جنگ کا خاتمہ
جنگ کا خاتمہ
’ہم صرف ۱۲ سال کے ہیں۔ ہم سیاست اور جنگ پر تو اثرانداز نہیں ہو سکتے مگر ہم زندہ رہنا چاہتے ہیں! ہم امن کے منتظر ہیں۔ کیا یہ ہماری زندگیوں میں آئیگا؟ —پانچویں جماعت کے بچے۔
’ہم بِلاخوفوخطر سکول جانا، دوستوں اور خاندان سے ملنا چاہتے ہیں۔ مجھے اُمید ہے کہ حکومت ہماری بات پر توجہ دیگی۔ ہم بہتر زندگی کے خواہاں ہیں۔ ہم امن چاہتے ہیں۔‘—۱۴ سالہ الحاجی۔
یہ دلگداز الفاظ ایسے نوجوانوں کی دلی اُمید کی ترجمانی کرتے ہیں جنہوں نے سالہاسال سے خانگی آویزشوں کا سامنا کِیا ہے۔ وہ صرف نارمل زندگی گزارنے کے خواہاں ہیں۔ لیکن اُمید کو حقیقت کا رنگ دینا اتنا آسان نہیں ہے۔ کیا ہم کبھی جنگ سے پاک دُنیا دیکھ سکیں گے؟
حالیہ برسوں میں، مخالفین سے امن کے معاہدے پر دستخط کرانے سے خانہجنگی کو ختم کرنے کے لئے بینالاقوامی سطح پر کچھ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ بعض ممالک نے ایسے معاہدوں پر عملدرآمد کرانے کے لئے فوجیں بھی تعینات کی ہیں۔ مگر چند ہی ایسے ممالک ہیں جو نفرت اور شکوک سے بھرے دُوردراز کے لوگوں کے مابین صلح کرانے کے لئے پیسہ یا وقت خرچ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ جنگبندی کے معاہدے پر دستخط کرنے کے چند ہی ہفتے بعد دوبارہ جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں۔ جیسےکہ سٹاکہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ بیان کرتا ہے، ”جب مخالفین لڑائی جاری رکھنے کا ارادہ اور اہلیت رکھتے ہیں تو پھر امن بہت مشکل ہے۔“
اس کے ساتھ ساتھ، زمین کے مختلف علاقوں میں واقع ہونے والی جنگوں کی یہ وبا مسیحیوں کو ایک بائبل پیشینگوئی کی یاد دلاتی ہے۔ مکاشفہ کی کتاب تاریخ کے ایک ایسے تشویشناک دَور کا ذکر کرتی ہے جس میں علامتی گھڑسوار ”زمین پر سے صلح اُٹھا لے“ گا۔ (مکاشفہ ۶:۴) جاری رہنے والی جنگ کی یہ تصویرکشی ایک مرکب نشان کا حصہ ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس وقت ہم بائبل میں بیانکردہ ”اخیرزمانہ“ * میں رہ رہے ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱) تاہم، خدا کا کلام ہمیں یقیندہانی کراتا ہے کہ یہ اخیر زمانہ امن کا پیشخیمہ ہے۔
بائبل زبور ۴۶:۹ میں بیان کرتی ہے کہ حقیقی امن کے لئے کسی ایک خطے کی بجائے پوری زمین پر سے جنگ کا خاتمہ ضروری ہے۔ علاوہازیں، یہی زبور بائبل وقتوں میں استعمال ہونے والے جنگی ہتھیاروں بالخصوص—کمانوں، نیزوں اور رتھوں کے خاتمے کا ذکر کرتا ہے۔ لہٰذا اگر انسانوں نے امن کے ساتھ رہنا ہے تو جدید ہتھیاروں کا خاتمہ ضروری ہے۔
اصل میں تو گولیوں اور رائفل کی بجائے نفرت اور لالچ جنگ کو ہوا دیتے ہیں۔ جنگ کی بنیادی وجہ حرص یا لالچ ہے جبکہ نفرت اکثر تشدد کا باعث بنتی ہے۔ ان تباہکُن احساسات کو ختم کرنے کے لئے لوگوں کو اپنی یسعیاہ ۲:۴۔
سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اُنہیں امن کی راہوں پر چلنے کی تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔ پس، ماضی کا نبی یسعیاہ بیان کرتا ہے کہ جنگ اُس وقت ختم ہوگی جب لوگ ’جنگ کرنا نہیں سیکھیں گے۔‘—تاہم، اس وقت ہم ایک ایسی دُنیا میں رہتے ہیں جو بچوں اور بڑوں کو امن کی اہمیت کی بجائے جنگ کے فضائل کی بابت سکھاتی ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بچے قتل کرنے کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
اُنہوں نے قتل کرنا سیکھا
الحاجی ۱۴ برس کی عمر میں ایک سپاہی بن گیا۔ وہ ابھی دس برس کا ہی تھا کہ باغی لشکر اُسے گرفتار کرکے لے گئے اور اُسے اےکے-۴۷ رائفل کے ساتھ لڑنے کی تربیت دی۔ جبراً فوجی بننے کے بعد، اُس نے لوٹمار کرنا اور گھیراؤجلاؤ شروع کر دیا۔ وہ لوگوں کو قتل کرتا اور اُنہیں اپاہج بناتا تھا۔ آج الحاجی کو جنگ کے اپنے تجربے کو فراموش کرنا اور ایک شہری زندگی بسر کرنا مشکل لگتا ہے۔ ایک دوسرے کمسن سپاہی، ابرہام نے بھی قتل کرنے کی تربیت حاصل کی اور وہ بھی اپنے ہتھیار واپس کرنے سے ہچکچاتا تھا۔ اُس نے کہا: ”اگر وہ مجھے بندوق کے بغیر کہیں جانے کے لئے کہتے ہیں تو مجھے نہیں معلوم کہ مَیں کیا کروں گا اور کیسے روزی کماؤنگا۔“
ابھی بھی ۰۰۰،۰۰،۳ بچے سپاہی جن میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں ہمارے کرۂارض پر ہونے والی خانہجنگی کی طویل وبا کے ہاتھوں ہلاک ہو رہے ہیں۔ ایک باغی سردار بیان کرتا ہے: ”کم عمر سپاہی حکم مانتے ہیں؛ اُنہیں اپنی بیوی یا خاندان کے پاس واپس جانے کی فکر نہیں ہوتی اور اُنہیں کسی چیز کا خوف بھی نہیں ہوتا۔“ بہرکیف، یہ بچے بہتر زندگی چاہتے اور اس کے مستحق ہیں۔
ترقییافتہ ممالک میں شاید ایک بچے سپاہی کی ہولناک صورتحال کا تصور کرنا مشکل ہو۔ تاہم، بہت سے مغربی بچے اپنے گھروں کے اندر ہی جنگ کرنے کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ وہ کس طرح؟
مثال کے طور پر جنوبمشرقی سپین سے ہوسی کی مثال لے لیں۔ وہ ایک نوعمر لڑکا تھا جو مارشل آرٹ کی تربیت حاصل کر رہا تھا۔ اُس کا قیمتی انعام ایک سوماری تلوار تھی جو اُس کا باپ کرسمس پر اُس کے لئے خرید کر لایا تھا۔ اُسے بالخصوص ماردھاڑ والی ویڈیو گیمز بھی بہت پسند تھیں۔ اپریل ۱، ۲۰۰۰ کو اُس نے سچمچ اپنے ویڈیو گیمز والے ہیرو کے غصے کی نقل کی۔ شدید غصے میں اُس نے اپنے باپ، ماں اور بہن کو اُسی تلوار سے قتل کر ڈالا جو اُس کے باپ نے اُسے لا کر دی تھی۔ اُس نے پولیس کو بیان دیا، ”مَیں دُنیا میں تنہا رہنا چاہتا تھا؛ مَیں نہیں چاہتا تھا کہ میرے والدین مجھے ڈھونڈتے پھریں۔“
پُرتشدد تفریح کے اثرات پر تبصرہ کرتے ہوئے، ایک فوجی افسر اور مصنف ڈیو گروسمین نے بیان کِیا: ”ہم بےحسی کے اُس دَور میں پہنچ گئے ہیں جس میں تکلیف اور ایذارسانی سے کراہیت کرنے کی بجائے اُسے تفریح کا ذریعہ خیال کِیا جاتا ہے۔ ہم قتل کرنا اور اس سے لطفاندوز ہونا سیکھ رہے ہیں۔“
الحاجی اور ہوسی دونوں نے قتل کرنا سیکھا۔ وہ دونوں قاتل بننا نہیں چاہتے تھے مگر اُن کی تربیت نے اُن کی سوچ کو خراب کر دیا۔ ایسی تربیت خواہ بچوں کی ہو یا بڑوں کی تشدد اور لڑائیجھگڑے کے بیج بوتی ہے۔
جنگ کی بجائے اَمن سیکھنا
جب تک لوگ قتلوغارت سیکھ رہے ہیں دائمی امن کبھی قائم نہیں ہو سکتا۔ کئی صدیاں پہلے، یسعیاہ نبی نے لکھا: ”کاش کہ تُو میرے احکام کا شنوا ہوتا اور تیری سلامتی نہر کی مانند . . . ہوتی۔“ (یسعیاہ ۴۸:۱۷، ۱۸) جب لوگ خدا کے کلام کی بابت صحیح علم حاصل کرتے اور خدا کی شریعت سے محبت کرنا سیکھتے ہیں تو تشدد اور جنگ اُن کے لئے نفرتانگیز بن جاتی ہے۔ اب بھی، والدین اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ اُن کے بچے تشددآمیز کھیل نہ کھیلیں۔ بڑے بھی نفرت اور لالچ پر قابو پانا سیکھ سکتے ہیں۔ یہوواہ کے گواہوں نے بارہا اس بات کا تجربہ کِیا ہے کہ خدا کا کلام شخصیتوں کو بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔—عبرانیوں ۴:۱۲۔
ہورٹنسیو کی مثال لے لیں۔ جب وہ جوان ہی تھا تو اُسے اُس کی مرضی کے خلاف فوج میں بھرتی کر دیا گیا۔ وہ بیان کرتا ہے کہ فوجی تربیت
کا مقصد ”ہمارے اندر بےخوفوخطر دوسرے لوگوں کو قتل کرنے کی خواہش جاگزین کرنا تھا۔“ وہ افریقہ میں ایک طویل خانہجنگی میں لڑا۔ وہ تسلیم کرتا ہے، ”جنگ نے میری شخصیت کو متاثر کِیا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ مَیں نے کیا کیا کِیا تھا۔ مجھے افسوس ہوتا ہے کہ مَیں کیا کچھ کرنے پر مجبور تھا۔“جب ایک ساتھی فوجی نے بائبل کی بابت ہورٹنسیو سے باتچیت کی تو وہ اس سے بہت متاثر ہوا۔ زبور ۴۶:۹ میں تمام زمین پر سے ہر قِسم کی جنگ ختم کرنے کے خدا کے وعدے نے اُسے متاثر کِیا۔ جتنا زیادہ وہ بائبل کو پڑھتا اُتنا ہی زیادہ اُس کا دل لڑائی سے اُٹھتا گیا۔ جلد ہی اُسے اور اُس کے دو ساتھیوں کو فوج سے نکال دیا گیا اور اُنہوں نے اپنی زندگیاں یہوواہ خدا کے لئے مخصوص کر دیں۔ ہورٹنسیو بیان کرتا ہے، ”بائبل سچائی نے مجھے اپنے دُشمن سے محبت کرنے کی تحریک دی۔ مجھے پتہ چلا کہ جنگ میں لڑائی کرنے سے مَیں دراصل یہوواہ کے خلاف گُناہ کر رہا تھا کیونکہ خدا فرماتا ہے کہ ہمیں اپنے ساتھی انسان کو قتل نہیں کرنا چاہئے۔ ایسی محبت ظاہر کرنے کے لئے، مجھے اپنی سوچ کو تبدیل کرنا اور یہ خیال اپنے دل سے نکالنا پڑا کہ یہ میرے دُشمن ہیں۔“
ایسی سچی داستانیں ظاہر کرتی ہیں کہ بائبل تعلیم امن کو فروغ دیتی ہے۔ یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔ یسعیاہ نبی نے بیان کِیا کہ الہٰی تعلیم اور امن میں براہِراست تعلق ہے۔ اُس نے پیشینگوئی کی: ”تیرے سب فرزند [یہوواہ] سے تعلیم پائیں گے اور تیرے فرزندوں کی سلامتی کامل ہوگی۔“ (یسعیاہ ۵۴:۱۳) اُسی نبی نے رویا میں ایک ایسا وقت دیکھا جب سب قوموں کے لوگ یہوواہ خدا کی راہوں کی تعلیم پانے کے لئے سچی پرستش کی طرف بڑھیں گے۔ کن نتائج کے ساتھ؟ ”وہ اپنی تلواروں کو توڑ کر پھالیں اور اپنے بھالوں کو ہنسوئے بنا ڈالیں گے اور قوم قوم پر تلوار نہ چلائے گی اور وہ پھر کبھی جنگ کرنا نہ سیکھیں گے۔“—یسعیاہ ۲:۲-۴۔
اس پیشینگوئی کی مطابقت میں، یہوواہ کے گواہ عالمی پیمانے پر ایک ایسے کام میں لگے ہوئے ہیں جس نے لاکھوں لوگوں کی انسانی جنگوں کی اصل وجہ یعنی نفرت پر قابو پانے میں مدد کی ہے۔
عالمی اَمن کی ضمانت
تعلیم فراہم کرنے کے علاوہ، خدا نے ایک ایسی حکومت یا ”بادشاہی“ قائم کی ہے جو عالمی امن کو یقینی بنائے گی۔ واضح طور پر بائبل خدا کے منتخب حاکم، یسوع مسیح کو ”سلامتی کا شہزادہ“ کہتی ہے۔ یہ مزید یقیندہانی کراتی ہے کہ ”اُس کی سلطنت کے اِقبال اور سلامتی کی کچھ اِنتہا نہ ہوگی۔“—یسعیاہ ۹:۶، ۷۔
ہمارے پاس اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ خدا کی حکمرانی مکمل طور پر ہر طرح کی جنگ کو ختم کرے گی؟ یسعیاہ نبی مزید بیان کرتا ہے: ”ربالافواج کی غیوری یہ سب کچھ کرے گی۔“ (یسعیاہ ۹:۷) خدا دائمی امن قائم کرنے کی طاقت رکھتا اور ایسا کرنا چاہتا ہے۔ یسوع کو بھی اس وعدے پر مکمل بھروسا ہے۔ اسی لئے اُس نے اپنے پیروکاروں کو سکھایا کہ خدا کی بادشاہی کے لئے اور زمین پر اُس کی مرضی پوری ہونے کے لئے دُعا کریں۔ (متی ۶:۹، ۱۰) جب اس مخلصانہ دُعا کا جواب ملے گا تو پھر کبھی اس زمین پر جنگ نہیں ہوگی۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 6 اس شہادت کی تصدیق کے لئے کہ ہم واقعی اخیر زمانے میں رہ رہے ہیں، یہوواہ کے گواہوں کی شائعکردہ کتاب علم جو ہمیشہ کی زندگی کا باعث ہے کے باب ۱۱ کو پڑھیں۔
[صفحہ ۷ پر تصویر]
بائبل تعلیم حقیقی اَمن کو فروغ دیتی ہے