مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ کی دعوت قبول کرنا باعثِ‌اَجر ہے

یہوواہ کی دعوت قبول کرنا باعثِ‌اَجر ہے

میری کہانی میری زبانی

یہوواہ کی دعوت قبول کرنا باعثِ‌اَجر ہے

از ماریہ ڈو سیو زانارڈی

‏”‏یہوواہ جانتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے۔‏ تمہیں فروتنی سے اُسکی یہ دعوت قبول کر لینی چاہئے۔‏“‏ تقریباً ۴۵ سال پہلے کہے گئے میرے والد کے اِن الفاظ نے یہوواہ کی تنظیم کی طرف سے کُل‌وقتی خدمت کی پہلی دعوت قبول کرنے میں میری مدد کی۔‏ مَیں اپنے والد کی مشورت کیلئے آج بھی شکرگزار ہوں کیونکہ ایسی دعوتوں کو قبول کرنے سے مجھے کثیر برکات حاصل ہوئی ہیں۔‏

میرے والد نے ۱۹۲۸ میں مینارِنگہبانی رسالے کا چندہ لگوایا اور بائبل میں دلچسپی لینے لگے۔‏ چونکہ وہ سینٹرل پُرتگال میں رہتے تھے لہٰذا خدا کی کلیسیا سے اُن کا واحد رابطہ ڈاک کے ذریعے حاصل ہونے والی مطبوعات اور میرے دادا دادی کی ایک بائبل تھی۔‏ سن ۱۹۴۹ میں جب مَیں ۱۳ سال کی تھی تو ہمارا خاندان نقل‌مکانی کرکے میری والدہ کے آبائی وطن برازیل میں ری‌او ڈجنیرو کے نواحی علاقے میں آباد ہو گیا۔‏

ہمارے نئے پڑوسیوں نے ہمیں اپنے ساتھ چرچ جانے کی دعوت دی اور ہم چند مرتبہ اُنکے ساتھ گئے۔‏ والد کو اُن سے دوزخ،‏ روح اور زمین کے مستقبل کی بابت سوال کرنا اچھا لگتا تھا لیکن اُن کے پاس ان سوالوں کے کوئی جواب نہیں تھے۔‏ والد کہا کرتے تھے،‏ ”‏ہمیں سچے بائبل طالبعلموں کا انتظار کرنا پڑیگا۔‏“‏

ایک دن ایک اندھا شخص ہمارے گھر مینارِنگہبانی اور جاگو!‏ رسالے لیکر آیا۔‏ میرے والد نے اُس سے بھی وہی سوال کئے اور اُس شخص نے بائبل پر مبنی معقول جواب دئے۔‏ اگلے ہفتے ایک اَور یہوواہ کی گواہ نے ہم سے ملاقات کی۔‏ ہمارے چند اَور سوالوں کا جواب دینے کے بعد اُس نے یہ کہتے ہوئے ہم سے اجازت چاہی کہ اُسے ”‏میدان “‏ میں جانا ہے۔‏ جب میرے والد نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گواہ کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں تو اُس نے متی ۱۳:‏۳۸ پڑھی:‏ ”‏کھیت دُنیا ہے۔‏“‏ میرے والد نے پوچھا:‏ ”‏کیا مَیں بھی جا سکتا ہوں؟‏“‏ اس نے جواب دیا،‏ ”‏بالکل جا سکتے ہیں۔‏“‏ ہم دوبارہ بائبل سچائی پا کر بہت خوش تھے!‏ اگلے ہی کنونشن پر میرے والد نے بپتسمہ لے لیا اور بہت جلد نومبر ۱۹۵۵ میں میرا بھی بپتسمہ ہو گیا۔‏

پہلی دعوت قبول کرنا

ڈیڑھ سال بعد،‏ مجھے ری‌او ڈجنیرو میں یہوواہ کے گواہوں کے برانچ آفس سے ایک خاکی رنگ کا بڑا لفافہ ملا جس میں میرے لئے کُل‌وقتی خدمت کا دعوت‌نامہ تھا۔‏ اُن دنوں ماں کی صحت اچھی نہیں تھی لہٰذا مَیں نے اپنے والد سے مشورہ لیا۔‏ اُنہوں نے پُراعتماد طریقے سے جواب دیا،‏ ”‏یہوواہ جانتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے۔‏ تمہیں فروتنی سے اُسکی یہ دعوت قبول کر لینی چاہئے۔‏“‏ اِن الفاظ سے تحریک پا کر مَیں نے درخواست پُر کر دی اور جولائی ۱،‏ ۱۹۵۷ میں کُل‌وقتی خدمت شروع کر دی۔‏ میری پہلی تفویض ری‌او ڈجنیرو کی ریاست ٹریس ریوس کا قصبہ تھا۔‏

شروع میں ٹریس ریوس کے لوگ ہمارے پیغام کو سننے سے ہچکچاتے تھے کیونکہ ہم کیتھولک بائبل استعمال نہیں کرتے تھے۔‏ تاہم ایک سرگرم کیتھولک شخص جیرالڈو رمالہو کیساتھ بائبل مطالعہ شروع کرنا بڑا مفید ثابت ہوا۔‏ اُسکی مدد سے مَیں مقامی پادری کے دستخط والی ایک بائبل حاصل کرنے کے قابل ہوئی۔‏ اس وقت سے جب بھی مجھے مخالفت کا سامنا ہوتا تو مَیں پادری کے دستخط دکھا دیا کرتی اور پھر کوئی سوال نہیں پوچھا جاتا تھا۔‏ جیرالڈو نے بعدازاں بپتسمہ لے لیا۔‏

سن ۱۹۵۹ میں ٹریس ریوس کے مرکز میں ایک سرکٹ اسمبلی منعقد ہونے پر مَیں بہت خوش ہوئی۔‏ اُس وقت بائبل کا مطالعہ کرنے والے پولیس چیف نے اِس پروگرام کی تشہیر کرنے والے بینرز لگانے کا بھی بندوبست کِیا۔‏ مجھے ٹریس ریوس میں تین سال کام کرنے کے بعد ساؤ پاؤلو سے تقریباً ۱۱۰ کلومیٹر مغرب میں واقع ایٹو میں ایک نئی تفویض ملی۔‏

لال،‏ نیلی اور پیلی کتابیں

کچھ تلاش کے بعد مجھے اور میری پائنیر ساتھی کو شہر کے مرکز میں ماریہ نامی ایک مہربان بیوہ خاتون کیساتھ رہنے کیلئے آرام‌دہ رہائش مل گئی۔‏ ماریہ ہمیں اپنی بیٹیوں کی طرح چاہتی تھی۔‏ تاہم،‏ بہت جلد ایٹو کے رومن کیتھولک بشپ نے اُس سے ملاقات کی اور ہمیں گھر سے نکالنے کو کہا لیکن وہ اپنے فیصلے پر قائم رہی:‏ ”‏میرے شوہر کی وفات پر تم لوگوں نے میرے ساتھ کوئی ہمدردی ظاہر نہیں کی۔‏ اگرچہ مَیں اِن کے مذہب سے تعلق نہیں رکھتی توبھی اِن یہوواہ کے گواہوں نے میری مدد کی۔‏“‏

تقریباً انہیں دنوں میں ایک خاتون نے ہمیں خبر دی کہ ایٹو کے کیتھولک پادریوں نے اپنے کلیسیائی ارکان کو ”‏ابلیس کی بابت لال کتاب“‏ کی کاپیاں قبول کرنے سے منع کر دیا ہے۔‏ اُن کا اشارہ بائبل پر مبنی اشاعت ‏”‏خدا سچا ٹھہرے“‏ کی طرف تھا جو ہم نے ہفتے کے دوران لوگوں کو پیش کی تھی۔‏ چونکہ لال کتاب پر پادریوں نے ”‏پابندی“‏ عائد کر دی تھی لہٰذا ہم نے نیلی کتاب ‏(‏”‏نیو ہیونز اینڈ اے نیو ارتھ“‏)‏ کی پیشکش کی تیاری شروع کر دی۔‏ بعدازاں جب پادریوں کو اس تبدیلی کا پتہ چلا تو ہم پیلے رنگ کی کتاب ‏(‏وَٹ ہیز ریلیجن ڈن فار مینکائنڈ؟‏)‏ پیش کرنے لگے اور یوں ہم نے اپنا کام جاری رکھا۔‏ فرق رنگوں کی جِلدوں والی مختلف کتابوں کا دستیاب ہونا ہمارے لئے کارآمد ثابت ہوا!‏

ایٹو میں تقریباً ایک سال کے بعد مجھے نیشنل اسمبلی کی تیاریوں کے سلسلے میں ری‌او ڈجنیرو میں یہوواہ کے گواہوں کے برانچ آفس،‏ بیت‌ایل میں عارضی طور پر خدمت کرنے کی دعوت دینے والا ایک ٹیلی‌گرام ملا۔‏ مَیں نے اسے خوشی سے قبول کر لیا۔‏

مزید استحقاقات اور چیلنج

بیت‌ایل میں کام کی کمی نہیں تھی اور مَیں نے خود کو خوشی سے ہر کام کیلئے پیش کِیا۔‏ ہر صبح روزانہ کی آیت پر بات‌چیت اور پیر کی شام مینارِنگہبانی کے مطالعے پر حاضر ہونا کتنا مسرت‌بخش تجربہ تھا!‏ اوٹو ازٹل‌مین اور بیت‌ایل خاندان کے دوسرے تجربہ‌کار ارکان کی مخلصانہ دُعائیں مجھ پر گہرا اثر کرتی تھیں۔‏

اسمبلی کے بعد،‏ مَیں نے ایٹو واپس لوٹنے کیلئے اپنا سامان باندھا لیکن مجھے حیرانی ہوئی جب برانچ سرونٹ،‏ گرانٹ ملر نے مجھے مستقل طور پر بیت‌ایل خاندان کی رکن بننے کی دعوت دینے والا ایک خط دیا۔‏ میری روم‌میٹ بہن ہوسا یازڈجیان تھی جو ابھی بھی برازیل بیت‌ایل میں خدمت کر رہی ہے۔‏ اُن دنوں بیت‌ایل خاندان بہت چھوٹا تھا—‏ہماری تعداد صرف ۲۸ تھی—‏اور ہم سب کی آپس میں بڑی دوستی تھی۔‏

سن ۱۹۶۴ میں ایک نوجوان کُل‌وقتی خادم زوان زانارڈی تربیت حاصل کرنے کیلئے بیت‌ایل آیا۔‏ اُس وقت وہ قریبی علاقے میں سرکٹ خادم یا سفری نگہبان کے طور پر خدمت انجام دے رہا تھا۔‏ جب وہ رپورٹ جمع کرنے کیلئے بیت‌ایل آیا کرتا تھا تو بعض‌اوقات ہماری ملاقات ہو جایا کرتی تھی۔‏ برانچ سرونٹ نے زوان کو پیر کی شام خاندانی مطالعے پر حاضر ہونے کی اجازت دے دی لہٰذا ہم ایک دوسرے کیساتھ کچھ زیادہ وقت گزارنے کے قابل ہوئے۔‏ زوان اور مَیں نے اگست ۱۹۶۵ میں شادی کر لی۔‏ مَیں نے اپنے شوہر کیساتھ سرکٹ کے کام میں حصہ لینے کی تفویض خوشی سے قبول کر لی۔‏

اُس زمانے میں برازیل کے دیہی علاقے میں سفری کام بہت کٹھن تھا۔‏ مَیں میناس گیریس ریاست میں اران‌ہا کے پبلشروں کے ایک گروپ سے ملاقاتوں کو کبھی بھول نہیں سکتی۔‏ ہم ریل میں سفر کرتے تھے اور پھر ہمیں سوٹ کیس،‏ ٹائپ رائٹر،‏ سلائیڈ پروجیکٹر،‏ منادی کے بیگ اور لٹریچر اُٹھا کر باقی راستہ پیدل چلنا پڑتا تھا۔‏ ہم ایک عمررسیدہ بھائی لوریول چان‌ٹل کو دیکھ کر بیحد خوش ہوا کرتے تھے جو سامان اُٹھانے میں ہماری مدد کیلئے سٹیشن پر ہمیشہ انتظار کِیا کرتا تھا۔‏

اران‌ہا میں اجلاس کرائے کے مکان میں منعقد ہوا کرتے تھے۔‏ ہم گھر کے عقب میں ایک چھوٹے سے کمرے میں سویا کرتے تھے۔‏ ہم کمرے کی ایک طرف جلتی ہوئی لکڑیوں پر پانی گرم کِیا کرتے تھے جو بھائی ہمارے لئے بالٹیوں میں لایا کرتے تھے اور یہیں پر کھانا بھی پکاتے تھے۔‏ قریب واقع بانسوں کے کھیت کے درمیان ایک گڑھا بیت‌الخلا کے طور پر استعمال کِیا جاتا تھا۔‏ شاگس ڈیزیز پھیلانے والے حشرے،‏ باربر بھونرے سے بچنے کیلئے ہم رات‌بھر ایک گیس بتی جلائے رکھتے تھے۔‏ صبح تک ہماری ناک دھوئیں کی وجہ سے کالی ہو جاتی تھی۔‏ بہت ہی دلچسپ تجربہ!‏

پرانا سٹیٹ کے سرکٹ میں خدمت کے دوران ہمیں برانچ آفس سے ایک اَور خاکی رنگ کا بڑا لفافہ ملا۔‏ یہوواہ کی تنظیم کی طرف سے اس بار پُرتگال میں خدمت کرنے کا دعوت‌نامہ!‏ اس خط میں ہمیں لوقا ۱۴:‏۲۸ میں درج اصول پر غور کرنے اور اس تفویض کو قبول کرنے سے پہلے اس میں شامل خطرات پر غور کرنے کی مشورت دی گئی کیونکہ پُرتگال میں مسیحی کام پر پابندی تھی اور حکومت پہلے ہی کئی بھائیوں کو گرفتار کر چکی تھی۔‏

کیا ہم ایسے ملک میں جانے کیلئے تیار تھے جہاں ہمیں اذیت برداشت کرنی پڑتی؟‏ زوان نے کہا،‏ ”‏اگر ہمارے پُرتگالی بھائی وہاں رہ کر وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کر سکتے ہیں تو ہم ایسا کیوں نہیں سکتے؟‏“‏ اپنے والد کی حوصلہ‌افزائی کو یاد رکھتے ہوئے مَیں نے بھی ہاں کر دی:‏ ”‏اگر یہوواہ نے یہ دعوت‌نامہ بھیجا ہے تو ہمیں اُس پر بھروسا کرتے ہوئے اسے قبول کر لینا چاہئے۔‏“‏ کچھ ہی دیر بعد ہم مزید معلومات حاصل کرنے اور سفر کیلئے اپنے کاغذات کی تیاری کیلئے ساؤ پاؤلو کے بیت‌ایل پہنچ گئے۔‏

زوان ماریہ اور ماریہ زوان

ہماری کشتی اوزانیوسا ساؤ پاؤلو سٹیٹ،‏ سانٹوس کی بندرگاہ سے ستمبر ۶،‏ ۱۹۶۹ کو روانہ ہوئی۔‏ نو دن کے بحری سفر کے بعد ہم پُرتگال پہنچے۔‏ شروع میں ہم نے لزبن کے پُرانے علاقے میں الفاما اور موراریہ کی تنگ گلیوں میں تجربہ‌کار بھائیوں کیساتھ کئی مہینوں تک کام کِیا۔‏ اُنہوں نے ہمیں احتیاط کیساتھ کام کرنے کی تربیت دی تاکہ پولیس ہمیں آسانی سے پکڑ نہ سکے۔‏

کلیسیائی اجلاس گواہوں کے گھروں پر منعقد ہوا کرتے تھے۔‏ جب ہمیں محسوس ہوتا کہ پڑوسیوں کو ہم پر شک ہونے لگا ہے تو اس سے پہلے کہ اُس گھر پر چھاپا پڑے یا بھائیوں کو گرفتار کر لیا جائے ہم فوراً اجلاس کی جگہ تبدیل کر لیا کرتے تھے۔‏ ہم اپنی اسمبلیوں کو پکنک کہا کرتے تھے اور یہ لزبن کے نواحی علاقوں میں مونسانٹو پارک اور ساحل پر گھنے درختوں والے علاقے کوسٹا ڈا کیپریکا میں منعقد کی جاتی تھیں۔‏ ہم اس موقع پر عام لباس پہنتے تھے اور چوکنے حاضرباشوں کا ایک گروپ منصوبے کے تحت مختلف جگہوں پر پہرا دیتا تھا۔‏ اگر کوئی مشکوک شخص قریب آتا تو ہمارے پاس کوئی کھیل شروع کرنے،‏ کھانےپینے کا سامان سجانے،‏ یا کوئی لوک گیت گانے کا وقت ہوا کرتا تھا۔‏

سیکیورٹی پولیس کیلئے ہماری شناخت مشکل بنانے کیلئے ہم اپنے اصلی ناموں کا استعمال کرنے سے گریز کِیا کرتے تھے۔‏ بھائی ہمیں زوان ماریہ اور ماریہ زوان کے نام سے جانتے تھے۔‏ کسی طرح کے خطوط یا ریکارڈ میں ہمارے اصلی نام استعمال نہیں ہوتے تھے۔‏ اسکے برعکس ہمارے لئے نمبر مختص کئے گئے تھے۔‏ مَیں بھائیوں کے پتوں کو بھول جانے کی کوشش کِیا کرتی تھی۔‏ اس طرح اگر مَیں گرفتار ہو بھی جاتی تو اُن کی بابت معلومات دینے میں ناکام رہتی۔‏

پابندیوں کے باوجود مَیں اور زوان یہ جانتے ہوئے ہر موقع سے فائدہ اُٹھانے کیلئے پُرعزم تھے کہ ہم اپنی آزادی کسی وقت بھی کھو سکتے تھے۔‏ ہم نے اپنے آسمانی باپ یہوواہ پر توکل کرنا سیکھ لیا تھا۔‏ ہمارے محافظ کے طور پر اُس نے اپنے فرشتوں کو اس طرح استعمال کِیا کہ ہمیں محسوس ہوا کہ ہم ”‏اندیکھے کو گویا دیکھ“‏ سکتے تھے۔‏—‏عبرانیوں ۱۱:‏۲۷‏۔‏

ایک موقع پر پورٹو میں گھرباگھر کی مُنادی کے دوران ہماری ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جو ہمیں اپنے گھر لیجانے پر مُصر تھا۔‏ میرے ساتھ کام کرنے والی بہن نے بِلاجھجھک یہ دعوت قبول کر لی اور اس کا ساتھ دینے کے علاوہ میرے پاس اَور کوئی چارہ نہ تھا۔‏ گھر کے اندر فوجی یونیفارم میں کسی شخص کی تصویر دیکھ کر مَیں بہت خوفزدہ ہو گئی۔‏ اب کیا کِیا جا سکتا تھا؟‏ ہمارے میزبان نے بیٹھنے کی دعوت دینے کے بعد مجھ سے پوچھا:‏ ”‏اگر آپ کے بیٹے کو فوجی خدمت کے لئے منتخب کِیا جائے تو کیا آپ اُسے فوج میں بھرتی ہونے کی اجازت دے دینگی؟‏“‏ صورتحال بڑی نازک تھی۔‏ خاموش دُعا کے بعد مَیں نے اطمینان کے ساتھ جواب دیا:‏ ”‏میرے کوئی بچے نہیں اور مجھے یقین ہے کہ اگر مَیں آپ سے ایسا ہی فرضی سوال پوچھوں تو آپ کا جواب بھی یہی ہوگا۔‏“‏ وہ خاموش رہا۔‏ لہٰذا مَیں نے مزید کہا:‏ ”‏اب اگر آپ مجھ سے یہ پوچھیں کہ بھائی یا باپ سے دُور ہو جانے کا احساس کیسا ہوتا ہے تو مَیں اس کا جواب دے سکتی ہوں کیونکہ میرے بھائی اور باپ وفات پا چکے ہیں۔‏“‏ اُس سے بات کرتے ہوئے میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور مَیں نے غور کِیا کہ اُس کی آنکھیں بھی پُرنم تھیں۔‏ اُس نے وضاحت کی کہ اُس کی بیوی حال ہی میں فوت ہو گئی تھی۔‏ اُس نے اُمیدِقیامت کی بابت میری وضاحت کو غور سے سنا۔‏ اس کے بعد ہم نے مہذب انداز میں اُسے خداحافظ کہا اور اس معاملے کو یہوواہ کے ہاتھوں میں سونپ کر وہاں سے چل دئے۔‏

پابندی کے باوجود سچائی کا علم حاصل کرنے میں خلوصدل لوگوں کی مدد کی گئی تھی۔‏ پورٹو میں میرے شوہر نے ہوراشیو نامی ایک تاجر کیساتھ مطالعہ شروع کِیا جس نے بہت جلد ترقی کی۔‏ بعدازاں اُسکے بیٹے امیلیو نے بھی یہوواہ کیلئے اپنی مخصوصیت کے اظہار میں بپتسمہ لے لیا جوکہ ایک قابل ڈاکٹر تھا۔‏ واقعی یہوواہ کی روح کو کوئی بھی چیز نہیں روک سکتی۔‏

‏”‏آپ نہیں جانتے کہ یہوواہ کس بات کی اجازت دیگا“‏

زوان اور مجھے ۱۹۷۳ میں برسلز،‏ بیلجیئم میں بین‌الاقوامی کنونشن ”‏ڈیوائن وکٹری“‏ پر حاضر ہونے کی دعوت دی گئی۔‏ وہاں سپین اور بیلجیئم کے ہزاروں بھائیوں کے علاوہ موزمبیق،‏ انگولا،‏ کیپ ورڈے،‏ میڈیرا اور ازورس کے نمائندے بھی موجود تھے۔‏ نیو یارک ہیڈکوارٹرز کے بھائی نار نے اپنے اختتامی کلمات میں نصیحت کی:‏ ”‏وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کرتے رہیں۔‏ آپ نہیں جانتے کہ یہوواہ کس بات کی اجازت دیگا۔‏ شاید اگلی بار آپ پُرتگال میں بین‌الاقوامی کنونشن پر حاضر ہوں!‏“‏

اگلے ہی سال پُرتگال میں قانوناً منادی کرنے کی اجازت مل گئی۔‏ نیز بھائی نار کے الفاظ سچ ثابت ہوئے۔‏ سن ۱۹۷۸ میں ہم نے پہلی بار لزبن میں بین‌الاقوامی کنونشن منعقد کِیا۔‏ تشہیری تختیوں،‏ رسالوں اور عوامی تقریر کے دعوت‌ناموں کیساتھ لزبن کی سڑکوں سے گزرنا کیا ہی عمدہ شرف تھا!‏ ہمارا خواب سچ ہو گیا تھا۔‏

ہم پُرتگالی بہن‌بھائیوں سے بڑی محبت کرنے لگے جن میں سے بہتیروں نے مسیحی غیرجانبداری برقرار رکھنے کیلئے قید اور تشدد برداشت کِیا تھا۔‏ ہماری خواہش تھی کہ ہم پُرتگال میں خدمت جاری رکھیں۔‏ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔‏ زوان ۱۹۸۲ میں ایک جان‌لیوا دل کے مرض میں مبتلا ہو گیا اور برانچ آفس نے ہمیں برازیل لوٹنے کا مشورہ دیا۔‏

صبرآزما وقت

برازیل برانچ آفس کے بھائیوں نے ہماری بڑی مدد کی اور ہمیں ساؤ پاؤلو،‏ ٹوباٹے میں کیوریرم کانگریگیشن میں خدمت کرنے کی تفویض سونپی گئی۔‏ زوان کی صحت تیزی سے بگڑتی گئی اور جلد ہی وہ گھر سے باہر جانے کے قابل نہ رہا۔‏ دلچسپی رکھنے والے اشخاص بائبل کا مطالعہ کرنے کیلئے ہمارے گھر آیا کرتے تھے،‏ ہمارے گھر میں روزانہ میدانی خدمت کے اجلاسوں کے علاوہ بائبل پر مبنی ہفتہ‌وار کتابی مطالعہ بھی منعقد ہوا کرتا تھا۔‏ ان فراہمیوں نے اپنی روحانیت برقرار رکھنے میں ہماری مدد کی۔‏

زوان اکتوبر ۱،‏ ۱۹۸۵ میں اپنی موت تک یہوواہ کی خدمت میں اپنی استطاعت کے مطابق ہر ممکن کوشش کرتا رہا۔‏ اُسکی موت نے مجھے غمگین اور کچھ حد تک افسردہ کر دیا مگر مَیں اپنی خدمت جاری رکھنے کیلئے پُرعزم تھی۔‏ اپریل ۱۹۸۶ میں ایک اَور مسئلہ پیش آیا جب چور میرے گھر میں گھس آئے اور تقریباً تمام چیزیں چوری کرکے لے گئے۔‏ زندگی میں پہلی بار مجھے تنہائی اور خوف کا احساس ہونے لگا۔‏ ایک جوڑے نے مجھے کچھ عرصہ اپنے ساتھ رہنے کی پُرمحبت دعوت دی جس کیلئے مَیں انکی بہت شکرگزار تھی۔‏

زوان کی موت اور میرے گھر پر ہونے والی چوری نے یہوواہ کیلئے میری خدمت کو بھی متاثر کِیا۔‏ اب مَیں خدمتگزاری میں پُراعتماد محسوس نہیں کرتی تھی۔‏ اپنی اس مشکل کی بابت برانچ آفس کو خط لکھنے کے بعد،‏ مجھے اپنا جذباتی توازن بحال کرنے میں مدد دینے کیلئے کچھ وقت بیت‌ایل میں رہنے کی دعوت ملی۔‏ وہ وقت کسقدر تقویت‌بخش تھا!‏

جب میری حالت کچھ بہتر ہوئی تو مَیں نے ساؤ پاؤلو سٹیٹ کے شہر ایپوان میں خدمت کرنے کی تفویض قبول کر لی۔‏ منادی کے کام نے مجھے مصروف رکھا لیکن بعض‌اوقات میں بےحوصلہ ہو جاتی تھی۔‏ ایسے مواقع پر مَیں کیوریرم کے بھائیوں کو فون کِیا کرتی تھی اور کچھ دنوں کیلئے کوئی خاندان مجھ سے ملنے کیلئے آ جایا کرتا تھا۔‏ وہ ملاقاتیں واقعی حوصلہ‌افزا رہیں!‏ ایپوان میں میرے پہلے سال کے دوران ۳۸ مختلف بہن‌بھائی طویل سفر طے کرکے مجھ سے ملنے آئے۔‏

سن ۱۹۹۲ میں زوان کی موت کے چھ سال بعد مجھے یہوواہ کی تنظیم سے ایک اَور دعوت‌نامہ ملا اور اس بار مجھے ساؤ پاؤلو ریاست میں فرانکا کے علاقے میں منتقل ہونے کی دعوت دی گئی جہاں مَیں اب بھی کُل‌وقتی خدمت کر رہی ہوں۔‏ یہاں کا علاقہ نہایت پھلدار ہے۔‏ مَیں نے ۱۹۹۴ میں میئر کیساتھ بائبل مطالعہ شروع کِیا۔‏ اُس وقت وہ برازیل کی کانگرس میں رُکنیت حاصل کرنے کی مہم چلا رہا تھا تاہم اُسکی مصروفیات کے باوجود ہم ہر پیر کی شام مطالعہ کِیا کرتے تھے۔‏ کسی قسم کے خلل سے بچنے کیلئے وہ اپنے فون بند کر دیا کرتا تھا۔‏ اُسے بتدریج سیاست سے دامن چھڑاتے اور سچائی کی مدد سے اپنی شادی کو مضبوط کرتے دیکھ کر مَیں بہت خوش تھی!‏ اُس نے اور اُسکی بیوی نے ۱۹۹۸ میں بپتسمہ لیا۔‏

مَیں ماضی پر غور کرنے سے یہ کہہ سکتی ہوں کہ کُل‌وقتی خادمہ کے طور پر مَیں نے اپنی زندگی میں بیشمار برکات اور استحقاقات سے فائدہ اُٹھایا ہے۔‏ واقعی یہوواہ کی تنظیم سے ملنے والی دعوتیں قبول کرنے سے مجھے کثیر برکات حاصل ہوئی ہیں۔‏ نیز مستقبل میں ملنے والی دعوتوں کو بخوشی قبول کرنے کے سلسلے میں میرا عزم آج بھی اُتنا ہی مضبوط ہے جتنا کہ پہلے تھا۔‏

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویریں]‏

سن ۱۹۵۷ میں کُل‌وقتی خدمت کے آغاز کے وقت اور اب

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

سن ۱۹۶۳ میں برازیل بیت‌ایل خاندان کیساتھ

‏[‏صفحہ ۲۷ پر تصویر]‏

اگست ۱۹۶۵ میں ہماری شادی

‏[‏صفحہ ۲۷ پر تصویر]‏

پُرتگال میں منادی کے کام پر پابندی کے دوران ایک اسمبلی

‏[‏صفحہ ۲۸ پر تصویر]‏

لزبن میں ۱۹۷۸ میں ”‏وکٹوریئس فیتھ“‏ بین‌الاقوامی کنونشن کے دوران گلیوں میں منادی