مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

راستبازی کے سبب سے ستائے جانا

راستبازی کے سبب سے ستائے جانا

راستبازی کے سبب سے ستائے جانا

‏”‏مبارک ہیں وہ جو راستبازی کے سبب سے ستائے گئے ہیں۔‏“‏—‏متی ۵:‏۱۰‏۔‏

۱.‏ یسوع کیوں پُنطیُس پیلاطُس کے سامنے حاضر تھا اور یسوع نے کیا کہا تھا؟‏

جب یسوع یہودیہ کے رومی گورنر پُنطیُس پیلاطُس کے سامنے حاضر تھا تو اُس نے یہ الفاظ کہے تھے:‏ ”‏مَیں اس لئے پیدا ہوا اور اس واسطے دُنیا میں آیا ہوں کہ حق پر گواہی دوں۔‏ جو کوئی حقانی ہے میری آواز سنتا ہے۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۸:‏۳۷‏)‏ ۔‏ یسوع وہاں نہ تو اپنی مرضی سے آیا تھا اور نہ ہی پیلاطُس کی دعوت پر گیا تھا۔‏ اِس کی بجائے یہودی مذہبی پیشواؤں نے اُس پر جھوٹا الزام لگایا تھا جس کے تحت وہ سزائےموت کے لائق تھا۔‏—‏یوحنا ۱۸:‏۲۹-‏۳۱‏۔‏

۲.‏ یسوع نے کیا کِیا اور اس کا کیا نتیجہ نکلا؟‏

۲ یسوع اس بات سے بخوبی واقف تھا کہ پیلاطُس کے پاس اُسے چھوڑنے یا مارنے کا اختیار تھا۔‏ (‏یوحنا ۱۹:‏۱۰‏)‏ مگر اس چیز نے اُسے پیلاطُس کو دلیری کے ساتھ بادشاہت کی بابت گواہی دینے سے نہ روکا۔‏ اگرچہ یسوع کی زندگی خطرے میں تھی توبھی اُس نے اُس علاقے کے سب سے بڑے حاکم کے سامنے گواہی دینے کے موقع سے فائدہ اُٹھایا۔‏ اس گواہی کے باوجود،‏ یسوع کو سولی پر موت کی سزا دی گئی تھی۔‏—‏متی ۲۷:‏۲۴-‏۲۶؛‏ مرقس ۱۵:‏۱۵؛‏ لوقا ۲۳:‏۲۴،‏ ۲۵؛‏ یوحنا ۱۹:‏۱۳-‏۱۶‏۔‏

گواہ یا شہید؟‏

۳.‏ بائبل وقتوں میں لفظ ”‏شہید“‏ سے کیا مُراد تھی،‏ مگر آجکل اس کا کیا مطلب ہے؟‏

۳ آجکل بیشتر لوگوں کے لئے شہید ہونا جنونی یا انتہاپسند ہونے کے برابر ہے۔‏ جو لوگ اپنے ایمان بالخصوص مذہبی عقائد کی خاطر مرنے کو تیار ہیں اُن پر اکثر دہشت‌گرد یا معاشرے کے لئے خطرہ ہونے کا شُبہ کِیا جاتا ہے۔‏ تاہم،‏ لفظ شہید یونانی اصطلاح (‏مارٹیس‏)‏ سے مشتق ہے جس سے بائبل وقتوں میں مُراد ”‏گواہ“‏ لی جاتی تھی جو عدالتی کارروائی کے دوران گواہی دیتا اور سچائی بیان کرنے کی کوشش کرتا تھا۔‏ بعدازاں اس اظہار کو ”‏گواہی دینے کی غرض سے جان نثار کر دینے والے“‏ یا جان دینے سے گواہی دینے والے شخص کے لئے استعمال کِیا جانے لگا۔‏

۴.‏ یسوع کس مفہوم میں ایک شہید تھا؟‏

۴ یسوع بنیادی طور پر لفظ کے ابتدائی مفہوم میں شہید تھا۔‏ جیسے اُس نے پیلاطُس سے کہا وہ ”‏حق پر گواہی“‏ دینے کے لئے آیا تھا۔‏ اُس کی گواہی کے لئے لوگوں نے مختلف قِسم کے ردِعمل کا اظہار کِیا تھا۔‏ عام لوگوں میں سے بعض نے جو دیکھا اور سنا اُس کی وجہ سے یسوع پر ایمان لے آئے۔‏ (‏یوحنا ۲:‏۲۳؛‏ ۸:‏۳۰‏)‏ عام لوگوں اور خاص طور پر مذہبی پیشواؤں نے شدید اور منفی ردِعمل دکھایا تھا۔‏ یسوع نے اپنے بےایمان رشتہ‌داروں کی بابت بیان کِیا:‏ ”‏دُنیا تم سے عداوت نہیں رکھ سکتی لیکن مجھ سے رکھتی ہے کیونکہ مَیں اُس پر گواہی دیتا ہوں کہ اُس کے کام بُرے ہیں۔‏“‏ (‏یوحنا ۷:‏۷‏)‏ یسوع نے حق پر گواہی دینے کی وجہ سے قوم کے پیشواؤں کی دُشمنی مول لی جو اُس کی موت کا باعث بنی۔‏ واقعی،‏ وہ ”‏سچا اور برحق گواہ“‏ (‏مارٹیس‏)‏ تھا۔‏—‏مکاشفہ ۳:‏۱۴‏۔‏

‏”‏ لوگ تم سے عداوت رکھیں گے“‏

۵.‏ اپنی خدمتگزاری کے اوائل میں یسوع نے اذیت کی بابت کیا بیان کِیا تھا؟‏

۵ یسوع نے نہ صرف خود شدید اذیت برداشت کی بلکہ اُس نے اپنے پیروکاروں کو بھی خبردار کِیا کہ اُن کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا۔‏ اپنی خدمتگزاری کے شروع میں اُس نے اپنے پہاڑی وعظ میں سامعین کو بتایا:‏ ”‏مبارک ہیں وہ جو راستبازی کے سبب سے ستائے گئے ہیں کیونکہ آسمان کی بادشاہی اُن ہی کی ہے۔‏ جب میرے سبب سے لوگ تم کو لعن‌طعن کریں گے اور ستائینگے اور ہر طرح کی بُری باتیں تمہاری نسبت ناحق کہیں گے تو تم مبارک ہو گے۔‏ خوشی کرنا اور نہایت شادمان ہونا کیونکہ آسمان پر تمہارا اَجر بڑا ہے۔‏“‏—‏متی ۵:‏۱۰-‏۱۲‏۔‏

۶.‏ یسوع نے ۱۲ رسولوں کو بھیجتے وقت کونسی آگاہی دی تھی؟‏

۶ بعدازاں،‏ ۱۲ رسولوں کو بھیجتے وقت یسوع نے اُن سے کہا:‏ ”‏آدمیوں سے خبردار رہو کیونکہ وہ تم کو عدالتوں کے حوالہ کریں گے اور اپنے عبادتخانوں میں تم کو کوڑے ماریں گے۔‏ اور تم میرے سبب سے حاکموں اور بادشاہوں کے سامنے حاضر کئے جاؤ گے تاکہ اُن کے اور غیرقوموں کے لئے گواہی ہو۔‏“‏ مگر صرف مذہبی پیشوا ہی شاگردوں کو اذیت نہیں پہنچائینگے بلکہ یسوع نے فرمایا:‏ ”‏بھائی کو بھائی قتل کے لئے حوالہ کرے گا اور بیٹے کو باپ۔‏ اور بیٹے اپنے ماں باپ کے برخلاف کھڑے ہو کر اُن کو مروا ڈالیں گے۔‏ اور میرے نام کے باعث سے سب لوگ تم سے عداوت رکھیں گے مگر جو آخر تک برداشت کرے گا وہی نجات پائے گا۔‏“‏ (‏متی ۱۰:‏۱۷،‏ ۱۸،‏ ۲۱،‏ ۲۲‏)‏ پہلی صدی کے مسیحیوں کی تاریخ اِن الفاظ کی صداقت کی شہادت دیتی ہے۔‏

وفادارانہ برداشت کا ریکارڈ

۷.‏ ستفنس کو کس وجہ سے شہید کِیا گیا تھا؟‏

۷ یسوع کی موت کے کچھ ہی عرصہ بعد،‏ حق پر گواہی دینے کی بدولت مرنے والوں میں ستفنس پہلا مسیحی تھا۔‏ وہ ”‏فضل اور قوت سے بھرا ہوا لوگوں میں بڑے بڑے عجیب کام اور نشان ظاہر کِیا کرتا تھا۔‏“‏ مگر اُس کے مذہبی دُشمن ”‏اُس دانائی اور رُوح کا جس سے وہ کلام کرتا تھا مقابلہ نہ کر سکے۔‏“‏ (‏اعمال ۶:‏۸،‏ ۱۰‏)‏ حسد کے مارے وہ ستفنس کو یہودی صدر عدالت کے سامنے لے گئے جہاں اُس نے جھوٹے الزام لگانے والوں کا سامنا کِیا اور دلیرانہ گواہی دی۔‏ تاہم،‏ آخر میں ستفنس کے دُشمنوں نے اس وفادار گواہ کو قتل کر دیا۔‏—‏اعمال ۷:‏۵۹،‏ ۶۰‏۔‏

۸.‏ ستفنس کی وفات کے بعد جو اذیت برپا ہوئی اُس کے لئے یروشلیم کے شاگردوں کا ردِعمل کیسا تھا؟‏

۸ ستفنس کے قتل کے بعد،‏ ”‏اُس کلیسیا پر جو یرؔوشلیم میں تھی بڑا ظلم برپا ہوا اور رسولوں کے سوا سب لوگ یہوؔدیہ اور ساؔمریہ کی اطراف میں پراگندہ ہو گئے۔‏“‏ (‏اعمال ۸:‏۱‏)‏ کیا اذیت نے گواہی دینے کے مسیحی کام کو روک دیا تھا؟‏ اس کے برعکس،‏ سرگزشت بیان کرتی ہے کہ ”‏جو پراگندہ ہوئے تھے وہ کلام کی خوشخبری دیتے پھرے۔‏“‏ (‏اعمال ۸:‏۴‏)‏ اُنہوں نے یقیناً پطرس رسول کی طرح محسوس کِیا ہوگا جس نے پہلے کہا تھا:‏ ”‏ہمیں آدمیوں کے حکم کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ فرض ہے۔‏“‏ (‏اعمال ۵:‏۲۹‏)‏ اگرچہ وہ جانتے تھے کہ یہ مزید مشکلات کا باعث بنے گا توبھی وفادار اور دلیر شاگرد سچائی پر گواہی دینے کے لئے قائم رہے۔‏—‏اعمال ۱۱:‏۱۹-‏۲۱‏۔‏

۹.‏ یسوع کے پیروکاروں کے سروں پر کونسی اذیت منڈلاتی رہی؟‏

۹ جہانتک مشکلات کا تعلق ہے تو اُس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی تھی۔‏ پہلے تو ہم پڑھتے ہیں کہ ساؤل نے جو ستفنس کے سنگسار کئے جانے کے وقت موجود تھا اور ”‏جو ابھی تک خداوند کے شاگردوں کے دھمکانے اور قتل کرنے کی دُھن میں تھا سردار کاہن کے پاس گیا۔‏ اور اُس سے دمشقؔ کے عبادتخانوں کے لئے اس مضمون کے خط مانگے کہ جن کو وہ اس طریق پر پائے خواہ مرد خواہ عورت اُن کو باندھ کر یرؔوشلیم میں لائے۔‏“‏ (‏اعمال ۹:‏۱،‏ ۲‏)‏ اس کے بعد،‏ تقریباً ۴۴ س.‏ع.‏ میں ”‏ہیرؔودیس بادشاہ نے ستانے کے لئے کلیسیا میں سے بعض پر ہاتھ ڈالا۔‏ اور یوؔحنا کے بھائی یعقوؔب کو تلوار سے قتل کِیا۔‏“‏—‏اعمال ۱۲:‏۱،‏ ۲‏۔‏

۱۰.‏ اعمال اور مکاشفہ کی کتاب میں اذیت کا کونسا ریکارڈ تحریر ہے؟‏

۱۰ اعمال کی کتاب پولس جیسے وفادار لوگوں کی آزمائشوں،‏ قید میں تکالیف اور اذیت برداشت کرنے کے ناقابلِ‌فراموش ریکارڈ سے بھری ہوئی ہے جو پہلے ایک ستانے والا تھا مگر بعد میں رسول بن گیا اور بہت اغلب ہے کہ یہ رومی شہنشاہ نیرو کے ہاتھوں تقریباً ۶۵ س.‏ع.‏ میں شہید ہوا۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۲۳-‏۲۷؛‏ ۲-‏تیمتھیس ۴:‏۶-‏۸‏)‏ آخر میں،‏ مکاشفہ کی کتاب میں جوکہ پہلی صدی کے اختتام پر لکھی گئی ہم پڑھتے ہیں کہ عمررسیدہ رسول یوحنا ”‏خدا کے کلام اور یسوؔع کی نسبت گواہی دینے کے باعث“‏ پتمُس کے ٹاپو میں قید تھا۔‏ مکاشفہ ”‏وفادار شہید اِؔنتپاس“‏ کا بھی ذکر کرتا ہے جو پرگمن کے مقام پر ”‏قتل ہوا تھا۔‏“‏—‏مکاشفہ ۱:‏۹؛‏ ۲:‏۱۳‏۔‏

۱۱.‏ ابتدائی مسیحیوں نے کس طرح اذیت کے سلسلے میں یسوع کے الفاظ کو سچ ثابت کِیا تھا؟‏

۱۱ اس تمام سے یسوع کے اپنے شاگردوں سے کہے گئے یہ الفاظ سچ ثابت ہوئے:‏ ”‏اگر اُنہوں نے مجھے ستایا تو تمہیں بھی ستائینگے۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۵:‏۲۰‏)‏ ابتدئی وفادار مسیحی یسوع مسیح کے اس حکم:‏ ”‏تم .‏ .‏ .‏ یرؔوشلیم اور تمام یہوؔدیہ اور ساؔمریہ میں بلکہ زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہوگے“‏ کو پورا کرنے کے لئے اذیت،‏ جانوروں کے آگے ڈالے جانے یا دیگر طریقوں سے بھی موت کی آزمائش کو برداشت کرنے کے لئے تیار تھے۔‏—‏اعمال ۱:‏۸‏۔‏

۱۲.‏ مسیحیوں کی اذیت محض ماضی کی بات کیوں نہیں ہے؟‏

۱۲ اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ یسوع کے پیروکاروں کے ساتھ ایسی بدسلوکی صرف ماضی تک ہی محدود تھی تو یہ غلط ہے۔‏ پولس جس نے خود بہت سی مشکلات برداشت کیں اُس نے لکھا:‏ ”‏جتنے مسیح یسوؔع میں دینداری کے ساتھ زندگی گذارنا چاہتے ہیں وہ سب ستائے جائیں گے۔‏“‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۲‏)‏ اذیت کے سلسلے میں،‏ پطرس نے بیان کِیا:‏ ”‏تم اِسی کے لئے بلائے گئے ہو کیونکہ مسیح بھی تمہارے واسطے دُکھ اُٹھا کر تمہیں ایک نمونہ دے گیا ہے تاکہ اُس کے نقشِ‌قدم پر چلو۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۲۱‏)‏ اس نظام‌اُلعمل کے اس ”‏اخیر زمانہ“‏ تک یہوواہ کے لوگ نفرت اور عداوت کا نشانہ ہیں۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱‏)‏ زمین کے کونے کونے میں،‏ آمرانہ اور جمہوری حکومتوں دونوں میں یہوواہ کے گواہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اذیت کا نشانہ بنے ہیں۔‏

نفرت اور اذیت کا نشانہ کیوں؟‏

۱۳.‏ جہانتک اذیت کا تعلق ہے،‏ جدید زمانے کے یہوواہ کے خادموں کو کیا بات ذہن میں رکھنی چاہئے؟‏

۱۳ اگرچہ آجکل ہم میں سے بیشتر منادی اور اجلاسوں کے سلسلے  میں کسی  حد تک آزادی اور امن سے استفادہ کرتے توبھی ہمیں بائبل کی اس یاددہانی کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ”‏دُنیا کی شکل بدلتی جاتی ہے۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۷:‏۳۱‏)‏ حالات اتنی تیزی سے بدل سکتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ ہم ذہنی،‏ جذباتی اور روحانی طور پر تیار ہوں ہم آسانی سے ٹھوکر کھا سکتے  ہیں۔‏ پس اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏ سب سے بڑا تحفظ یہ ہے کہ اپنے ذہن میں یہ بات واضح رکھیں کہ امن‌پسند اور قانون کی پابندی کرنے والے مسیحی کیوں نفرت اور اذیت کا نشانہ بنتے  ہیں۔‏

۱۴.‏ پطرس نے مسیحیوں کے ستائے جانے کی کیا وجہ بیان کی تھی؟‏

۱۴ پطرس رسول نے اپنے پہلے خط میں اس پر تبصرہ کِیا جو اُس نے تقریباً ۶۲-‏۶۴ س.‏ع.‏ میں لکھا جب رومی سلطنت کے تحت ہر جگہ مسیحی آزمائشوں اور اذیت کا سامنا کر رہے تھے۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏اَے پیارو!‏ جو مصیبت کی آگ تمہاری آزمایش کے لئے تم میں بھڑکی ہے یہ سمجھ کر اُس سے تعجب نہ کرو کہ یہ ایک انوکھی بات ہم پر واقع ہوئی ہے۔‏“‏ یہ بیان کرنے کے لئے کہ اُس کے ذہن میں کیا تھا،‏ پطرس مزید کہتا ہے:‏ ”‏تم میں سے کوئی شخص خونی یا چور یا بدکار یا اَوروں کے کام میں دست‌انداز ہو کر دُکھ نہ پائے۔‏ لیکن اگر مسیحی ہونے کے باعث کوئی شخص دُکھ پائے تو شرمائے نہیں بلکہ اِس نام کے سبب سے خدا کی تمجید کرے۔‏“‏ پطرس نے بیان کِیا کہ وہ کوئی غلط کام کرنے کی وجہ سے نہیں بلکہ مسیحی ہونے کی وجہ سے تکلیف اُٹھا رہے تھے۔‏ اگر وہ ”‏اُسی سخت بدچلنی“‏ میں ملوث ہوتے جس میں تمام لوگ اُلجھے ہوئے تھے تو اُنہیں خوشی سے قبول کِیا اور گلے سے لگایا جاتا۔‏ لہٰذا وہ مسیح کے پیروکاروں کے طور پر زندگی بسر کرنے کی وجہ سے ستائے جا رہے تھے۔‏ آجکل سچے مسیحیوں کے لئے حالت ایسی ہی ہے۔‏—‏۱-‏پطرس ۴:‏۴،‏ ۱۲،‏ ۱۵،‏ ۱۶‏۔‏

۱۵.‏ آجکل یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ برتاؤ کے سلسلے میں کونسا تضاد دیکھنے میں آیا ہے؟‏

۱۵ دُنیا کے بیشتر ممالک میں،‏ یہوواہ کے گواہوں کی اُن کے کنونشنوں اور تعمیراتی پروجیکٹس پر اتحاد اور تعاون کے لئے،‏ اُن کی دیانتداری اور مستعدی کے لئے،‏ مثالی اخلاق اور خاندانی زندگی کے لئے اَور اچھی وضع‌قطع کے لئے بھی تعریف کی جاتی ہے۔‏ * اس کے برعکس،‏ اس رسالے کے تحریر کئے جانے تک کم‌ازکم ۲۸ ممالک میں اُن کے کام پر پابندی ہے اور بہت سے گواہ اپنے ایمان کی وجہ سے جسمانی تکلیف اور محرومی کا شکار ہیں۔‏ ایسا بڑا تضاد کیوں؟‏ نیز خدا اس کی اجازت کیوں دیتا ہے؟‏

۱۶.‏ خدا کے اپنے لوگوں کو اذیت برادشت کرنے کی اجازت دینے کی سب سے اہم وجہ کیا ہے؟‏

۱۶ سب سے ضروری یہ ہے کہ ہمیں امثال ۲۷:‏۱۱ کے الفاظ کو یاد رکھنا چاہئے:‏ ”‏اَے میرے بیٹے!‏ دانا بن اور میرے دل کو شاد کر تاکہ مَیں اپنے ملامت کرنے والے کو جواب دے سکوں۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ اس کی وجہ عالمگیر حاکمیت کا پُرانا مسئلہ ہے۔‏ صدیوں کے دوران یہوواہ کیلئے راستی برقرار رکھنے والے لوگوں کی وسیع گواہی کے باوجود،‏ شیطان نے یہوواہ کا تمسخر اُڑانا بند نہیں کِیا جیسے اس نے راستباز ایوب کے زمانہ میں کِیا تھا۔‏ (‏ایوب ۱:‏۹-‏۱۱؛‏ ۲:‏۴،‏ ۵‏)‏ بِلاشُبہ،‏ اب جبکہ خدا کی بادشاہت قائم ہو چکی ہے اور اُسکی وفادار رعایا اور نمائندے پوری زمین پر موجود ہیں،‏ شیطان اپنے دعوے کو سچا ثابت کرنے کیلئے اس آخری وقت میں اَور زیادہ جنونی ہو گیا ہے۔‏ کیا یہ لوگ ہر طرح کی مشکل اور مخالفت کے باوجود خدا کے وفادار رہینگے؟‏ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب یہوواہ کے ہر خادم کو انفرادی طور پر دینا چاہئے۔‏—‏مکاشفہ ۱۲:‏۱۲،‏ ۱۷‏۔‏

۱۷.‏ یسوع کے ان الفاظ ”‏یہ تمہارا گواہی دینے کا موقع ہوگا“‏ کا کیا مطلب تھا؟‏

۱۷ یسوع نے اپنے شاگردوں کو اس ”‏دُنیا کے آخر ہونے“‏ کا نشان دیتے وقت ایک اَور وجہ بیان کی کہ کیوں یہوواہ اپنے خادموں پر اذیت آنے دیتا ہے۔‏ اُس نے فرمایا:‏ ”‏میرے نام کے سبب سے تمہیں .‏ .‏ .‏ بادشاہوں اور حاکموں کے سامنے حاضر کریں گے۔‏ اور یہ تمہارا گواہی دینے کا موقع ہوگا۔‏“‏ (‏متی ۲۴:‏۳،‏ ۹؛‏ لوقا ۲۱:‏۱۲،‏ ۱۳‏)‏ خود یسوع نے بھی ہیرودیس اور پُنطیُس پیلاطُس کے سامنے گواہی دی تھی۔‏ پولس رسول کو بھی ”‏بادشاہوں اور عدالتوں کے سامنے“‏ پیش کِیا گیا تھا۔‏ خداوند یسوع مسیح کی زیرِہدایت پولس نے اُس زمانے کے سب سے طاقتور حکمران کے سامنے یہ کہتے ہوئے گواہی دی:‏ ”‏مَیں قیصرؔ کے ہاں اپیل کرتا ہوں۔‏“‏ (‏اعمال ۲۳:‏۱۱؛‏ ۲۵:‏۸-‏۱۲‏)‏ اسی طرح آجکل بھی چیلنج‌خیز حالتیں اکثر حکومت کے افسران اور عوام کے روبرو عمدہ گواہی دینے کا باعث بنی ہیں۔‏ *

۱۸،‏ ۱۹.‏ (‏ا)‏ آزمائشوں کا مقابلہ کرنا ہمارے لئے کیسے مفید ثابت ہوگا؟‏ (‏ب)‏ اگلے مضمون میں کن سوالات پر گفتگو کی جائے گی؟‏

۱۸ آخر میں یہ کہ آزمائشوں اور مشکلات سے نپٹنا ہمیں ذاتی طور پر فائدہ پہنچا سکتا ہے۔‏ کس طرح سے؟‏ یعقوب شاگرد نے ساتھی مسیحیوں کو یاددہانی کرائی:‏ ”‏اَے میرے بھائیو!‏ جب تُم طرح طرح کی آزمایشوں میں پڑو تو اِس کو یہ جان کر کمال خوشی کی بات سمجھنا کہ تمہارے ایمان کی آزمایش صبر پیدا کرتی ہے۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ اذیت ہمارے ایمان اور صبر کو تقویت بخش سکتی ہے۔‏ لہٰذا،‏ نہ تو ہم اس سے خوفزدہ ہوتے ہیں اور نہ ہی اس سے بچنے کے لئے غیرصحیفائی طریقے استعمال کرتے ہیں۔‏ بلکہ ہم یعقوب کی نصیحت پر دھیان دیتے ہیں:‏ ”‏صبر کو اپنا پورا کام کرنے دو تاکہ تُم پورے اور کامل ہو جاؤ اور تُم میں کسی بات کی کمی نہ رہے۔‏“‏—‏یعقوب ۱:‏۲-‏۴‏۔‏

۱۹ اگرچہ خدا کا کلام ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ کیوں خدا کے وفادار خادم اذیت اُٹھاتے ہیں اور کیوں یہوواہ اس کی اجازت دیتا ہے،‏ توبھی یہ اذیت برداشت کرنے کو آسان نہیں بنا دیتا۔‏ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے کونسی چیز ہمیں مضبوط کر سکتی ہے؟‏ جب اذیت کا سامنا ہو تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏ اگلے مضمون میں ان اہم معاملات پر گفتگو کی جائے گی۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 15 دسمبر ۱۵،‏ ۱۹۹۵،‏ صفحہ ۲۷-‏۲۹؛‏ اپریل ۱۵،‏ ۱۹۹۴،‏ صفحہ ۱۶،‏ ۱۷؛‏ اور دسمبر ۲۲،‏ ۱۹۹۳ کے اویک!‏ کے صفحہ ۶-‏۱۳ کو دیکھیں۔‏

^ پیراگراف 17 جنوری ۸،‏ ۲۰۰۳ کے اویک!‏ کے صفحہ ۳-‏۱۱ کو دیکھیں۔‏

کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟‏

‏• یسوع کس مفہوم میں شہید تھا؟‏

‏• پہلی صدی کے مسیحیوں کو اذیت نے کیسے متاثر کِیا تھا؟‏

‏• پطرس کے مطابق ابتدائی مسیحیوں نے اذیت کیوں اُٹھائی تھی؟‏

‏• یہوواہ کن وجوہات کی بِنا پر اپنے خادموں پر اذیت آنے کی اجازت دیتا ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۱ ،‏۱۰ پر تصویریں]‏

پہلی صدی کے مسیحیوں نے بدکاری کی وجہ سے نہیں بلکہ مسیحی ہونے کی وجہ سے اذیت اُٹھائی تھی

پولس

یوحنا

انتپاس

یعقوب

ستفنس