مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

خدا کے نبوّتی کلام پر دھیان دیں

خدا کے نبوّتی کلام پر دھیان دیں

خدا کے نبوّتی کلام پر دھیان دیں

‏”‏ہمارے پاس نبیوں کا وہ کلام ہے جو زیادہ معتبر ٹھہرا اور تم اچھا کرتے ہو جو .‏ .‏ .‏ اس پر غور کرتے ہو۔‏“‏—‏۲-‏پطرس ۱:‏۱۹‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ آپ جھوٹے مسیحا کی کونسی مثال بیان کر سکتے ہیں؟‏

صدیوں سے جھوٹے مسیحا مستقبل کی پیشینگوئی کرتے آئے ہیں۔‏ پانچویں صدی س.‏ع.‏ میں خود کو موسیٰ کہنے والے ایک آدمی نے کریتے کے جزیرے کے یہودیوں کو باور کرایا کہ وہ مسیحا ہے اور اُنہیں تکلیف سے نجات دلائے گا۔‏ اپنی آزادی کے مُتعیّنہ دن پر،‏ وہ اُس کے پیچھے ایک اُونچے مقام پر چڑھ گئے جہاں سے بحیرۂروم نظر آتا تھا۔‏ اس نے اُن سے کہا کہ انہیں سمندر میں جانا ہوگا اور سمندر ان کے سامنے دو ٹکڑے ہو جائیگا۔‏ ایک بڑی تعداد پانی میں کودنے سے ڈوب گئی اور وہ جھوٹا مسیحا وہاں سے فرار ہو گیا۔‏

۲ بارہویں صدی میں،‏ ایک جھوٹا ”‏مسیحا“‏ یمن میں ظاہر ہوا۔‏ خلیفہ یا حاکم نے اس سے اُسکی مسیحائیت کا نشان طلب کِیا۔‏ اس ”‏مسیحا“‏ نے خیال پیش کِیا کہ خلیفہ اس کا سر قلم کرا دے۔‏ اس نے فوری قیامت کی پیشینگوئی کی جو نشان کا کام انجام دے گی۔‏ خلیفہ اس کیلئے راضی ہو گیا اور اِس طرح اُس ”‏مسیحا“‏ کا خاتمہ ہو گیا۔‏

۳.‏ حقیقی مسیحا کون ہے اور اس کی خدمتگزاری نے کیا ثابت کِیا؟‏

۳ جھوٹے مسیحا اور ان کی پیشینگوئیاں مکمل طور پر ناکام رہی ہیں لیکن خدا کے نبوّتی کلام پر دھیان دینا کبھی بھی مایوسی کا باعث نہیں ہوتا۔‏ حقیقی مسیحا،‏ یسوع مسیح،‏ بیشتر بائبل پیشینگوئیوں کی زندہ تکمیل ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ متی کی انجیل لکھنے والے نے یسعیاہ کا حوالہ دیتے ہوئے تحریر کِیا:‏ ”‏زؔبولون کا علاقہ اور نفتاؔلی کا علاقہ دریا کی راہ یرؔدن کے پار غیرقوموں کی گلیلؔ۔‏ یعنی جو لوگ اندھیرے میں بیٹھے تھے اُنہوں نے بڑی روشنی دیکھی اور جو موت کے ملک اور سایہ میں بیٹھے تھے اُن پر روشنی چمکی۔‏ اُس وقت سے یسوؔع نے منادی کرنا اور یہ کہنا شروع کِیا کہ توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے۔‏“‏ (‏متی ۴:‏۱۵-‏۱۷؛‏ یسعیاہ ۹:‏۱،‏ ۲‏)‏ یسوع مسیح ہی ”‏بڑی روشنی“‏ تھا اور اس کی خدمتگزاری نے ثابت کر دیا کہ وہ وہی نبی تھا جس کی بابت موسیٰ پیشینگوئی کر چکا تھا۔‏ یسوع کی بات سننے سے انکار کرنے والے اشخاص کاٹ ڈالے جائیں گے۔‏—‏استثنا ۱۸:‏۱۸،‏ ۱۹؛‏ اعمال ۳:‏۲۲،‏ ۲۳‏۔‏

۴.‏ یسوع نے یسعیاہ ۵۳:‏۱۲ کو کیسے پورا کِیا؟‏

۴ یسوع نے یسعیاہ ۵۳:‏۱۲ کے نبوّتی الفاظ کی بھی تکمیل کی:‏ ”‏اُس نے اپنی جان موت کے لئے اُنڈیل دی اور وہ خطاکاروں کے ساتھ شمار کِیا گیا تو بھی اُس نے بہتوں کے گُناہ اُٹھا لئے اور خطاکاروں کی شفاعت کی۔‏“‏ یہ سمجھتے ہوئے کہ اسے جلد ہی اپنی انسانی زندگی فدیے کے طور پر دینی ہوگی،‏ یسوع نے اپنے شاگردوں کے ایمان کو مضبوط کِیا۔‏ (‏مرقس ۱۰:‏۴۵‏)‏ اُس نے تبدیلیٔ‌ہیئت کے ذریعے نمایاں طور پر ایسا کِیا۔‏

تبدیلیٔ‌ہیئت ایمان کو مضبوط کرتی ہے

۵.‏ آپ تبدیلیٔ‌ہیئت کو اپنے الفاظ میں کیسے بیان کریں گے؟‏

۵ تبدیلیٔ‌ہیئت ایک نبوّتی منظر تھا۔‏ یسوع نے بیان کیا:‏ ”‏ابنِ‌آدؔم اپنے باپ کے جلال میں اپنے فرشتوں کے ساتھ آئیگا۔‏ .‏ .‏ .‏ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو یہاں کھڑے ہیں اُن میں سے بعض ایسے ہیں کہ جب تک ابنِ‌آدؔم کو اُسکی بادشاہی میں آتے ہوئے نہ دیکھ لیں گے موت کا مزہ ہرگز نہ چکھیں گے۔‏“‏ (‏متی ۱۶:‏۲۷،‏ ۲۸‏)‏ کیا رسولوں میں سے بعض نے واقعی یسوع کو اس کی بادشاہت میں آتے دیکھا تھا؟‏ متی ۱۷:‏۱-‏۷ بیان کرتی ہے:‏ ”‏چھ دن کے بعد یسوؔع نے پطرؔس اور یعقوؔب اور اُسکے بھائی یوؔحنا کو ہمراہ لیا اور اُنہیں ایک اُونچے پہاڑ پر الگ لے گیا۔‏ اور اُنکے سامنے اُسکی صورت بدل گئی۔‏“‏ کیا ہی ڈرامائی منظر!‏ ”‏اُسکا چہرہ سورج کی مانند چمکا اور اُسکی پوشاک نور کی مانند سفید ہو گئی۔‏ اور دیکھو موسیٰؔ اور ایلیاؔہ اُسکے ساتھ باتیں کرتے ہوئے انہیں دکھائی دئے۔‏“‏ نیز ”‏ایک نورانی بادل نے اُن پر سایہ کر لیا،‏“‏ اور اُنہیں خدا کی آواز سنائی دی:‏ ”‏یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں اِسکی سنو۔‏ شاگرد یہ سنکر مُنہ کے بل گِرے اور بہت ڈر گئے۔‏ یسوؔع نے پاس آ کر اُنہیں چھؤا اور کہا اُٹھو۔‏ ڈرو مت۔‏“‏

۶.‏ (‏ا)‏یسوع نے تبدیلیٔ‌ہیئت کو ایک رویا کیوں کہا تھا؟‏ (‏ب)‏ تبدیلیٔ‌ہیئت نے کس چیز کی جھلک پیش کی؟‏

۶ یہ حیرت‌انگیز واقعہ غالباً کوہِ‌حرمون کی کسی ایک چوٹی پر پیش آیا تھا جہاں یسوع اور اس کے تین رسولوں نے رات بسر کی تھی۔‏ تبدیلیٔ‌ہیئت کا واقعہ رات کے وقت پیش آیا جس سے یہ اَور بھی زیادہ اثرآفرین ثابت ہوا۔‏ یسوع نے موسیٰ اور ایلیاہ کے حقیقت میں وہاں موجود نہ ہونے کی وجہ سے اُسے رویا کہا تھا کیونکہ وہ تو مدتوں پہلے وفات پا چکے تھے۔‏ درحقیقت صرف مسیح وہاں موجود تھا۔‏ (‏متی ۱۷:‏۸،‏ ۹‏)‏ یسوع کی تبدیلیٔ‌ہیئت کے نظروں کو خیرہ کر دینے والے نظارے میں پطرس،‏ یعقوب اور یوحنا نے بادشاہتی اختیار میں یسوع کی پُرجلال موجودگی کی دلکش پیشگی جھلک دیکھی۔‏ موسیٰ اور ایلیاہ یسوع کے ممسوح ساتھی وارثوں کے مماثل ہیں اور رویا نے بادشاہت اور اُسکی آئندہ حکومت کی بابت اُسکی شہادت کو مزید مستند قرار دیا۔‏

۷.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ تبدیلیٔ‌ہیئت پطرس کی یادداشت میں کئی سال بعد تک بھی تازہ تھی؟‏

۷ اس تبدیلیٔ‌ہیئت نے تین رسولوں کے ایمان کو مضبوط کرنے میں مدد کی جو مسیحی کلیسیا میں اہم کردار ادا کرنے والے تھے۔‏ مسیح کا تابناک چہرہ،‏ اس کی جگمگاتی ہوئی پوشاک اور یسوع کو پیارا بیٹا کہنے اور اُسکی سننے کی ہدایت کرنے والی یہوواہ کی آواز—‏ان تمام باتوں نے اپنا مقصد بڑے مؤثر انداز میں انجام دیا۔‏ لیکن رسولوں کو یسوع کی قیامت تک اس رویا کا کسی سے ذکر نہیں کرنا تھا۔‏ تقریباً ۳۲ سال بعد بھی یہ رویا پطرس کے ذہن میں واضح تھی۔‏ اس نے رویا اور اس کی اہمیت کو نمایاں کرتے ہوئے تحریر کِیا:‏ ”‏کیونکہ جب ہم نے تمہیں اپنے خداوند یسوؔع مسیح کی قدرت اور آمد سے واقف کِیا تھا تو دغابازی کی گھڑی ہوئی کہانیوں کی پیروی نہیں کی تھی بلکہ خود اُس کی عظمت کو دیکھا تھا۔‏ کہ اُس نے خدا باپ سے اُس وقت عزت اور جلال پایا جب اُس افضل جلال میں سے اُسے یہ آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں۔‏ اور جب ہم اُس کے ساتھ مُقدس پہاڑ پر تھے تو آسمان سے یہی آواز آتی سنی۔‏“‏—‏۲-‏پطرس ۱:‏۱۶-‏۱۸‏۔‏

۸.‏ (‏ا)‏اپنے بیٹے کے متعلق خدا کے اعلان نے کس چیز پر توجہ مبذول کرائی؟‏ (‏ب)‏ تبدیلیٔ‌ہیئت کے وقت ظاہر ہونے والے بادل نے کس بات کی علامت پیش کی؟‏

۸ اہم‌ترین بات خدا کا اعلان تھا:‏ ”‏یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں اِسکی سنو۔‏“‏ یہ اعلان خدا کے تخت‌نشین بادشاہ کے طور پر یسوع پر ہماری توجہ مبذول کراتا ہے جس کی تمام مخلوقات کو مکمل تابعداری کرنی چاہئے۔‏ سایہ کر لینے والے بادل نے ظاہر کِیا کہ اس نبوّتی رویا کی تکمیل نادیدہ ہوگی۔‏ بادشاہتی اختیار میں یسوع کی نادیدہ موجودگی کا ”‏نشان“‏ پہچاننے والے لوگ ہی اپنی عقل کی آنکھوں سے اسے سمجھنے کے قابل ہونگے۔‏ (‏متی ۲۴:‏۳‏)‏ درحقیقت،‏ جب تک وہ مُردوں میں سے نہ جی اُٹھے اس رویا کا کسی سے ذکر نہ کرنے کی یسوع کی ہدایت ظاہر کرتی ہے کہ اُسے سرفرازی اور تجلیل اپنی قیامت کے بعد حاصل ہوگی۔‏

۹.‏ تبدیلیٔ‌ہیئت سے ہمارا ایمان کیوں مضبوط ہونا چاہئے؟‏

۹ اس تبدیلیٔ‌ہیئت کا ذکر کرنے کے بعد،‏ پطرس نے بیان کِیا:‏ ”‏اور ہمارے پاس نبیوں کا وہ کلام ہے جو زیادہ معتبر ٹھہرا اور تم اچھا کرتے ہو جو یہ سمجھ کر اُس پر غور کرتے ہو کہ وہ ایک چراغ ہے جو اندھیری جگہ میں روشنی بخشتا ہے جب تک پوَ نہ پھٹے اور صبح کا ستارہ تمہارے دلوں میں نہ چمکے۔‏ اور پہلے یہ جان لو کہ کتابِ‌مُقدس کی کسی نبوّت کی بات کی تاویل کسی کے ذاتی اختیار پر موقوف نہیں۔‏ کیونکہ نبوّت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ آدمی رُوح‌اُلقدس کی تحریک کے سبب سے خدا کی طرف سے بولتے تھے۔‏“‏ (‏۲-‏پطرس ۱:‏۱۹-‏۲۱‏)‏ تبدیلیٔ‌ہیئت خدا کے نبوّتی کلام کے قابلِ‌اعتماد ہونے کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔‏ ہمیں الہٰی حمایت اور پسندیدگی سے عاری ”‏دغابازی کی گھڑی ہوئی جھوٹی کہانیوں“‏ کی بجائے نبوّتی کلام پر توجہ دینی چاہئے۔‏ خدا کے نبوّتی کلام پر ہمارے ایمان کو تبدیلیٔ‌ہیئت کے ذریعے تقویت پانی چاہئے کیونکہ یسوع کے جلال اور بادشاہتی اختیار کی پیشگی رویتی جھلک ایک حقیقت بن چکی ہے۔‏ مزیدبرآں،‏ ہمارے پاس ناقابلِ‌تردید شہادت ہے کہ مسیح آجکل بااختیار آسمانی بادشاہ کی حیثیت سے موجود ہے۔‏

صبح کا ستارہ کس طرح طلوع ہوتا ہے

۱۰.‏ وہ ”‏صبح کا ستارہ“‏ کون ہے جس کا ذکر پطرس نے کِیا اور آپ ایسا جواب کیوں دیتے ہیں؟‏

۱۰‏-‏پطرس نے لکھا:‏ ”‏تم اچھا کرتے ہو جو یہ سمجھ کر اُس [‏نبوّتی کلام]‏ پر غور کرتے ہو کہ وہ ایک چراغ ہے جو اندھیری جگہ میں روشنی بخشتا ہے جب تک پوَ نہ پھٹے اور صبح کا ستارہ .‏ .‏ .‏ نہ چمکے۔‏“‏ ”‏صبح کا ستارہ“‏ کون ہے؟‏ لفظ ”‏صبح کا ستارہ“‏ اُردو بائبل میں ایک سے زیادہ مرتبہ آیا ہے۔‏ مکاشفہ ۲۲:‏۱۶ میں یسوع مسیح کو ”‏صبح کا چمکتا ہوا ستارہ“‏ کہا گیا ہے۔‏ سال کے بعض موسموں میں،‏ ایسے ستارے مشرقی اُفق پر سب سے آخر میں طلوع ہوتے ہیں۔‏ طلوعِ‌آفتاب سے ذرا پہلے نمودار ہونے والے یہ ستارے ایک نئے دن کی خبر دیتے ہیں۔‏ پطرس نے یسوع کا بادشاہتی اختیار حاصل کرنے کے بعد حوالہ دینے کے لئے لفظ ”‏صبح کا ستارہ“‏ استعمال کِیا۔‏ اس وقت وہ ہماری زمین سمیت تمام کائنات کے لئے طلوع ہوا!‏ مسیحائی صبح کے ستارے کی حیثیت سے وہ تمام فرمانبردار نوعِ‌انسان کیلئے طلوع ہونے والے ایک نئے دن یا دَور کی خبر دیتا ہے۔‏

۱۱.‏ (‏ا)‏۲-‏پطرس ۱:‏۱۹ کا یہ مطلب کیوں نہیں ہے کہ ”‏صبح کا ستارہ“‏ حقیقی انسانی دلوں میں اُبھرتا ہے؟‏ (‏ب)‏ آپ.‏ ۲-‏پطرس ۱:‏۱۹ کی وضاحت کیسے کریں گے؟‏

۱۱ بائبل کے بہت سے مترجمین اس نظریے کو فروغ دیتے ہیں کہ ۲-‏پطرس ۱:‏۱۹ میں درج پطرس کے الفاظ انسان کے طبعی دل کا حوالہ دیتے ہیں۔‏ ایک بالغ کے دل کا وزن تقریباً ۹ سے ۱۱ اونس ہوتا ہے۔‏ یسوع مسیح—‏اس وقت آسمان میں ایک غیرفانی روحانی مخلوق—‏ان چھوٹے چھوٹے انسانی اعضا میں کیسے نمودار ہو سکتا ہے؟‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۶‏)‏ بیشک،‏ اس معاملے میں ہمارے علامتی دل کا کوئی عمل‌دخل ضرور ہے کیونکہ اسی سے ہم خدا کے نبوّتی کلام پر دھیان دیتے ہیں۔‏ تاہم اگر آپ.‏ ۲-‏پطرس ۱:‏۱۹ کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو آپ دیکھیں گے کہ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن ‏”‏جب تک پوَ نہ پھٹے اور صبح کا ستارہ .‏ .‏ .‏ نہ چمکے“‏ کے جُزوجملہ کے بعد سکتہ استعمال کرتا ہے جو اسے آیت کے ابتدائی الفاظ اور ”‏تمہارے دلوں میں“‏ کے اظہار سے بالکل علیٰحدہ کر دیتا ہے۔‏ اس آیت کو یوں بھی پڑھا جا سکتا ہے:‏ ’‏ہمارے پاس نبیوں کا وہ کلام ہے جو زیادہ معتبر ٹھہرا اور تم اچھا کرتے ہو جو یہ سمجھ کر اُس پر غور کرتے ہو کہ وہ ایک چراغ ہے جو اندھیری جگہ یعنی تمہارے دلوں میں روشنی بخشتا ہے جب تک پَو نہ پھٹے اور صبح کا ستارہ نہ چمکے۔‏‘‏

۱۲.‏ انسانی دلوں کی عام حالت کیسی ہے لیکن حقیقی مسیحیوں کی بابت کیا بات سچ ہے؟‏

۱۲ گنہگار نوعِ‌انسان کے علامتی دلوں کی عام حالت کیا ہے؟‏ بیشک،‏ انکے دل روحانی تاریکی میں ہیں!‏ تاہم،‏ اگر ہم سچے مسیحی ہیں تو گویا ہمارے دلوں میں ایک چراغ چمکتا ہے جو بصورتِ‌دیگر تاریک ہونگے۔‏ پطرس کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کے روشن نبوّتی کلام پر دھیان دینے سے حقیقی مسیحی ایک نئے دن کے طلوع ہونے کی بابت ہوشیاروبیدار رہ سکتے ہیں۔‏ وہ اس حقیقت سے باخبر ہونگے کہ صبح کا ستارہ انسان کے طبعی دلوں کی بجائے،‏ ساری مخلوق کے سامنے نمودار ہو چکا ہے۔‏

۱۳.‏ (‏ا)‏ہم کیوں یقین رکھ سکتے ہیں کہ صبح کا ستارہ پہلے ہی سے طلوع ہو چکا ہے؟‏ (‏ب)‏ یسوع نے ہمارے زمانے کیلئے جن مشکل حالتوں کی پیشینگوئی کی تھی مسیحی اُنہیں کیوں برداشت کر سکتے ہیں؟‏

۱۳ صبح کا ستارہ پہلے ہی طلوع ہو چکا ہے!‏ ہم یسوع کی موجودگی کے متعلق اس کی عظیم پیشینگوئی پر دھیان دینے سے اس بات کا یقین کر سکتے ہیں۔‏ آجکل،‏ ہم بےمثال جنگوں،‏ قحطوں،‏ زلزلوں اور خوشخبری کی عالمگیر منادی جیسے واقعات میں اسکی تکمیل کا تجربہ کر رہے ہیں۔‏ (‏متی ۲۴:‏۳-‏۱۴‏)‏ مسیحیوں کے طور پر یسوع کی بیان‌کردہ تکلیف‌دہ حالتوں سے متاثر ہونے کے باوجود ہم اطمینان اور خوشدلی کے ساتھ برداشت کرنے کے قابل ہیں۔‏ کیوں؟‏ اس لئےکہ ہم خدا کے نبوّتی کلام پر دھیان دیتے ہیں اور مستقبل کی بابت اُس کے وعدے پر ایمان رکھتے ہیں۔‏ ہم جانتے ہیں کہ ہم بہترین دور کی دہلیز پر کھڑے ہیں کیونکہ ہم ”‏آخری زمانہ“‏ میں بہت آگے نکل آئے ہیں!‏ (‏دانی‌ایل ۱۲:‏۴‏)‏ دُنیا بڑی مایوس‌کُن حالت میں ہے جس کی بابت یسعیاہ ۶۰:‏۲ میں پہلے ہی سے بتا دیا گیا تھا:‏ ”‏دیکھ تاریکی زمین پر چھا جائے گی اور تیرگی امتوں پر۔‏“‏ کوئی اس تاریکی میں سے اپنا راستہ کیسے تلاش کر سکتا ہے؟‏ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے لوگوں کو خدا کے نبوّتی کلام پر اب فروتنی سے توجہ دینی چاہئے۔‏ خلوصدل لوگوں کو زندگی اور نُور کے منبع یہوواہ خدا کی طرف رُجوع کرنے کی ضرورت ہے۔‏ (‏زبور ۳۶:‏۹؛‏ اعمال ۱۷:‏۲۸‏)‏ صرف ایسا کرنے سے کوئی شخص حقیقی روشن‌خیالی اور اس شاندار مستقبل کو حاصل کر سکتا ہے جس کا خدا نے فرمانبردار نوعِ‌انسان کے لئے مقصد ٹھہرایا ہے۔‏—‏مکاشفہ ۲۱:‏۱-‏۵‏۔‏

‏”‏نُور دُنیا میں آیا ہے“‏

۱۴.‏ بائبل کی شاندار پیشینگوئیوں کی تکمیل کا تجربہ کرنے کیلئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏

۱۴ صحائف واضح کرتے ہیں کہ یسوع مسیح اِس وقت بادشاہ کے طور پر حکمرانی کر رہا ہے۔‏ اُسکے ۱۹۱۴ میں اختیار سنبھالنے کی وجہ سے،‏ دیگر شاندار پیشینگوئیوں کی تکمیل ابھی باقی ہے۔‏ ہمیں ان کی تکمیل کا تجربہ کرنے کیلئے خود کو حلم‌مزاج اشخاص ثابت کرنا ہوگا جو گنہگارانہ کاموں اور لاعلمی میں کی گئی تقصیروں سے توبہ کرتے ہوئے یسوع مسیح پر ایمان لاتے ہیں۔‏ بِلاشُبہ،‏ تاریکی سے محبت رکھنے والے ہمیشہ کی زندگی حاصل نہیں کر پائیں گے۔‏ یسوع نے بیان کِیا:‏ ”‏سزا کے حکم کا سبب یہ ہے کہ نُور دُنیا میں آیا ہے اور آدمیوں نے تاریکی کو نُور سے زیادہ پسند کِیا۔‏ اسلئےکہ اُنکے کام بُرے تھے۔‏ کیونکہ جو کوئی بدی کرتا ہے وہ نُور سے دُشمنی رکھتا ہے اور نُور کے پاس نہیں آتا۔‏ ایسا نہ ہو کہ اُسکے کاموں پر ملامت کی جائے۔‏ مگر جو سچائی پر عمل کرتا ہے وہ نُور کے پاس آتا ہے تاکہ اُسکے کام ظاہر ہوں کہ وہ خدا میں کئے گئے ہیں۔‏“‏—‏یوحنا ۳:‏۱۹-‏۲۱‏۔‏

۱۵.‏ خدا نے اپنے بیٹے کے وسیلے سے جس نجات کو ممکن بنایا ہے اگر ہم اُسے نظرانداز کر دیتے ہیں تو کیا واقع ہوگا؟‏

۱۵ روحانی روشنی دُنیا میں یسوع کے ذریعے آئی ہے اور اسکی باتوں پر توجہ دینا نہایت اہم ہے۔‏ پولس نے لکھا:‏ ”‏اگلے زمانہ میں خدا نے باپ دادا سے حصہ‌بہ‌حصہ اور طرح‌بہ‌طرح نبیوں کی معرفت کلام کر کے۔‏ اس زمانہ کے آخر میں ہم سے بیٹے کی معرفت کلام کِیا جسے اُس نے سب چیزوں کا وارث ٹھہرایا۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱:‏۱،‏ ۲‏)‏ اگر ہم اس نجات سے غفلت برتیں جسے یہوواہ خدا نے اپنے بیٹے کے ذریعے ممکن بنایا تو کیا واقع ہوگا؟‏ پولس آگے بیان کرتا ہے:‏ ”‏جو کلام فرشتوں کی معرفت فرمایا گیا تھا جب وہ قائم رہا اور ہر قصور اور نافرمانی کا ٹھیک ٹھیک بدلہ ملا۔‏ تو اتنی بڑی نجات سے غافل رہ کر ہم کیونکر بچ سکتے ہیں؟‏ جسکا بیان پہلے خداوند کے وسیلہ سے ہوا اور سننے والوں سے ہمیں پایۂ‌ثبوت کو پہنچا۔‏ اور ساتھ ہی خدا بھی اپنی مرضی کے موافق نشانوں اور عجیب کاموں اور طرح طرح کے معجزوں اور رُوح‌اُلقدس کی نعمتوں کے ذریعہ سے اُسکی گواہی دیتا رہا۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۲:‏۲-‏۴‏)‏ جی‌ہاں،‏ یسوع نبوّتی کلام کے اعلان کا مرکز ہے۔‏—‏مکاشفہ ۱۹:‏۱۰‏۔‏

۱۶.‏ ہم یہوواہ خدا کی تمام پیشینگوئیوں پر پورا ایمان کیوں رکھ سکتے ہیں؟‏

۱۶ جیسا کہ بیان کِیا گیا کہ پطرس نے کہا تھا:‏ ”‏کتابِ‌مُقدس کی کسی نبوّت کی بات کی تاویل کسی کے ذاتی اختیار پر موقوف نہیں۔‏“‏ انسان اپنی مرضی سے سچی پیشینگوئی نہیں کر سکتے البتہ ہم خدا کی تمام پیشینگوئیوں پر پورا اعتماد رکھ سکتے ہیں۔‏ یہوواہ خدا ہی انکا ماخذ ہے۔‏ اپنی رُوح‌اُلقدس کے ذریعے اس نے اپنے خادموں کو یہ سمجھنے کے قابل بنایا ہے کہ کیسے بائبل پیشینگوئیاں تکمیل‌پذیر ہیں۔‏ واقعی،‏ ہم یہوواہ کے شکرگزار ہیں کہ ہم نے ۱۹۱۴ کے سال سے لیکر بائبل کی بہتیری پیشینگوئیوں کی تکمیل دیکھی ہے۔‏ نیز ہمیں پورا یقین ہے کہ اس شریر دُنیا کے خاتمے کی بابت باقی پیشینگوئیاں بھی ضرور پوری ہونگی۔‏ یہ نہایت اہم ہے کہ جب ہم اپنی روشنی چمکاتے ہیں تو ہم مستعدی سے الہٰی پیشینگوئیوں پر دھیان دیں۔‏ (‏متی ۵:‏۱۶‏)‏ ہم کتنے شکرگزار ہیں کہ یہوواہ کا کلام آجکل دُنیا پر چھائی ہوئی ’‏گہری تاریکی میں ہمارے لئے روشنی چمکا‘‏ رہا ہے!‏—‏یسعیاہ ۵۸:‏۱۰‏۔‏

۱۷.‏ ہمیں خدا کی طرف سے روحانی روشنی کی ضرورت کیوں ہے؟‏

۱۷ طبعی روشنی ہمیں دیکھنے کے قابل بناتی ہے۔‏ یہ فصلوں کی نشوونما کو بھی ممکن بناتی ہے جو ہمیں مختلف قِسم کی خوراک فراہم کرتی ہیں۔‏ ہم طبعی روشنی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔‏ روحانی روشنی کی بابت کیا ہے؟‏ یہ ہمیں راہنمائی دیتی اور خدا کے کلام،‏ بائبل میں پہلے سے بیان‌کردہ مستقبل کو عیاں کرتی ہے۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۱۰۵‏)‏ یہوواہ خدا مشفقانہ طور پر ’‏اپنا نُور اور اپنی سچائی بھیجتا ہے۔‏‘‏ (‏زبور ۴۳:‏۳‏)‏ یقیناً ہمیں ایسی فراہمیوں کیلئے گہری قدردانی ظاہر کرنی چاہئے۔‏ پس،‏ آئیے ”‏خدا کے جلال کی پہچان“‏ کی اس روشنی کو حاصل کرنے کی پوری کوشش کریں جس سے ہمارے علامتی دل زیادہ روشن ہوں۔‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۶؛‏ افسیوں ۱:‏۱۸‏۔‏

۱۸.‏ یہوواہ کا صبح کا ستارہ اب کیا کرنے کیلئے تیار ہے؟‏

۱۸ ہم یہ جان کر کتنے خوش ہیں کہ ۱۹۱۴ میں صبح کا ستارہ،‏ یسوع مسیح،‏ تمام کائنات میں طلوع ہوا اور تبدیلیٔ‌ہیئت کی شاندار رویا کو پورا کرنا شروع کِیا!‏ یہوواہ کا صبح کا ستارہ اِس وقت اُفق پر موجود ہے اور تبدیلیٔ‌ہیئت کی مزید تکمیل—‏”‏قادرِمطلق خدا کے روزِعظیم کی لڑائی“‏—‏میں خدا کے مقصد کو پورا کرنے کیلئے تیار ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۶:‏۱۴،‏ ۱۶‏)‏ اس فرسودہ نظام کے خاتمے کے بعد،‏ یہوواہ ”‏نئے آسمان اور نئی زمین“‏ کے وعدے کو ضرور پورا کریگا جہاں ہم کائنات کے حاکمِ‌اعلیٰ اور سچی پیشینگوئی کرنے والے خدا کی ہمیشہ تک حمد کر سکیں گے۔‏ (‏۲-‏پطرس ۳:‏۱۳‏)‏ اُس عظیم دن کے آنے تک،‏ آئیے ہم خدا کے نبوّتی کلام پر دھیان دینے سے الہٰی روشنی میں چلتے رہیں۔‏

آپ کیسے جواب دینگے؟‏

‏• آپ یسوع کی تبدیلیٔ‌ہیئت کو کیسے بیان کریں گے؟‏

‏• تبدیلیٔ‌ہیئت ہمارے ایمان کو کیسے مضبوط کرتی ہے؟‏

‏• یہوواہ کا صبح کا ستارہ کون ہے اور یہ کب طلوع ہؤا؟‏

‏• ہمیں خدا کے نبوّتی کلام پر کیوں دھیان دینا چاہئے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر]‏

کیا آپ تبدیلیٔ‌ہیئت کی اہمیت بیان کر سکتے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

صبح کا ستارہ طلوع ہو چکا ہے۔‏ کیا آپ جانتے ہیں کہ کب اور کیسے؟‏