں کے کھنڈرات میں لاتعداد مجسّمے اور کُندہ ہوئی عبارتیں بہت اچھی حالت میں محفوظ رہی ہیں۔‏ انکو دریافت کرنے سے علماء جان گئے ہیں کہ اس قدیم شہر میں لوگ کسطرح کی زندگی گزارتے تھے۔‏

ہم ماری کے کھنڈرات سے خدا کے کلام کے بارے میں کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں؟‏ غور کیجئے کہ خدا کا نبی ابرہام طوفانِ‌نوح کے ۳۵۲ سال بعد یعنی ۲۰۱۸ ق.‏س.‏ع.‏ میں پیدا ہوا تھا۔‏ خدا کے حکم پر ابرہام اپنے آبائی شہر اُور کو چھوڑ کر حاران کو چل دیا۔‏ پھر ۱۹۴۳ ق.‏س.‏ع.‏ میں وہ ۷۵ سال کی عمر میں حاران سے کنعان کیلئے روانہ ہوا۔‏ ایک عالم کا کہنا ہے کہ ”‏جب ابرہام نے اُور سے یروشلیم تک کا سفر طے کِیا تو اُس وقت ماری کا شہر بسا ہوا تھا۔‏“‏ لہٰذا ہم ماری کے کھنڈرات سے جان سکتے ہیں کہ ابرہام کس قسم کی دُنیا میں رہتا تھا اور اُس زمانے کے حالات کیسے تھے۔‏ *‏—‏پیدایش ۱۱:‏۱۰–‏۱۲:‏۴‏۔‏

ماری کی دُنیا

ماری کے باشندوں کے مذہب کا انکی روزمرّہ زندگی پر گہرا اثر تھا۔‏ انکا خیال تھا کہ دیوی‌دیوتاؤں کی پوجا کرنا انسان کا سب سے اہم فرض ہے۔‏ لوگ ہر ایک اہم فیصلہ کرنے سے پہلے دیوی‌دیوتاؤں کی مرضی دریافت کرتے تھے۔‏ ماری کے کھنڈرات میں سے چھ مندر دریافت ہوئے ہیں۔‏ مثلاً ”‏شیرببر کا مندر“‏ جو غالباً دجون دیوتا کیلئے (‏جسکا ذکر خدا کے کلام میں بھی ہوا ہے)‏ مخصوص کِیا گیا تھا۔‏ اسکے علاوہ زرخیزی کی دیوی عستار اور سورج کے دیوتا شمس کے اپنے اپنے مندر بھی تھے۔‏ ان مندروں میں دیوی یا دیوتا کا ایک بڑا مجسّمہ ہوتا جسکے سامنے پجاری سجدہ کرتے۔‏ دلچسپی کی بات ہے کہ پجاری اکثر دیوی دیوتا کے سامنے اپنا ہی ایک چھوٹا سا مجسّمہ کھڑا کر دیتے تاکہ یہ مجسّمہ اس وقت بھی انکی جگہ پوجا کرے جب وہ خود مندر میں حاضر نہ ہوں۔‏ آنڈرے پارو نے اس سلسلے میں یوں بیان کِیا:‏ ”‏ماری کے باشندے ان چھوٹے سے مجسّموں کو بالکل اسی طرح استعمال کرتے تھے جسطرح آجکل کیتھولک لوگ چرچ میں موم‌بتیاں استعمال کرتے ہیں۔‏ دونوں چیزیں پرستش میں پجاری کی جگہ لیتی ہیں۔‏“‏

تل‌حریری پر ایک شاندار محل کے کھنڈرات بھی دریافت کئے گئے ہیں۔‏ اس محل میں ماری کا آخری بادشاہ زمری-‏لیم رہتا تھا،‏ اسلئے یہ ”‏زمری-‏لیم محل“‏ کے نام سے مشہور ہے۔‏ یہ وسیع محل ۳۰۰ کمروں اور صحنوں پر مشتمل تھا۔‏ ایک عالم کا کہنا ہے کہ ”‏یہ محل قدیم مشرقِ‌وسطیٰ کے فنِ‌تعمیر کا شاندار شاہکار تھا۔‏ اُس زمانے میں یہ اتنا مشہور تھا کہ اُوگاریت کے بادشاہ نے اپنے بیٹے کو ’‏زمری-‏لیم کے گھر کو دیکھنے کیلئے‘‏ ماری بھیجا حالانکہ اُسے ایسا کرنے کیلئے ۳۷۰ میل [‏۶۰۰ کلومیٹر]‏ کا فاصلہ طے کرنا پڑا۔‏“‏

قدیم زمانے میں جب کوئی شخص اس محل میں داخل ہوتا تو اُسے کسطرح کا منظر دیکھنے میں آتا؟‏ پہلے تو اُسے دو بُرجوں کے بیچ میں ایک بڑا دروازہ نظر آتا۔‏ اس سے گزر کر وہ ایک وسیع صحن میں پہنچتا جہاں ماری کا بادشاہ تخت پر بیٹھے ہوئے دربار کرتا تھا۔‏ بادشاہ یہاں شاہی فرمان اور عدالتی فیصلے سناتا اور مہمانوں اور ایلچیوں سے ملاقات بھی کرتا تھا۔‏ مہمانوں کو اچھے سے اچھے کھانے پیش کئے جاتے۔‏ گائے اور بھیڑبکریوں کے گوشت کے علاوہ وہ مچھلی،‏ مُرغی اور ہِرن کا گوشت بھی کھاتے تھے۔‏ اسکے ساتھ لہسن کا اچار،‏ پنیر اور طرح طرح کی سبزیاں پیش کی جاتیں۔‏ مُنہ میٹھا کرنے کے لئے وہ پھل،‏ میوے اور مٹھائیاں کھاتے۔‏ پینے کے لئے اِن کو مے اور بیئر پیش کی جاتی۔‏

محل میں بیت‌الخلا اور حمام بھی موجود تھے۔‏ انکے فرشوں اور دیواروں کو پانی کے اثر سے محفوظ رکھنے کیلئے ان پر تارکول لگایا گیا تھا۔‏ گندا پانی اینٹوں سے بنی ہوئی نالیوں کے ذریعے فرش کے نیچے باہر پہنچا دیا جاتا۔‏ یہ نالیاں اتنے اچھے طریقے سے بنی ہوئی تھیں کہ آج،‏ ۵۰۰،‏۳ سال کے بعد بھی انکے ذریعے پانی نکالا جا سکتا ہے۔‏ جب کسی شخص کو چھوت کی بیماری لگتی تو اسے تمام لوگوں سے الگ رکھا جاتا تھا۔‏ مثال کے طور پر،‏ ایک مرتبہ جب بادشاہ کے حرم‌سرائے میں تین عورتیں بیمار پڑیں تو اُس نے یہ حکم عائد کِیا:‏ ”‏انکی پیالیوں سے مت پینا،‏ انکی میز پر کھانا مت کھانا اور انکی کُرسیوں پر مت بیٹھنا۔‏ ان عورتوں کو سب لوگوں سے الگ رکھنا۔‏“‏

تحریری خزانے

آنڈرے پارو نے ماری کے ایک قدیم محافظ‌خانے میں تقریباً ۰۰۰،‏۲۰ مٹی کی تختیاں بھی دریافت کیں۔‏ یہ اَکادی زبان میں لکھے گئے سرکاری اور تجارتی خطوط ہیں۔‏ اب تک ان تمام تختیوں کا صرف ایک تہائی حصہ کتابوں کی شکل میں شائع ہوا ہے لیکن علماء نے ان سے بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔‏ ایک عالم نے کہا:‏ ”‏ماری کے محافظ‌خانے کی دریافت سے پہلے ہمیں قدیم زمانے کے مسوپتامیہ اور شام کی تاریخ،‏ روزمرّہ زندگی اور معاشرے کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔‏ لیکن ان تختیوں سے ہم نے بہت سی نئی باتیں سیکھی ہیں۔‏“‏ اس سلسلے میں پارو نے بیان کِیا کہ ”‏ہم نے ان تختیوں سے ابرہام کے زمانے کے بارے میں جو کچھ سیکھا ہے وہ ان باتوں سے بالکل ملتاجلتا ہے جنکے بارے میں ہم پُرانے عہدنامے [‏توریت]‏ میں پڑھتے ہیں۔‏“‏

ماری کے محافظ‌خانے کی تختیوں سے کئی ایسے واقعات بھی بہتر طور پر سمجھے گئے ہیں جنکا ذکر خدا کے کلام میں ہوا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ یہ دریافت ہوا ہے کہ ”‏فتحمند بادشاہ عموماً اپنے دُشمن کی بیویوں اور حرموں کو چھین لیتے تھے۔‏“‏ اس بات سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اخیتفل نے بادشاہ داؤد کے بیٹے ابی‌سلوم کو کیوں مشورہ دیا کہ وہ اپنے باپ کی حرموں کے پاس جا کر انکی عزت چھین لے۔‏—‏۲-‏سموئیل ۱۶:‏۲۱،‏ ۲۲‏۔‏

سن ۱۹۳۳ سے لیکر آج تک تل‌حریری پر ۴۱ مختلف مہموں میں کھدائی کی گئی۔‏ اسکے باوجود اب تک ان کھنڈرات کے محض ایک چھوٹے سے حصے پر تحقیق ہوئی ہے۔‏ نہ جانے ہم مستقبل میں ماری کے کھنڈرات سے اَور کتنی دلچسپ باتیں سیکھینگے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 8 ہو سکتا ہے کہ ۶۰۷ ق.‏س.‏ع.‏ میں،‏ یروشلیم کی تباہی کے بعد جب یہودی قیدیوں کو شہر بابل لیجایا گیا تو وہ ماری کے کھنڈرات سے گزرے۔‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر نقشہ]‏

‏(‏تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

خلیجِ‌فارس

اُور

مسوپتامیہ

دریائےفرات

ماری

حاران

اسُور

اناطولیا

کنعان

یروشلیم

بہیرۂ روم

‏[‏صفحہ ۱۱ پر تصویر]‏

اِس تختی پر ماری کا ایک بادشاہ بڑے فخر سے اپنے تعمیراتی کارناموں کا ذکر کرتا ہے

‏[‏صفحہ ۱۱ پر تصویر]‏

بادشاہ لامگی-‏ماری کا مجسّمہ جس سے پتہ چلا کہ ماری کا شہر کہاں واقع ہے

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏

محل کے اس حصے میں ایک دیوی کا مجسّمہ ہوتا تھا

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏

ماری کے ایک سرکاری آفیسر کا مجسّمہ جسے دیوی‌دیوتاؤں کی پوجا میں استعمال کِیا جاتا تھا

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏

ماری کے کھنڈرات میں کچی مٹی کی اینٹوں سے بنایا ہوا گھر

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏

محل کا ایک حمام

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر]‏

ایک اَکادی بادشاہ جس نے ماری پر فتح حاصل کی تھی

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر]‏

محل کے کھنڈرات میں سے تقریباً ۰۰۰،‏۲۰ تختیاں دریافت ہوئی ہیں

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر کا حوالہ]‏

‏(Hariri-Mari )‎Syrie‎

Mission arvhéologique française ed Tell ©

‏[‏صفحہ ۱۱ پر تصویر کا حوالہ]‏

‏;Document: Musée du Louvre, Paris

statue: © Mission archéologique française

‏(de Tell Hariri - Mari )‎Syrie‎

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر کا حوالہ]‏

‏;Statue: Musée du Louvre, Paris

podium and bathroom: © Mission archéologique

‏(française de Tell Hariri - Mari )‎Syrie‎

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر کا حوالہ]‏

‏;Victory stele: Musée du Louvre, Paris

palace ruins: © Mission archéologique

‏(française de Tell Hariri - Mari )‎Syrie‎