کیا نقل کرنا واقعی کامیابی کی راہ ہے؟‏

کیا نقل کرنا واقعی کامیابی کی راہ ہے؟‏

کیا نقل کرنا واقعی کامیابی کی راہ ہے؟‏

کیا آپ طالبعلم ہیں؟‏ تو پھر آپ ضرور ایسے طالبعلموں کو جانتے ہوں گے جو اچھے نمبر حاصل کرنے کے لئے نقل کرتے ہیں۔‏ بِلاشُبہ نقل کرنے کا رُجحان زور پکڑ رہا ہے۔‏ سن ۲۰۰۸ء میں امریکہ میں ہائی سکول کے تقریباً ۳۰ ہزار طالبعلموں سے پوچھا گیا:‏ ”‏کیا آپ نے اِس سال اِمتحانوں میں نقل کی ہے؟‏“‏ اِن میں سے ۶۴ فیصد نے ہاں میں جواب دیا۔‏ لیکن مختلف اندازوں کے مطابق حقیقت میں ۷۵ فیصد سے زیادہ طالبعلم نقل کرتے ہیں۔‏

یورپ میں بھی نقل کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے۔‏ ایک آن‌لائن رسالے کے مطابق ”‏بہت سی ویب‌سائٹس طالبعلموں کو مضامین اور تحقیقی پرچے بیچتی ہیں جن کو وہ اپنے نام سے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ ماسٹرز یا ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کر سکیں۔‏“‏

نقل کرنے کے رُجحان میں اضافہ کیوں ہوتا جا رہا ہے؟‏ کیا نقل کرنے والے واقعی خود کو فائدہ پہنچاتے ہیں؟‏ کیا دیانت‌داری اُس صورت میں بھی بہترین حکمتِ‌عملی ہے اگر اِس سے آپ کو اِتنے اچھے نمبر نہ بھی ملیں؟‏

نقل کی وبا کیوں پھیل رہی ہے؟‏

بگڑتے معیار۔‏ امریکن سکول بورڈ کے شائع‌کردہ رسالے میں لکھا گیا:‏ ”‏بہت سے اساتذہ کا خیال ہے کہ نقل کرنے کے رُجحان میں اضافے کی وجہ یہ ہے کہ لوگ پہلے سے زیادہ خودغرض ہو گئے ہیں اور صحیح اور غلط میں اِمتیاز نہیں کرتے۔‏“‏ ایک طالبہ نے کہا:‏ ”‏ہم سب نے نقل کی۔‏ اچھے سکولوں میں داخلہ لینے کے لئے ہمیں اچھے نمبر چاہئے تھے۔‏ ہم ایسے ویسے نوجوان نہیں ہیں۔‏ ہم اُونچے معیاروں کے مالک ہیں۔‏ ہمیں بس اچھی یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لئے نقل کا سہارا لینا پڑا۔‏“‏ کئی والدین بھی نقل کرنے کو فروغ دیتے ہیں۔‏ وہ چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے ہر قیمت پر کامیاب ہوں اور اِس لئے وہ اِس بات کو نظرانداز کرتے ہیں کہ اُن کے بچے نقل کرتے ہیں۔‏ کچھ والدین تو بچوں سے کہتے ہیں کہ نقل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔‏ لیکن اِس طرح وہ اپنے بچوں میں اچھائی اور بُرائی کا احساس ختم کر رہے ہوتے ہیں۔‏

کامیابی حاصل کرنے کا دباؤ۔‏ ڈونلڈ میک‌ایب ایک ایسے ادارے کے بانی ہیں جو تعلیمی دیانت‌داری کو فروغ دیتا ہے۔‏ اُن کا کہنا ہے کہ بہت سے طالبعلم اِس لئے نقل کرتے ہیں کیونکہ وہ مانتے ہیں کہ اگر وہ نقل نہ کریں تو نقل کرنے والے طالبعلم اُن سے زیادہ کامیاب رہیں گے۔‏

ٹیکنالوجی کا اثر۔‏ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے طالبعلموں کے لئے نقل کرنا اَور بھی آسان ہو گیا ہے۔‏ وہ اپنے پروجیکٹ اور ہوم‌ورک کے لئے انٹرنیٹ سے مواد ڈاؤن‌لوڈ کرتے ہیں اور پھر اِسے اپنے ذہن کی ایجاد قرار دیتے ہیں۔‏ وہ اِمتحانوں کے جواب دوسروں کو بھی بھیجتے ہیں۔‏ کم ہی طالبعلم پکڑے جاتے ہیں جس کی وجہ سے دوسروں کو شہ ملتی ہے۔‏

بُری مثالیں۔‏ نوجوان اکثر بڑوں کو بددیانتی کرتے دیکھتے ہیں۔‏ کاروباری دُنیا،‏ سیاست اور کھیل کے میدان میں دھوکادہی عام ہے،‏ یہاں تک کہ والدین بھی ٹیکس میں کمی‌بیشی کرتے ہیں اور بیمہ کی رقم دھوکے سے نکلواتے ہیں۔‏ کتاب دھوکے کا رُجحان ‏(‏انگریزی)‏ کے مصنف ڈیوڈ کیلاہن کہتے ہیں:‏ ”‏اگر اختیار والے یا مشہور لوگ دھوکے سے کام لیتے ہیں تو نوجوانوں کو یہ سبق ملتا ہے کہ نقل کرنے میں بھی کوئی بُرائی نہیں۔‏“‏ لیکن کیا واقعی نقل کرنے میں کوئی حرج نہیں؟‏

نقل کیوں نہ کریں؟‏

ذرا سوچیں کہ اچھی تعلیم حاصل کرنے کا مقصد کیا ہے؟‏ کیا اِس کا مقصد یہ نہیں کہ طالبعلم زندگی میں مختلف ذمہ‌داریاں اُٹھانے کے لئے تیار ہوں؟‏ مثال کے طور پر تعلیم کے ذریعے طالبعلم یہ سیکھتے ہیں کہ جب وہ ملازمت کریں گے تو وہ مسئلوں کو کیسے حل کر سکتے ہیں۔‏ جو طالبعلم نقل کرنے کی عادت میں پڑ جاتے ہیں،‏ وہ ایسی صلاحیتیں پیدا نہیں کرتے جو آگے چل کر اُن کے کام آئیں گی۔‏ وہ اپنی کمزوریوں کو چھپاتے ہیں اور یوں اُنہیں اکثر ناکامی کا مُنہ دیکھنا پڑتا ہے۔‏

ڈیوڈ کیلاہن کہتے ہیں:‏ ”‏جو لوگ بچپن سے آسان راستہ ڈھونڈتے ہیں مثلاً سکول میں نقل کرتے ہیں،‏ وہ ملازمت کرتے وقت بھی آسان راستے ڈھونڈنے کے چکر میں رہیں گے۔‏“‏ یہ لوگ دو نمبر گھڑیوں کی طرح ہوتے ہیں جو دیکھنے میں تو قیمتی لگتی ہیں لیکن اصل میں بےکار ہوتی ہیں۔‏

نقل کرنے والوں کو یہ خطرہ بھی ہوتا ہے کہ وہ پکڑے جائیں گے اور اُنہیں بُرے نتائج بھگتنے پڑیں گے۔‏ اِس صورت میں اُنہیں بڑی شرمندگی اُٹھانی پڑے گی۔‏ شاید اُنہیں سکول سے بھی نکال دیا جائے یا پھر اِس سے بھی سخت سزا دی جائے۔‏ خدا کے کلام کا یہ اصول واقعی سچ ہے کہ ”‏آدمی جو کچھ بوتا ہے وہی کاٹے گا۔‏“‏ (‏گلتیوں ۶:‏۷‏)‏ لیکن طالبعلموں کو صرف اِس ڈر کی وجہ سے نقل کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہئے کہ وہ پکڑے جائیں گے۔‏ دیانت‌داری سے کام لینے کی اَور بھی اہم وجوہات ہیں۔‏

دیانت‌داری اصلی کامیابی کی راہ ہے

عقل‌مند نوجوان سکول میں محنت کرتے ہیں اور اپنے اندر ایسی خوبیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو نہ صرف اِمتحانوں میں بلکہ زندگی بھر اُن کے کام آئیں گی۔‏ اِن خوبیوں کی وجہ سے اُن کی عزتِ‌نفس میں اضافہ ہوگا،‏ اُنہیں حقیقی خوشی ملے گی اور جب وہ ملازمت کریں گے تو اُن کے مالک اُن کی قدر کریں گے۔‏

ایسی خوبیاں خدا کے کلام سے سیکھی جا سکتی ہیں۔‏ جو لوگ اِن خوبیوں کو اپناتے ہیں،‏ وہ زندگی میں زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔‏ وہ ”‏ہر ایک نیک کام کے لئے بالکل تیار“‏ ہو جاتے ہیں۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ ایک طالبعلم نے کہا:‏ ”‏میرے ہم‌جماعت بغیر کسی محنت کے اچھے نمبر لینا چاہتے ہیں اور اِس لئے وہ نقل کرتے ہیں۔‏ لیکن مَیں خدا کو خوش کرنا چاہتا ہوں۔‏ خدا کے کلام میں امثال ۱۴:‏۲ میں لکھا ہے:‏ ”‏راست‌رَو [‏یہوواہ]‏ سے ڈرتا ہے پر کج‌رو اُس کی حقارت کرتا ہے۔‏“‏ مَیں جانتا ہوں کہ ہم خدا سے کچھ نہیں چھپا سکتے۔‏ اِس لئے مَیں نقل نہیں کرتا اور نہ ہی مَیں نقل کرنے میں دوسروں کی مدد کرتا ہوں۔‏“‏

جو طالبعلم خدا کے کلام کے اصولوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں،‏ شاید وہ کلاس کے سب سے لائق بچے نہ ہوں۔‏ لیکن وہ عقل‌مند ضرور ہیں کیونکہ وہ ایک کامیاب زندگی کے لئے مضبوط بنیاد ڈال رہے ہیں۔‏ (‏زبور ۱:‏۱-‏۳؛‏ متی ۷:‏۲۴،‏ ۲۵‏)‏ اِس کے علاوہ وہ اِس بات پر بھروسا کر سکتے ہیں کہ اُنہیں خدا کی خوشنودی حاصل ہے اور وہ اُن کی مدد کرے گا۔‏

‏[‏صفحہ ۱۶ پر بکس/‏تصویریں]‏

اِن اصولوں پر غور کریں

● ”‏سچے ہونٹ ہمیشہ تک قائم رہیں گے لیکن جھوٹی زبان صرف دم‌بھر کی ہے۔‏“‏—‏امثال ۱۲:‏۱۹‏۔‏

● ”‏دیانت‌دار آدمی برکتوں سے معمور ہوگا۔‏“‏—‏امثال ۲۸:‏۲۰‏۔‏

● ”‏خدا ہر ایک فعل کو ہر ایک پوشیدہ چیز کے ساتھ خواہ بھلی ہو خواہ بُری عدالت میں لائے گا۔‏“‏—‏واعظ ۱۲:‏۱۴‏۔‏

● ”‏چوری چالاکی نہ کریں بلکہ ہر طرح کی دیانت‌داری اچھی طرح ظاہر کریں۔‏“‏—‏ططس ۲:‏۱۰‏۔‏

‏[‏صفحہ ۵۱ پر تصویر]‏

جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے طالبعلموں کے لئے نقل کرنا اَور بھی آسان ہو گیا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۶۱ پر تصویر]‏

نقل کرنے والے طالبعلم دو نمبر گھڑیوں کی طرح ہوتے ہیں جو دیکھنے میں تو قیمتی لگتی ہیں لیکن اصل میں بےکار ہوتی ہیں۔‏