مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

سوالات از قارئین

سوالات از قارئین

سوالات از قارئین

اگر کوئی خودکشی کر لیتا ہے تو کیا ایک مسیحی خادم جنازے کی تقریر دے سکتا ہے؟‏

ایک مسیحی خادم کو اس بات کا ذاتی فیصلہ کرنا چاہئے کہ آیا وہ بظاہر خودکشی کرنے والے شخص کے جنازے پر ایک مطمئن ضمیر کیساتھ تقریر دے سکتا ہے۔‏ اُسے فیصلہ کرتے وقت مندرجہ‌ذیل سوالات پر غور کرنا چاہئے:‏ یہوواہ خودکشی کو کیسا خیال کرتا ہے؟‏ کیا یہ موت واقعی خودزدہ قتل تھی؟‏ کیا ذہنی یا جذباتی پریشانی خودکشی کا باعث بنی تھی؟‏ مقامی لوگ خودکشی کو کیسا خیال کرتے ہیں؟‏

مسیحیوں کے طور پر ہم خودکشی کی بابت یہوواہ کے نقطۂ‌نظر میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‏ یہوواہ کیلئے انسانی زندگی بیش‌قیمت اور مُقدس ہے۔‏ (‏پیدایش ۹:‏۵؛‏ زبور ۳۶:‏۹‏)‏ جان‌بوجھ کر اپنی جان لینا خودزدہ قتل ہے،‏ لہٰذا یہوواہ کی نظر میں یہ عمل ناپسندیدہ ہے۔‏ (‏خروج ۲۰:‏۱۳؛‏ ۱-‏یوحنا ۳:‏۱۵‏)‏ کیا یہ حقیقت خودکشی کرنے والے شخص کے جنازے پر تقریر دینے کی گنجائش کو ختم کر دیتی ہے؟‏

اسرائیل کے بادشاہ ساؤل کے معاملے پر غور کریں۔‏ جب اُسے یقین ہو گیا کہ وہ فلستیوں کے خلاف اپنی آخری جنگ ہار جائیگا تو اس سے پیشتر کہ دشمن اُسکی بےحرمتی کرتے،‏ ”‏ساؤل نے اپنی تلوار لی اور اُس پر گرا۔‏“‏ جب فلستیوں کو اُسکی لاش ملی تو اُنہوں نے اسے بیت‌شان کی دیوار پر جڑ دیا۔‏ فلستیوں کی اس حرکت کو جاننے کے بعد یبیس‌جلعاد کے لوگوں نے لاش کو لاکر جلایا۔‏ پھر اُنہوں نے اسکی ہڈیاں دفن کیں۔‏ اُنہوں نے اسرائیلیوں کی روایت کے مطابق سات دن تک روزہ بھی رکھا۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۳۱:‏۴،‏ ۸-‏۱۳؛‏ پیدایش ۵۰:‏۱۰‏)‏ جب داؤد کو یبیس‌جلعاد کے لوگوں کے اس عمل کا پتہ چلا تو اُس نے کہا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کی طرف سے تم مبارک ہو اسلئےکہ تم نے اپنے مالک ساؤل پر یہ احسان کِیا اور اُسے دفن کِیا۔‏ سو [‏یہوواہ]‏ تمہارے ساتھ رحمت اور سچائی کو عمل میں لائے۔‏“‏ (‏۲-‏سموئیل ۲:‏۵،‏ ۶‏)‏ صحائف یہ ظاہر نہیں کرتے کہ ایسے کام کی وجہ سے یبیس‌جلعاد کے لوگوں کی مذمت کی گئی تھی جسے بادشاہ ساؤل کے جنازے کی رسم خیال کِیا جا سکتا تھا۔‏ اس بات کا موازنہ ان لوگوں کیساتھ کریں جنکو اپنی غلط‌کاری کی وجہ سے دفنایا بھی نہیں گیا تھا۔‏ (‏یرمیاہ ۲۵:‏۳۲،‏ ۳۳‏)‏ ایک مسیحی خادم خودکشی کرنے والے شخص کے جنازے پر تقریر دینے کا فیصلہ کرتے وقت ساؤل کی سرگزشت پر غور کر سکتا ہے۔‏

مسیحی خادم جنازے پر تقریر دینے کے مقصد پر بھی غور کرنا چاہیگا۔‏ روح کی غیرفانیت پر ایمان رکھنے والے لوگوں کے برعکس،‏ یہوواہ کے گواہ مُردوں کو کسی دوسری دُنیا میں بھیجنے کے غلط خیال کیساتھ اُسکی تجہیزوتکفین نہیں کرتے۔‏ جنازے کا بنیادی مقصد مُردے کو فائدہ پہنچانے کی بجائے سوگواروں کو تسلی دینا اور مُردوں کی حالت کی بابت حاضرین کو گواہی دینا ہے۔‏ (‏واعظ ۹:‏۵،‏ ۱۰؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۱:‏۳-‏۵‏)‏ تجہیزوتکفین کی ایک اَور اہم وجہ زندگی کی بےثباتی پر غوروخوض کرنے میں حاضرین کی مدد کرنا ہے۔‏ (‏واعظ ۷:‏۲‏)‏ کیا خودکشی کرنے والے شخص کی تجہیزوتکفین ان مقاصد کو پورا کریگی؟‏

واقعی،‏ بعض لوگ محسوس کر سکتے ہیں کہ اُس شخص نے اس بات سے پوری طرح واقف ہونے کے باوجود جان‌بوجھ کر اپنی جان لے لی کہ وہ یہوواہ کے خلاف گناہ کر رہا ہے۔‏ تاہم،‏ کیا ہمیشہ اس احساس کی تصدیق کی جا سکتی ہے؟‏ کیا یہ ایک جذباتی قدم ہو سکتا تھا؟‏ خودکشی کا ارادہ کرنے والے بعض لوگ نادم ہوکر ایسا قدم اُٹھانے سے گریز کرتے ہیں۔‏ موت کے بعد ایک شخص اپنے کئے پر پچھتا نہیں سکتا۔‏

ایک اَور اہم عنصر ذہنی اور جذباتی اختلال ہے جو بہتیری خودکشیوں کا سبب بنتا ہے۔‏ ایسی حالت میں مرنے والوں کیلئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ خودکشی کا نشانہ بنتے ہیں۔‏ کچھ اعدادوشمار کے مطابق،‏ خودکشی کرنے والے ۹۰ فیصد لوگ کسی قسم کی ذہنی‌وجذباتی پریشانی یا نشے کا شکار ہوتے ہیں۔‏ کیا یہوواہ ایسی ذہنی حالت میں اپنی جان لینے والے لوگوں کو معاف کریگا؟‏ ہم یہ فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے کہ آیا مرنے والے شخص نے یہوواہ کی نظر میں ناقابلِ‌معافی گناہ کِیا ہے۔‏ ایک مسیحی خادم خودکشی کرنے والے شخص کی تجہیزوتکفین کا فیصلہ کرتے وقت اُسکے حالات اور ذہنی‌وجسمانی صحت کو مدِنظر رکھ سکتا ہے۔‏

ایک اَور پہلو پر بھی غور کِیا جانا چاہئے:‏ اس علاقہ کے لوگ خودکشی اور اُس شخص کی موت کو کیسا خیال کرتے ہیں؟‏ یہ بات بالخصوص یہوواہ کے گواہوں کی مقامی کلیسیا کی نیکنامی میں دلچسپی رکھنے والے بزرگوں کیلئے توجہ‌طلب ہے۔‏ اس علاقہ میں خودکشی کی بابت عام رُجحان اور خاص طور پر خودکشی کے متعلقہ واقعہ کو مدِنظر رکھتے ہوئے بزرگ شاید تجہیزوتکفین کرنے یا کنگڈم ہال میں جنازے کی تقریر پیش کرنے کیلئے راضی نہ ہوں۔‏

تاہم،‏ اگر ایک مسیحی خادم کو تجہیزوتکفین کی صدارت کرنے کے لئے کہا جاتا ہے تو اگر وہ چاہے تو ذاتی طور پر ایسا کر سکتا ہے۔‏ اگر وہ ایسا کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اُسے اس سلسلے میں ٹھوس بیانات دینے سے محتاط رہنا چاہئے کہ آیا مرنے والے کی قیامت ہوگی یا نہیں۔‏ مُردوں کے مستقبل کے امکانات یہوواہ کے ہاتھ میں ہیں اور کوئی بھی یقین کیساتھ یہ کہنے کے قابل نہیں کہ اسکی قیامت ہوگی یا نہیں۔‏ خادم موت کی بابت بائبل سچائیوں اور سوگواروں کو تسلی دینے پر توجہ دے سکتا ہے۔‏