مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

سوالات از قارئین

سوالات از قارئین

سوالات از قارئین

اگرچہ ابھی تک شریر فرشتے آسمان سے گرائے نہیں گئے تھے توبھی اپنی نمونے کی دُعا میں کیا یسوع نے اس بات کی دلالت کی کہ آسمان پر خدا کی مرضی پوری ہو رہی ہے؟‏

متی ۶:‏۱۰ کے مطابق یسوع نے فرمایا:‏ ”‏تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے،‏ زمین پر بھی ہو۔‏“‏ اس درخواست کو دو طریقوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔‏ اوّل،‏ یہ درخواست کرنا کہ زمین پر بھی خدا کی مرضی اُسی طرح پوری ہو جیسے آسمان پر پوری ہو رہی ہے یا دوم،‏ یہ درخواست کرنا کہ آسمان اور زمین دونوں جگہوں پر مکمل طور پر خدا کی مرضی پوری ہو۔‏ * اس سے پہلے کے یسوع کے الفاظ،‏ ”‏تیری بادشاہی آئے،‏“‏ ظاہر کرتے ہیں کہ دوسرا نظریہ صحائف سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔‏ نیز یہ یسوع کے زمینی دَور کی صورتحال کو منعکس کرتا ہے جو بعدازاں بھی طویل عرصے تک برقرار رہی۔‏ وہ کیسے؟‏

مکاشفہ کی کتاب آسمان پر خدا کی بادشاہی کے قائم ہونے کے دو مختلف نتائج کی نشاندہی کرتی ہے جن میں سے پہلا آسمان پر اور دوسرا اس زمین سے تعلق رکھتا ہے۔‏ مکاشفہ ۱۲:‏۷-‏۹،‏ ۱۲ بیان کرتی ہے:‏ ”‏پھر آسمان پر لڑائی ہوئی۔‏ میکاؔئیل اور اُسکے فرشتے اژدہا سے لڑنے کو نکلے اور اژدہا اور اُسکے فرشتے اُن سے لڑے۔‏ لیکن غالب نہ آئے اور اِسکے بعد آسمان پر اُنکے لئے جگہ نہ رہی۔‏ اور وہ بڑا اژدہا یعنی وہی پُرانا سانپ جو ابلیس اور شیطان کہلاتا ہے اور سارے جہان کو گمراہ کر دیتا ہے زمین پر گرا دیا گیا اور اُسکے فرشتے بھی اُسکے ساتھ گرا دئے گئے۔‏ پس اَے آسمانو اور اُنکے رہنے والو خوشی مناؤ!‏ اَے خشکی اور تری تم پر افسوس!‏ کیونکہ ابلیس بڑے قہر میں تمہارے پاس اُتر کر آیا ہے۔‏ اِسلئے کہ جانتا ہے کہ میرا تھوڑا ہی سا وقت باقی ہے۔‏“‏

شیطان اور اُسکے شیاطین کا ۱۹۱۴ کے بعد آسمان سے گرا دئے جانے کا مطلب آسمان کا ان باغی فرشتوں سے پاک‌صاف ہو جانا تھا جوکہ یہوواہ کے وفادار روحانی بیٹوں یعنی فرشتگان کیلئے بہت زیادہ خوشی کا باعث تھا جو اُسکی روحانی مخلوق کی بڑی تعداد کی نمائندگی کرتے ہیں۔‏ (‏ایوب ۱:‏۶-‏۱۲؛‏ ۲:‏۱-‏۷؛‏ مکاشفہ ۱۲:‏۱۰‏)‏ لہٰذا،‏ یسوع کی نمونے کی دُعا میں جس درخواست کا تعلق آسمان سے تھا وہ پوری ہو گئی۔‏ آسمان پر رہنے والی تمام مخلوق یہوواہ کی وفادار تھی اور پوری طرح سے اُسکی حاکمیت کے تابع تھی۔‏

لیکن یاد رکھیں کہ اس سے پہلے بھی جب شریر فرشتوں کو آسمان تک رسائی حاصل تھی وہ یقیناً خدا کے خاندان سے خارج اور پابندیوں کے تحت تھے۔‏ مثال کے طور پر،‏ یہوداہ ۶ آیت بیان کرتی ہے کہ پہلی صدی میں بھی اُنہیں ”‏دائمی قید میں تاریکی کے اندر روزِعظیم کی عدالت“‏ کیلئے رکھا گیا تھا۔‏ اسی طرح،‏ ۲-‏پطرس ۲:‏۴ بیان کرتی ہے:‏ ”‏خدا نے گناہ کرنے والے فرشتوں کو نہ چھوڑا بلکہ جہنم میں بھیج کر تاریک غاروں میں ڈال دیا تاکہ عدالت کے دن تک حراست میں رہیں۔‏“‏ *

یہ فرشتے آسمان میں موجود ہونے کے باوجود خدا کی حضوری سے خارج تھے اور یہ شریر فرشتے زمین پر بہت زیادہ اختیار رکھتے تھے۔‏ درحقیقت خدا کا کلام شیطان کو ”‏دُنیا کا سردار“‏ اور شیاطین کو ”‏اس دُنیا کی تاریکی کے حاکم“‏ کہتا ہے۔‏ (‏یوحنا ۱۲:‏۳۱؛‏ افسیوں ۶:‏۱۱،‏ ۱۲؛‏ ۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏)‏ اس اختیار کی بدولت ہی اِبلیس یسوع کو ایک سجدے کے عوض ”‏دُنیا کی سب سلطنتیں اور اُنکی شان‌وشوکت“‏ پیش کر سکتا تھا۔‏ (‏متی ۴:‏۸،‏ ۹‏)‏ پس واضح طور پر جہاں تک خدا کی بادشاہی کی اس زمین پر ’‏آمد‘‏ کا تعلق ہے تو یہ بہت بڑی تبدیلی کا باعث ہوگی۔‏

یہاں زمین پر خدا کی بادشاہی کی ’‏آمد‘‏ ایک مکمل نئے دستوراُلعمل پر منتج ہوگی۔‏ یہ بادشاہی تمام انسانی مملکتوں کو تباہ‌وبرباد کریگی اور زمین کی واحد حکومت بن جائیگی۔‏ اس کیساتھ ساتھ،‏ اسکی خداترس انسانی رعیت ”‏نئی زمین“‏ کو تشکیل دیگی۔‏ (‏۲-‏پطرس ۳:‏۱۳؛‏ دانی‌ایل ۲:‏۴۴‏)‏ بادشاہی وفادار انسانوں کو گناہ کی غلامی سے بھی آزاد کرائیگی اور وقت آنے پر اس زمین کو فردوس میں تبدیل کرتے ہوئے شیطانی حکمرانی کا نام‌ونشان مٹا دیگی۔‏—‏رومیوں ۸:‏۲۰،‏ ۲۱؛‏ مکاشفہ ۱۹:‏۱۷-‏۲۱‏۔‏

ہزار سال کے اختتام پر،‏ جب مسیحائی بادشاہت زمین کیلئے خدا کی مرضی کو پورا کر لیگی تو پھر ”‏بیٹا خود اُسکے تابع ہو جائیگا جس نے سب چیزیں اُسکے تابع کر دیں تاکہ سب میں خدا ہی سب کچھ ہو۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۲۸‏)‏ اسکے بعد آخری امتحان ہوگا جسکے بعد،‏ شیطان،‏ اُسکے شیاطین اور گمراہ ہو جانے والے بہت سے انسانوں کو ہمیشہ کیلئے ”‏دوسری موت“‏ کے ذریعے ختم کر دیا جائیگا۔‏ (‏مکاشفہ ۲۰:‏۷-‏۱۵‏)‏ اسکے بعد،‏ آسمان اور زمین کی تمام ذی‌شعور مخلوق خوشی سے ابد تک یہوواہ کی شفیق حاکمیت کے تابع رہیگی۔‏ ہر لحاظ سے یہ یسوع کی نمونے کی دُعا کے الفاظ کی مکمل تکمیل ہوگی۔‏—‏۱-‏یوحنا ۴:‏۸‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 3 دی بائبل—‏این امریکن ٹرانسلیشن یسوع کی نمونے کی دُعا کے اس حصے کا یوں ترجمہ کرتی ہے،‏ ”‏تیری بادشاہی آئے!‏ تیری مرضی آسمان اور زمین پر پوری ہو!‏—‏متی ۶:‏۱۰‏۔‏

^ پیراگراف 6 پطرس رسول نے روحانی طور پر خارج کئے جانے کی اس حالت کو ”‏قید“‏ سے تشبیہ دی تھی۔‏ تاہم،‏ اُسکا مطلب مستقبل کے ”‏اتھاہ گڑھے“‏ سے نہیں تھا جس میں شیاطین کو ہزار برس کیلئے بند کِیا جائیگا۔‏—‏۱-‏پطرس ۳:‏۱۹،‏ ۲۰؛‏ لوقا ۸:‏۳۰،‏ ۳۱؛‏ مکاشفہ ۲۰:‏۱-‏۳‏۔‏