مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏ثابت‌قدمی کو اپنا کام پورا کرنے دیں“‏

‏”‏ثابت‌قدمی کو اپنا کام پورا کرنے دیں“‏

‏”‏ثابت‌قدمی کو اپنا کام پورا کرنے دیں تاکہ آپ کامل ہوں اور ہر لحاظ سے بےعیب ہوں یعنی آپ میں کوئی کمی نہ ہو۔‏“‏‏—‏یعقو 1:‏4‏۔‏

گیت:‏ 24،‏  7

1،‏ 2.‏ ‏(‏الف)‏ ہم جدعون اور اُن کے 300 آدمیوں سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏ (‏ب)‏ لُوقا 21:‏19 کے مطابق ہمارے لیے ثابت‌قدم رہنا ضروری کیوں ہے؟‏

لڑائی بڑے زوروں پر تھی۔‏ اِسرائیلی فوجی اپنے سپہ‌سالار جدعون کے تحت مِدیانیوں اور اُن کے اِتحادیوں کے خلا‌ف فیصلہ‌کُن جنگ لڑ رہے تھے۔‏ مِدیانی فوج اِسرائیلیوں سے بھاگ رہی تھی۔‏ اِسرائیلی فوج نے دُشمنوں کا پیچھا کرتے کرتے 32 کلومیٹر (‏20 میل)‏ کا سفر طے کِیا۔‏ اب صبح ہو رہی تھی اور ’‏جدعون اور اُن کے ساتھ کے تین سو آدمی .‏ .‏ .‏ تھکے ماندے تھے۔‏‘‏ لیکن وہ جانتے تھے کہ ابھی اُنہوں نے جنگ پوری طرح سے نہیں جیتی کیونکہ ابھی بھی 15 ہزار دُشمن فوجی زندہ تھے۔‏ اِسرائیلی بڑے سالوں سے مِدیانیوں کے ہاتھوں تکلیف جھیل رہے تھے اور اب مکمل فتح کے اِتنے قریب آ کر وہ جنگ نہیں روکنا چاہتے تھے۔‏ اِس لیے وہ تھکا‌وٹ کے باوجود دُشمنوں کا ”‏پیچھا کرتے ہی رہے“‏ اور یوں اُن پر غالب آ گئے۔‏—‏قضا 7:‏22؛‏ 8:‏4،‏ 10،‏ 28‏۔‏

2 ہم بھی ایک لمبی جنگ لڑ رہے ہیں اور ہمارے دُشمنوں میں شیطان،‏  یہ  دُنیا  اور  ہماری  گُناہ‌گار  فطرت شامل ہیں۔‏ ہم میں سے کچھ لوگ تو بہت عرصے سے یہ جنگ لڑ رہے ہیں اور یہوواہ کی مدد سے ہم نے بہت سی لڑائیاں جیتی بھی ہیں۔‏ لیکن کبھی کبھار ہم بھی دُشمنوں سے لڑتے لڑتے اور نئی دُنیا کا اِنتظار کرتے کرتے تھک جاتے ہیں۔‏ یسوع مسیح نے کہا تھا کہ آخری زمانے میں خدا کے بندوں کو شدید مشکلا‌ت کا سامنا ہوگا اور اُن پر ظلم‌وتشدد کِیا جائے گا۔‏ لیکن اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ جیتنے کے لیے ہمیں ثابت‌قدم رہنا  ہوگا۔‏ ‏(‏لُوقا 21:‏19 کو پڑھیں۔‏)‏ مگر ثابت‌قدمی  کیا  ہے؟‏  ہم ثابت‌قدم کیسے رہ سکتے ہیں؟‏ ہم اُن اشخاص سے کیا سیکھ سکتے ہیں جو ثابت‌قدم رہے؟‏ اور ہم ”‏ثابت‌قدمی کو اپنا کام پورا“‏ کیسے کرنے دے سکتے ہیں؟‏—‏یعقو 1:‏4‏۔‏

ثابت‌قدمی کیا ہے؟‏

3.‏ ثابت‌قدمی کیا ہے؟‏

3 بائبل میں جس لفظ کا  ترجمہ  ثابت‌قدمی  کِیا  گیا  ہے،‏  اِس  کا  مطلب صرف مشکلا‌ت کو برداشت کرنا نہیں ہے۔‏ دراصل ثابت‌قدم شخص دلیری،‏ مستقل‌مزاجی اور صبر سے مشکلا‌ت کا سامنا کرتا ہے۔‏ ایک کتاب کے مطابق ”‏ثابت‌قدمی وہ جذبہ ہے جس کی بِنا پر ایک شخص اِس یقین کے ساتھ مشکلیں برداشت کرتا ہے کہ نجات ضرور ملے گی۔‏ یہ وہ خصوصیت ہے جس کی بِنا پر ایک شخص طوفان کا ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے۔‏ یہ وہ خوبی ہے جس کی بِنا پر ایک شخص مشکل سے مشکل صورتحال پر غالب آتا ہے کیونکہ وہ اپنی منزل پر نظریں جمائے رکھتا ہے نہ کہ مشکل پر۔‏“‏

4.‏ محبت کی خوبی ہمیں ثابت‌قدم رہنے کی ترغیب کیوں دیتی ہے؟‏

4 محبت کی خوبی ہمیں ثابت‌قدم رہنے کی ترغیب دیتی  ہے۔‏ ‏(‏1-‏کُرنتھیوں 13:‏4،‏ 7 کو پڑھیں۔‏)‏ ہم یہوواہ خدا سے محبت کرتے ہیں اِس لیے ہم اُن تمام مشکلا‌ت کو ثابت‌قدمی سے برداشت کرتے ہیں جو اُس کی مرضی کے مطابق ہم پر آتی ہیں۔‏ (‏لُو 22:‏41،‏ 42‏)‏ ہم اپنے بہن بھائیوں سے بھی محبت کرتے ہیں اِس لیے ہم اُن کی غلطیوں اور کمزوریوں کو برداشت کرتے نہیں تھکتے۔‏ (‏1-‏پطر 4:‏8‏)‏ ہم اپنے جیون ساتھی سے محبت کرتے ہیں اِس لیے ہم ثابت‌قدمی سے اُن مشکلا‌ت کا سامنا کرتے ہیں جو ہر شادی‌شُدہ جوڑے پر آتی ہیں اور ہم اپنے ازدواجی بندھن کو مضبوط بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔‏—‏1-‏کُر 7:‏28‏۔‏

ہم ثابت‌قدم کیسے رہ سکتے ہیں؟‏

5.‏ یہوواہ خدا ہمیں ثابت‌قدم رہنے کے سلسلے میں بہترین مدد کیوں فراہم کر سکتا ہے؟‏

5 یہوواہ خدا سے مدد مانگیں۔‏ یہوواہ خدا ہمیں ”‏ثابت‌قدم رہنے کی صلا‌حیت فراہم کرتا ہے اور تسلی دیتا ہے۔‏“‏ (‏روم 15:‏5‏)‏ اُس سے بہتر اَور کوئی نہیں جانتا کہ ہماری صورتحال،‏ ہمارے احساسات اور ہمارا پس‌منظر ہم پر کیسے اثرانداز ہوتے ہیں۔‏ لہٰذا اُسے معلوم ہے کہ ہمیں ثابت‌قدم رہنے کے لیے کس طرح کی مدد کی ضرورت ہے۔‏ بائبل میں لکھا ہے:‏ ”‏جو اُس سے ڈرتے ہیں وہ اُن کی مُراد پوری کرے گا۔‏ وہ اُن کی فریاد سنے گا اور اُن کو بچا لے گا۔‏“‏ (‏زبور 145:‏19‏)‏ لیکن جب ہم ثابت‌قدم رہنے کے سلسلے میں خدا سے مدد مانگتے ہیں تو وہ ہماری دُعاؤں کا جواب کیسے دیتا ہے؟‏

6.‏ مشکلا‌ت میں یہوواہ خدا ہمارے لیے ”‏کوئی نہ کوئی راستہ“‏ کیسے نکا‌لتا ہے؟‏

6 پہلا کُرنتھیوں 10:‏13 کو پڑھیں۔‏ جب ہم  مشکلا‌ت  میں  یہوواہ سے مدد مانگتے ہیں تو وہ ”‏کوئی نہ کوئی راستہ“‏ نکا‌لتا ہے۔‏ وہ یہ کیسے کرتا ہے؟‏ کبھی کبھار وہ ہماری مشکل کو دُور کر دیتا ہے۔‏ لیکن اکثر وہ ہمیں طاقت بخشتا ہے تاکہ ہم ”‏صبر اور خوشی سے ثابت‌قدم“‏ رہ سکیں۔‏ (‏کُل 1:‏11‏)‏ وہ جانتا ہے کہ ہم جسمانی،‏ ذہنی اور جذباتی طور پر کتنا کچھ سہہ سکتے ہیں اِس لیے وہ ہمیں کبھی کسی ایسی آزمائش میں نہیں پڑنے دے گا جو ہماری برداشت سے باہر ہو۔‏

7.‏ مثال دے کر بتائیں کہ ثابت‌قدم رہنے کے لیے ہمیں روحانی کھانا کھانے کی ضرورت کیوں ہے۔‏

7 روحانی کھانا کھانے سے اپنے ایمان کو مضبوط رکھیں۔‏ روحانی کھانا ہمارے لیے اِتنا ضروری کیوں ہے؟‏ اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔‏ جو لوگ دُنیا کے سب سے اُونچے پہاڑ ماؤنٹ ایورسٹ پر چڑھتے ہیں،‏ اُنہیں عام لوگوں کی نسبت کہیں زیادہ کھانا کھانے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اُن کی توانائی جواب نہ دے جائے اور وہ پہاڑ کی چوٹی کو سر کر سکیں۔‏ اِسی طرح ہمارے لیے بھی ضروری ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ روحانی کھانا کھائیں تاکہ سیدھی راہ پر چلتے چلتے ہماری توانائی جواب نہ دے جائے اور ہم اپنی منزل تک پہنچ سکیں۔‏ ہمیں پکا عزم کرنا چاہیے کہ ہم بائبل کو پڑھنے اور اِس کا مطالعہ کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ وقت نکا‌لیں گے اور باقاعدگی سے اِجلا‌سوں پر جائیں گے۔‏ اِنہی کاموں سے ہمیں وہ کھانا ملے گا ”‏جس کے ذریعے ہمیشہ کی زندگی ملتی ہے۔‏“‏—‏یوح 6:‏27‏۔‏

8،‏ 9.‏ ‏(‏الف)‏ ایوب 2:‏4،‏ 5 کے مطابق کسی آزمائش سے گزرتے وقت ہمیں کیا ثابت کرنے کا موقع ملتا ہے؟‏ (‏ب)‏ کسی مشکل سے گزرتے وقت آپ کس منظر کا تصور کر سکتے ہیں؟‏

8 خدا کے وفادار رہنے کی اہمیت کو یاد رکھیں۔‏ سچ ہے کہ جب ہم کسی آزمائش سے گزرتے ہیں تو ہم تکلیف تو سہتے ہیں لیکن اِس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ ثابت کرنے کا موقع بھی ملتا ہے کہ ہم یہوواہ خدا کو کائنات کا حاکم مانتے ہیں اور اُس کے وفادار ہیں۔‏ شیطان یہوواہ کا دُشمن ہے اور اُس کی حکمرانی کی مخالفت کرتا ہے۔‏ ایک بار اُس نے یہوواہ خدا سے کہا:‏ ”‏اِنسان اپنا سارا مال اپنی جان کے لئے دے ڈالے گا۔‏ اب فقط اپنا ہاتھ بڑھا کر [‏ایوب]‏ کی ہڈی اور اُس کے گوشت کو چُھو دے تو وہ تیرے مُنہ پر تیری تکفیر کرے گا۔‏“‏ (‏ایو 2:‏4،‏ 5‏)‏ دراصل شیطان کا دعویٰ تھا کہ کوئی بھی شخص محبت کی بِنا پر یہوواہ کی خدمت نہیں کرتا۔‏ کیا شیطان آج بھی یہ دعویٰ کر رہا ہے؟‏ جی ہاں۔‏ ایوب کے زمانے کے بہت صدیوں بعد جب شیطان کو آسمان سے نیچے پھینک دیا گیا تو اُسے ”‏ہمارے بھائیوں پر اِلزام لگا‌نے والے“‏ کا لقب دیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ وہ ”‏دن رات ہمارے خدا کے سامنے اُن پر اِلزام لگا‌تا ہے۔‏“‏ (‏مکا 12:‏10‏)‏ لہٰذا شیطان آج بھی دعویٰ کر رہا ہے کہ اِنسان اپنا مطلب حاصل کرنے کے لیے ہی خدا کا وفادار رہتا ہے۔‏ وہ چاہتا ہے کہ ہم مشکلا‌ت کا سامنا کرتے وقت ہتھیار ڈال دیں اور خدا سے مُنہ پھیر لیں۔‏

9 اِس لیے جب آپ کسی مشکل سے گزر رہے ہوں تو اپنے ذہن کے پردے پر یہ منظر دیکھیں:‏ ایک طرف شیطان اور اُس کے فرشتے ہیں جو آپ پر اُنگلی اُٹھا کر دعویٰ کر رہے ہیں کہ آپ اپنی مشکلا‌ت کے بوجھ تلے دب کر ہمت ہار جائیں گے۔‏ اور دوسری طرف یہوواہ خدا،‏ ہمارے بادشاہ یسوع مسیح،‏ آسمان پر موجود مسح‌شُدہ مسیحی اور لاکھوں فرشتے ہیں جو اُونچی آواز میں آپ کو شاباشی دے رہے ہیں اور اِس بات پر خوش ہیں کہ آپ ثابت‌قدمی سے یہوواہ خدا کے وفادار رہ رہے ہیں۔‏ اِس کے ساتھ ساتھ آپ کو یہوواہ کی آواز سنائی دے رہی ہے جو آپ سے کہہ رہا ہے کہ ”‏اَے میرے بیٹے!‏ دانا بن اور میرے دل کو شاد کر تاکہ مَیں اپنے ملا‌مت کرنے والے کو جواب دے سکوں۔‏“‏—‏امثا 27:‏11‏۔‏

10.‏ ہم ثابت‌قدمی کے اجر کو اپنے سامنے رکھنے کے سلسلے میں یسوع مسیح سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

10 ثابت‌قدمی کے اجر پر نظریں جمائے رکھیں۔‏ فرض کریں کہ آپ ایک لمبے سفر پر ہیں اور راستے میں آپ ایک  لمبی  سُرنگ سے گزر رہے ہیں۔‏ سُرنگ کے بیچ پہنچ کر آپ رُک جاتے ہیں۔‏ ہر طرف گھپ‌اندھیرا ہے اور آپ کا دم گھٹنے لگتا ہے۔‏ لیکن آپ کو پورا یقین ہے کہ اگر آپ سفر جاری رکھیں گے تو سُرنگ کے آخر میں روشنی ہوگی۔‏ اِسی طرح زندگی کے سفر پر مشکلا‌ت سے گزرتے وقت شاید آپ کو ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آئے۔‏ یسوع مسیح کو بھی اِسی طرح کی صورتحال کا سامنا تھا۔‏ اُنہوں نے ”‏گُناہ‌گاروں کی طرف سے توہین‌آمیز باتیں برداشت کیں،‏“‏ اُن کی بےعزتی کی گئی اور اُنہوں نے سُولی پر نہایت دردناک موت سہی۔‏ یقیناً یہ اُن کی زندگی کا سب سے تاریک وقت تھا۔‏ لیکن یسوع مسیح نے یہ سب کچھ ”‏اُس خوشی کی خاطر جو اُن کو ملنی تھی،‏“‏ برداشت کِیا۔‏ (‏عبر 12:‏2،‏ 3‏)‏ اُنہوں نے اپنی ثابت‌قدمی کے اجر کو سامنے رکھا۔‏ اُنہوں نے یہ بھی یاد رکھا کہ ثابت‌قدم رہنے سے وہ یہوواہ خدا کی بڑائی کریں گے اور ثابت کریں گے کہ یہوواہ خدا ہی حکمرانی کرنے کا حق رکھتا ہے۔‏ وہ جانتے تھے کہ اُنہیں تھوڑے عرصے کے لیے ہی اندھیرے سے گزرنا ہوگا لیکن اِس کے بعد روشنی ہی روشنی ہوگی کیونکہ اُنہیں جو اجر ملے گا،‏ وہ دائمی ہوگا۔‏ شاید آپ بھی ایسی مشکلا‌ت سے گزر رہے ہوں جو بہت ہی تکلیف‌دہ ہیں۔‏ لیکن یاد رکھیں کہ یہ وقتی ہیں اور گزر جائیں گی جبکہ آپ کا اجر ہمیشہ تک رہے گا۔‏

اُن سے سیکھیں ”‏جو ثابت‌قدم رہے“‏

11.‏ ہمیں ایسے اشخاص کی مثال پر کیوں غور کرنا چاہیے ”‏جو ثابت‌قدم رہے ہیں“‏؟‏

11 جہاں تک مصیبت سہنے کا تعلق ہے،‏ ہم اکیلے نہیں  ہیں۔‏ شیطان پہلی صدی کے مسیحیوں پر بھی بہت سی مصیبتیں لایا تھا۔‏ اِس لیے پطرس رسول نے اُنہیں لکھا:‏ ”‏ڈٹ کر اُس کا مقابلہ کریں اور مضبوط ایمان رکھیں۔‏ یاد رکھیں کہ پوری دُنیا میں آپ کے ہم‌ایمان اِسی طرح کی مصیبتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔‏“‏ (‏1-‏پطر 5:‏9‏)‏ ہمیں ایسے اشخاص کی مثال پر غور کرنا چاہیے ”‏جو ثابت‌قدم رہے ہیں۔‏“‏ ایسا کرنے سے ہم مشکل وقت میں ثابت‌قدم رہنا سیکھیں گے اور ہمیں پکا یقین  ہو جائے گا کہ ہم بھی اُن کی طرح کامیاب ہو سکتے ہیں اور ثابت‌قدمی کا اجر پا سکتے ہیں۔‏ (‏یعقو 5:‏11‏)‏ آئیں،‏ اِن میں سے چند اشخاص کی مثال پر غور کریں۔‏ ‏[‏1]‏ 

12.‏ ہم کروبیوں کی مثال پر غور کرنے سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

12 کروبی۔‏ ہم کروبیوں کی مثال پر غور کرنے سے ثابت‌قدمی سے مشکل ذمےداریاں نبھانا سیکھ سکتے ہیں۔‏ جب آدم اور حوا نے گُناہ کِیا تو یہوواہ خدا نے کچھ کروبیوں کو زمین پر ایک ایسی ذمےداری سونپی جو اُن کی پہلی ذمےداریوں سے بہت فرق تھی۔‏ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ یہوواہ خدا نے ”‏باغِ‌عدؔن کے مشرق کی طرف کروبیوں کو اور چوگرد گھومنے والی شعلہ‌زن تلوار کو رکھا کہ وہ زندگی کے درخت کی راہ کی حفاظت کریں۔‏“‏ ‏[‏2]‏  (‏پید 3:‏24‏)‏ بائبل میں یہ نہیں کہا گیا کہ کروبی یہ ذمےداری پا کر بڑبڑائے۔‏ اُنہوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ ”‏ہمارا درجہ تو اِتنا اُونچا ہے،‏ پھر ہمیں یہ معمولی سا کام کیوں دیا گیا ہے؟‏“‏ وہ نہ تو اِس کام سے بور ہوئے اور نہ ہی اِسے ادھورا چھوڑ کر چلے گئے۔‏ ہو سکتا ہے کہ وہ یہ کام 1600 سال تک کرتے رہے یعنی نوح کے زمانے میں طوفان کے آنے تک۔‏ واقعی اُنہوں نے بڑی ثابت‌قدمی سے اپنی ذمےداری نبھائی۔‏

13.‏ ایوب مصیبتوں کے باوجود ہمت کیوں نہیں ہارے؟‏

13 ایوب۔‏ اگر آپ کسی دوست یا رشتےدار کی باتوں کی وجہ سے بےحوصلہ ہو گئے ہیں یا کسی سنگین بیماری میں مبتلا ہیں یا پھر کسی عزیز کی موت کا صدمہ جھیل رہے ہیں تو آپ کو ایوب کی مثال پر غور کرنے سے تسلی ملے گی۔‏ (‏ایو 1:‏18،‏ 19؛‏ 2:‏7،‏ 9؛‏ 19:‏1-‏3‏)‏ حالانکہ ایوب یہ نہیں جانتے تھے کہ اُن پر اِتنی مصیبتیں کیوں آئیں لیکن پھر بھی وہ ہمت نہیں ہارے۔‏ اِس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ ’‏خدا سے ڈرتے‘‏ تھے اور اُنہوں نے اچھے اور بُرے وقت میں یہوواہ کو خوش کرنے کا عزم کر رکھا تھا۔‏ (‏ایو 1:‏1‏)‏ اِس کی ایک اَور وجہ یہ تھی کہ یہوواہ نے ایوب کو اپنی مخلوقات کے بارے میں بتا کر ظاہر کِیا کہ وہ کتنی قدرت کا مالک ہے جس سے ایوب کو پکا یقین ہو گیا کہ وقت آنے پر یہوواہ خدا اُن کی مصیبتوں کو ختم کر دے گا۔‏ (‏ایو 42:‏1،‏ 2‏)‏ اور بالکل ایسا ہی ہوا۔‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ نے اؔیوب کی اسیری کو .‏ .‏ .‏ بدل دیا اور [‏یہوواہ]‏ نے اؔیوب کو جتنا اُس کے پاس پہلے تھا اُس کا دوچند دیا۔‏“‏ اِس کے بعد ایوب نے بڑی خوش‌گوار اور لمبی زندگی گزاری۔‏—‏ایو 42:‏10،‏ 17‏۔‏

14.‏ دوسرا کُرنتھیوں 1:‏6 کے مطابق مسیحیوں کو پولُس رسول کی مثال سے کیا فائدہ ہوا؟‏

14 پولُس رسول۔‏ کیا آپ یہوواہ کے دُشمنوں کی  طرف  سے مخالفت یا اذیت جھیل رہے ہیں؟‏ کیا آپ کلیسیا کے بزرگ یا حلقے کے نگہبان ہیں اور آپ کو لگ رہا ہے کہ آپ اپنی ذمےداریوں کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں؟‏ تو پھر پولُس رسول کی مثال پر غور کریں۔‏ اُنہوں نے مخالفوں کی طرف سے سخت اذیت سہی اور اُنہیں کلیسیاؤں کی فکر بھی ستاتی رہی۔‏ (‏2-‏کُر 11:‏23-‏29‏)‏ لیکن اُنہوں نے ہمت نہیں ہاری اور اُن کی مثال سے مسیحیوں کو بڑی تسلی ملی۔‏ ‏(‏2-‏کُرنتھیوں  1:‏6 کو پڑھیں۔‏)‏ اگر آپ بھی مصیبتوں کے باوجود ثابت‌قدم رہیں گے تو دوسرے آپ کو دیکھ کر تسلی پائیں گے اور خود بھی ثابت‌قدم رہیں گے۔‏

‏”‏ثابت‌قدمی کو اپنا کام پورا کرنے دیں“‏

15،‏ 16.‏ ‏(‏الف)‏ ثابت‌قدمی کون سا کام پورا کرتی ہے؟‏ (‏ب)‏ مثالیں دے کر بتائیں کہ ہم ثابت‌قدمی کو اپنا کام کیسے پورا کرنے دے سکتے ہیں۔‏

15 یعقوب نے خدا کے اِلہام سے لکھا کہ  ”‏ثابت‌قدمی  کو  اپنا  کام پورا کرنے دیں۔‏“‏ ثابت‌قدمی کون سا کام پورا کرتی ہے؟‏ وہ ہمیں ’‏کامل اور ہر لحاظ سے بےعیب‘‏ بناتی ہے تاکہ ’‏ہم میں کوئی کمی نہ ہو۔‏‘‏ (‏یعقو 1:‏4‏)‏ وہ کیسے؟‏ جب ہم کسی آزمائش سے گزرتے ہیں تو ہماری شخصیت کے وہ پہلو سامنے آتے ہیں جن میں ہمیں بہتری لانے کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ اگر ہم اِن آزمائشوں میں ثابت‌قدم رہتے ہیں تو ہماری شخصیت نکھر جاتی ہے۔‏ مثال کے طور پر ہم پہلے سے زیادہ صابر،‏ شکرگزار اور ہمدرد بن جاتے ہیں۔‏ یوں ثابت‌قدمی ہمیں ’‏کامل اور بےعیب‘‏ بناتی ہے۔‏

جب ہم آزمائشوں میں ثابت‌قدم رہتے ہیں تو ہماری شخصیت نکھر جاتی ہے۔‏ (‏پیراگراف 15 اور 16 کو دیکھیں۔‏)‏

16 چونکہ ثابت‌قدم رہنے سے ہم زیادہ اچھے  مسیحی  بن  جاتے  ہیں اِس لیے ہمیں آزمائشوں سے جان چھڑانے کے لیے یہوواہ کے حکموں کو نہیں توڑنا چاہیے۔‏ مثال کے طور پر اگر ہمارے دل میں گندے خیالات آتے رہتے ہیں تو ہمیں اِن پر دھیان رکھنے کی بجائے اِنہیں فوراً ترک کر دینا چاہیے۔‏ اِس طرح ہم میں ضبطِ‌نفس کی خوبی بڑھے گی۔‏ کیا آپ کا کوئی رشتےدار جو یہوواہ کا گواہ نہیں ہے،‏ آپ کی مخالفت کر رہا ہے؟‏ اِس دباؤ کی وجہ سے خدا کی عبادت کرنے کے معمول کو ترک نہ کریں۔‏ اِس طرح یہوواہ خدا پر آپ کا بھروسا زیادہ مضبوط ہو جائے گا۔‏ یاد رکھیں کہ ہمیں تب ہی خدا کی خوشنودی حاصل ہوگی اگر ہم ہر صورت میں ثابت‌قدم رہیں گے۔‏—‏روم 5:‏3-‏5؛‏ یعقو 1:‏12‏۔‏

17،‏ 18.‏ ‏(‏الف)‏ مثال دے کر بتائیں کہ ہمیں آخر تک ثابت‌قدم رہنے کی ضرورت کیوں ہے۔‏ (‏ب)‏ ہمیں کس بات کا پورا یقین ہے؟‏

17 ہمیں کچھ عرصے کے لیے ہی نہیں بلکہ آخر تک ثابت‌قدم رہنے کی ضرورت ہے۔‏ اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔‏ تصور  کریں کہ ایک جہاز ڈوب رہا ہے۔‏ جو مسافر جہاز پر ہیں،‏ اُنہیں زندہ بچنے کے لیے تیر کر ساحل تک پہنچنا پڑے گا۔‏ جو شخص تیرتے تیرتے ساحل کے قریب پہنچ کر ہمت ہار جاتا ہے،‏ وہ بالکل ویسے ہی ڈوب جائے گا جیسے وہ شخص جو پانی میں جاتے ہی ہمت ہار جاتا ہے۔‏ لہٰذا ہمیں اُس وقت تک ثابت‌قدم رہنے کی ضرورت ہے جب تک ہم نئی دُنیا میں پہنچ نہیں جاتے ورنہ ہم اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔‏ ہمیں بھی پولُس رسول جیسی سوچ اپنانی چاہیے جنہوں نے دو بار کہا:‏ ”‏ہم ہمت نہیں ہارتے۔‏“‏—‏2-‏کُر 4:‏1،‏ 16‏۔‏

18 ہم اِس بات پر پورا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ  کی  مدد  سے ہم آخر تک ثابت‌قدم رہیں گے۔‏ ہم پولُس رسول سے متفق ہیں جنہوں نے کہا:‏ ”‏ہمیں اُس کے ذریعے مکمل جیت حاصل ہوتی ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے۔‏ کیونکہ مجھے پورا یقین ہے کہ نہ موت،‏ نہ زندگی،‏ نہ فرشتے،‏ نہ حکومتیں،‏ نہ موجودہ چیزیں،‏ نہ آنے والی چیزیں،‏ نہ طاقتیں،‏ نہ اُونچائی،‏ نہ گہرائی اور نہ ہی کوئی اَور مخلوق ہمیں خدا کی اُس محبت سے جُدا کر سکتی ہے جو ہمارے مالک مسیح یسوع کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے۔‏“‏ (‏روم 8:‏37-‏39‏)‏ ہو سکتا ہے کہ جدعون اور اُن کے فوجیوں کی طرح ہم بھی کبھی کبھار لڑتے لڑتے تھک جائیں۔‏ لیکن دُعا ہے کہ ہم آخر تک ثابت‌قدم رہیں تاکہ ہم بھی اپنے دُشمنوں پر غالب آئیں۔‏—‏قضا 8:‏4‏۔‏

^ ‏[‏1]‏ ‏(‏پیراگراف 11)‏ آپ خدا کے اُن بندوں کی مثال پر غور کرنے سے بھی حوصلہ پا سکتے ہیں جو ہمارے زمانے میں ثابت‌قدم رہے ہیں۔‏ مثال کے طور پر مینارِنگہبانی،‏ 1 ستمبر 2003ء،‏ صفحہ 23-‏28 اور مینارِنگہبانی،‏ 15 اکتوبر 2015ء،‏ صفحہ 14-‏17 میں درج آپ‌بیتیوں کو دیکھیں۔‏

^ ‏[‏2]‏ ‏(‏پیراگراف 12)‏ بائبل میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہوواہ خدا نے کتنے کروبیوں کو اِس کام پر لگا‌یا۔‏