”مَیں صرف اپنی ڈاک لینے گیا تھا“
”مَیں صرف اپنی ڈاک لینے گیا تھا“
آندرے جنوبی افریقہ میں پیدا ہوئے اور اب وہ مُلک نمیبیا میں رہتے ہیں۔ اُنہوں نے بتایا: ”مَیں سوموار کی وہ صبح نہیں بھول سکتا جب مَیں ڈاکخانے گیا تھا۔ ڈاکخانے میں بہت رش تھا۔ جہاں مَیں کھڑا تھا وہاں سے چند قدم کے فاصلے پر مَیں نے ایک لاوارث بیگ پڑا ہوا دیکھا۔ مَیں نے اپنی ڈاک لی اور باہر نکل آیا۔ مجھے ڈاکخانے سے نکلے ہوئے تقریباً تین منٹ ہوئے تھے کہ مَیں نے ایک زوردار دھماکے کی آواز سنی۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ ڈاکخانے میں جس جگہ مَیں کھڑا تھا اُس سے چند قدم کے فاصلے پر ایک بم پھٹا تھا۔“
آندرے نے مزید کہا: ”مَیں صرف اپنی ڈاک لینے گیا تھا۔ لیکن بعد میں جب مَیں نے دیکھا کہ اِس دھماکے میں بہت سے معصوم لوگوں کی جانیں چلی گئی ہیں تو مجھے بہت صدمہ ہوا۔ اِن میں سے کئی لوگوں کو تو مَیں جانتا بھی تھا۔ اِس واقعے کو ۲۵ سال ہو گئے ہیں۔ لیکن اِسے یاد کرکے آج بھی مَیں کانپ اُٹھتا ہوں۔ میر ی آنکھوں کے سامنے و ہ منظر گھوم جاتا ہے جب مَیں نے خون میں لتپت زخمیوں اور لاشوں کو دیکھا تھا۔ مجھے یاد آتا ہے کہ مَیں موت کے کتنے قریب تھا۔“
ایک عالمگیر مسئلہ
شاید آپ نے کسی ایسے واقعے کو اِتنے قریب سے تو نہ دیکھا ہو لیکن آپ نے یہ ضرور سنا ہوگا کہ ایسے واقعات پوری دُنیا میں ہو رہے ہیں۔ بہت سے لوگ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے ظلموتشدد اور قتلوغارت کا سہارا لے رہے ہیں۔ ایسے ظلموتشدد اور قتلوغارت کو دہشتگردی کہا جاتا ہے۔—اگلے صفحے پر بکس ”دہشتگرد کون ہیں؟“ کو دیکھیں۔
ایک صحافی نے اپنی ایک کتاب میں لکھا کہ ۱۹۹۷ء میں ”صرف چار ملکوں میں خودکش حملے ہو رہے تھے۔ . . . لیکن ۲۰۰۸ء میں براعظم آسٹریلیا اور انٹارکٹکا کے سوا پوری دُنیا میں ۳۰ سے زیادہ ملکوں میں خودکش حملے ہوئے۔“ اُس نے آخر میں لکھا کہ ”خودکش حملے کرنے والی تنظیموں کی تعداد میں —دی گلوبلائزیشن آف مارٹرڈم۔
دنبہدن اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ تنظیمیں ہر سال بہت سے لوگوں کی جان لے لیتی ہیں۔“اِس مضمون کے شروع میں جس بم دھماکے کا ذکر ہوا، اِس کی ذمہداری ایک حریتپسند گروہ نے قبول کی۔ اِس گروہ کے ارکان آزادی حاصل کرنے کے لئے اپنے مُلک کی حکومت کے خلاف لڑ رہے تھے۔ لیکن لوگ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے دہشتگردی کا سہارا کیوں لیتے ہیں؟ اِس سلسلے میں حفانی کی مثال پر غور کریں۔
حفانی مُلک زمبیا میں پیدا ہوئے۔ لیکن اُن کی پرورش زمبیا کے ہمسایہ ملکوں کے پناہگزین کیمپوں میں ہوئی۔ اُنہوں نے کہا: ”میرے گھر والوں اور دوسرے لوگوں کے ساتھ بہت بُرا سلوک کِیا گیا۔ اِس ظلم اور ناانصافی کو دیکھ کر میرے اندر غصے کا لاوا دہکنے لگا تھا۔“ اِس لئے وہ ایک عسکریتپسند گروہ کے رُکن بن گئے۔ اُن کے والدین بھی اِس گروہ کے رُکن تھے۔
حفانی نے مزید کہا: ”پناہگزین کیمپ میں ہم پر جوکچھ بیتا، اِس کا ہمارے جذبات اور احساسات پر بہت زیادہ اثر ہوا۔ چھوٹے بچوں کو اُن کے ماںباپ اور بہنبھائیوں سے جُدا کر دیا جاتا تھا کیونکہ بڑوں کو لڑائی کے لئے جانا پڑتا تھا۔ اِن میں سے بہت سے لوگ تو کبھی واپس ہی نہیں آئے۔ مَیں نے کبھی اپنے ابو کو نہیں دیکھا۔ مَیں نے تو اُن کی تصویر تک نہیں دیکھی۔ مجھے صرف اِتنا پتہ ہے کہ وہ لڑائی میں مارے گئے تھے۔ یہ غم آج بھی میرے سینے میں موجود ہے۔“
لوگ مختلف وجوہات کی بِنا پر ظلموتشدد اور قتلوغارت کرنے لگتے ہیں۔ اِن وجوہات کے بارے میں جاننے سے ہم یہ سمجھنے کے قابل ہوں گے کہ دہشتگردی ہمیشہ کے لئے کیسے ختم ہو سکتی ہے۔
[صفحہ ۴ پر بکس/تصویر]
دہشتگرد کون ہیں؟
ایک ماہر نے کہا: ”ایک شخص ظلموتشدد اور قتلوغارت کو دہشتگردی سمجھتا ہے یا نہیں، اِس کا تعلق اُس کی سوچ سے ہے۔ بڑی حد تک اِس کا تعلق دُنیا کے بارے میں اُس کے نظریے سے ہے۔ اگر وہ سمجھتا ہے کہ دُنیا میں امن ہے تو وہ ظلموتشدد اور قتلوغارت کو دہشتگردی کا نام دے گا۔ لیکن اگر وہ سمجھتا ہے کہ دُنیا میں جنگ چھڑی ہے تو شاید وہ اِنہیں جائز خیال کرے۔“
اصطلاح دہشتگردی کے استعمال کا انحصار ایک شخص کے سیاسی نظریے پر بھی ہے۔ بہت سے گروہ خود کو دہشتگرد نہیں بلکہ حریتپسند یعنی آزادی کی جنگ لڑنے والے خیال کرتے ہیں۔ ایک مصنفہ نے کہا کہ دہشتگردی میں (۱) عام شہریوں کو نشانہ بنانا اور (۲) کوئی خاص مقصد حاصل کرنے کے لئے خوفوہراس پیدا کرنا شامل ہے۔ لہٰذا چاہے کوئی شخص عسکریتپسند ہو یا سرکاری افسر، وہ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے اکثر دہشتگردی کرتا ہے۔