مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

بزنطینی چرچ اور ریاست

بزنطینی چرچ اور ریاست

بزنطینی چرچ اور ریاست

مسیحیت کے بانی نے اپنے شاگردوں اور خدا سے برگشتہ انسانوں کی دُنیا کے درمیان جو فرق ہونا چاہئے اُسے بڑے واضح انداز میں ظاہر کِیا تھا۔‏ یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا:‏ ”‏اگر تم دُنیا کے ہوتے تو دُنیا اپنوں کو عزیز رکھتی لیکن چونکہ تم دُنیا کے نہیں بلکہ مَیں نے تمکو دُنیا میں سے چن لیا ہے اس واسطے دُنیا تم سے عداوت رکھتی ہے۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۵:‏۱۹‏)‏ یسوع نے اپنے زمانہ کے سیاسی حاکم پیلاطُس سے کہا:‏ ”‏میری بادشاہی اس دُنیا کی نہیں۔‏“‏—‏یوحنا ۱۸:‏۳۶‏۔‏

‏”‏زمین کی انتہا تک“‏ گواہی دینے کی ذمہ‌داری پوری کرنے کے لئے مسیحیوں کو دُنیاوی معاملات میں اُلجھنے سے گریز کرنا تھا۔‏ (‏اعمال ۱:‏۸‏)‏ یسوع کی طرح ابتدائی مسیحی سیاست سے دُور رہتے تھے۔‏ (‏یوحنا ۶:‏۱۵‏)‏ وفادار مسیحیوں کا سرکاری یا اختیار والے عہدوں کو حاصل کرنے کی کوشش نہ کرنا ایک واضح حقیقت تھی۔‏ آخرکار اس صورتحال میں تبدیلی واقع ہوئی۔‏

‏’‏دُنیا کا حصہ‘‏

آخری رسول کی موت کے کچھ عرصہ بعد،‏ مذہبی راہنماؤں نے جان‌بوجھ کر اپنی اور دُنیا کی بابت اپنے نظریات بدلنا شروع کر دئے۔‏ وہ ایک ایسی ”‏بادشاہت“‏ کا تصور کرنے لگے جو نہ صرف اس دُنیا میں موجود تھی بلکہ اس کا حصہ بھی تھی۔‏ مذہب اور سیاست نے بزنطینی سلطنت،‏ یعنی مشرقی رومی سلطنت اور بزنطیم (‏موجودہ استنبول)‏ میں اس کے دارالحکومت میں کیسے مداخلت کی تھی اس کا قریبی جائزہ نہایت سبق‌آموز ثابت ہوگا۔‏

ایک ایسے معاشرے میں جہاں مذہب روایتی طور پر ایک اہم کردار ادا کرتا تھا بزنطینی چرچ جسکا مرکز بزنطیم میں تھا بہت طاقتور اور بااختیار حیثیت رکھتا تھا۔‏ چرچ مؤرخ پانایوٹس کرسٹو نے ایک مرتبہ بیان کِیا:‏ ”‏بزنطینی لوگ اپنی زمینی سلطنت کو خدا کی بادشاہت کی علامت خیال کرتے تھے۔‏“‏ تاہم شاہی حکومت کے ارکان اس نظریے سے ہمیشہ اتفاق نہیں کرتے تھے۔‏ نتیجتاً چرچ اور ریاست کے تعلقات میں بعض‌اوقات کشیدگی پیدا ہو جاتی تھی۔‏ دی آکسفورڈ ڈکشنری آف بزینشیئم بیان کرتی ہے:‏ ”‏قسطنطنیہ [‏یا بزنطیم]‏ کے بشپ مختلف طرزِعمل کا مظاہرہ کرتے تھے جس میں کسی طاقتور حکمران کی بزدلی سے اطاعت .‏ .‏ .‏ بادشاہ کیساتھ نفع‌بخش اشتراک .‏ .‏ .‏ اور بادشاہ کی مرضی کی دلیرانہ مخالفت شامل تھی۔‏“‏

مشرقی کلیسیا کا سربراہ،‏ قسطنطنیہ کا بشپ ایک بارُسوخ شخصیت کا مالک بن گیا۔‏ وہی بادشاہ کی تاج‌پوشی کِیا کرتا تھا،‏ لہٰذا وہ اس سے آرتھوڈکس کلیسیا کی بھرپور حمایت کرنے کی توقع بھی رکھتا تھا۔‏ چرچ کے وسیع وسائل پر اختیار رکھنے کی وجہ سے بشپ نہایت دولتمند بھی ہوا کرتا تھا۔‏ اُسکا اثرورسوخ نہ صرف ان‌گنت راہبوں بلکہ عام لوگوں پر بھی ہوتا تھا۔‏

بشپ اکثر بادشاہ کی مخالفت کرنے کی طاقت رکھتا تھا۔‏ وہ خدا کے نام پر اپنی مرضی مسلّط کر سکتا،‏ اُس سے تعلقات منقطع کرنے کی دھمکی دے سکتا یا دیگر طریقوں سے بادشاہ کو ہٹانے کا اختیار رکھتا تھا۔‏

دارالحکومت کے باہر سول انتظامیہ کی بتدریج تنزلی اکثر بشپوں کو شہر کے سب سے بارُسوخ اشخاص بنا دیتی تھی جنکی طاقت صوبائی گورنروں کے برابر ہوتی تھی جنہیں بشپوں کی مدد سے منتخب کِیا جاتا تھا۔‏ بشپ ایسے عدالتی مقدمات اور دُنیاوی کاروبار میں بھی حصہ لیتے تھے جنکا چرچ سے تعلق ہوتا تھا اور بعض‌اوقات نہیں بھی ہوتا تھا۔‏ اسکی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ علاقائی بشپوں کے ماتحت تمام پادریوں اور راہبوں کی تعداد کئی ہزار تھی۔‏

سیاست اور کلیسیائی منصب کی خریدوفروخت

جیساکہ مذکورہ‌بالا جملہ ظاہر کرتا ہے،‏ پادریوں کے عہدے انتہائی پیچیدگی کیساتھ سیاست سے مربوط تھے۔‏ علاوہ‌ازیں پادریوں کی ایک بڑی تعداد اور اُنکی مذہبی کارگزاریاں بھاری رقم کا تقاضا کرتی تھیں۔‏ اعلیٰ عہدوں پر فائز بہتیرے پادری عیش‌وعشرت کی زندگی بسر کرتے تھے۔‏ جیسےجیسے چرچ کی طاقت اور دولت میں اضافہ ہوتا گیا،‏ سچی مسیحیت سے وابستہ مفلسی اور پاکیزگی معدوم ہوتی گئی۔‏ بعض پادریوں اور بشپوں نے اپنی تقرری کیلئے پیسے ادا کئے۔‏ حتیٰ‌کہ کلیسیائی حکومت کے اعلیٰ مناصب کی خریدوفروخت بھی ایک عام بات تھی۔‏ بادشاہ کی موجودگی میں پادری اپنے دولتمند حمایتیوں کی مدد سے اُسقف کے عہدے حاصل کرنے کیلئے سودےبازی کرتے تھے۔‏

رشوت اعلیٰ مذہبی پیشواؤں کو قائل کرنے کا ایک عام ذریعہ تھا۔‏ جب ملکہ زوئی (‏تقریباً ۹۷۸-‏۱۰۵۰ س.‏ع.‏)‏ نے اپنے شوہر رومانوس سوم کو قتل کروایا اور اپنے عاشق اور بعدازاں بادشاہ بننے کے اُمیدوار مائیکل چہارم سے شادی کرنا چاہی تو اُس نے فوراً بشپ الیک‌زی‌اس کو محل میں بلوایا۔‏ وہاں پہنچ کر بشپ کو پتہ چلا کہ رومانوس وفات پا چکا ہے اور اُس سے ایک شادی کی رسم ادا کرنے کا تقاضا کِیا جا رہا ہے۔‏ چرچ میں گڈ فرائڈے کی تقریب کے منائے جانے کی وجہ سے الیک‌زی‌اس مشکل میں پڑ گیا۔‏ تاہم اُس نے ملکہ کے فراخدلانہ تحائف کو قبول کرتے ہوئے اُسکی درخواست کو پورا کِیا۔‏

بادشاہ کی اطاعت

بزنطینی سلطنت کی تاریخ میں بعض‌اوقات بادشاہ قسطنطنیہ کے بشپ کا انتخاب کرنے کیلئے اپنا شاہی اختیار استعمال کرتا تھا۔‏ ایسے حالات میں نہ تو کوئی بادشاہ کی مرضی کے بغیر بشپ بن سکتا تھا اور نہ ہی زیادہ دیر تک اس عہدے پر فائز رہ سکتا تھا۔‏

بادشاہ اینڈرونیکس دوم (‏۱۲۶۰-‏۱۳۳۲)‏ نے نو بشپوں کو ہٹانے کی ضرورت محسوس کی۔‏ بیشتر معاملات میں اسکا بنیادی مقصد کسی ایسے اُمیدوار کو بشپ کے عہدے کیلئے منتخب کرنا ہوتا تھا جسے آسانی سے مغلوب کِیا جا سکتا تھا۔‏ کتاب دی بزنٹینز کے مطابق،‏ ایک بشپ نے تو تحریر میں بادشاہ کی ”‏ہر جائز اور ناجائز خواہش پوری کرنے اور اُسے ناخوش کرنے والے ہر کام سے گریز کرنے“‏ کا عہد کِیا تھا۔‏ بادشاہوں نے دو بار شاہی خاندان کے شہزادوں کو بشپ کے طور پر مقرر کرنے سے چرچ پر اپنی مرضی مسلّط کرنے کی کوشش کی تھی۔‏ بادشاہ رومانوس اوّل نے اپنے بیٹے تھیوفلاکٹ کو محض ۱۶ سال کی عمر میں بشپ کے عہدے پر فائز کِیا تھا۔‏

اگر بشپ حاکم کو خوش کرنے میں ناکام رہتا تو وہ اُسے استعفیٰ دینے پر مجبور کر سکتا یا کلیسیائی مجلس کو اُسے ہٹانے کی ہدایت دے سکتا تھا۔‏ کتاب بزینشیئم بیان کرتی ہے:‏ ”‏بزنطینی تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ اعلیٰ حکام اور بادشاہ کا اثرورسوخ بشپوں کے انتخاب میں براہِ‌راست کردار ادا کرنے لگا۔‏“‏

بشپ کی حمایت کیساتھ بادشاہ کلیسیائی مجالس کی صدارت بھی کِیا کرتا تھا۔‏ وہ مباحثوں کی راہنمائی کرتا تھا،‏ مذہبی عقائد تشکیل دیتا تھا اور بشپوں کے علاوہ بدعتیوں کیساتھ بھی بحث‌وتکرار کِیا کرتا تھا جنکی حتمی سزا سولی پر موت ہوا کرتی تھی۔‏ بادشاہ مجلس میں ترتیب دئے جانے والے قوانین کی منظوری دیتا اور انہیں نافذ کرتا تھا۔‏ وہ اپنے مخالفین کو نہ صرف بادشاہ کے خلاف بغاوت بلکہ چرچ اور خدا کے دشمن ہونے کا قصوروار بھی ٹھہراتا تھا۔‏ چھٹی صدی کے ایک بشپ نے بیان کِیا کہ ”‏چرچ میں کوئی ایسا کام نہیں کِیا جانا چاہئے جو بادشاہ کی مرضی اور احکام کے خلاف ہو۔‏“‏ عدالتی کارروائیوں میں حصہ لینے والے بشپ—‏بظاہر خوش اخلاق،‏ ہوشیاری سے دی جانے والی بخشش اور محتاط لین‌دین سے مغلوب ہونے والے اثرپذیر اشخاص—‏عموماً اپنے سربراہوں کی طرح غیرقانونی کاموں پر کسی قسم کا اعتراض نہیں کرتے تھے۔‏

مثال کے طور پر،‏ جب بشپ اِگناتیئس (‏تقریباً ۷۹۹-‏۸۷۸ س.‏ع.‏)‏ نے چیف منسٹر بارڈس کو پاک شراکت دینے سے انکار کِیا تو منسٹر نے احتجاج کِیا۔‏ بارڈس نے اِگناتیئس پر سازش کرنے اور بغاوت کا الزام لگا دیا۔‏ بشپ کو گرفتار کرکے جلاوطن کر دیا گیا۔‏ اس کی جگہ منسٹر نے انتخاب کے ذریعے فوٹیس کو منتخب کروایا،‏ ایک عام آدمی جو چھ دنوں کے اندر اندر ترقی کی تمام منزلیں طے کرکے آخرکار کلیسیا میں بشپ کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہو گیا۔‏ کیا فوٹیس اس روحانی منصب کے لائق تھا؟‏ اُس کا ذکر ”‏سیاست کے داؤپیچ میں ماہر،‏ ایک جاہ‌پسند اور نہایت متکبر“‏ شخص کے طور پر کِیا جاتا ہے۔‏

سیاست کو فروغ دینے والے عقائد

مسلمہ عقائد اور کفروالحاد کے اختلافات کی پُشت پر اکثر سیاسی مخالفت ہوا کرتی تھی اور بہتیرے بادشاہ نئے اعتقادات کو متعارف کرانے کی خواہش کی بجائے سیاسی عناصر سے تحریک پاتے تھے۔‏ عام طور پر بادشاہ کو مذہبی اُصول نافذ کرنے اور چرچ پر اپنی مرضی مسلّط کرنے کا حق حاصل ہوتا تھا۔‏

مثال کے طور پر ہیراکلیئس بادشاہ (‏۵۷۵-‏۶۴۱ س.‏ع.‏)‏ نے مسیح کی ذات کی بابت اختلافِ‌رائے کو دُور کرنے کی سخت کوشش کی جو اُسکی غیرمستحکم اور کمزور سلطنت کو تقسیم کرنے کا خطرہ بن رہی تھی۔‏ مصالحت کی غرض سے اُس نے ایک نیا عقیدہ مونوتھیلی‌ٹیزم پیش کِیا۔‏ * اسکے بعد ہیراکلیئس نے اپنی سلطنت کے جنوبی صوبوں کی اطاعت کا یقین کرنے کیلئے اسکندریہ کے ایک نئے بشپ،‏ فےسس کے سائرس کو منتخب کِیا جس نے بادشاہ کی پسند کے مطابق عقیدے کی تائید کی۔‏ بادشاہ نے سائرس کو نہ صرف بشپ بلکہ مصر کے علاقائی حاکموں کا سربراہ بھی مقرر کر دیا۔‏ کسی حد تک اذیت کے دباؤ کے باوجود سائرس مصر کے چرچ میں اکثریت کی رضامندی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔‏

سنگین نتائج

کیا یہ حالات‌وواقعات یسوع کی اپنے شاگردوں کیلئے دُعا کہ ’‏وہ دُنیا کے نہیں‘‏ کے الفاظ اور جذبات کی عکاسی کیسے کر سکتے تھے؟‏—‏یوحنا ۱۷:‏۱۴-‏۱۶‏۔‏

بزنطینی دَور اور اسکے بعد کے نام‌نہاد مسیحی راہنماؤں کو سیاسی اور فوجی معاملات میں اپنی شمولیت کیلئے ایک بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔‏ آپ تاریخ کے اس مختصر جائزے سے کیا سیکھتے ہیں؟‏ کیا بزنطینی چرچ کے راہنما خدا اور یسوع مسیح کی خوشنودی حاصل کر پائے؟‏—‏یعقوب ۴:‏۴‏۔‏

ایسے مفادپرست مذہبی راہنماؤں اور اُنکے سیاسی رفقاء نے سچی مسیحیت کے فروغ کیلئے کبھی کچھ نہیں کِیا تھا۔‏ مذہب اور سیاست کے اس ناپاک امتزاج نے سچے مذہب کی غلط نمائندگی کی جسکی تعلیم یسوع نے دی تھی۔‏ دُعا ہے کہ ہم تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے ’‏دُنیا کا حصہ‘‏ نہ بنیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 21 مونوتھیلی‌ٹیزم کے عقیدے کے مطابق مسیح خدا اور انسان کی خاصیت رکھنے کے باوجود ایک مرضی رکھتا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر بکس/‏تصویر]‏

‏”‏آسمانوں پر اُڑنے والے معبود کی مانند“‏

بشپ مائیکل سیرولیریس (‏تقریباً ۱۰۰۰-‏۱۰۵۹)‏ سے منسلک واقعات ملک کے معاملات اور اس سے منسوب اقتدار کی خواہشات میں چرچ کے سربراہ کے کردار کی بابت ایک مثال فراہم کرتے ہیں۔‏ بشپ بننے کے بعد سیرولیریس نے مزید ترقی کا ارادہ کِیا۔‏ وہ ایک متکبر،‏ شوخ‌چشم اور ہٹ‌دھرم شخص کے طور پر مشہور تھا ”‏جس کے طورطریقے آسمان پر اُڑنے والے معبود کی مانند تھے۔‏“‏

ذاتی برتری کو ملحوظِ‌خاطر رکھتے ہوئے سیرولیریس نے ۱۰۵۴ میں روم کے پوپ سے علیٰحدگی کا منصوبہ بنایا اور بادشاہ کو اسے قبول کرنے پر مجبور کِیا۔‏ اس فتح سے خوش ہوکر سیرولیریس نے مائیکل ششم کو بادشاہ بنانے کا بندوبست کِیا اور اُسے اپنی حکومت کو مستحکم کرنے میں مدد دی۔‏ ایک سال بعد سیرولیریس نے اس بادشاہ کو ہٹا کر اسکی جگہ آئزک کومنی‌نس (‏تقریباً ۱۰۰۵-‏۱۰۶۱)‏ کو تخت‌نشین کر دیا۔‏

پادریوں اور بادشاہ کے درمیان اختلاف بڑھتا چلا گیا۔‏ عوام کی حمایت کیساتھ سیرولیریس دھمکیوں،‏ مطالبات اور تشدد پر اُتر آیا۔‏ ایک معاصر مؤرخ نے بیان کِیا:‏ ”‏اُس نے غیرمہذب اور ناشائستہ زبان میں بادشاہ کے زوال کی بابت پیشینگوئی کرتے ہوئے کہا کہ ’‏اے احمق،‏ مَیں نے تجھے عزت بخشی اور مَیں ہی تجھے برباد کروں گا۔‏‘‏ “‏ تاہم آئزک کومنی‌نس نے اُسے گرفتار کرکے قید کر دیا اور جلاوطن کرکے امبراس بھیج دیا۔‏

ایسی مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ قسطنطنیہ کا بشپ کتنی پریشانی پیدا کرنے اور کس دلیری سے بادشاہ کی مزاحمت کرنے کے قابل تھا۔‏ بادشاہ کو اکثر ایسے اشخاص سے نپٹنا پڑتا تھا جو زبردست سیاستدان تھے اور بادشاہ اور فوج کی مخالفت کرنے کے قابل تھے۔‏

‏[‏صفحہ ۹ پر نقشہ/‏تصویر]‏

‏(‏تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

بزنطینی سلطنت کی انتہائی حدود

۳راوینا

روم

مــکــدنــیــہ

قسطنطنیہ

بـحـیـرۂ سـود

نقایہ

افسس

انطاکیہ

یروشلیم

اسکندریہ

بــحـــیـــرۂ روم

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

‏.Map: Mountain High Maps® Copyright © 1997 Digital Wisdom, Inc

‏[‏صفحہ ۱۱،‏ ۱۰ پر تصویریں]‏

کومنی‌نس

رومانوس سوم (‏بائیں جانب)‏

مائیکل چہارم

ملکہ زوئی

رومانوس اوّل (‏بائیں جانب)‏

‏[‏تصویروں کے حوالہ‌جات]‏

Comnenus, Romanus III, and Michael IV: Courtesy Classical

‏:Numismatic Group, Inc.; Empress Zoe: Hagia Sophia; Romanus I

‏.Photo courtesy Harlan J. Berk, Ltd

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏

فوٹیس

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏

ہیراکلیئس اور اسکا بیٹا

‏[‏تصویروں کے حوالہ‌جات]‏

Heraclius and son: Photo courtesy Harlan J. Berk, Ltd.; all

L‎’Art Byzantin III design elements, pages 8-12: From the book

Ravenne Et Pompose