مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏خدا وہ اِطمینان دیتا ہے جو سمجھ سے باہر ہے‘‏

‏’‏خدا وہ اِطمینان دیتا ہے جو سمجھ سے باہر ہے‘‏

‏”‏خدا آپ کو وہ اِطمینان دے گا جو سمجھ سے باہر ہے اور یہ اِطمینان .‏ .‏ .‏ آپ کے دل اور سوچ کو محفوظ رکھے گا۔‏“‏‏—‏فِلپّیوں 4:‏7‏۔‏

گیت:‏ 39،‏  47

1،‏ 2.‏ شہر فِلپّی میں پولُس اور سیلاس کے ساتھ کیا ہوا؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

ذرا اِس منظر کا تصور کریں۔‏ دو مشنری پولُس اور سیلاس شہر فِلپّی کے ایک قیدخانے کے سب سے محفوظ حصے میں بند ہیں۔‏ یہاں گھپ اندھیرا ہے اور وہ کھڑے بھی نہیں ہو سکتے کیونکہ اُن کے پاؤں کاٹھ میں جکڑے ہوئے ہیں۔‏ اُن کی کمر میں شدید درد ہے کیونکہ تھوڑی دیر پہلے اُنہیں بُری طرح مارا پیٹا گیا ہے۔‏ (‏اعمال 16:‏23،‏ 24‏)‏ کچھ گھنٹے پہلے آناًفاناً ایک بِھیڑ آئی اور پولُس اور سیلاس کو گھسیٹ کر بازار میں لے گئی۔‏ وہاں اُنہوں نے اُن پر غیرقانونی طور پر مُقدمہ چلایا۔‏ اُنہوں نے اُن کے کپڑے پھاڑ دیے اور اُنہیں لاٹھیوں سے بہت مارا۔‏ (‏اعمال 16:‏16-‏22‏)‏ یہ کتنی بڑی نااِنصافی تھی!‏ پولُس ایک رومی شہری تھے اور وہ اِس بات کا حق رکھتے تھے کہ اُن پر قانونی طریقے سے مُقدمہ چلایا جاتا۔‏ *

2 قید میں شاید پولُس رسول نے اُس دن ہونے والے واقعات کے بارے میں سوچا ہو۔‏ ہو سکتا ہے کہ اُنہوں نے فِلپّی میں رہنے والے لوگوں کے بارے میں بھی سوچا ہو۔‏ پولُس اب تک جن شہروں میں گئے تھے،‏ اُن میں سے زیادہ‌تر میں یہودیوں کی اپنی عبادت‌گاہ تھی۔‏ لیکن فِلپّی میں یہودیوں کی اپنی کوئی عبادت‌گاہ نہیں تھی۔‏ اِس وجہ سے اُنہیں شہر کے دروازے کے باہر دریا کے قریب عبادت کرنی پڑتی تھی۔‏ (‏اعمال 16:‏13،‏ 14‏)‏ فِلپّی میں یہودیوں کی عبادت‌گاہ بنانے کے لیے ضروری تھا کہ وہاں کم از کم دس یہودی مرد رہتے ہوں۔‏ تو کیا اُس شہر میں عبادت‌گاہ نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہاں یہودی مردوں کی تعداد دس سے بھی کم تھی؟‏ فِلپّی کے لوگوں کو رومی شہری ہونے پر بڑا مان تھا۔‏ (‏اعمال 16:‏21‏)‏ شاید اِسی لیے اُن کے ذہن میں یہ بات نہیں آئی کہ پولُس اور سیلاس جو کہ یہودی تھے،‏ وہ بھی رومی شہری ہو سکتے ہیں۔‏ بہرحال ہم جانتے ہیں کہ اُنہیں بِلاوجہ ہی قید میں ڈال دیا گیا تھا۔‏

3.‏ قید میں پولُس کے ذہن میں طرح طرح کے سوال کیوں آئے ہوں گے لیکن اُنہوں نے کیا کِیا؟‏

3 شاید پولُس رسول نے پچھلے کچھ مہینوں کے دوران ہونے والے واقعات کو بھی یاد کِیا ہو۔‏ وہ ایشیائے کوچک میں تھے جب پاک روح نے اُنہیں کچھ خاص علاقوں میں جانے سے روکا۔‏ ایسا لگ رہا تھا جیسے پاک روح اُنہیں کہیں اَور جانے کی ترغیب دے رہی ہے۔‏ (‏اعمال 16:‏6،‏ 7‏)‏ لیکن کہاں؟‏ جب وہ تروآس میں تھے تو اُنہوں نے ایک رُویا دیکھی جس میں ایک آدمی اُن سے کہہ رہا تھا:‏ ”‏مقدونیہ آئیں۔‏“‏ یہوواہ چاہتا تھا کہ پولُس مقدونیہ جائیں۔‏ لہٰذا وہ فوراً وہاں کے لیے روانہ ہو گئے۔‏ ‏(‏اعمال 16:‏8-‏10 کو پڑھیں۔‏)‏ مگر پھر کیا ہوا؟‏ ابھی اُنہیں مقدونیہ آئے کچھ ہی عرصہ ہوا تھا کہ اُنہیں قید میں ڈال دیا گیا۔‏ لیکن یہوواہ نے پولُس کے ساتھ یہ سب کیوں ہونے دیا؟‏ اُنہیں کتنی دیر قید میں رہنا تھا؟‏ یہ سوال شاید پولُس کے ذہن میں بھی تھے۔‏ مگر پھر بھی اُنہوں نے خدا پر مضبوط ایمان رکھا اور اپنی خوشی کو کم نہیں ہونے دیا۔‏ بائبل میں لکھا ہے کہ ”‏پولُس اور سیلاس دُعا کر رہے تھے اور خدا کی حمد کے گیت گا رہے تھے۔‏“‏ (‏اعمال 16:‏25‏)‏ خدا نے اُنہیں جو اِطمینان بخشا،‏ اُس سے اُنہیں دلی اور ذہنی سکون ملا۔‏

4،‏ 5.‏ ‏(‏الف)‏ ہماری صورتحال پولُس کی صورتحال جیسی کیسے ہو سکتی ہے؟‏ (‏ب)‏ پولُس کی صورتحال اچانک کیسے بدل گئی؟‏

4 کیا آپ نے کبھی پولُس کی طرح محسوس کِیا ہے؟‏ ہو سکتا ہے کہ آپ کی زندگی میں بھی ایسا وقت آیا ہو جب آپ نے کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے خدا سے مدد مانگی اور آپ کو لگا کہ آپ نے پاک روح کی رہنمائی میں صحیح فیصلہ کِیا ہے۔‏ لیکن پھر آپ کو بہت سی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا یا اپنی زندگی میں بڑی بڑی تبدیلیاں لانی پڑیں۔‏ (‏واعظ 9:‏11‏)‏ شاید آپ سوچتے ہوں کہ یہوواہ خدا نے اُس وقت آپ کے ساتھ وہ سب کیوں ہونے دیا۔‏ مگر آپ کیا کر سکتے ہیں تاکہ آپ یہوواہ پر پورا بھروسا رکھتے ہوئے مشکلات کو برداشت کر سکیں؟‏ اِس کا جواب جاننے کے لیے آئیں،‏ دیکھیں کہ پولُس اور سیلاس کے ساتھ آگے کیا ہوا۔‏

5 جب پولُس اور سیلاس گیت گا رہے تھے تو بہت سے ایسے واقعات ہوئے جن کی اُنہیں توقع بھی نہیں تھی۔‏ پہلے ایک بڑا زلزلہ آیا۔‏ پھر اچانک قیدخانے کے دروازے کُھل گئے۔‏ اِس کے بعد قیدیوں کی زنجیریں بھی کُھل گئیں۔‏ پھر پولُس نے قیدخانے کے حوالدار کو خودکُشی کرنے سے روکا جس کے بعد اُس حوالدار نے اور اُس کے سب گھر والوں نے بپتسمہ لے لیا۔‏ اگلی صبح شہر کے ناظموں نے سپاہیوں کو بھیجا تاکہ وہ پولُس اور سیلاس کو قیدخانے سے باہر نکالیں اور اُنہیں چپ‌چاپ شہر سے جانے کو کہیں۔‏ لیکن جب ناظموں کو پتہ چلا کہ پولُس اور سیلاس رومی شہری ہیں تو اُنہیں احساس ہوا کہ اُن سے کتنی بڑی غلطی ہو گئی ہے۔‏ لہٰذا وہ خود اُنہیں قیدخانے سے باہر نکالنے گئے۔‏ مگر پولُس اور سیلاس شہر چھوڑنے سے پہلے لِدیہ سے ملنے گئے جنہوں نے کچھ عرصہ پہلے ہی بپتسمہ لیا تھا۔‏ اِس کے علاوہ اُنہوں نے فِلپّی کے دیگر بہن بھائیوں کی بھی حوصلہ‌افزائی کی۔‏ (‏اعمال 16:‏26-‏40‏)‏ سب کچھ کتنی جلدی بدل گیا تھا!‏

ایسا اِطمینان جو ”‏سمجھ سے باہر“‏ ہے

6.‏ اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟‏

6 اِن واقعات سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏ ہم سیکھتے ہیں کہ یہوواہ خدا وہ کام بھی کر سکتا ہے جس کی ہمیں توقع بھی نہیں ہوتی اِس لیے ہمیں مشکلات میں حد سے زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیے۔‏ پولُس رسول نے اِس بات کا خوب تجربہ کِیا تھا اور اِس کا اُن پر گہرا اثر ہوا تھا۔‏ ہمیں اِس کا اندازہ پولُس کی اُس بات سے ہوتا ہے جو اُنہوں نے فِلپّی کی کلیسیا کو پریشانیوں کے حوالے سے اور اُس اِطمینان کے بارے میں لکھی جو خدا بخشتا ہے۔‏ اِس مضمون میں ہم فِلپّیوں 4:‏6،‏ 7 میں درج پولُس کے الفاظ پر غور کریں گے۔‏ ‏(‏اِن آیتوں کو پڑھیں۔‏)‏ اِس کے بعد ہم کچھ اَور ایسے واقعات پر بات کریں گے جب یہوواہ خدا نے وہ کام کیے جو کسی کے وہم‌وگمان میں بھی نہیں تھے۔‏ اور آخر میں ہم دیکھیں گے کہ خدا جو اِطمینان دیتا ہے،‏ اُس کے ذریعے ہم خدا پر بھروسا رکھتے ہوئے مشکلات کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں۔‏

مشکلات میں حد سے زیادہ پریشان نہ ہوں کیونکہ یہوواہ وہ کام بھی کر سکتا ہے جس کی آپ کو توقع بھی نہیں ہوتی۔‏

7.‏ پولُس رسول اپنے خط کے ذریعے فِلپّی کے بہن بھائیوں کو کیا سکھانا چاہتے تھے اور ہم پولُس کی بات سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

7 جب فِلپّی کے بہن بھائیوں نے پولُس رسول کا خط پڑھا تو اُنہوں نے کیا سوچا؟‏ غالباً اُن میں سے زیادہ‌تر کو یاد ہوگا کہ پولُس اور سیلاس کے ساتھ کیا ہوا تھا اور یہوواہ خدا نے کیسے اُن کی مدد کرنے کے لیے وہ کام کِیا تھا جس کی کسی کو توقع بھی نہیں تھی۔‏ پولُس اپنے خط کے ذریعے اُنہیں کیا بات سکھانا چاہتے تھے؟‏ یہ کہ پریشان نہ ہوں بلکہ دُعا کریں اور ”‏پھر خدا آپ کو وہ اِطمینان دے گا جو سمجھ سے باہر ہے۔‏“‏ اِصطلاح ”‏سمجھ سے باہر“‏ کا کیا مطلب ہے؟‏ بائبل کے کچھ ترجموں میں اِس اِصطلاح کا ترجمہ یوں کِیا گیا ہے:‏ ”‏خواب‌وخیال سے باہر“‏ یا ”‏اِنسانی سوچ سے کہیں افضل۔‏“‏ لہٰذا پولُس فِلپّی کی کلیسیا کو بتانا چاہتے تھے کہ خدا جو اِطمینان بخشتا ہے،‏ اُس کا اِتنا اثر ہوتا ہے کہ ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔‏ ہو سکتا ہے کہ کبھی کبھار ہمیں اپنی مشکلوں کا کوئی حل نظر نہ آئے لیکن یہوواہ خدا جانتا ہے کہ ہماری مشکلات کیسے حل ہو سکتی ہیں۔‏ اور وہ ایسے طریقے سے ہماری مدد کر سکتا ہے جس کے بارے میں ہم نے سوچا بھی نہیں ہوتا۔‏‏—‏2-‏پطرس 2:‏9 کو پڑھیں۔‏

8،‏ 9.‏ ‏(‏الف)‏ اگرچہ پولُس کو فِلپّی میں نااِنصافی کا سامنا کرنا پڑا مگر اِس کا کون سا اچھا نتیجہ نکلا؟‏ (‏ب)‏ فِلپّی کے بہن بھائی پولُس کے الفاظ پر پورا بھروسا کیوں رکھ سکتے تھے؟‏

8 جب پولُس رسول نے فِلپّیوں کے نام خط لکھا تو اُس وقت اُنہیں فِلپّی کے قیدخانے سے رِہا ہوئے دس سال ہو چُکے تھے۔‏ اِس خط کو پڑھنے کے بعد فِلپّی کے بہن بھائیوں نے سوچا ہوگا کہ یہوواہ خدا نے پچھلے دس سال میں اُن کے لیے کیا کچھ کِیا ہے۔‏ یوں اُن کا ایمان مضبوط ہوا ہوگا۔‏ اگرچہ یہوواہ خدا نے پولُس اور سیلاس کے ساتھ نااِنصافی ہونے دی مگر اِس کے نتیجے میں ”‏خوش‌خبری کا دِفاع کرنے اور اِسے قانونی حیثیت دینے“‏ میں مدد ملی۔‏ (‏فِلپّیوں 1:‏7‏)‏ فِلپّی کے ناظم اب وہاں کے بہن بھائیوں کو اذیت دینے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔‏ چونکہ پولُس یہ بتا چُکے تھے کہ وہ رومی شہری ہیں اِس لیے پولُس اور سیلاس کے فِلپّی سے جانے کے بعد بھی لُوقا وہاں رہ سکتے تھے اور نئے بہن بھائیوں کی حوصلہ‌افزائی کر سکتے تھے۔‏

9 جب فِلپّی کی کلیسیا نے پولُس کا خط پڑھا تو وہ جانتے تھے کہ پولُس نے اِس خط میں درج باتیں ایسے ہی نہیں لکھی تھیں بلکہ پولُس خود بھی کڑی مشکلوں کا سامنا کر چُکے تھے۔‏ یہاں تک کہ جب اُنہوں نے فِلپّیوں کے نام خط لکھا تو تب بھی وہ روم میں اپنے گھر میں قید تھے۔‏ لیکن پھر بھی اُنہوں نے ظاہر کِیا کہ اُنہیں خدا کی طرف سے اِطمینان حاصل ہے۔‏—‏فِلپّیوں 1:‏12-‏14؛‏ 4:‏7،‏ 11،‏ 22‏۔‏

‏”‏کسی بات پر پریشان نہ ہوں“‏

10،‏ 11.‏ ‏(‏الف)‏ جب ہم کسی مسئلے پر پریشان ہوتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‏ (‏ب)‏ ہم کس بات پر بھروسا رکھ سکتے ہیں؟‏

10 ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم ”‏کسی بات پر پریشان نہ ہوں“‏ بلکہ خدا کی طرف سے اِطمینان حاصل کر سکیں؟‏ پولُس رسول نے فِلپّی کی کلیسیا کو جو بات لکھی،‏ اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پریشانیوں سے نمٹنے کا حل دُعا کرنا ہے۔‏ لہٰذا ہم جب بھی کسی مسئلے پر پریشان ہوتے ہیں تو ہمیں دل کھول کر خدا کو اپنے مسئلے کے بارے میں بتانا چاہیے۔‏ ‏(‏1-‏پطرس 5:‏6،‏ 7 کو پڑھیں۔‏)‏ دُعا کرتے وقت ہمیں اِس بات پر پورا بھروسا ہونا چاہیے کہ خدا کو ہماری فکر ہے۔‏ ہمیں ہمیشہ اُن برکتوں کے لیے خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے جو وہ ہمیں دیتا ہے۔‏ اِس کے علاوہ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہوواہ ”‏ہمارے لیے اُس سے کہیں زیادہ کر سکتا ہے جو ہم تصور کرتے یا مانگتے ہیں۔‏“‏—‏اِفسیوں 3:‏20‏۔‏

11 شاید ہم بھی پولُس اور سیلاس کی طرح اِس بات پر حیران رہ جائیں کہ یہوواہ کن کن طریقوں سے ہماری مدد کرتا ہے۔‏ ہو سکتا ہے کہ وہ کسی حیرت‌انگیز طریقے سے تو ہماری مدد نہ کرے لیکن وہ جو کچھ بھی کرے گا،‏ وہ ہماری ضرورت کے عین مطابق ہوگا۔‏ (‏1-‏کُرنتھیوں 10:‏13‏)‏ اِس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائیں اور یہ اِنتظار کریں کہ یہوواہ صورتحال کو ٹھیک کر دے گا یا ہمارے مسئلے کو حل کر دے گا۔‏ اِس کی بجائے ہمیں دُعا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے مسئلے کو حل کرنے کے لیے قدم بھی اُٹھانے چاہئیں۔‏ (‏رومیوں 12:‏11‏)‏ ہمارے کاموں سے یہ ظاہر ہونا چاہیے کہ ہم سچے دل سے خدا کی مدد کے طلب‌گار ہیں۔‏ تبھی خدا ہماری کوششوں کو برکت دے گا۔‏ ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ یہوواہ خدا اُس سے کہیں زیادہ کر سکتا ہے جو ہم مانگتے ہیں یا جس کی ہم توقع کرتے ہیں۔‏ کبھی کبھار وہ کسی ایسے طریقے سے ہماری مدد کرتا ہے جو ہمارے خواب‌وخیال میں بھی نہیں ہوتا۔‏ آئیں،‏ اب کچھ ایسے واقعات پر غور کریں جن سے اِس بات پر ہمارا بھروسا مضبوط ہوتا ہے کہ یہوواہ اپنے بندوں کے لیے ایسے کام بھی کر سکتا ہے جو اُن کے وہم‌وگمان میں بھی نہیں ہوتے۔‏

یہوواہ کے وہ کام جو کسی کے وہم‌وگمان میں بھی نہیں تھے

12.‏ ‏(‏الف)‏ سنحیرب کی دھمکی پر حِزقیاہ نے کیا کِیا؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ نے جس طرح حِزقیاہ کی مدد کی،‏ اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏

12 بائبل میں اِس بات کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ یہوواہ اپنے بندوں کی ایسے طریقے سے مدد کر سکتا ہے جس کی اُنہیں توقع بھی نہیں ہوتی۔‏ مثال کے طور پر جب حِزقیاہ،‏ یہوداہ کے بادشاہ تھے تو اسور کے بادشاہ سنحیرب نے یہوداہ پر حملہ کر دیا اور یروشلیم کے علاوہ اِس کے سب شہروں پر قبضہ کر لیا۔‏ (‏2-‏سلاطین 18:‏1-‏3،‏ 13‏)‏ پھر سنحیرب یروشلیم پر حملہ کرنے آیا۔‏ اِس پر بادشاہ حِزقیاہ نے کیا کِیا؟‏ سب سے پہلے تو اُنہوں نے دُعا میں یہوواہ سے مدد مانگی اور اُس کے نبی،‏ یسعیاہ سے مشورہ لیا۔‏ (‏2-‏سلاطین 19:‏5،‏ 15-‏20‏)‏ پھر اُنہوں نے سمجھ‌داری سے کام لیتے ہوئے سنحیرب کو وہ جُرمانہ ادا کر دیا جو اُس نے زبردستی اُن پر عائد کِیا تھا۔‏ (‏2-‏سلاطین 18:‏14،‏ 15‏)‏ اِس کے بعد اُنہوں نے ایسے اِقدام اُٹھائے جن کی وجہ سے دُشمن کے لیے لمبے عرصے تک شہر کا محاصرہ کرنا مشکل ہو جائے۔‏ (‏2-‏تواریخ 32:‏2-‏4‏)‏ لیکن پھر کچھ ایسا ہوا جس کا کسی نے تصور بھی نہیں کِیا ہوگا۔‏ یہوواہ خدا نے ایک فرشتے کو بھیجا جس نے ایک ہی رات میں سنحیرب کے 1 لاکھ 85 ہزار فوجیوں کو مار ڈالا۔‏ بِلاشُبہ حِزقیاہ نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ یہوواہ اِتنے حیرت‌انگیز طریقے سے اُن کی مدد کرے گا۔‏—‏2-‏سلاطین 19:‏35‏۔‏

یوسف کے ساتھ جو کچھ ہوا،‏ اُس سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏—‏پیدایش 41:‏42‏۔‏ (‏پیراگراف 13 کو دیکھیں۔‏)‏

13.‏ ‏(‏الف)‏ یوسف کے ساتھ جو کچھ ہوا،‏ اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا نے سارہ کے لیے ایسا کیا کِیا جس کی اُنہیں توقع بھی نہیں ہوگی؟‏

13 ذرا اُن واقعات پر بھی غور کریں جو یوسف کے ساتھ ہوئے تھے۔‏ جب وہ مصر کے ایک قیدخانے میں بند تھے تو اُن کے وہم‌وگمان میں بھی نہیں ہوگا کہ وہ فرعون کے بعد مصر کے سب سے بڑے حاکم بن جائیں گے اور یہوواہ خدا اُن کے ذریعے اُن کے خاندان کو بھوکوں مرنے سے بچائے گا۔‏ (‏پیدایش 40:‏15؛‏ 41:‏39-‏43؛‏ 50:‏20‏)‏ جس طرح سے یہوواہ خدا نے یوسف کے حالات بدلے،‏ بِلاشُبہ یوسف کو اِس کی توقع بھی نہیں تھی۔‏ ذرا یوسف کی پڑدادی سارہ کے بارے میں بھی سوچیں۔‏ کیا اُنہوں نے کبھی یہ اُمید کی ہوگی کہ یہوواہ خدا اُنہیں اُن کی لونڈی کے ذریعے بیٹا دینے کے علاوہ اِتنے بڑھاپے میں ایک بیٹے کو جنم دینے کے قابل بھی بنائے گا؟‏ اِضحاق کی پیدائش ایک ایسا معجزہ تھا جس کی سارہ نے بالکل توقع نہیں کی ہوگی۔‏—‏پیدایش 21:‏1-‏3،‏ 6،‏ 7‏۔‏

14.‏ ہم کس بات پر یقین رکھ سکتے ہیں؟‏

14 ہم یہ توقع نہیں کرتے کہ یہوواہ خدا نئی دُنیا سے پہلے معجزانہ طور پر ہمارے سارے مسئلے حل کر دے۔‏ ہم اِس بات کی بھی توقع نہیں کرتے کہ وہ ہمارے لیے حیران‌کُن کام کرے۔‏ لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہوواہ نے ماضی میں شان‌دار طریقوں سے اپنے بندوں کی مدد کی۔‏ اور وہ آج بھی نہیں بدلا۔‏ ‏(‏یسعیاہ 43:‏10-‏13 کو پڑھیں۔‏)‏ اِس بات سے یہوواہ پر ہمارا بھروسا مضبوط ہوتا ہے۔‏ ہم پورا یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہمیں طاقت دے گا تاکہ ہم اُس کی مرضی پر عمل کر سکیں۔‏ (‏2-‏کُرنتھیوں 4:‏7-‏9‏)‏ ہم حِزقیاہ،‏ یوسف اور سارہ کی مثال سے کیا سیکھتے ہیں؟‏ اگر ہم یہوواہ خدا کے وفادار رہتے ہیں تو وہ کٹھن سے کٹھن صورتحال میں بھی ہماری مدد کر سکتا ہے۔‏

اگر ہم یہوواہ خدا کے وفادار رہتے ہیں تو وہ کٹھن سے کٹھن صورتحال میں بھی ہماری مدد کر سکتا ہے۔‏

15.‏ ہم مشکلات کا سامنا کرتے وقت وہ اِطمینان کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں جو خدا ہمیں دیتا ہے اور ہم کس بِنا پر ایسا کر سکتے ہیں؟‏

15 ہم مشکلات کا سامنا کرتے وقت وہ اِطمینان کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں جو خدا ہمیں دیتا ہے؟‏ ہمیں یہوواہ خدا کے ساتھ اپنے رشتے کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔‏ یہ رشتہ صرف ”‏مسیح یسوع کے ذریعے“‏ مضبوط ہو سکتا ہے جنہوں نے ہمارے لیے اپنی جان قربان کی۔‏ فدیے کا بندوبست خدا کے حیرت‌انگیز کاموں میں شامل ہے۔‏ اِس کی بدولت یہوواہ ہمارے گُناہوں کو معاف کرتا ہے،‏ ہمیں اپنی قربت حاصل کرنے کا موقع دیتا ہے اور ہمیں اِس قابل بناتا ہے کہ ہم اچھا ضمیر رکھ سکیں۔‏—‏یوحنا 14:‏6؛‏ یعقوب 4:‏8؛‏ 1-‏پطرس 3:‏21‏۔‏

یہ اِطمینان ہمارے دل اور سوچ کو محفوظ رکھے گا

16.‏ جب خدا ہمیں اِطمینان دیتا ہے تو اِس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟‏ مثال دیں۔‏

16 جب خدا ہمیں ’‏وہ اِطمینان دیتا ہے جو سمجھ سے باہر ہے‘‏ تو اِس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟‏ بائبل میں لکھا ہے کہ یہ اِطمینان ہمارے دل اور سوچ کو محفوظ رکھتا ہے۔‏ (‏فِلپّیوں 4:‏7‏)‏ اِس آیت میں جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”‏محفوظ“‏ کِیا گیا ہے،‏ وہ ایک ایسے فوجی دستے کی طرف اِشارہ کرتا ہے جسے شہر کی حفاظت کے لیے مقرر کِیا جاتا تھا۔‏ فِلپّی کے لوگوں کی حفاظت ایک ایسا ہی فوجی دستہ کرتا تھا۔‏ وہ لوگ رات کو سکون سے سو سکتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اُن کا شہر محفوظ ہے۔‏ اِسی طرح جب خدا ہمیں اِطمینان دیتا ہے تو ہم حد سے زیادہ فکرمند نہیں ہوتے اور دلی اور ذہنی طور پر پُرسکون ہو جاتے ہیں۔‏ ہم جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہم سے پیار کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ ہم ثابت‌قدم رہیں۔‏ (‏1-‏پطرس 5:‏10‏)‏ اِس وجہ سے ہم پریشانیوں سے محفوظ رہتے ہیں اور بےحوصلہ نہیں ہوتے۔‏

17.‏ بڑی مصیبت کے دوران یہوواہ پر بھروسا کرنے میں کون سی چیز ہماری مدد کرے گی؟‏

17 بہت جلد تمام اِنسانوں کو بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑے گا۔‏ (‏متی 24:‏21،‏ 22‏)‏ ہم میں سے کوئی بھی نہیں جانتا کہ اُس وقت ہمارے ساتھ کیا ہوگا۔‏ لیکن ہمیں اِس بارے میں حد سے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‏ ہمیں یہ تو نہیں پتہ کہ یہوواہ خدا اُس وقت کیا کچھ کرے گا لیکن ہمیں یہ ضرور پتہ ہے کہ وہ ناممکن کو بھی ممکن بنا سکتا ہے۔‏ ہم جانتے ہیں کہ اُس نے ماضی میں اپنے بندوں کے لیے کیا کیا کِیا۔‏ ہم نے دیکھا ہے کہ چاہے جو بھی ہو،‏ یہوواہ اپنے مقصد کو ضرور پورا کرتا ہے۔‏ اور اِس کے لیے وہ ایسے کام بھی کر سکتا ہے جن کی کسی کو توقع بھی نہیں ہوتی۔‏ لہٰذا یہوواہ جب بھی ہمارے لیے ایسا کچھ کرتا ہے،‏ ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ ’‏خدا ہمیں جو اِطمینان دیتا ہے،‏ وہ سمجھ سے باہر ہے۔‏‘‏

^ پیراگراف 1 ایسا لگتا ہے کہ سیلاس بھی رومی شہری تھے۔‏—‏اعمال 16:‏37‏۔‏