مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

نان میڈول کا راز

نان میڈول کا راز

نان میڈول کا راز

‏’‏جنوبی سمندر کا یہ وینس‘‏ کس کی تعمیر کا شاہکار ہے؟‏ اِسے کیسے تعمیر کِیا گیا تھا؟‏ اِسے ویران کیوں چھوڑ دیا گیا؟‏

کیا آپ کو ایک نہایت سنسنی‌خیز اور پُراسرار راز دریافت کرنے کا شوق ہے؟‏ پس،‏ آپکو صدیوں پُرانے عجوبے نان میڈول کے کھنڈرات پر تحقیق کرنی چاہئے جس نے سیاحوں کو حیرت میں ڈال رکھا ہے۔‏

نان میڈول انسان‌ساختہ جزیروں اور نہروں کا نہایت ہی حیران‌کُن جال ہے جسے ایک ہزار سال قبل مائیکرونیشیا کے جزیرے،‏ پوناپے کے پایاب پتھریلے ساحل پر تعمیر کِیا گیا تھا۔‏ * جب ہم کشتی میں سوار ہو کر اسکے قریب پہنچے تو دیکھا کہ گھنے درختوں اور جھاڑیوں نے کھنڈرات کو ڈھانپ رکھا ہے۔‏ کشتی کے کنارے لگتے ہی فنِ‌تعمیر کے یہ شاہکار ہماری آنکھوں کے سامنے تھے۔‏

سب سے پہلے بلند فصیلیں دکھائی دیتی ہیں جنکا طول کسی شہر کے رقبے کے ایک چوتھائی حصے کے برابر ہے۔‏ اوپر کی جانب بتدریج خم کھاتی ہوئی یہ بڑی فصیلیں بسالٹ کے بڑےبڑے ستونوں کو چلیپائی انداز میں رکھنے سے تعمیر کی گئی ہیں۔‏

نان میڈول کا مطلب ”‏خلائی جگہیں،‏“‏ ہیں چنانچہ یہ نام جزیروں کے اردگرد انسان‌ساختہ نہروں کے جال کی خوب عکاسی کرتا ہے۔‏ اٹھارویں صدی کے یورپی ملاح غالباً وہ پہلے پردیسی تھے جنہوں نے نان میڈول پر قدم رکھا تھا۔‏ وہ اسے دیکھ کر اسقدر حیران ہوئے کہ اُنہوں نے اِس سابقہ سیاسی اور مذہبی مرکز کو جنوبی سمندر کے وینس کا نام دیا۔‏ تاہم،‏ ان ملاحوں نے بھی نان میڈول کی پوری شان‌وشوکت نہیں دیکھی تھی کیونکہ اُنکی آمد سے کوئی ایک صدی پہلے ہی اِسے پُراسرار طور پر ویران چھوڑ دیا گیا تھا۔‏

ہمارے دو گائیڈز نے ہمیں بتایا کہ نان میڈول کا کُل رقبہ تقریباً ۲۰۰ ایکڑ ہے۔‏ اُنہوں نے بیان کِیا کہ اسکے ۹۲ جزیروں میں سے ہر ایک کا خاص مقصد ہے۔‏ بعض رہائشی مراکز تھے جبکہ دیگر غذائی تیاری،‏ کشتی‌سازی اور روایتی رقص کیلئے مخصوص تھے۔‏ یہ جزیرے مختلف سائز اور شکل میں تعمیر کئے گئے تھے توبھی ان میں سے مستطیل شکل کا جزیرہ نمایاں ہے جسکا رقبہ فٹ‌بال کے میدان کے برابر ہے۔‏ بیشتر جزیروں میں بہت زیادہ درختوں اور جھاڑیوں کی افزائش کے باوجود یہاں ہر چیز دلکش اور قابلِ‌دید ہے۔‏

شاہی قلعہ

عجوبۂ‌نان‌میڈول کی سب سے اچھی اور قابلِ‌غور جگہ نان تاؤواس کا پُرشکوہ قلعہ ہے۔‏ اگرچہ سمندری پانی میں چل کر ان کھنڈرات کی سیاحت کی جا سکتی ہے توبھی ان تک پہنچنے کیلئے کشتی استعمال کرنا زیادہ بہتر ہے۔‏ نان میڈول بحری آمدورفت کیلئے تعمیر کِیا گیا تھا اسی لئے اسکی نہریں چار سڑکوں والی شاہراہ جتنی چوڑی ہیں۔‏ ان میں پانی بھی بہت کم ہوتا ہے۔‏ زیادہ سے زیادہ یہاں کمر تک پانی ہوتا ہے جسکی بدولت گزشتہ صدیوں کے دوران نان میڈول بحری جہازوں کے حملے سے محفوظ رہا۔‏ ہمارے راہنما بڑی احتیاط سے کشتی چلا رہے تھے تاکہ کشتی کے پروپیلر کو مرجانی تہہ سے ٹکرا کر کوئی نقصان نہ پہنچے۔‏

نان تاؤواس پہنچنے کے بعد ہم سیڑھیوں والے راستے پر کھڑے تھے جو سیدھا اس قدیم جائےپناہ کو جاتا تھا۔‏ اس شاندار راستے پر ہم ۱۰ تا ۱۵ فٹ موٹی اور ۲۵ تا ۳۰ فٹ اونچی دیواروں کے قریب سے گزر رہے تھے۔‏ ان مضبوط دیواروں نے تُندوتیز طوفانوں کا سامنا کِیا ہے۔‏

ہم نے ان عظیم‌الشان دیواروں کے اندر ایک بہت بڑے صحن میں پتھر کی محراب دیکھی۔‏ یہ پاک جگہ شاہی جنازہ‌گاہ ہے جہاں بادشاہ ماتم کیلئے آیا کرتے تھے۔‏ ہم نے مزید سیاحت کرنے سے ایک زمین‌دوز راستہ بھی ڈھونڈ نکالا۔‏ ہمارے گائیڈز نے ہمیں پتھروں میں بنے ہوئے اس تنگ راستے میں داخل ہونے کیلئے کہا اور جلد ہی ہم پیٹ کے بل رینگتے ہوئے ایک چھوٹے سے تاریک زمین‌دوز کمرے میں پہنچ گئے۔‏ ایک گائیڈ نے کہا:‏ ”‏اب آپ جیل میں ہیں۔‏ نان میڈول کے قیدیوں کو اس جگہ پر رکھا جاتا تھا۔‏“‏ جب ہم نے یہ سوچا کہ دو ٹن کے پتھر سے جیل کا ”‏دروازہ“‏ بند ہو جانے کے بعد قیدی کو کیسا محسوس ہوتا ہوگا تو ہم یہاں سے باہر نکل کر بہت خوش ہوئے۔‏

غیرمعمولی بڑے پتھر

نان میڈول کی سیر نے اسکی تعمیر میں انتھک کوششوں کی قدر کرنے میں ہماری بڑی مدد کی۔‏ ان جزیروں کی بنیاد مرجانی پتھروں پر رکھی گئی ہے۔‏ اِسے بسالٹ کے لمبے ستونوں کا وزن اُٹھانے کیلئے تیار کِیا گیا تھا۔‏ یہ ستون اسقدر جاذبِ‌توجہ ہیں کہ ابتدائی سیاحوں کا خیال تھا کہ انہیں ہاتھ سے تراشا گیا ہے۔‏ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ انکی شکل قدرتی طور پر منشور جیسی ہے اور ہر ایک کے پانچ سے آٹھ کنارے ہیں۔‏

ہزاروں کی تعداد میں یہ ستون یہاں لائے گئے جن میں سے بعض ۱۸ فٹ لمبے اور پانچ ٹن سے زیادہ وزنی تھے۔‏ بنیاد کیلئے استعمال ہونے والے پتھروں میں سے ایک کا وزن اندازاً ۵۰ ٹن ہے!‏ اگر بہت ساری لٹھوں پر مشتمل تختے پر بھی یہ پتھر لائے گئے ہوں تو اتنے زیادہ وزن کی وجہ سے یہ تختہ کم پانی میں ڈوب سکتا ہے اسلئے ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ ’‏اتنے بڑےبڑے پتھر نان میڈول کیسے لائے گئے اور انہیں اُٹھا کر انکی مخصوص جگہ پر کیسے رکھا گیا؟‏‘‏ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ بسالٹ کا سب سے قریبی ماخذ بھی یہاں سے میلوں—‏جزیرۂپوناپے سے تقریباً نصف فاصلہ—‏دُور ہے!‏

کئی سالوں کے دوران،‏ نان میڈول کے سربستہ راز سے کئی افسانوں نے جنم لیا ہے۔‏ ایک خیال تو یہ ہے کہ کئی صدیاں پہلے دو بھائیوں کو دیوتاؤں نے جادوئی طاقت بخشی تھی جس سے وہ ان بھاری پتھروں کو ”‏اُڑا“‏ کر اس مقام پر لائے تھے۔‏ ایک اَور داستان کے مطابق،‏ کبھی پوناپے میں ایسے ترقی‌یافتہ لوگ آباد تھے جو صوتی لہروں کو قابو میں رکھنے کا راز جانتے تھے جسکی وجہ سے وہ ان بھاری پتھروں کو ہوا میں اُڑا کر یہاں لانے کے قابل ہوئے تھے۔‏

ہمارے گائیڈز نے ہمیں اسکی زیادہ معقول وضاحت پیش کی کہ نان میڈول کو بہت بڑی افرادی قوت سے تعمیر کِیا گیا جس میں کئی صدیاں لگیں۔‏ غالباً بسالٹ کے پتھروں کو افقی سمت سے جھکے ہوئے کھجور کے تنوں کی مدد سے جسمانی قوت کیساتھ ہی اُٹھا کر اُنکی موزوں جگہ پر رکھا گیا تھا۔‏ لیکن پھر بھی سوال یہ ہے کہ ”‏یہ بھاری پتھر نان میڈول کیسے لائے گئے تھے؟‏“‏

کیا یہ راز کبھی افشا ہوگا؟‏

کسی کو بھی نان میڈول کی تعمیر اور تباہ‌کاری کی بابت کچھ پتہ نہیں،‏ بیشتر کے خیال میں اُس پر قبضہ کِیا گیا تھا۔‏ کچھ کے خیال میں بعض اجنبیوں کے ساتھ وارد ہونے والی بیماری اسکی تباہی کا سبب بنی۔‏ ایک خیال یہ بھی ہے کہ سخت طوفان کی وجہ سے اس جزیرے کے غذائی وسائل تباہ ہو گئے تھے جس سے لوگ ہجرت پر مجبور ہو گئے۔‏ خواہ کوئی بھی وجہ تھی،‏ نان میڈول تقریباً ۲۰۰ سال سے ویران‌وسنسان پڑا ہے۔‏

لہٰذا،‏ یہ قدیم عجوبہ ہمارے ذہنوں میں بیشمار سوال پیدا کرتا ہے جن کے جواب نہ ہونے کے برابر ہیں۔‏ جب ہماری کشتی واپسی کیلئے روانہ ہوئی تو ہم ایک ہی سوچ میں مبتلا تھے کہ کیا نان میڈول کے راز کو کبھی کوئی دریافت کر پائیگا؟‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 4 پوناپے خطِ‌استوا کے قریب،‏ ہوائی کے جنوب‌مغرب میں ۰۰۰،‏۵ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۱۶ پر نقشہ]‏

‏(‏تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

پوناپے

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویر]‏

قلعے کی بندرگاہ اور مرکزی مدخل

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویر]‏

بلند بیرونی فصیل

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

پتھر کی مرکزی تدفینی محراب

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

کوئی ۲۰۰ ایکٹر کے رقبے پر پھیلی ہوئی انسان‌ساختہ نہریں

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

2000 Nik Wheeler ©