مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

پہلے فوجی کمانڈر پھر ’‏مسیح کا سپاہی‘‏

پہلے فوجی کمانڈر پھر ’‏مسیح کا سپاہی‘‏

پہلے فوجی کمانڈر پھر ’‏مسیح کا سپاہی‘‏

مارک لوئیس کی زبانی

رائل آسٹریلین ائیر فورس کا پائلٹ اور کمانڈینگ آفیسر ہونے کی وجہ سے مجھے ہر روز ”‏سلام صدر صاحب،‏“‏ ”‏سلام وزیر صاحب“‏ اور ”‏سلام وزیرِاعظم صاحب“‏ کہنا پڑتا تھا۔‏ مَیں نے آسٹریلیا کے علاوہ دُنیابھر میں ہوائی‌جہاز اُڑائے۔‏ لیکن اب مَیں پہلے سے کہیں زیادہ خوش ہوں۔‏ آئیں مَیں آپ کو اِس کے بارے میں بتاتا ہوں۔‏

مَیں ۱۹۵۱ میں مغربی آسٹریلیا کے شہر پرتھ میں پیدا ہوا اور مَیں نے ایک ایسے خاندان میں پرورش پائی جس کا تعلق فوج سے تھا۔‏ مَیں نے ۱۵ سال کی عمر میں ہوائی جہاز اُڑانے کی تربیت حاصل کرنا شروع کی۔‏ یہ ایک ایسا کام تھا جس سے مَیں نے زندگی‌بھر لطف اُٹھایا۔‏

کچھ ہی عرصہ بعد میرے والدین کی طلاق ہو گئی اور ہمارا خاندان ٹوٹ گیا۔‏ جب مَیں نے اپنے ہائی سکول کی پڑھائی ختم کی تو ائیر فورس کے کمانڈینگ آفیسر اور اُس کے خاندان نے مجھے اپنے ساتھ رہنے کی دعوت دی۔‏ اُس نے اپنے نمونے اور اپنی گفتگو سے مجھے تحریک دی کہ مَیں رائل آسٹریلین ائیر فورس اکیڈمی میں فوجی افسر بننے کی تربیت حاصل کروں۔‏

مَیں ایک پائلٹ بن گیا

تقریباً چھ سال بعد مَیں نے علمِ‌طبیعات کی ڈگری حاصل کر لی اور ایک پائلٹ بن گیا۔‏ سب سے پہلے مجھے جو کام دیا گیا اُس میں ہتھیاروں،‏ کھانےپینے کی چیزوں اور لوگوں کو آسٹریلیا،‏ جنوبی بحرالکاہل اور جنوب مشرقی ایشیا میں پہنچانا شامل تھا۔‏ اکثراوقات ہم اُونچے پہاڑوں اور گہری وادیوں سے گزرتے اور ہمیں اِنہی جگہوں پر اپنے جہاز اتارنے پڑتے جہاں کسی طرح کی کوئی سہولت دستیاب نہیں ہوتی تھی۔‏ یہ بہت خطرناک کام تھا۔‏ اِن سالوں میں ہمارے ائیر فورس یونٹ نے بہت سے جہازوں اور قابل لوگوں کو کھو دیا۔‏ تاہم،‏ ہمارا مقصد دُوردراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی مدد کرنا تھا۔‏ ہم اِن علاقوں میں پُل بنانے والا سازوسامان اور سڑکیں تعمیر کرنے کے لئے چھوٹے بلڈوزر پہنچاتے تھے۔‏ اِس کے علاوہ ہم ہنگامی صورتحال میں خوراک اور ڈاکٹروں اور نرسوں کی ٹیموں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے نیز بیماروں اور زخمیوں کو محفوظ مقامات پر پہنچاتے تھے۔‏

مَیں ۱۹۷۸ میں ائیر فورس اکیڈمی میں جہاز اُڑانے کی تربیت دینے والے استادوں میں شامل ہو گیا۔‏ یہاں میری ملاقات ڈائین نامی ایک بیوہ سے ہوئی۔‏ ڈائین میرے ایک ہم‌جماعت کی بیوی تھی اور اُس کا شوہر ایک ہوائی حادثے میں فوت ہو گیا تھا۔‏ اُس کی ایک تین سال کی بیٹی بھی تھی۔‏ جب مَیں نے ڈائین سے شادی کی درخواست کی تو اُس نے مجھ سے سوچنے کے لئے کچھ وقت مانگا۔‏ دراصل وہ اِس کشمکش میں تھی کہ آیا وہ دوبارہ ایک پائلٹ سے شادی کرے یا نہیں۔‏

اِسی دوران مجھے ایک سال کے لئے آسٹریلیا کے گورنر جنرل کے ذاتی سیکرٹری کے طور پر کام کرنے کی دعوت ملی جسے مَیں نے قبول کر لیا۔‏ آسٹریلیا کے دارالحکومت کینبرا میں گورنر جنرل کے گھر میں قیام کے دوران مَیں نے سیاست کو بڑے قریب سے دیکھا۔‏ اِس کے علاوہ،‏ مجھے بہت سے حکومتی،‏ فوجی اور مذہبی عہدےداروں سے ملنے کا موقع بھی ملا۔‏ جب گورنر جنرل کے ساتھ کام کرنے کی مدت ختم ہو گئی تو مَیں واپس آ گیا اور دوبارہ ہوائی جہاز اُڑانے کی تربیت دینے لگا۔‏ اِس کے فوراً بعد مَیں نے ۱۹۸۰ میں ڈائین سے شادی کر لی۔‏

سن ۱۹۸۲ میں مجھے دو سال کے لئے امریکہ میں ہوائی‌جہازوں کو حادثات سے بچانے اور اِن حادثات کی تحقیق کرنے والے افسر کے طور پر تربیت دی گئی۔‏ اِس کام کے دوران مَیں نے پورے امریکہ اور شمالی آئرلینڈ کا سفر کِیا۔‏ اِس تربیت میں جہاز بنانے میں درکار لاگت کا حساب لگانا،‏ پرواز کے دوران حفاظتی انتظامات کو بہتر بنانا اور حادثات کی وجہ دریافت کرنا شامل تھا۔‏

میری آسٹریلیا میں واپسی

آسٹریلیا سے واپس آنے کے بعد ہماری بیٹی کیری کی پیدائش ہوئی۔‏ اب ہمارا خاندان چار افراد پر مشتمل تھا۔‏ میری مصروفیت کی وجہ سے ڈائین کو ماں اور باپ دونوں کا کردار ادا کرنا پڑا جس کی وجہ سے ہمارے خاندان کو مشکلات کا سامنا بھی ہوا۔‏ تین سال بعد مجھے ائیر فورس میں بطور کمانڈینگ آفیسر پہلی تفویض دی گئی۔‏ میرے فوجی دستے نے ۱۹۹۱ میں خلیج فارس کی جنگ میں اور بعدازاں پاکستان،‏ افغانستان،‏ افریقہ اور اسرائیل میں آپریشنز کے دوران اقوامِ‌متحدہ کی مدد کی۔‏

سن ۱۹۹۲ میں مجھے ڈیفنس فورس کے چیف کا سیکرٹری بنا دیا گیا۔‏ آسٹریلیا میں چیف کے سیکرٹری کے طور پر کام کرنے سے مجھے فوج،‏ سیاست اور اقوامِ‌متحدہ کے مابین تعلقات کا قریبی جائزہ لینے کا موقع ملا۔‏ مَیں نے دیکھا کہ اقوامِ‌متحدہ بہت سے معاملات میں ناکام رہا ہے پھربھی ایک بہتر دُنیا کے لئے ہماری اُمیدیں صرف اِسی سے وابستہ ہیں۔‏ میرے گھر میں ہونے والی کچھ باتوں نے مجھے اپنے نظریات کے بارے میں سوچنے کی تحریک دی۔‏

ڈائین کے سوالوں کے جواب

ڈائین ایک رومن کیتھولک تھی۔‏ اپنے پہلے شوہر کی موت کے بعد ڈائین نے اپنے مذہبی سوالوں کے جواب حاصل کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔‏ لیکن جب ہماری بڑی بیٹی رینی ارواح‌پرستی میں دلچسپی لینے لگی تو ڈائین کے لئے اپنے سوالوں کے جواب حاصل کرنا اَور بھی ضروری ہو گیا۔‏ ڈائین نے اپنی ایک دوست کے گھر جاگو!‏ کا ایک شمارہ دیکھا۔‏ اِس میں بتایا گیا تھا کہ اگلے شمارے میں ارواح پرستی * سے متعلق مضمون شائع کِیا جائے گا۔‏ اُس نے اِس سے پہلے کبھی جاگو!‏ رسالہ نہیں دیکھا تھا۔‏ گھر لوٹتے وقت وہ یہی سوچتی رہی کہ‘‏ مَیں اُس شمارے کو کیسے حاصل کر سکتی ہوں؟‏‘‏

تین دن بعد یہوواہ کے گواہ ہمارے گھر آئے اور ڈائین کو وہ رسالہ مل گیا۔‏ اِس کے بعد اُس نے بائبل مطالعے کی پیشکش قبول کر لی اور اجلاسوں پر حاضر ہونا شروع کر دیا۔‏ مَیں اِس بات سے بہت خوش تھا کہ وہ بائبل کا مطالعہ کر رہی ہے اور مَیں اُس کے ساتھ یہوواہ کے گواہوں کے بعض اجلاسوں پر بھی حاضر ہوا۔‏ لیکن مَیں سوچتا تھا کہ مجھے بائبل سیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‏ مَیں مذہبی شخص نہیں تھا۔‏ مَیں خدا پر تو یقین رکھتا تھا لیکن مَیں نے مذہب میں بہت ریاکاری دیکھی تھی اِس لئے مجھے مذہب میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔‏ مَیں یہ سمجھنے سے بھی قاصر تھا کہ فوج سے تعلق رکھنے والے پادری ایک طرف تو محبت اور امن کا پرچار کرتے ہیں اور دوسری طرف جنگ کی حمایت کرتے ہیں۔‏

ڈائین ہمیشہ گھر کی مختلف جگہوں پر مینارِنگہبانی اور جاگو!‏ رسالے رکھ دیتی تھی تاکہ مَیں اُنہیں پڑھ سکوں۔‏ مَیں اُن رسالوں کو پڑھتا اور پھر واپس اُن کی جگہ پر رکھ دیتا۔‏ دراصل مَیں اُس پر یہ ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا کہ مَیں دلچسپی لے رہا ہوں۔‏ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب بائبل کے بارے میں میرے علم میں اضافہ ہوا تو بائبل کے دو بیانات نے مجھے بہت پریشان کر دیا۔‏ ایک مکاشفہ ۱۹:‏۱۷،‏ ۱۸ میں درج ہے جس میں پرندوں کو ”‏فوجی سرداروں“‏ کا گوشت کھانے کا حکم دیا گیا ہے۔‏ جبکہ دوسرا مکاشفہ ۱۷:‏۳ میں درج ہے جو ”‏قرمزی رنگ کے حیوان“‏ کا ذکر کرتا ہے۔‏ یہوواہ کے گواہ یہ ایمان رکھتے ہیں کہ یہ حیوان اقوامِ‌متحدہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔‏ یہ بات اقوامِ‌متحدہ کے بارے میں میری سوچ کے بالکل برعکس تھی۔‏ لیکن مَیں اِس قسم کے تمام سوالوں کو نظرانداز کرتا رہا۔‏

سن ۱۹۹۳ میں ڈائین نے مجھے اپنے بپتسمے پر آنے کی دعوت دی۔‏ مَیں یہ سن کر حیران ہو گیا کہ وہ یہوواہ کی گواہ بن رہی ہے۔‏ مَیں نے اُس سے پوچھا کہ ”‏اگر آپ کو یہوواہ خدا اور مجھ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو آپ کسے چنیں گی؟‏“‏ اُس نے جواب دیا کہ ”‏مَیں یہوواہ خدا کو چنوں گی۔‏ لیکن مجھے اُمید ہے کہ مجھے ایسا انتخاب کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‏ کیونکہ مَیں یہوواہ کی خدمت بھی کرنا چاہتی ہوں اور آپ کی بیوی بھی رہنا چاہتی ہوں۔‏“‏ اُس وقت مجھے احساس ہوا کہ مجھے بھی یہوواہ خدا کی بابت مزید سیکھنے کی ضرورت ہے۔‏ مقامی کلیسیا کے ایک بزرگ نے مجھے بائبل کے مطالعے کی پیشکش کی جسے مَیں نے قبول کر لیا۔‏

مَیں بائبل کی ایسی پیشینگوئیوں میں بہت دلچسپی لینے لگا جن کا تعلق خاص طور پر فوجی اور سیاسی تاریخ سے تھا۔‏ مثال کے طور پر،‏ ائیر فورس کی تربیت کے دوران مَیں نے قدیم یونان کی عسکری فتوحات کے بارے میں بہت کچھ پڑھا تھا۔‏ لیکن مجھے اب پتہ چلا کہ اِن واقعات کو اِن کے رُونما ہونے سے کئی صدیاں پہلے دانی‌ایل کی کتاب کے ۸ باب میں قلمبند کِیا گیا تھا۔‏ آہستہ آہستہ اِس پیشینگوئی کے علاوہ کئی دیگر پیشینگوئیوں نے مجھے قائل کر لیا کہ بائبل خدا کا الہامی کلام ہے۔‏

مَیں نے اقوامِ‌متحدہ کے بارے میں اپنے نظریات پر دوبارہ غور کِیا۔‏ مَیں جانتا تھا کہ فوج انسانوں کے مسائل کو کبھی حل نہیں کر سکتی کیونکہ جنگ‌وجدل سے کبھی حقیقی امن قائم نہیں کِیا جا سکتا۔‏ اِس کے علاوہ،‏ اقوامِ‌متحدہ جنگ کی وجہ بننے والے سیاسی،‏ مذہبی اور نسلی اختلافات کو بھی ختم نہیں کر سکتی۔‏ مَیں اِس بات کو سمجھ گیا کہ انسانوں کے مسائل کو صرف خدا ہی حل کر سکتا ہے۔‏ کیونکہ مَیں نے اِس بات کو دیکھ لیا تھا کہ خدا پہلے ہی یہوواہ کے گواہوں کی عالمگیر برادری کے اتحاد کو فروغ دے رہا ہے۔‏ (‏زبور ۱۳۳:‏۱؛‏ یسعیاہ ۲:‏۲-‏۴‏)‏ مَیں نے خود سے پوچھا کہ ’‏کیا مَیں خدا کی خدمت کرنے کی خاطر فوج کو چھوڑنے کے لئے تیار ہوں؟‏‘‏

خدا کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا فیصلہ

جب مَیں سن ۱۹۹۴ میں سڈنی میں منعقد ہونے والے یہوواہ کے گواہوں کے ایک ڈسٹرکٹ کنونشن پر حاضر ہوا تو مَیں نے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے غوروفکر کِیا۔‏ کنونشن پر ایک ڈرامہ پیش کِیا گیا جس میں قدیم اسرائیل کو یہوواہ خدا اور کنعانیوں کے دیوتا بعل میں سے کسی ایک کو چننا تھا۔‏ یہوواہ کے نبی ایلیاہ نے اسرائیلیوں سے کہا:‏ ”‏تم کب تک دو خیالوں میں ڈانوانڈول رہو گے؟‏ اگر [‏یہوواہ]‏ ہی خدا ہے تو اُس کے پیرو ہو جاؤ اور اگر بعلؔ ہے تو اُس کی پیروی کرو۔‏“‏ (‏۱-‏سلاطین ۱۸:‏۲۱‏)‏ اِن الفاظ نے میرے دل پر گہرا اثر کِیا۔‏ اسرائیلیوں کی طرح مَیں بھی دو خیالوں میں ڈانوانڈول تھا۔‏ اب مجھے فیصلہ کرنا تھا:‏ کیا مَیں یہوواہ کی خدمت کروں گا یا فوج میں رہوں گا؟‏

گھر لوٹتے وقت مَیں نے ڈائین کو بتایا کہ مَیں یہوواہ کا گواہ بننے کے لئے فوج کو چھوڑ رہا ہوں۔‏ میرے اِس اچانک فیصلے سے وہ بہت حیران ہوئی مگر اُس نے میری بھرپور حمایت کی۔‏ کئی دن گزر جانے کے بعد بھی جب میرا یہ فیصلہ نہیں بدلا تو مَیں نے استعفیٰ دے دیا۔‏

اُس وقت مَیں اُس دستے کا کمانڈینگ آفیسر تھا جس میں فوجی افسروں کو تربیت دی جاتی ہے۔‏ اِس کے علاوہ آرمی،‏ نیوی اور ائیر فورس اکیڈمی میں تربیت حاصل کرنے والے طالبعلم اور سٹاف کے تقریباً ۳۰۰،‏۱ لوگ میرے ماتحت کام کرتے تھے۔‏ فوجی تربیت کے اِس سال کے آخری دن پر مَیں نے ۴۰۰ طالبعلموں اور سٹاف کے ممبران کے سامنے اعلان کِیا کہ مَیں مسیحی خادم کے طور پر لوگوں کو گھربہ‌گھر کی منادی کے دوران بائبل کی تعلیم دینے کے لئے فوج کو چھوڑ رہا ہوں۔‏ یہ اعلان کرنے سے مجھے اِن میں سے کئی ایک کے ساتھ بائبل کے دلچسپ موضوعات پر بات کرنے کا موقع بھی ملا۔‏

مَیں کُل وقتی مناد بن گیا

جب میرا استعفیٰ قبول ہوا تو اُسکے اگلے ہی دن مَیں نے خدا کی بادشاہت کی منادی کرنا شروع کر دی۔‏ تین ماہ بعد اپریل ۱۹۹۵ میں مَیں نے بپتسمہ لے لیا۔‏ جلد ہی مَیں اپنا زیادہ‌تر وقت خدا کی بادشاہت کی منادی کرنے میں صرف کرنے لگا۔‏

ایک فوجی کمانڈر کی زندگی چھوڑ کر ’‏مسیح کا سپاہی‘‏ بننے کے لئے مجھے بہت سی تبدیلیاں لانے کی ضرورت تھی۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۲:‏۳‏)‏ کلیسیا میں میرا سب سے پہلا کام اجلاسوں کے دوران مائیکروفون کی ذمہ‌داری سنبھالنا تھا۔‏ اب مجھے حکم دینے کی بجائے درخواست کرنا سیکھنا پڑا۔‏ اگرچہ ایک فوجی ہوتے ہوئے میرے لئے وقت،‏ روپےپیسے اور توانائی کو بچانا اہم تھا لیکن اب مَیں سمجھ گیا کہ دوسروں کے لئے پاس‌ولحاظ دکھانا اور محبت ظاہر کرنا زیادہ اہم ہے۔‏ میرے لئے کبھی‌کبھار اِن خوبیوں کو عمل میں لانا مشکل ہوتا ہے توبھی مَیں اِن میں بہتری لانے کی کوشش کرتا ہوں۔‏ اِس کے علاوہ میری کم آمدنی کی وجہ سے میرے خاندان کو اپنی زندگی کو سادہ بنانا پڑا۔‏

مَیں اب تک منادی کے کام سے لطف‌اندوز ہو رہا ہوں۔‏ ایک مرتبہ جب مَیں اپنی نو سال کی بیٹی کیری کے ساتھ منادی کر رہا تھا تو مَیں نے اُسے صاحبِ‌خانہ کے ردِعمل کا جائزہ لینے کو کہا۔‏ بہت سے لوگوں نے ہمارا پیغام نہیں سنا مگر بعض نے دلچسپی ظاہر کی۔‏ یہ ہم دونوں کے لئے بہت حوصلہ‌افزا تھا۔‏ ہماری بڑی بیٹی رینی نے بائبل کا مطالعہ شروع کِیا لیکن اُس نے اب تک یہوواہ خدا کی عبادت کرنے کا فیصلہ نہیں کِیا۔‏

ڈائین اور مَیں ہمیشہ کیری کی حوصلہ‌افزائی کرتے تھے کہ وہ کُل وقتی خدمت اختیار کرے اور اُس نے ایسا ہی کِیا۔‏ حال ہی میں مجھے اور کیری کو ایک ایسے سکول میں حاضر ہونے کا موقع ملا جہاں کُل وقتی منادوں کو تربیت دی جاتی ہے۔‏ یہ بہت ہی خوش‌کُن وقت تھا۔‏ کیری پہلی بار اِس سکول میں حاضر ہوئی تھی جبکہ میرے لئے یہ دوسرا موقع تھا۔‏ مجھے کیری اور دوسرے نوجوانوں کو خدا کی خدمت میں آگے بڑھتے ہوئے دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے!‏—‏زبور ۱۱۰:‏۳‏۔‏

برکات کی کثرت

جب مَیں اپنے ماضی پر نگاہ ڈالتا ہوں تو مجھے فوج میں کام کرنے اور مسیح کے سپاہی کے طور پر خدمت انجام دینے میں بہت سی باتیں ملتی‌جلتی نظر آتی ہیں۔‏ اِن دونوں کاموں میں وفاداری،‏ تابعداری اور نظم‌وضبط کا تقاضا کِیا جاتا ہے۔‏ بہتیرے سپاہی اپنے ملک اور دوستوں کی خاطر اپنی جان دے دینے کو تیار رہتے ہیں مگر سچے مسیحی اپنے دشمنوں سے بھی محبت رکھتے ہیں۔‏ (‏متی ۵:‏۴۳-‏۴۸‏)‏ فوج میں کارنامے انجام دینے والوں کو خراجِ‌تحسین پیش کِیا جاتا ہے لیکن سچے مسیحی وفاداری سے خدمت کرنے کی وجہ سے خدا کی پسندیدگی حاصل کرتے ہیں۔‏ وفاداری سے خدمت کرنے کا مطلب مخالفت،‏ تمسخر اور دیگر بہت سی مشکلات کا سامنا کرتے وقت دلیری ظاہر کرنا ہے۔‏ (‏عبرانیوں ۱۰:‏۳۶-‏۳۹‏)‏ جن لوگوں سے مَیں واقف ہوں اُن کے مقابلے میں یہوواہ کے گواہ سب سے اعلیٰ خوبیوں کے مالک ہیں۔‏

اِس کہانی کے شروع میں بتایا گیا تھا کہ ایک فوجی ہوتے ہوئے مجھے بڑے بڑے افسروں کو سلام کرنا پڑتا تھا مگر اب مسیح کا سپاہی ہوتے ہوئے مَیں ہر روز ”‏سلام بہن“‏ اور ”‏سلام بھائی“‏ کہتا ہوں۔‏ ایسے لوگوں کے ساتھ منادی کرنا کیا ہی شاندار شرف ہے جو واقعی خدا سے محبت رکھتے ہیں!‏ سب سے بڑا اعزاز عظیم‌ترین خدا یہوواہ کی خدمت کرنا ہے!‏ مَیں اپنی زندگی کو یہوواہ کی خدمت کے علاوہ کسی اَور کام کے لئے وقف کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 15 یہ مضمون اکتوبر ۲۲،‏ ۱۹۸۹ کے جاگو!‏ کے انگریزی شمارے میں صفحہ ۲-‏۱۰ پر دستیاب ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۲ پر عبارت]‏

بہتیرے سپاہی اپنے ملک اور دوستوں کے لئے اپنی جان دے دینے کو تیار رہتے ہیں مگر سچے مسیحی اپنے دشمنوں سے بھی محبت رکھتے ہیں

‏[‏صفحہ ۰۲‏،‏ ۲۱ پر تصویر]‏

کینبرا میں پارلیمنٹ ہاؤس کے اُوپر جیٹ طیارہ اُڑاتے ہوئے

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

سڈنی میں ۱۹۹۴ کے ڈسٹرکٹ کنونشن پر بائبل پر مبنی ڈرامہ

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

کُل وقتی منادوں کی تربیت کے لئے منعقد کئے جانے والے سکول میں کیری کے ساتھ

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

ڈائین اور کیری کے ساتھ