مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا آپ یسوع کی طرح عمل کرنے کی تحریک پاتے ہیں؟‏

کیا آپ یسوع کی طرح عمل کرنے کی تحریک پاتے ہیں؟‏

کیا آپ یسوع کی طرح عمل کرنے کی تحریک پاتے ہیں؟‏

‏”‏اُس نے .‏ .‏ .‏ بڑی بِھیڑ دیکھی اور اُسے اُن پر ترس آیا کیونکہ وہ اُن بھیڑوں کی مانند تھے جنکا چرواہا نہ ہو اور وہ اُنکو .‏ .‏ .‏ تعلیم دینے لگا۔‏“‏—‏مرقس ۶:‏۳۴‏۔‏

۱.‏ لوگوں کا قابلِ‌تعریف صفات کا مظاہرہ کرنا قابلِ‌فہم بات کیوں ہے؟‏

پوری تاریخ کے دوران بہتیرے اشخاص قابلِ‌تعریف صفات ظاہر کرتے رہے ہیں۔‏ آپ اس کی وجہ سمجھ سکتے ہیں۔‏ یہوواہ خدا محبت،‏ مہربانی،‏ فیاضی اور دیگر صفات کا مالک ہے اور انہیں ظاہر کرتا ہے جن کی ہم توقیر کرتے ہیں۔‏ انسان خدا کی شبِیہ پر خلق کئے گئے تھے۔‏ پس ہم سمجھ سکتے ہیں کہ کیوں بہتیرے انسان کسی حد تک محبت،‏ مہربانی،‏ دردمندی اور دیگر الہٰی صفات کا مظاہرہ کرتے ہیں،‏ کئی تو ضمیر سے بھی کام لیتے ہیں۔‏ (‏پیدایش ۱:‏۲۶؛‏ رومیوں ۲:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ تاہم،‏ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ بعض دوسروں کی نسبت بِلاہچکچاہٹ ان صفات کو ظاہر کرتے ہیں۔‏

۲.‏ بعض نیک کام کونسے ہیں جو لوگ شاید یہ سمجھتے ہوئے کرتے ہیں کہ وہ مسیح کی نقل کر رہے ہیں؟‏

۲ ممکن ہے کہ آپ ایسے مردوزن سے واقف ہوں جو اکثر بیماروں کی عیادت کیلئے جاتے،‏ معذوروں کیلئے رحم کا اظہار کرتے یا فیاضی سے غریبوں کی مدد کرتے ہیں۔‏ ذرا اُن لوگوں کی بابت بھی سوچیں جنہوں نے رحم سے تحریک پا کر اپنی ساری زندگی کوڑھ کے ہسپتالوں یا یتیم‌خانوں میں کام کرنے کے لئے وقف کر دی ہے،‏ پھر ایسے لوگ بھی ہیں جو ہسپتالوں میں رضاکارانہ خدمت انجام دیتے ہیں،‏ یا وہ لوگ جو بےخانماں یا پناہ‌گزینوں کی مدد کیلئے کوشاں ہیں۔‏ غالباً،‏ ان میں سے بعض محسوس کرتے ہیں کہ وہ ایسا کرنے سے یسوع کی نقل کر رہے ہیں جس نے مسیحیوں کیلئے نمونہ قائم کِیا ہے۔‏ ہم اناجیل میں پڑھتے ہیں کہ مسیح نے بیماروں کو شفا دی اور بھوکوں کو کھانا کھلایا۔‏ (‏مرقس ۱:‏۳۴؛‏ ۸:‏۱-‏۹؛‏ لوقا ۴:‏۴۰‏)‏ یسوع کی محبت،‏ شفقت اور دردمندی کے اظہارات ”‏مسیح کی عقل“‏ کے آئینہ‌دار ہیں جس نے اپنے آسمانی باپ کی نقل کی تھی۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۲:‏۱۶‏۔‏

۳.‏ یسوع کے نیک کاموں کے متعلق متوازن نظریہ رکھنے کیلئے ہمیں کس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے؟‏

۳ تاہم،‏ کیا آپ نے مشاہدہ کِیا ہے کہ آجکل یسوع کی محبت اور دردمندی سے متاثر ہونے والے بہتیرے اشخاص مسیح کی عقل کی ایک بنیادی خصوصیت کو نظرانداز کر دیتے ہیں؟‏ ہم مرقس ۶ باب کا بغور جائزہ لینے سے اس کی بصیرت حاصل کر سکتے ہیں۔‏ ہم وہاں پڑھتے ہیں کہ لوگ ایک بیمار کو یسوع کے پاس لائے کہ وہ اُسے شفا دے۔‏ ہم سیاق‌وسباق سے بھی سیکھتے ہیں کہ یسوع نے اپنے پاس آنے والے ہزاروں لوگوں کو بھوکا دیکھ کر انہیں معجزانہ طور پر سیر کِیا تھا۔‏ (‏مرقس ۶:‏۳۵-‏۴۴،‏ ۵۴-‏۵۶‏)‏ بیماروں کو شفا دینا اور بھوکوں کو کھانا کھلانا مشفقانہ دردمندی کے نمایاں اظہارات تھے لیکن کیا یہی وہ اوّلین طریقے تھے جن سے یسوع نے دوسروں کی مدد کی تھی؟‏ نیز ہم محبت،‏ مہربانی اور دردمندی کے اُسکے کامل نمونے کی نقل کیسے کر سکتے ہیں جیسے کہ اس نے بھی یہوواہ کی نقل کی تھی؟‏

روحانی ضروریات کیلئے جوابی‌عمل دکھانے کی تحریک پائی

۴.‏ مرقس ۶:‏۳۰-‏۳۴ کے بیان کا پس‌منظر کیا ہے؟‏

۴ یسوع نے اپنے اِردگِرد کے لوگوں کیلئے بنیادی طور پر انکی روحانی ضروریات کی وجہ سے ترس محسوس کِیا۔‏ یہ ضروریات جسمانی ضروریات سے زیادہ اہمیت کی حامل تھیں۔‏ مرقس ۶:‏۳۰-‏۳۴ کے بیان پر غور کریں۔‏ یہاں پر درج واقعہ ۳۲ س.‏ع.‏ کی فسح کے وقت کے قریب،‏ گلیل کی جھیل کے کنارے پر رُونما ہؤا۔‏ رسولوں کے پاس خوش ہونے کی معقول وجہ تھی۔‏ تھوڑی دیر پہلے ایک وسیع دورہ ختم کرنے کے بعد،‏ وہ یسوع کے پاس آئے اور بِلاشُبہ اسے اپنے تجربات بتانے کے مشتاق تھے۔‏ تاہم،‏ وہاں ایک بِھیڑ جمع ہو گئی۔‏ یہ بِھیڑ اتنی بڑی تھی کہ یسوع اور اس کے رسول نہ کھانا کھا سکتے تھے اور نہ ہی آرام کر سکتے تھے۔‏ یسوع نے رسولوں سے کہا:‏ ”‏تم آپ الگ ویران جگہ میں چلے آؤ اور ذرا آرام کرو۔‏“‏ (‏مرقس ۶:‏۳۱‏)‏ غالباً کفرنحوم کے نزدیک ایک کشتی میں بیٹھ کر وہ گلیل کی جھیل کے پار ایک ویران جگہ چلے گئے۔‏ لیکن بِھیڑ کنارے کیساتھ ساتھ بھاگ کر کشتی سے پہلے وہاں پہنچ گئی۔‏ یسوع اب کیسا جوابی‌عمل دکھائے گا؟‏ کیا وہ اپنے آرام میں خلل پڑنے کی وجہ سے برہم ہو گیا تھا؟‏ ہرگز نہیں!‏

۵.‏ اپنے پاس آنے والی بِھیڑ کی بابت یسوع نے کیسا محسوس کِیا اور اس کے جواب میں اس نے کیا کِیا؟‏

۵ اپنے انتظار میں کھڑے ہزاروں لوگوں کو دیکھ کر جس میں بیمار لوگ بھی شامل تھے یسوع کا دل رحم سے بھر گیا۔‏ (‏متی ۱۴:‏۱۴؛‏ مرقس ۶:‏۴۴‏)‏ یسوع کے رحم اور ردِعمل پر توجہ مبذول کراتے ہوئے مرقس لکھتا ہے:‏ ”‏اُس نے .‏ .‏ .‏ بڑی بِھیڑ دیکھی اور اُسے اُن پر ترس آیا کیونکہ وہ اُن بھیڑوں کی مانند تھے جنکا چرواہا نہ ہو اور وہ اُنکو بہت سی باتوں کی تعلیم دینے لگا۔‏“‏ (‏مرقس ۶:‏۳۴‏)‏ یسوع نے لوگوں کے بڑے ہجوم کو ہی نہیں دیکھا۔‏ اس نے روحانی حاجتمندوں کو دیکھا تھا۔‏ وہ بھٹکی ہوئی بےیارومددگار بھیڑوں کی مانند تھے جن کا کوئی چرواہا نہیں تھا کہ انہیں ہری چراگاہوں کی طرف لے جائے یا انکی حفاظت کرے۔‏ یسوع جانتا تھا کہ سنگدل مذہبی راہنما جنہیں مبیّنہ طور پر فکر رکھنے والے چرواہے ہونا چاہئے تھا،‏ درحقیقت عام لوگوں کی حقارت کرتے اور انکی روحانی ضروریات سے غفلت برتتے تھے۔‏ (‏حزقی‌ایل ۳۴:‏۲-‏۴؛‏ یوحنا ۷:‏۴۷-‏۴۹‏)‏ یسوع اُن کیساتھ مختلف طریقے سے پیش آتا اور اُن کیلئے زیادہ سے زیادہ بھلائی کے کام انجام دیتا تھا۔‏ وہ انہیں خدا کی بادشاہت کی بابت تعلیم دینے لگا۔‏

۶،‏ ۷.‏ (‏ا)‏اناجیل کے مطابق لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے سلسلے میں یسوع کس چیز کو ترجیح دیتا تھا؟‏ (‏ب)‏ یسوع نے کس محرک کیساتھ منادی کی اور تعلیم دی؟‏

۶ ایک مماثل بیان پر غور کیجئے جس میں اسی بات کو ترجیح دی گئی ہے۔‏ یہ لوقا نے تحریر کِیا جو ایک طبیب تھا اور دوسروں کی تندرستی میں گہری دلچسپی رکھتا تھا۔‏ ”‏بِھیڑ [‏یسوع]‏ کے پیچھے گئی اور وہ خوشی کے ساتھ اُن سے ملا اور اُن سے خدا کی بادشاہی کی باتیں کرنے لگا اور جو شفا پانے کے محتاج تھے اُنہیں شفا بخشی۔‏“‏ ‏(‏لوقا ۹:‏۱۱؛‏ کلسیوں ۴:‏۱۴‏)‏ اگرچہ یہ بات ہر معجزے کی سرگزشت میں تو نہیں پائی جاتی تو بھی لوقا کا الہامی بیان پہلے کیا وضاحت پیش کرتا ہے؟‏ حقیقت یہ تھی کہ یسوع نے لوگوں کو تعلیم دی۔‏

۷ جس بات پر مرقس ۶:‏۳۴ میں زور دیا گیا ہے یہ اُس سے متفق ہے۔‏ یہ آیت صاف بیان کرتی ہے کہ یسوع نے کیسے بنیادی طور پر اپنے ترس کا اظہار کرنے کی تحریک پائی تھی۔‏ اس نے لوگوں کی روحانی ضروریات سے اثرپذیر ہو کر اُنہیں تعلیم دی۔‏ اپنی خدمتگزاری کے شروع میں یسوع کہہ چکا تھا:‏ ”‏مجھے اَور شہروں میں بھی خدا کی بادشاہی کی خوشخبری سنانا ضرور ہے کیونکہ مَیں اسی لئے بھیجا گیا ہوں۔‏“‏ (‏لوقا ۴:‏۴۳‏)‏ تاہم،‏ اگر ہم یہ سوچیں کہ یسوع بادشاہتی پیغام کی منادی محض رسمی طور پر کرتا تھا یا اسے ایک ایسا کام خیال کرتا تھا جسے ہر حال میں پورا کرنا اُسکا فرض تھا تو ہم غلطی پر ہونگے۔‏ اِسکی بجائے،‏ لوگوں کیلئے مشفقانہ دردمندی نے ہی اُسے بنیادی طور پر اُنہیں خوشخبری سنانے کی تحریک دی تھی۔‏ خدا کی بادشاہت کی بابت سچائی کو جاننے،‏ قبول کرنے اور اسکی قدر کرنے میں مدد دینا ہی وہ قطعی بھلائی تھی جو یسوع بیماروں،‏ بدروح‌گرفتہ لوگوں،‏ غریبوں یا بھوکوں سمیت تمام لوگوں کیلئے انجام دے سکتا تھا۔‏ یہوواہ کی حاکمیت کی سربلندی اور انسانوں کیلئے دائمی برکات فراہم کرنے میں بادشاہت کے کردار کی وجہ سے یہ سچائی مرکزی اہمیت کی حامل تھی۔‏

۸.‏ یسوع نے اپنی منادی اور تعلیم کی بابت کیسا محسوس کِیا؟‏

۸ بادشاہت کی بابت یسوع کی سرگرم منادی ہی اُسکے زمین پر آنے کی بنیادی وجہ تھی۔‏ اپنی زمینی خدمتگزاری کے اختتام پر یسوع نے پیلاطُس کو بتایا:‏ ”‏مَیں اسلئے پیدا ہؤا اور اس واسطے دُنیا میں آیا ہوں کہ حق پر گواہی دوں۔‏ جو کوئی حقانی ہے میری آواز سنتا ہے۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۸:‏۳۷‏)‏ ہم نے پچھلے دو مضامین سے سیکھ لیا ہے کہ یسوع نرم‌دل—‏دوسروں کی پرواہ کرنے والا،‏ قابلِ‌رسائی،‏ بامروت،‏ دوسروں پر اعتماد کرنے والا اور سب سے بڑھ کر محبت کرنے والا—‏شخص تھا۔‏ اگر ہم واقعی مسیح کی عقل کو جاننا چاہتے ہیں تو ہمیں اسکی شخصیت کے ان پہلوؤں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔‏ یہ بات سمجھنا بھی یکساں اہمیت کا حامل ہے کہ مسیح کی عقل میں منادی اور تعلیم کے کام کو ویسی ہی ترجیح دینا شامل ہے جیسی اُس نے دی تھی۔‏

اس نے دوسروں کو گواہی دینے کی تاکید کی

۹.‏ کن کیلئے منادی کرنے اور تعلیم دینے کے کام کو ترجیح ملنی تھی؟‏

۹ محبت اور دردمندی کے اظہار کے طور پر منادی اور تعلیم کو ترجیح دینا صرف یسوع تک محدود نہیں تھا۔‏ اس نے اپنے شاگردوں کو اپنے محرکات،‏ ترجیحات اور کاموں کی نقل کرنے کی تاکید کی۔‏ مثال کے طور پر،‏ جب یسوع نے اپنے ۱۲ رسولوں کو منتخب کر لیا تو اِس کے بعد انہیں کیا کرنا تھا؟‏ مرقس ۳:‏۱۴،‏ ۱۵ ہمیں بتاتی ہیں:‏ ”‏اُس نے بارہ کو مقرر کِیا تاکہ اُس کے ساتھ رہیں اور ‏.‏ .‏ .‏ اُنکو ‏[‏بھیجا‏]‏ کہ منادی کریں۔‏ اور بدروحوں کو نکالنے کا اختیار رکھیں۔‏“‏ کیا آپ رسولوں کے لئے کسی ترجیح کو دیکھتے ہیں؟‏

۱۰،‏ ۱۱.‏ (‏ا)‏رسولوں کو بھیجتے وقت یسوع نے انہیں کیا کرنے کیلئے کہا تھا؟‏ (‏ب)‏ رسولوں کو بھیجنے کا بنیادی مقصد کیا تھا؟‏

۱۰ وقت آنے پر یسوع نے ۱۲ رسولوں کو دوسروں کو شفا دینے اور بدروحوں کو نکالنے کی صلاحیت سے نوازا۔‏ (‏متی ۱۰:‏۱؛‏ لوقا ۹:‏۱‏)‏ اس کے بعد اس نے انہیں ”‏اؔسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں“‏ کے پاس بھیجا۔‏ اُنہیں کیا کرنے کیلئے بھیجا گیا تھا؟‏ یسوع نے انہیں ہدایت دی:‏ ”‏چلتے چلتے یہ منادی کرنا کہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے۔‏ بیماروں کو اچھا کرنا۔‏ مُردوں کو جلانا۔‏ کوڑھیوں کو پاک صاف کرنا۔‏ بدروحوں کو نکالنا۔‏“‏ (‏متی ۱۰:‏۵-‏۸؛‏ لوقا ۹:‏۲‏؛‏)‏ درحقیقت،‏ انہوں نے کیا کِیا؟‏ ”‏اُنہوں نے روانہ ہو کر [‏۱]‏ منادی کی کہ توبہ کرو۔‏ اور [‏۲]‏ بہت سی بدروحوں کو نکالا اور بہت سے بیماروں کو تیل مل کر اچھا کِیا۔‏“‏—‏مرقس ۶:‏۱۲،‏ ۱۳‏۔‏

۱۱ چونکہ ہر واقعہ میں تعلیم دینے کا پہلے ذکر نہیں کِیا گیا اسلئے کیا مذکورہ‌بالا ترتیب کی پابندی کرنا ترجیحات یا متعلقہ محرکات کے معاملے پر حد سے زیادہ زور دینے کے مترادف ہوگا؟‏ (‏لوقا ۱۰:‏۱-‏۹‏)‏ درحقیقت،‏ ہمیں اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے کہ بیشتر مرتبہ شفا سے پہلے تعلیم کا ذکر کِیا گیا ہے۔‏ اس سلسلے میں سیاق‌وسباق پر غور کریں۔‏ یسوع ۱۲ رسولوں کو بھیجنے سے پہلے،‏ بِھیڑ کی حالت دیکھ کر بہت زیادہ متاثر ہؤا تھا۔‏ ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏یسوؔع سب شہروں اور گاؤں میں پھرتا رہا اور انکے عبادتخانوں میں تعلیم دیتا اور بادشاہی کی خوشخبری کی منادی کرتا اور ہر طرح کی بیماری اور ہر طرح کی کمزوری دور کرتا رہا۔‏ اور جب اس نے بِھیڑ کو دیکھا تو اسکو لوگوں پر ترس آیا کیونکہ وہ ان بھیڑوں کی مانند جنکا چرواہا نہ ہو خستہ‌حال اور پراگندہ تھے۔‏ تب اس نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ فصل تو بہت ہے لیکن مزدور تھوڑے ہیں۔‏ پس فصل کے مالک کی منت کرو کہ وہ اپنی فصل کاٹنے کے لئے مزدور بھیج دے۔‏“‏—‏متی ۹:‏۳۵-‏۳۸‏۔‏

۱۲.‏ یسوع اور رسولوں کے معجزانہ کام کونسا اضافی مقصد انجام دے سکتے تھے؟‏

۱۲ اس کے ساتھ رہنے سے رسول کسی حد تک مسیح کی عقل حاصل کر سکتے تھے۔‏ وہ سمجھ سکتے تھے کہ لوگوں کیلئے شفقت اور دردمندی کا حقیقی جذبہ رکھنے میں بادشاہت کی بابت منادی کرنا اور تعلیم دینا شامل ہے—‏جو انکے نیک کاموں کا اہم پہلو بھی ہے۔‏ اس کی مطابقت میں،‏ جسمانی نوعیت کے عمدہ کام جیسے کہ بیماروں کو شفا دینا محض ضرورتمندوں کی مدد کرنے سے زیادہ کچھ سرانجام دیتے تھے۔‏ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ بعض لوگ شفاؤں اور معجزانہ خوراک کی فراہمی سے ضرور مائل ہوئے ہونگے۔‏ (‏متی ۴:‏۲۴،‏ ۲۵؛‏ ۸:‏۱۶؛‏ ۹:‏۳۲،‏ ۳۳؛‏ ۱۴:‏۳۵،‏ ۳۶؛‏ یوحنا ۶:‏۲۶‏)‏ تاہم،‏ جسمانی مدد کے علاوہ،‏ درحقیقت ان کاموں نے مشاہدین کو یہ تسلیم کرنے کی تحریک دی کہ یسوع خدا کا بیٹا اور وہ ”‏نبی“‏ ہے جس کی موسیٰ نے پیشینگوئی کی تھی۔‏—‏یوحنا ۶:‏۱۴؛‏ استثنا ۱۸:‏۱۵‏۔‏

۱۳.‏ استثنا ۱۸:‏۱۸ میں پیشینگوئی آنے والے ”‏نبی“‏ کے کس کردار پر زور دیتی ہے؟‏

۱۳ یہ بات اہمیت کی حامل کیوں تھی کہ یسوع ”‏نبی“‏ تھا؟‏ درحقیقت،‏ اس کے کس کلیدی کردار کی پیشینگوئی کی گئی تھی؟‏ کیا معجزانہ شفاؤں یا دردمندی سے بھوکوں کے لئے کھانا فراہم کرنے کو اس ”‏نبی“‏ کی وجۂ‌شہرت ہونا تھا؟‏ استثنا ۱۸:‏۱۸ نے پیشگوئی کی:‏ ”‏مَیں اُن کے لئے اُن ہی کے بھائیوں میں سے تیری [‏موسیٰ]‏ مانند ایک نبی برپا کرونگا اور اپنا کلام اُس کے مُنہ میں ڈالونگا اور جوکچھ مَیں اُسے حکم دونگا وہی وہ اُن سے کہیگا۔‏“‏ اگرچہ رسولوں نے مشفقانہ جذبات کا اظہار کرنا سیکھ لیا تھا توبھی اُنہوں نے یہ تسلیم کِیا کہ مسیح کی عقل کو انکی منادی اور تعلیمی کارگزاری سے بھی نمایاں ہونا تھا۔‏ اس سے وہ لوگوں کے لئے زیادہ بھلائی کے کام انجام دے پائیں گے۔‏ اس طرح سے بیمار اور غریب لوگ محض قلیل انسانی عرصۂ‌حیات یا ایک یا دو وقت کی روٹی تک محدود فوائد کی بجائے دائمی فوائد حاصل کر سکتے تھے۔‏—‏یوحنا ۶:‏۲۶-‏۳۰‏۔‏

آجکل مسیح کی عقل پیدا کریں

۱۴.‏ ہمارے منادی کے کام میں مسیح کی عقل رکھنا کس طرح سے شامل ہے؟‏

۱۴ ہم میں سے کسی کو بھی یہ محسوس نہیں کرنا چاہئے کہ مسیح کی عقل صرف پہلی صدی تک ہی محدود تھی یعنی صرف یسوع اور اُن رسولوں کیلئے تھی جنکی بابت رسول پولس نے لکھا:‏ ”‏ہم میں مسیح کی عقل ہے۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۲:‏۱۶‏)‏ پس ہم خوشی سے تسلیم کرتے ہیں کہ خوشخبری کی منادی کرنا اور شاگرد بنانا ہمارا فرض ہے۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴؛‏ ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ تاہم،‏ اس کام کو کرنے کیلئے اپنے محرکات پر غور کرنا مفید ثابت ہو گا۔‏ اسے محض ڈیوٹی نہیں سمجھنا چاہئے۔‏ خدا کی محبت ہمارے لئے خدمتگزاری میں حصہ لینے کی اوّلین وجہ ہے اور حقیقی طور پر یسوع کی مانند بننے میں دردمندی سے تحریک پا کر منادی کرنا اور تعلیم دینا شامل ہے۔‏—‏متی ۲۲:‏۳۷-‏۳۹‏۔‏

۱۵.‏ دردمندی ہماری عوامی خدمتگزاری کا ایک موزوں حصہ کیوں ہے؟‏

۱۵ یہ سچ ہے کہ ہمارے لئے ہم جیسے عقائد نہ رکھنے والے اشخاص کیلئے دردمندی محسوس کرنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا ہے بالخصوص جب ہم بےحسی،‏ استرداد یا مخالفت کا سامنا کرتے ہیں۔‏ تاہم،‏ اگر لوگوں کیلئے ہماری محبت اور دردمندی ختم ہو جاتی ہے تو ہم مسیحی خدمتگزاری میں نہایت اہم محرک سے محروم ہو سکتے ہیں۔‏ پس،‏ ہم دردمندی کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟‏ ہم یسوع کی نظر سے لوگوں کو دیکھ سکتے ہیں کہ وہ ”‏ان بھیڑوں کی مانند جنکا چرواہا نہ ہو خستہ‌حال اور پراگندہ“‏ ہیں۔‏ (‏متی ۹:‏۳۶‏)‏ کیا یہ بات آجکل بیشتر لوگوں کی حالت کی عکاسی نہیں کرتی؟‏ اُنہیں جھوٹے مذہبی چرواہوں نے نظرانداز اور روحانی طور پر اندھا کر دیا ہے۔‏ نتیجتاً،‏ وہ بائبل میں پائی جانے والی درست راہنمائی اور ان فردوسی حالتوں کو نہیں جانتے جو خدا کی بادشاہت ہماری زمین پر عنقریب لائے گی۔‏ وہ بادشاہی اُمید کے بغیر روزمرّہ زندگی کے مسائل—‏غربت،‏ خاندانی ناچاقی،‏ بیماری اور موت کا سامنا کرتے ہیں۔‏ ہمارے پاس اُنکی ضرورت کی چیز ہے:‏ اس وقت آسمان میں قائم‌شُدہ خدا کی بادشاہت کی بابت زندگی‌بخش خوشخبری!‏

۱۶.‏ ہمیں دوسروں کو خوشخبری میں کیوں شریک کرنا چاہئے؟‏

۱۶ جب آپ اپنے اِردگِرد لوگوں کی روحانی ضروریات پر غور کرتے ہیں تو کیا آپ کا دل آپ کو خدا کے پُرمحبت مقصد کی بابت انہیں بتانے کیلئے اپنی حتی‌المقدور کوشش کرنے کی تحریک نہیں دیتا؟‏ جی‌ہاں،‏ ہمارا کام دردمندانہ ہے۔‏ جب ہم لوگوں کیلئے یسوع جیسا احساس رکھتے ہیں تو یہ ہمارے لب‌ولہجے،‏ ہمارے چہرے کے تاثرات،‏ ہمارے طرزِتعلیم سے عیاں ہوگا۔‏ یہ سب ہمارے پیغام کو ان لوگوں کیلئے اَور زیادہ دلکش بنائے گا جو ”‏ہمیشہ کی زندگی کے لئے مقرر کئے گئے“‏ ہیں۔‏—‏اعمال ۱۳:‏۴۸‏۔‏

۱۷.‏ (‏ا)‏کن طریقوں سے ہم دوسروں کیلئے اپنی محبت اور دردمندی ظاہر کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ ہمارے پاس نیک کام کرنے یا عوامی خدمتگزاری میں شرکت کرنے کے معاملے میں انتخاب کی گنجائش کیوں نہیں ہے؟‏

۱۷ ہماری محبت اور دردمندی کو ہمارے طرزِزندگی سے بھی نمایاں ہونا چاہئے۔‏ اس میں پس‌ماندہ،‏ بیمار اور غریب لوگوں کیلئے مہربان ہونا—‏اُنکی تکلیف کو کم کرنے کیلئے اپنی معقول کوشش کرنا—‏شامل ہے۔‏ یہ اپنے قول‌وفعل سے موت کے باعث اپنے عزیز کو کھو بیٹھنے والے لوگوں کے غم کو دُور کرنے کی ہماری کوشش کا بھی احاطہ کرتا ہے۔‏ (‏لوقا ۷:‏۱۱-‏۱۵؛‏ یوحنا ۱۱:‏۳۳-‏۳۵‏)‏ تاہم،‏ محبت،‏ مہربانی اور دردمندی کے ایسے اظہارات کو ہمارے نیک کاموں کا اہم مرکز نہیں بننا چاہئے،‏ جیسا کہ بعض انسان دوستی کے علمبرداروں کے معاملے میں ہے۔‏ اگر مسیحی منادی اور تعلیم کے کام میں شرکت سے انکا اظہار نہیں کِیا جاتا توپھر پہلے بیان‌کردہ الہٰی صفات سے تحریک پانے والی کاوشوں کا کوئی دائمی فائدہ نہیں ہے۔‏ یاد کریں کہ یسوع نے یہودی مذہبی لیڈروں کی بابت کیا کہا تھا:‏ ”‏تم .‏ .‏ .‏ پودینہ اور سونف اور زیرہ پر تو دَہ‌یکی دیتے ہو پر تم نے شریعت کی زیادہ بھاری باتوں یعنی انصاف اور رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا ہے۔‏ لازم تھا کہ یہ بھی کرتے اور وہ بھی نہ چھوڑتے۔‏“‏ (‏متی ۲۳:‏۲۳‏)‏ یسوع کیلئے اس سلسلے میں کوئی انتخاب نہیں تھا کہ آیا وہ لوگوں کی جسمانی ضروریات پوری کرنے یا زندگی‌بخش روحانی معاملات کی تعلیم دینے سے اُنکی مدد کریگا۔‏ یسوع نے دونوں کام کئے۔‏ پھربھی،‏ یہ بات واضح ہے کہ اس کا تعلیمی کام سب سے اہم تھا کیونکہ اس سے وہ دائمی مدد کر سکتا تھا۔‏—‏یوحنا ۲۰:‏۱۶‏۔‏

۱۸.‏ مسیح کی عقل پر غور کرنے سے ہمیں کس چیز کی تحریک ملنی چاہئے؟‏

۱۸ ہم کتنے شکرگزار ہو سکتے ہیں کہ یہوواہ نے ہم پر مسیح کی عقل کو آشکارا کِیا ہے!‏ اناجیل کے ذریعے،‏ ہم کبھی ہو گزرنے والے ایسے عظیم‌ترین انسان کے خیالات،‏ احساسات،‏ اوصاف،‏ افعال اور ترجیحات کو بہتر طور پر جان سکتے ہیں۔‏ بائبل یسوع کی بابت جو کچھ آشکارا کرتی ہے اسے پڑھنے،‏ اُس پر غوروخوض کرنے اور اُسے عمل میں لانے کا انحصار ہم پر ہے۔‏ یاد رکھیں کہ اگر ہمیں واقعی یسوع کی طرح عمل کرنا ہے تو ہمیں ناکامل انسان ہونے کے باوجود اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئےکار لاتے ہوئے پہلے اُسکی طرح سوچنا،‏ محسوس کرنا اور مختلف معاملات کا جائزہ لینا سیکھنا ہوگا۔‏ پس،‏ آئیے ہم مسیح کی عقل پیدا کرنے اور اس کا مظاہرہ کرنے کا عزم کریں۔‏ زندگی گزارنے اور لوگوں کیساتھ اپنے برتاؤ میں اس سے بہتر کوئی اَور طریقہ نہیں،‏ نیز ہمارے لئے اور دوسرے لوگوں کیلئے اپنے شفیق خدا،‏ یہوواہ کی قربت میں آنے کا اس سے بہتر کوئی اَور طریقہ نہیں جسکا اُس نے کامل عکس پیش کِیا تھا۔‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۱:‏۳؛‏ عبرانیوں ۱:‏۳‏۔‏

آپ کیسے جواب دینگے؟‏

‏• یسوع‌نے اکثراوقات لوگوں کی ضروریات کیلئے جس طرح جوابی‌عمل دکھایا بائبل اس سلسلے میں کونسی بصیرت فراہم کرتی ہے؟‏

‏• یسوع‌نے اپنے شاگردوں کو ہدایت دیتے وقت کس چیز پر زور دیا؟‏

‏• ہم اپنی کارگزاریوں میں ”‏مسیح کی عقل“‏ کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

مسیحی دوسروں کیساتھ سب سے بڑی کونسی نیکی کر سکتے ہیں؟‏