مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

نفرت کی شروعات

نفرت کی شروعات

نفرت کی شروعات

نفرت نے انسانی تاریخ کی ابتدا میں ہی جنم لے لیا تھا۔‏ بائبل میں پیدایش ۴:‏۸ بیان کرتی ہے:‏ ”‏جب وہ دونوں کھیت میں تھے تو یوں ہؤا کہ قائنؔ نے اپنے بھائی ہابلؔ پر حملہ کِیا اور اُسے قتل کر ڈالا۔‏“‏ لیکن ایک بائبل نویس،‏ یوحنا استفسار کرتا ہے کہ ”‏اُس نے کس واسطے اُسے قتل کیا؟‏ اِس واسطے کہ اُس کے کام بُرے تھے اور اُس کے بھائی کے کام راستی کے تھے۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۳:‏۱۲‏)‏ ہابل نفرت کی عام وجہ،‏ حسد کی بھینٹ چڑھا تھا۔‏ امثال ۶:‏۳۴ بیان کرتی ہے کہ ”‏[‏حسد]‏ سے آدمی غضبناک ہوتا ہے۔‏“‏ آجکل معاشرتی مرتبہ،‏ دولت،‏ وسائل اور دیگر مفاد لوگوں کو ایک دوسرے کے مدِمقابل لا کھڑا کرتے ہیں۔‏

جہالت اور خوف

حسد نفرت کی مختلف وجوہات میں سے محض ایک ہے۔‏ اکثر،‏ جہالت اور خوف بھی نفرت کو ہوا دیتے ہیں۔‏ ایک متشدّد نسل‌پرست گروہ کے نوجوان رُکن نے کہا:‏ ”‏نفرت سے پہلے مَیں نے خوف سیکھا تھا۔‏“‏ ایسے خوف کی بنیاد عموماً جہالت ہوتی ہے۔‏ ورلڈ بُک انسائیکلوپیڈیا کے مطابق،‏ متعصّب لوگ ایسی باتوں کی جانب مائل ہوتے ہیں جن کی کوئی ”‏بنیاد اور ثبوت نہیں ہوتا۔‏ .‏ .‏ .‏ متعصّب لوگ عموماً اپنی سوچ سے ہم‌آہنگ نہ ہونے والے حقائق کو نظرانداز کرتے،‏ اُنہیں توڑمروڑ کر پیش کرتے یا پھر غلط‌بیانی سے کام لیتے ہیں۔‏“‏

ایسی سوچ کا ماخذ کیا ہوتا ہے؟‏ ایک انٹرنیٹ انفارمیشن سروس بیان کرتی ہے:‏ ”‏ماضی کے واقعات بیشتر ثقافتی غیرمبدل رائے کا باعث تو بنتے ہی ہیں مگر ہمارا ذاتی پس‌منظر بھی بہت سے متعصّبانہ نظریات کا ذمہ‌دار ہوتا ہے۔‏“‏

مثال کے طور پر،‏ ریاستہائےمتحدہ میں غلاموں کی تجارت سفیدفام اور سیاہ‌فام لوگوں کے مابین تناؤ کا باعث بنی ہے—‏ایسا تناؤ جو آج تک موجود ہے۔‏ اکثر والدین اپنے بچوں میں منفی نسلیاتی نظریات منتقل کرتے ہیں۔‏ نسل‌پرستی کے حامی ایک سفیدفام شخص نے تسلیم کِیا کہ ”‏میرا ذاتی طور پر سیاہ‌فاموں سے کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا“‏ لیکن اپنے والدین کے خیالات کی وجہ سے مَیں بھی منفی نسلیاتی احساسات کا شکار ہو گیا۔‏

اس کے علاوہ دُنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اچھا نہیں سمجھتے۔‏ یہ رائے کسی مختلف نسل یا ثقافت کے شخص کیساتھ ایک ناخوشگوار ملاقات کے باعث بھی قائم کی جا سکتی ہے۔‏ اس سے وہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اس نسل یا ثقافت سے تعلق رکھنے والا ہر شخص ناپسندیدہ عادات کا مالک ہے۔‏

تعصّب انفرادی سطح پر قابلِ‌مذمت ہونے کے باوجود،‏ جب کسی قوم یا نسل میں سرایت کر جاتا ہے تو جان‌لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔‏ کسی کو قومیت،‏ رنگ،‏ ثقافت یا زبان کی بِنا پر دوسروں سے افضل قرار دینے کا نظریہ تعصّب اور غیرملکیوں سے نفرت کا باعث بن سکتا ہے۔‏ بیسویں صدی کے دوران،‏ ایسے تعصّب کا بڑی شدت سے اظہار کِیا گیا تھا۔‏

دلچسپی کی بات ہے کہ نفرت اور تعصّب کا تعلق جِلد کی رنگت یا قومیت سے ہی نہیں ہے۔‏ یونیورسٹی آف پینسلوانیا کا محقق کلارک میک‌کولی لکھتا ہے کہ ”‏سکہ اُچھال کر لوگوں کے دو گروہوں میں بےمقصد تقسیم فرقہ‌واریت کو ہوا دینے کیلئے کافی ہے۔‏“‏ تیسری جماعت کی ایک ٹیچر نے ایک مشہور تجربے کے سلسلے میں اس کا مظاہرہ کِیا۔‏ اُس نے اپنی کلاس کو نیلی آنکھوں والے بچوں اور بھوری آنکھوں والے بچوں کے دو گروہوں میں تقسیم کر دیا۔‏ کچھ ہی دیر بعد دونوں گروہوں میں رقابت پیدا ہو گئی۔‏ کھیلوں میں ایک ٹیم کو دوسری پر ترجیح دینے والی معمولی باتیں بھی پُرتشدد تصادم پر منتج ہو سکتی ہیں۔‏

اتنا تشدد کیوں؟‏

لیکن اس قسم کی رقابتوں کا اظہار اکثر پُرتشدد طریقوں سے ہی کیوں کِیا جاتا ہے؟‏ ماہرین ایسے مسائل کا بغور جائزہ لینے کے بعد بھی مفروضے اور نظریات ہی پیش کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔‏ کلارک میک‌کولی نے انسانوں پر ہونے والے ظلم اور جارحیت پر تحقیق کا جامع ریکارڈ مرتب کِیا۔‏ وہ یہ ظاہر کرنے کے لئے ایک تحقیق کا حوالہ دیتا ہے کہ ”‏پُرتشدد جُرم کا تعلق جنگیں لڑنے اور جیتنے سے ہے۔‏“‏ ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ”‏پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں شریک اقوام،‏ بالخصوص جیتنے والی اقوام کے اندر جنگ ختم ہو جانے کے بعد بھی قتل‌وغارت میں اضافہ ہوا ہے۔‏“‏ بائبل کے مطابق ہم جنگ‌وجدل کے دَور میں رہتے ہیں۔‏ (‏متی ۲۴:‏۶‏)‏ پس کیا اِن جنگوں کے باعث مختلف طرح کے تشدد میں اضافہ ہوا ہے؟‏

دیگر ماہرین انسانی جارحیت کیلئے حیاتیاتی وجوہات کی تلاش میں ہیں۔‏ ایک تحقیق نے جارحیت کی بعض اقسام کو ”‏دماغ میں سیروٹونن کی کمی“‏ سے منسوب کرنے کی کوشش کی ہے۔‏ ایک اَور عام نظریے کے مطابق جارحیت ہماری ساخت اور فطرت کا حصہ ہے۔‏ ایک سیاسی سائنسدان کی رائے میں ”‏نفرت بنیادی طور پر ورثے میں ملتی ہے۔‏“‏

بائبل بھی بیان کرتی ہے کہ ناکامل انسان بُرے خصائل اور نقائص کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔‏ (‏پیدایش ۶:‏۵؛‏ استثنا ۳۲:‏۵‏)‏ بِلاشُبہ،‏ اِن الفاظ کا اطلاق تمام انسانوں پر ہوتا ہے۔‏ مگر تمام انسان دوسروں سے غیرمعمولی نفرت نہیں رکھتے۔‏ لہٰذا،‏ مشہور ماہرِنفسیات گورڈن ڈبلیو.‏ الپورٹ بیان کرتا ہے کہ شیرخواروں میں ”‏تخریبی جبلّت کا بہت کم ثبوت ملتا ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ بچہ عموماً ہر چیز اور شخص کے لئے مثبت رُجحان رکھتا ہے۔‏“‏ ایسے مشاہدے اس بات کی دلالت کرتے ہیں کہ جارحیت،‏ تعصّب اور نفرت بنیادی طور پر ایسے رویے ہیں جنہیں سیکھا جاتا ہے!‏ نفرت سیکھنے کی انسانی صلاحیت کو نفرت سکھانے والوں نے بڑی بےدردی سے استعمال کِیا ہے۔‏

ذہنوں میں زہر گھولنا

چھوٹےچھوٹے بالوں والے نیونازی اور کو کلکس کلین جیسے مختلف گروہوں کے راہنما اس کام میں پیش‌پیش ہیں جنکے دل میں نفرت کوٹ‌کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔‏ یہ گروہ اکثر شکستہ خاندانوں کے معصوم نوجوانوں کو اپنے جال میں پھنسا کر اپنی تحریک میں شامل کر لیتے ہیں۔‏ عدمِ‌تحفظ اور احساسِ‌کمتری کا شکار نوجوان محسوس کر سکتے ہیں کہ نفرت پھیلانے والے گروہ اُنہیں اُنکا حق دلا رہے ہیں۔‏

خاص طور پر ورلڈ وائیڈ ویب ایک نہایت مؤثر آلہ ہے جسے بعض لوگ نفرت پھیلانے کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔‏ ایک حالیہ ریکارڈ کے مطابق،‏ انٹرنیٹ پر نفرت کو فروغ دینے والی تقریباً ۰۰۰،‏۱ ویب سائٹس ہیں۔‏ دی اکنامسٹ میگزین نفرت پھیلانے والے ایک ویب سائٹ کے مالک کے اس فاخرانہ بیان کا حوالہ دیتا ہے:‏ ”‏انٹرنیٹ نے ہمیں ہزارہا لوگوں تک اپنے نظریات پہنچانے کا موقع فراہم کِیا ہے۔‏“‏ اُسکی ویب سائٹ میں ”‏بچوں کا صفحہ“‏ بھی شامل ہے۔‏

جب نوعمر لوگ موسیقی کیلئے انٹرنیٹ کھولتے ہیں تو وہ ایسی سائٹس بھی کھول سکتے ہیں جہاں نفرت سے پُر موسیقی ہوتی ہے۔‏ ایسی موسیقی عموماً تیز اور پُرتشدد ہوتی ہے اور اس کی شاعری میں نسل‌پرستانہ پیغامات کا اظہار کِیا جاتا ہے۔‏ پھر یہ ویب سائٹس نفرت کا پرچار کرنے والے نیوزگروپس،‏ چیٹ رومز یا دیگر ویب سائٹس سے ملا دیتی ہیں۔‏

بعض نفرت پھیلانے والے ویب سائٹس نوجوان لوگوں کیلئے کھیلوں اور دیگر سرگرمیوں کے خصوصی سیکشن پیش کرتی ہیں۔‏ ایک نیونازی ویب سائٹ نسل‌پرستی اور یہوددُشمنی کی توجیہ کیلئے بائبل استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہے۔‏ اس گروپ نے ایک پیج بھی تیار کِیا ہے جو نسل‌پرستانہ تبصروں والے معمے پیش کرتا ہے۔‏ اسکا مقصد کیا ہے؟‏ اسکا مقصد ”‏سفیدفام نوعمروں کی اپنی جنگ کو سمجھنے میں مدد کرنا ہے۔‏“‏

مگر نفرت کو تحریک دینے والے تمام لوگ انتہاپسند تنظیموں کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے۔‏ بلقانی ریاستوں میں حالیہ فسادات پر مقالہ تحریر کرنے والے ایک ماہرِعمرانیات نے بعض مشہور ئنن اور رائےعامہ پر اثرانداز ہونے والے لوگوں کی بابت یوں بیان کِیا:‏ ”‏مَیں اُنکے ایسے طرزِتحریر کو دیکھ کر ششدر رہ گیا جو اُنکے ہم‌وطنوں کے خودغرضانہ محرکات کو تسکین پہنچاتا،‏ اُن میں شدید نفرت کو اُبھارتا،‏ اُن کیلئے ہر طرح کے طرزِعمل کو جائز قرار دیتے ہوئے اُنکی بصیرت کو اندھا کرتا .‏ .‏ .‏ اور حقیقت کو جھٹلاتا ہے۔‏“‏

اس سلسلے میں مذہبی راہنماؤں کے کردار کو بھی نظرانداز نہیں کِیا جا سکتا۔‏ اپنی کتاب ہولی ہیٹرڈ:‏ ریلیجس کانفلکٹس آف دی نائنٹیز کا مصنف جیمز اے.‏ ہاٹ یہ حیران‌کُن رائےزنی کرتا ہے:‏ ”‏۱۹۹۰ کے دہے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مذہب جسے مہربانی اور انسانی خیراندیشی کا منبع خیال کِیا جاتا ہے وہی نفرت،‏ جنگ اور دہشت‌گردی میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ ثابت ہوا ہے۔‏“‏

پس نفرت کے اسباب بیشمار اور انتہائی پیچیدہ ہیں۔‏ لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ انسان کے پاس نفرت سے پُر تاریخ کو دہرانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے؟‏ کیا نفرت کا باعث بننے والی غلط‌فہمی،‏ جہالت اور خوف کو ختم کرنے کیلئے انفرادی اور اجتماعی طور پر کچھ کِیا جا سکتا ہے؟‏

‏[‏صفحہ ۶ پر عبارت]‏

تعصّب اور نفرت سیکھے جانے والے رویے ہیں!‏

‏[‏صفحہ ۴،‏ ۵ پر تصویر]‏

ہم نفرت اور تعصّب کے احساسات .‏ .‏ .‏

‏.‏ .‏ .‏ کیساتھ پیدا نہیں ہوتے

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

نفرت پھیلانے والے گروہ انٹرنیٹ کے ذریعے نوجوانوں کو اپنے ساتھ ملا رہے ہیں

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

مذہب نے اکثر فسادات کو ہوا دی ہے

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

AP Photo