مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

تِتلیوں،‏ پودوں اور چیونٹیوں میں خاص رشتہ

تِتلیوں،‏ پودوں اور چیونٹیوں میں خاص رشتہ

تِتلیوں،‏ پودوں اور چیونٹیوں میں خاص رشتہ

نیدرلینڈز سے جاگو!‏ کا رائٹر

جولائی کا مہینہ،‏ مغربی یورپ کی نازک سی نیلی تِتلیوں کے لئے افزائشِ‌نسل کا وقت ہوتا ہے۔‏ تاہم،‏ اس کیلئے اُنہیں ایک ساتھی سے زیادہ کچھ درکار ہوتا ہے۔‏ اُنہیں جوبن پر آئے ہوئے نیلے مارش جنشنز اور بھوکی سُرخ چیونٹیوں کی خدمات بھی درکار ہوتی ہیں۔‏ کیوں؟‏ پودے اور چیونٹیاں اِن نیلی تِتلیوں کی افزائشِ‌نسل میں کیا کردار ادا کرتے ہیں؟‏

ان تینوں میں اس حیران‌کُن رشتے کا مشاہدہ نیدرلینڈز کے شمالی حصے میں واقع ڈونگ‌ایلڈرویلڈ نیشنل پارک میں کِیا جا سکتا ہے۔‏ اس پارک میں بہت زیادہ نیلی تتلیاں رہتی ہیں۔‏ موسمِ‌بہار اور موسمِ‌گرما میں،‏ ڈونگ‌ایلڈرویلڈ کے میدان پر نیلے مارش جنشن،‏ گلابی خلنج اور پیلی سوسن کے علاوہ دیگر پھولوں کا رنگین قالین بچھ جاتا ہے۔‏ دو مختلف وجوہات کی بِنا پر نیلی تتلیاں خاص طور پر خلنج کے نازک پھولوں اور مارش جنشن کے جھالردار نیلے پھولوں کی طرف مائل ہوتی ہیں۔‏ خلنج کے پھولوں سے رس حاصل کِیا جاتا ہے جبکہ مارش جنشن کو ذخیرہ‌خانہ خیال کِیا جاتا ہے۔‏ مگر تتلیاں یہاں کیا ذخیرہ کرتی ہیں؟‏

بقا کا منصوبہ

جفتی کے بعد،‏ مادہ تِتلی اردگرد کے سبزے سے اُونچا مارش جنشن تلاش کرتی ہے۔‏ پھول پر بیٹھ کر تِتلی چند سفید انڈے دیتی ہے۔‏ چار سے دس دن کے اندر اندر انڈوں میں سے دو سے چھ چھوٹے لاروے نکل آتے ہیں اور پھول میں گھس کر اپنی زندگی کا نیا آغاز کرتے اور وہیں سے خوراک بھی حاصل کرتے ہیں۔‏ دو تین ہفتے تک متواتر خوراک کھانے کے بعد لاروے پھول کو چھوڑ کر نیچے زمین پر آ جاتے ہیں۔‏

دلچسپی کی بات ہے کہ لاروا عام طور پر نیچے اُترنے سے پہلے دن ڈھلنے کا انتظار کرتا ہے۔‏ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ شام کے وقت نیشنل پارک میں رہنے والی سُرخ چیونٹیوں کی دو اقسام بھی خوراک کی تلاش میں اپنے گھروں سے نکلتی ہیں۔‏ لاروا خوراک کی تلاش میں سرگرداں اِن چیونٹیوں کی راہ میں اُتر آتا ہے۔‏ اگرچہ لاروے کا یوں نیچے اُترنا خودکشی کے مترادف دکھائی دیتا ہے توبھی یہ اُس کی بقا کے منصوبے کا ایک حصہ ہے۔‏ پس،‏ اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟‏

جلد ہی کچھ سُرخ چیونٹیاں لاروے کے قریب پہنچ جاتی ہیں اور جلدی سے لاروے کو کھینچ کر اپنے گھر لیجاتی ہیں۔‏ وہاں لاروے کے ساتھ مہمانِ‌خصوصی جیسا برتاؤ کِیا جاتا ہے اور وہ خزاں،‏ سرما اور بہار کے دوران اسی جگہ رہتا ہے کیونکہ یہاں خوراک کی افراط ہوتی ہے۔‏ تِتلی کا یہ لاروا چیونٹی کے لاروے اور ان کی جمع‌کردہ خوراک کھاتا ہے۔‏ مگر چیونٹیاں بھی اِس سے بھرپور فائدہ اُٹھاتی ہیں۔‏ وہ ہر روز لاروے کو لتاڑ کر اپنے لئے لذیذ پت‌رس حاصل کرتی ہیں۔‏ لاروا جب پیوپا بن جاتا ہے تو پھربھی وہ پت‌رس کے علاوہ دیگر ایسی رطوبتیں خارج کرتا رہتا ہے جنہیں چیونٹیاں بڑے شوق سے کھاتی ہیں مگر اس کے بعد یہ شراکت بڑی تیزی سے اختتام کو پہنچتی ہے۔‏

مہمان سے دُشمن

پیوپا کے مرحلے پر لاروا بالغ تِتلی بننا شروع ہو جاتا ہے۔‏ جب یہ تبدیلی مکمل ہو جاتی ہے تو پیوپا دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے اور اس میں سے تِتلی نکل آتی ہے۔‏ یہ بات غورطلب ہے کہ یہ عمل عموماً صبح‌سویرے واقع ہوتا ہے۔‏ کیوں؟‏ اسلئے کہ صبح کے وقت چیونٹیاں قدرے سُست ہوتی ہیں اور جس وقت لاروے نے خود کو پودے سے زمین پر گرایا تھا اُس وقت کی نسبت اب اُس کیلئے اپنے میزبانوں کو متوجہ کرنے سے گریز کرنا اچھا ہوگا۔‏

انجام‌کار جب چیونٹیاں پیوپا کا رس چوسنے کیلئے گھر واپس آتی ہیں تو وہ پَروں والی اس غیرمانوس مخلوق کو دیکھ کر حیران رہ جاتی ہیں اور فوراً اس دُشمن پر حملہ کرتی ہیں۔‏ تِتلی اپنی جان بچانے کیلئے جلدی سے باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے۔‏ گھر سے نکلنے کے بعد تِتلی اُڑ کر شاخ پر جا بیٹھتی ہے اور چیونٹیاں اُسکا پیچھا کرنا چھوڑ دیتی ہیں۔‏

محفوظ مقام پر بیٹھنے کے بعد تِتلی اپنے پَر کھول کر سُکھاتی ہے۔‏ اس کی زندگی شروع ہونے کے تقریباً ایک سال بعد وہ وقت آتا ہے جب تِتلی پہلی مرتبہ اپنے پَروں کو پھڑپھڑاتی ہے۔‏ اس کے بعد وہ جھاڑیوں پر اُڑتی پھرتی ہے!‏ چند ہی دنوں میں وہ جفتی کے عمل سے گزریگی اور پھر نیلے مارش جنشن کے اُونچے پودوں کی تلاش شروع کر دیگی کیونکہ ایک بار پھر اگلی نسل کیلئے منصوبہ‌سازی کرنے کا وقت آ گیا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۱۸ پر بکس]‏

خطرۂمعدومیت سے دوچار تِتلی

نیلی تِتلی خلنجی جھاڑیوں پر بسیرا کرتی ہے۔‏ یہ خلنجی جھاڑیاں کئی صدیاں پہلے مغربی یورپ کے ایسے علاقوں میں اُگ آئی تھیں جہاں انسانوں نے پُرانے جنگلات کو کاٹ ڈالا تھا۔‏ ماضی میں،‏ بیلجیئم،‏ جرمنی اور نیدرلینڈز کا بیشتر حصہ تاحدِنظر جامنی پھولوں والی ان جھاڑیوں سے ڈھکا ہوا دکھائی دیتا تھا مگر اب یہ کہیں کہیں نظر آتی ہیں۔‏ نتیجتاً،‏ نیلی تِتلی کی زندگی خطرے میں ہے۔‏ گزشتہ دس سال میں یہ نیدرلینڈز میں اپنے ۱۳۶ مشہور قدرتی ٹھکانوں میں سے ۵۷ سے غائب ہو چکی ہے۔‏ درحقیقت،‏ اسکی زندگی کو اس حد تک خطرہ لاحق ہے کہ اسکا نام کونسل آف یورپ کی خطرۂمعدومیت سے دوچار تِتلیوں کی تیارکردہ فہرست میں آ گیا ہے۔‏

ڈونگ‌ایلڈرویلڈ نیشنل پارک کو نیلی تِتلیوں کیلئے محفوظ قیام‌گاہ بنانے کی خاطر پارک کے نگہبانوں نے اسکی جھاڑیوں اور دیگر پھولدار پودوں کو قائم‌ودائم رکھنے کا عزم کِیا ہے جس کیلئے اُنہوں نے صدیوں پُرانے کسانوں کے طریقے آزمانے شروع کر دئے ہیں۔‏ ماضی کی طرح اب پھر چرواہے اپنی بھیڑوں کیساتھ اس علاقے میں پھرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔‏ گائیں بھی سخت گھاس سے ڈھکے میدانوں میں چرتی ہیں۔‏ بھیڑوں اور گایوں کے چرنے سے ایسی جگہیں صاف ہو جاتی ہیں جہاں خلنج اور دیگر پودے اُگ سکتے ہیں۔‏ (‏اس وقت پارک میں تقریباً ۵۸۰ قسم کے پودے اُگتے ہیں۔‏)‏ اس کے بدلے میں،‏ ڈونگ‌ایلڈرویلڈ کی نیلی تتلیاں بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہیں یعنی اُنکی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔‏ دراصل،‏ یورپ کا یہ پھولدار جھاڑیوں پر مشتمل بڑا اور اہم پارک تِتلیوں کا اتنا پسندیدہ گھر ہے کہ نیدرلینڈز میں پائی جانے والی تمام قسم کی تِتلیوں میں سے ۶۰ فیصد یہاں مل سکتی ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویریں]‏

تِتلی انڈے دینے کیلئے نیلے مارش جنشن پر بیٹھتی ہے

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویر]‏

سُرخ چیونٹیاں پیوپا کی نگہداشت کرتی ہیں

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

‏;Ants on pages 16 and 17: Pictures by David Nash

‏/www.zi.ku.dk/personal/drnash/atta

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویر]‏

پیلی سوسن

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویر]‏

گلابی خلنجی پھول

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویریں]‏

بھیڑیں اور گائیں تِتلی کے گھر کو بچانے میں مدد کر رہی ہیں