مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

دُنیا کا نظارہ کرنا

دُنیا کا نظارہ کرنا

دُنیا کا نظارہ کرنا

کمسن بچے اور ٹی‌وی

دی ٹرانٹو سٹار بیان کرتا ہے کہ دی امریکن اکیڈمی آف پیڈی‌ایٹرکس سفارش کرتی ہے کہ دو سال سے کم عمر کے بچے ٹیلی‌ویژن نہ دیکھیں۔‏ دماغ کی ابتدائی نشوونما پر تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ کمسن بچوں کا والدین اور دیکھ‌بھال کرنے والے دیگر لوگوں کے ساتھ براہِ‌راست رابطہ ضروری ہے۔‏ ٹی‌وی دیکھنا ”‏اُس باہمی عمل کی راہ میں حائل ہو سکتا ہے جو اُن کی معاشرتی،‏ جذباتی اور ادراکی صلاحیتوں کو ترقی دینے میں معاون ہوتا ہے۔‏“‏ تاہم،‏ تمام ماہرین اس سے متفق نہیں ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ کینیڈین پیڈی‌ایٹرک سوسائٹی کا کہنا ہے کہ دِن میں ۳۰ منٹ کے لئے والدین کی زیرِنگرانی اچھے پروگرام دیکھنا ایک بچے کو ”‏والدین سے تعلیم پانے کا موقع“‏ فراہم کرتا ہے۔‏ تاہم،‏ دونوں تنظیمیں اس بات پر متفق ہیں کہ چھوٹے بچوں کے کمروں میں ٹیلی‌ویژن اور کمپیوٹر نہیں ہونے چاہئیں اور ٹی‌وی کو بےبی-‏سٹر کے طور پر بھی استعمال نہیں کِیا جانا چاہئے۔‏ چونکہ ٹی‌وی دیکھنا نوعمر بچوں کی صحت کو متاثر کر سکتا ہے لہٰذا اس بات کی سفارش کی گئی ہے کہ ”‏بچوں کی باہر کھیلنے،‏ کتابیں پڑھنے،‏ معمے حل کرنے یا دوسرے کھیلوں میں حصہ لینے کے لئے حوصلہ‌افزائی کی جانی چاہئے۔‏“‏

ملازمت کے دوران مایوسی

بعض لوگ ملازمت کی جگہ پر غصے میں کیوں آ جاتے ہیں یا پھر متشدّد کیوں ہو جاتے ہیں؟‏ ٹرانٹو کے ایک ماہرِنفسیات سام کلیریک کے مطابق،‏ اس کی وجہ نہ صرف دباؤ بلکہ مایوسی پر قابو پانے میں ناکامی بھی ہے۔‏ اُس کا خیال ہے کہ یہ حالت بعض ایسے ملازمین میں پیدا ہوتی ہے جو یہ محسوس کرتے ہیں کہ اُن سے ”‏بہت زیادہ کام کرنے کا تقاضا کِیا جا رہا ہے جبکہ اُنہیں اس کی مناسبت سے اُجرت نہیں دی جا رہی،‏“‏ دی گلوب اینڈ میل اخبار بیان کرتا ہے۔‏ کلیریک آگاہ کرتا ہے کہ طویل عرصے تک غصے میں رہنا ”‏ایک انتہائی غیرصحتمندانہ جذبہ ہے“‏ جو کہ فالج یا دل کے دورے کا باعث بن سکتا ہے۔‏ وہ ملازمین کی حوصلہ‌افزائی کرتا ہے کہ وہ مایوسی پر غالب آنا اور اپنے ساتھی کارکنوں کے ساتھ ملکر بیٹھنا اور پُرسکون ماحول میں اس پر گفتگو کرنا سیکھیں کہ وہ درحقیقت کتنا کام کر سکتے ہیں۔‏ بصورتِ‌دیگر،‏ کلیریک مالکان کو صلاح دیتا ہے کہ وہ کام کی وجہ سے تھک کر چور ہو جانے والے ملازمین سے خبردار رہیں اور اُنہیں اضافی مدد دیں،‏ اُن کے کام کو کم کریں یا انہیں چھٹی لینے کا مشورہ دیں۔‏

گانا دل کو تقویت بخشتا ہے

سائنسدانوں نے یہ دریافت کِیا ہے کہ گانے سے دماغ کے اندر ایسے کیمیکلز خارج ہوتے ہیں جو آپ کے خوشی اور اطمینان محسوس کرنے کا باعث بنتے ہیں،‏ جرمن اخبار سٹٹ‌گارٹر ناکرخٹن بیان کرتا ہے۔‏ محققین کا کہنا ہے کہ گیت گانے سے دماغ کے اندر ”‏جذبات کے مالیکیولز“‏ کو تحریک ملتی ہے۔‏ اسلئے ”‏گیت گانے کی بابت یہ کہا جاتا ہے کہ یہ نہ صرف جذبات کا اظہار کرتا ہے بلکہ انہیں جنم بھی دیتا ہے،‏“‏ رپورٹ بیان کرتی ہے۔‏ موسیقی کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ آجکل بیشتر لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ گیت گانا ”‏فرسودہ فیشن“‏ ہے یا یہ کہ اُنکی آواز اچھی نہیں،‏ اسلئے وہ گانے اور موسیقی کو میڈیا تک ہی محدود رکھتے ہیں۔‏ تاہم،‏ یہ تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ جب لوگ خود گاتے ہیں تو اس سے اُنہیں فائدہ پہنچتا ہے۔‏

فصل کی چوری

متعدد جرمن ریاستوں میں،‏ کسان فصلوں کی چوری میں اضافے کی بابت شکایت کر رہے ہیں،‏ زیجنی‌ٹسٹن بیان کرتا ہے۔‏ چور ٹوکرے بھر بھر کر کھیرے اور ڈھیروں ڈھیر اسپیراگس کو گاڑیوں میں لیجاتے ہیں۔‏ ایک دفعہ تو اُنہوں نے سٹرابیری کے ۰۰۰،‏۷ پودے چرا لئے تھے۔‏ اگرچہ بعض اپنی پست‌حالی کی وجہ سے چوری کرتے ہیں تاہم ایسا دکھائی دیتا ہے کہ دیگر اسے مشغلہ خیال کرتے ہیں۔‏ کسان بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے ڈاکہ ڈالے جانے والے کھیتوں کے قریب ”‏تمام قسم کی گاڑیاں“‏ کھڑی دیکھی ہیں۔‏ کھیت اکثر مالکوں کے گھروں سے دُور ہوتے ہیں اور ایسے کھیتوں میں چور اور بھی دلیر ہو جاتے ہیں۔‏ ایک مشیر نے تجویز کِیا ہے کہ چوروں کی حوصلہ‌شکنی کرنے کیلئے کسانوں کو چاہئے کہ اپنی فصلوں کو کھاد سے ڈھانپ دیں۔‏

سماجی میل‌جول رکھنے والے لوگ طویل‌عمر پا سکتے ہیں

ہاورڈ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق،‏ چرچ،‏ ریسٹورانٹ،‏ کھیلوں اور موویز جیسی تفریحی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے عمررسیدہ لوگ اُن لوگوں کی نسبت اوسطاً ڈھائی سال زیادہ زندہ رہتے ہیں جو قدرے کم ملنسار ہوتے ہیں۔‏ اس تحقیق کے سربراہ،‏ ہاورڈ کے تھامس گلاس نے کہا،‏ کافی پہلے ہی یہ اندازہ لگا لیا گیا تھا کہ ایسی سرگرمیوں میں طبعی شرکت نے لوگوں کی مدد کی ہے۔‏ تاہم،‏ وہ مزید بیان کرتا ہے کہ یہ تحقیق ”‏شاید ہمارے زمانے تک سب سے بڑا واقعاتی ثبوت“‏ فراہم کرتی ہے کہ ”‏عمر کے آخری حصے میں ایک پُرمطلب مقصد زندگی میں اضافہ کرتا ہے۔‏“‏ گلاس نے یہ بھی بیان کِیا کہ کام خواہ کوئی بھی ہو اس میں بھرپور شرکت بہرصورت زندگی کو طوالت بخشتی ہے۔‏

دُنیا کے قدیم‌ترین غرقاب جہاز

فرنچ میگزین سائنسز آ اوینر کے مطابق بحری جغرافیہ دانوں نے دو تباہ‌شُدہ فینیکی بیڑے دریافت کئے ہیں جو کہ تقریباً ۷۵۰ ق.‏س.‏ع.‏ کے زمانے کے ہیں۔‏ اسرائیل کے ساحل کے قریب ۴۸ سے ۵۸ فٹ کی کشتیاں،‏ ۰۰،‏۱۶ فٹ گہرے کھلے سمندر میں پائے جانے والے قدیم‌ترین بحری بیڑے ہیں۔‏ مٹی سے بنے ہوئے شراب رکھنے کے بڑے بڑے مرتبانوں سے بھرے ہوئے یہ بحری بیڑے صور کے ساحل سے شاید مصر یا شمالی افریقہ کے شہر کارتھیج کیلئے روانہ ہوئے تھے۔‏ انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹرائبون کے بیان کے مطابق ان جہازوں کے دریافت کرنے والے،‏ رابرٹ بالرڈ نے کہا:‏ ”‏ایسا لگتا ہے کہ سمندر کے بہت نیچے،‏ سورج کی روشنی کے فقدان اور بہت زیادہ دباؤ نے ہماری سوچ سے کہیں زیادہ اس تاریخ کو محفوظ رکھا ہے۔‏“‏ محققین کا کہنا ہے کہ یہ دریافت ”‏اس قدیم بحری ثقافت پر تحقیق کے ایک نئے باب کو کھولنے میں مدد دے سکتی ہے۔‏“‏

آرام‌وسکون حاصل کرنے کیلئے پہلی ترجیح

ایک حالیہ سروے کے دوران ۳۰ مختلف ممالک سے ۰۰۰،‏۱ لوگوں سے یہ پوچھا گیا کہ وہ دباؤ کو کم کرنے کیلئے کس سرگرمی کو ترجیح دینگے۔‏ رائٹرز نیوز ایجنسی نے بیان کِیا کہ عالمی پیمانے پر انٹرویو کئے جانے والے ۵۶ فیصد لوگوں کا جواب تھا کہ وہ موسیقی کو ترجیح دینگے۔‏ ترقی‌یافتہ ایشیا میں ۴۶ فیصد کے مقابلے میں،‏ شمالی امریکہ میں ۶۴ فیصد نے موسیقی کو ترجیح دی۔‏ مجموعی طور پر،‏ ٹی‌وی دیکھنا دوسرے نمبر پر رہا جبکہ نہانا دھونا تیسرے نمبر پر تھا۔‏ عالمی پیمانے پر روپر سٹارچ کے ذریعے سروے کے ڈائریکٹر ٹام ملر نے کہا،‏ ”‏جب آپ موسیقی کی قیمت اور ریڈیو،‏ ٹی‌وی،‏ ذاتی سی‌ڈی پلیئرز،‏ انٹرنیٹ اور بیشمار دیگر نئے ذرائع سے اسکی دستیابی کی بابت سوچتے ہیں تو یہ کوئی عجیب بات معلوم نہیں ہوتی کہ دُنیا کی نصف سے زیادہ آبادی آرام‌وسکون حاصل کرنے کیلئے موسیقی سنتی ہے۔‏“‏

غربت—‏ایک عالمی مسئلہ

حال ہی میں،‏ ورلڈ بینک کے پریذیڈنٹ جیمز ڈی.‏ ولفن‌سن نے عالمی پیمانے پر غربت میں اضافے کی بابت تشویش کا اظہار کِیا۔‏ میکسیکو شہر کے اخبار لا جورناڈا نے بیان کِیا کہ ولفن‌سن کا کہنا ہے کہ دُنیا کے چھ بلین لوگوں کی ایک تہائی آبادی ابھی تک شدید غربت کا شکار ہے۔‏ اُس نے مزید کہا کہ دُنیا کی نصف آبادی دو ڈالر یومیہ سے بھی کم؛‏ اور ایک بلین آبادی تو ایک ڈالر سے بھی کم پر گزارا کرتی ہے۔‏ اگرچہ ولفن‌سن غربت کا خاتمہ کرنے کے خلاف ورلڈ بینک کی جدوجہد سے نہایت خوش ہے تاہم اُس نے ایسے اعدادوشمار پیش کئے ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ مسئلہ بہت بڑھ گیا ہے اور اس پر قابو پانا مشکل ہے۔‏ اُس نے بیان کِیا:‏ ”‏ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ غربت ایک عالمی مسئلہ ہے۔‏“‏

اگر شُبہ ہو تو اِسے پھینک دیں

بعض اقسام کی پھپھوندی جیسےکہ نیلے پنیر پر لگی ہوئی پھپھوندی کھائی جا سکتی ہیں۔‏ تاہم دیگر اقسام خطرناک ہو سکتی ہیں بالخصوص اُن لوگوں کے لئے جنکی صحت خراب ہے،‏ یوسی برکلی ویل‌نس لیٹر آگاہ کرتا ہے۔‏ روٹی اور اناج پر لگنے والی پھپھوندی سب سے زیادہ زہریلی ہوتی ہے۔‏ اکثر نظر آنے والی پھپھوندی کی دھاگے جیسی جڑیں کھانے کے اندر تک پہنچ جاتی ہیں۔‏ مزیدبرآں،‏ پھپھوندی سے پیدا ہونے والا زہر پکانے سے ختم نہیں ہوتا۔‏ ویل‌نس لیٹر مندرجہ‌ذیل سفارشات کرتا ہے:‏

▪ اگر ممکن ہے تو چیزوں کو فریج میں رکھیں اور پھپھوندی لگنے سے پہلے استعمال کر لیں۔‏

▪ پھپھوندی لگے ہوئے بیروں اور انگوروں جیسے چھوٹے پھلوں کو پھینک دیں۔‏ پھل کو صرف اُس وقت دھوئیں جب آپ اُسے کھانا چاہتے ہیں چونکہ نمی پھپھوندی میں اضافہ کرتی ہے۔‏

▪ سیب،‏ آلو،‏ گوبھی یا پیاز جیسے بڑے اور سخت پھلوں اور سبزیوں پر پھپھوندی والے حصوں کو کاٹ دینا بہتر ہوگا۔‏ آڑو اور خربوزے جیسے پھلوں کو اگر پھپھوندی لگ جائے یا وہ نرم ہو جائیں تو اُنہیں پھینک دینا چاہئے۔‏

▪پھپھوندی والے سخت پنیر کے اُوپر والے حصے کو کم ازکم ایک انچ کاٹ دینا چاہئے۔‏ مگر پھپھوندی لگے ہوئے نرم پنیر اور یوگارٹ اور پھپھوندی لگی ہوئی روٹی،‏ گوشت،‏ بچی ہوئی چیزیں،‏ نٹس،‏ مونگ‌پھلی کا مکھن،‏ شربت اور ڈبوں میں بند چیزوں کو پھینک دیں۔‏

صحت‌بخش بُھنا ہؤا گوشت

‏”‏خوراک کے حوالے سے کم پکا ہؤا گوشت ہمیشہ تشویش کا باعث رہا ہے مگر حالیہ برسوں میں،‏ زیادہ پکا ہؤا—‏بالخصوص گھروں میں کوئلوں پر بھنے ہوئے گوشت،‏ مرغی اور مچھلی کو صحت کے لئے زیادہ مُضر قرار دیا جا رہا ہے،‏“‏ کینیڈا کا نیشنل پوسٹ اخبار بیان کرتا ہے۔‏ جب گوشت کو زیادہ درجہ‌حرارت پر پکایا جاتا ہے تو کارسوجینک مرکبات پیدا ہوتے ہیں جو کہ ہیٹروسائی‌کلک امانیز (‎s‎HCA) کہلاتے ہیں۔‏ رپورٹ تجویز کرتی ہے کہ شاید گوشت کو لگانے والا سادہ مسالہ جس میں ”‏لیمو کا رس،‏ نارنگی کا رس یا سرکے جیسا کوئی تیزابی مرکب شامل ہے“‏ کوئلوں پر پکنے والے گوشت کو زیادہ صحت‌بخش بنا دے۔‏ متعدد کوششوں کے بعد،‏ امریکن انسٹیٹیوٹ فار کینسر ریسرچ کے ماہرین نے ”‏یہ دریافت کِیا ہے کہ مسالہ لگے ہوئے کھانوں میں بغیر مسالے والے کھانوں کی نسبت ۹۲ تا ۹۹ فیصد کم sHCA موجود تھے اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اُنہیں ۴۰ منٹ تک یا پھر دو دِن کیلئے مسالہ لگایا ہے۔‏“‏