دُنیا کا نظارہ کرنا

دُنیا کا نظارہ کرنا

دُنیا کا نظارہ کرنا

دُنیا کے سفاک قاتل

‏”‏عالمی پیمانے پر،‏ وائرس،‏ بیکٹیریا اور طفیلی کیڑوں کے باعث پھیلنے والی بیماریاں ابھی تک موت کا بڑا سبب ہیں،‏“‏ فرینکفرٹر آلگمینی سانتگزیتنگ بیان کرتا ہے۔‏ ”‏ہر سال کئی ملین لوگ“‏ صرف تین بیماریوں—‏ایڈز،‏ ملیریا اور تپِ‌دق—‏”‏میں مبتلا ہوتے ہیں اور تقریباً ۱۰ ملین اِن سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔‏“‏ اخبار بیان کرتا ہے:‏ ”‏کئی ماہرین ۲۰ ویں صدی کے وسط تک یہ کہہ رہے تھے کہ وبائی امراض کا خطرہ بہت جلد ختم ہو جائیگا۔‏ لیکن ایڈز،‏ میڈ کاؤ ڈیزیز اور حال ہی میں مُنہ اور کھر کے روگ کے منظرِعام پر آنے سے ثابت ہو گیا ہے کہ متعدی جراثیم سے انسان‌وحیوان کو لاحق خطرہ آج بھی ایک تلخ حقیقت ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ دُنیا کے مختلف حصوں میں انتہائی خطرناک وائرس اور بیکٹیریا بالکل غیرمتوقع انداز میں ظاہر ہوتے ہیں۔‏“‏ اگرچہ یہ خردبینی جاندار اکثر بیماری کا سبب بنتے ہیں توبھی انسانی طرزِزندگی اور رُجحان اِن جراثیموں کی پیدائش اور پھیلاؤ کو فروغ دیتا ہے۔‏

عبادت‌گاہوں سے چوری

‏”‏سخت قانون کے باوجود یورپ میں مذہبی اشیا کی چوری اور کاروبار میں کوئی کمی واقع نہیں ہو رہی،‏“‏ فرنچ کیتھولک اخبار لا کروکس بیان کرتا ہے۔‏ مسروقہ چیزوں میں صلیبوں کے علاوہ فرنیچر،‏ سونےچاندی کی اشیا،‏ مجسّمے،‏ تصاویر اور الطاریں بھی شامل ہیں۔‏ انٹرنیشنل کونسل آف میوزیم کے مطابق،‏ حالیہ برسوں میں چیک ریپبلک میں ۰۰۰،‏۳۰ تا ۰۰۰،‏۴۰ اور اٹلی میں ۰۰۰،‏۸۸ سے زائد اشیا چوری ہوئی ہیں۔‏ فرانس میں ۸۷ کیتھیڈرل ہیں جسکی وجہ سے چوروں کی نظریں اس پر جمی رہتی ہیں۔‏ سن ۱۹۰۷ اور ۱۹۹۶ کے دوران،‏ فرانس کے مذہبی اداروں سے تقریباً ۰۰۰،‏۲ ”‏تاریخی یادگاریں“‏ چوری ہوئیں جن میں سے ۱۰ فیصد سے زائد کو ڈھونڈ لیا گیا۔‏ ایسی چوری‌چکاری کو روکنا بہت مشکل ہے کیونکہ گرجاگھروں میں حفاظت کا کوئی خاص انتظام نہیں ہوتا اسلئے کوئی بھی اِن میں گھس سکتا ہے۔‏

لندن میں زیرِزمین پانی کی سطح میں خطرناک اضافہ

لندن کے دی اکانومسٹ کی رپورٹ کے مطابق،‏ ”‏[‏اس شہر]‏ کی بنیادوں کیلئے نقصاندہ پانی کو نکالنے کیلئے ٹیوب‌ویل لگائے جا رہے ہیں۔‏“‏ گزشتہ صدی کے اوائل میں یہ تخمینہ لگایا گیا کہ پانی ٹرفالگر سکوائر کے تقریباً ۳۰۰ فٹ نیچے ہے لہٰذا صنعتی اداروں نے لاکھوں گیلن پانی نکالا لیکن اب پانی کی سطح سکوائر کے نیچے ۱۳۰ فٹ تک چڑھ آئی ہے۔‏ ہر سال اس میں ۱۰ فیصد اضافہ ہو رہا ہے جو لندن کے زمین‌دوز ریلوے کے نظام،‏ اسکی میلوں تک بچھی ہوئی زمین‌دوز تاروں اور بہت سی عمارتوں کی بنیادوں کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔‏ ایک اندازے کے مطابق تقریباً ۵۰ ٹیوب‌ویل لگائے جائینگے۔‏ میگزین بیان کرتا ہے کہ ”‏انوائرنمنٹ ایجنسی کے مطابق ہر روز لندن کے نیچے سے کُل [‏۵۰ ملین لٹر (‏۱۰ ملین گیلن)‏]‏ پانی نکالا جا رہا ہے“‏ لیکن اس صورتحال پر قابو پانے کیلئے آئندہ دس سالوں میں اس سے دُگنا پانی نکالنا ہوگا۔‏

‏”‏ہماری کوئی وقعت نہیں“‏

‏”‏ہمیں اپنی اصلیت کا پتہ چل گیا ہے،‏“‏ نیو سائنٹسٹ بیان کرتا ہے۔‏ ”‏ہم انسانی جینوم کی ماہیت دریافت کرنے پر بڑا فخر محسوس کرتے ہیں لیکن یہی جینوم ہم پر یہ حقیقت عیاں کرتا ہے کہ ہماری کوئی وقعت نہیں ہے۔‏ یہ دریافت ہوا ہے کہ ہم کسی بیکٹیریم سے صرف پانچ گُنا زیادہ،‏ کسی کیڑے سے تین گُنا زیادہ اور ایک مکھی سے صرف دو گُنا زیادہ جینز رکھتے ہیں۔‏“‏ علاوہ‌ازیں،‏ ”‏ہمارے تقریباً ۴۰ فیصد جینز کیچوے جیسے کیڑوں،‏ ۶۰ فیصد پھلوں پر بیٹھنے والی مکھی اور ۹۰ فیصد چوہوں کے جینز کی مانند ہوتے ہیں۔‏“‏ رسالہ بیان کرتا ہے کہ انسانی جینوم کا علم نسل کی بابت ہمارے نظریے کو بھی بدل دیتا ہے۔‏ ایک ہی نسل کے دو قدرے مشابہ اشخاص جینیاتی اعتبار سے بالکل فرق نسلی گروہ کے دو اشخاص کی نسبت ایک دوسرے سے بہت مختلف ہو سکتے ہیں۔‏ سٹین‌فورڈ یونیورسٹی کا لوجی کیولی سفورزا بیان کرتا ہے:‏ ”‏ایک نسل کے لوگوں میں اتنا زیادہ فرق ہوتا ہے کہ باقی نسلوں کے وجود اور فرق کا خیال ہی مضحکہ‌خیز ہے۔‏“‏

فحاشی کا دھندا

‏”‏فحاشی پیشہ‌وارانہ فٹ‌بال،‏ باسکٹ‌بال اور بیس‌بال سے زیادہ بڑا کاروبار ہے۔‏ امریکہ میں ایک سال کے اندر لوگ فلم،‏ ڈرامہ یا اسی طرح کے دیگر پروگراموں کی نسبت فحاشی کیلئے زیادہ پیسہ خرچ کرتے ہیں،‏“‏ دی نیو یارک ٹائمز میگزین بیان کرتا ہے۔‏ ‏”‏فحاشی پھیلانے والے نیٹ‌ورک،‏ کیبل فلموں اور سیٹلائٹ کے علاوہ انٹرنیٹ ویب سائٹس،‏ ہوٹلوں میں چلنے والی فلموں،‏ ٹیلیفون پر شہوت‌انگیز بات‌چیت،‏ شہوت‌انگیز اشیا کی دستیابی اور فحش تصویروں والے رسالوں کی وجہ سے اس کاروبار کی سالانہ آمدنی ۱۰ سے ۱۴ بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔‏“‏ مضمون مزید بیان کرتا ہے:‏ ”‏فحاشی ۱۰ بلین ڈالر کے کاروبار کے ساتھ ۶۰۰ ملین ڈالر کے کاروبار والی براڈوے تھیئٹر انڈسٹری سے بھی آگے نکل کر اب بڑا کاروبار بن گئی ہے۔‏“‏ مثال کے طور پر،‏ گزشتہ سال ہالی‌وڈ نے ۴۰۰ فلمیں ریلیز کیں جبکہ فحاشی کی صنعت نے ”‏جنسیات“‏ کو نمایاں کرنے والی ۰۰۰،‏۱۱ فلمیں ریلیز کیں۔‏ تاہم،‏ بہت کم امریکی انہیں دیکھنے کا اعتراف کرتے ہیں۔‏ ٹائمز بیان کرتا ہے ”‏فحاشی جیسا اَور کوئی کاروبار نہیں ہے۔‏ یہ ایک ایسا شو ہے جسے دیکھنے کا اعتراف کوئی بھی نہیں کرتا مگر حیرت ہے کہ یہ بند بھی نہیں ہوتا۔‏“‏

ویٹیکن کی ریڈیائی قوت میں کمی

‏”‏ویٹیکن ریڈیو عوام کے اس اندیشے کے باعث کم پروگرام پیش کرنے پر راضی ہو گیا ہے کہ اس کے طاقتور ریڈیو ٹرانس‌میٹرز کے اثرات سے صحت‌عامہ کو خطرہ لاحق ہے۔‏“‏ یہ رپورٹ نیو سائنٹسٹ رسالے کی ہے۔‏ میڈیم ویو ٹرانس‌مشن کو دو حصوں میں تقسیم کرکے سگنل پاوَر کم کر دی جائے گی۔‏ روزانہ کی نشریات پوری دُنیا میں ۶۰ زبانوں اور مختلف تعددِارتعاش پر پیش کی جاتی ہیں۔‏ کوئی ۵۰ سال پہلے اس سٹیشن کی تعمیر کے وقت اس کے ۳۳ انٹنے روم کے باہر نسبتاً غیرآباد علاقے میں لگائے گئے تھے۔‏ آجکل،‏ تقریباً ۰۰۰،‏۰۰،‏۱ لوگ اس کے قرب‌وجوار میں آباد ہیں اور اندیشہ ہے کہ مقامی لوگ طاقتور ریڈیائی لہروں والی نشریات کی وجہ سے سرطانِ‌خون کے مرض میں مبتلا ہیں۔‏ اس سٹیشن کے سگنلز کو بہتر بنانے کیلئے سمندرپار کوئی نشری نظام نہیں ہے۔‏ سن ۱۹۹۸ میں اٹلی نے نئے ریڈیائی معیار وضع کئے جنکی وجہ سے ویٹیکن کو اپنی ریڈیائی طاقت کم کرنی پڑی۔‏ نیو سائنٹسٹ کے مطابق،‏ اگرچہ ویٹیکن کا کہنا ہے کہ صحت‌عامہ کو کوئی خطرہ نہیں اور اٹلی کو بھی ایک فرق ریاست کے طور پر اختیار جتانے کا کوئی حق نہیں توبھی اس نے دوسروں کی ”‏بھلائی کی خاطر“‏ ریڈیائی طاقت میں کمی کرنے کا فیصلہ کِیا ہے۔‏

بوتل کا پانی بمقابلہ نلکے کا پانی

‏”‏بوتل کا پانی اسقدر مقبول ہو گیا ہے کہ پوری دُنیا میں اسکی ۷۰۰ سے زائد اقسام ہیں،‏“‏ دی نیو یارک ٹائمز رپورٹ دیتا ہے۔‏ تاہم،‏ ”‏بیشتر معاملات میں بوتل کے مہنگے پانی اور نلکے کے پانی میں صرف بوتل کا ہی فرق ہوتا ہے۔‏“‏ ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر (‏ڈبلیوڈبلیوایف)‏ کے مطابق،‏ ”‏بہتیرے ممالک میں بوتل کا پانی نلکے کے پانی سے زیادہ محفوظ نہیں ہوتا حالانکہ اسکی قیمت ۰۰۰،‏۱ گُنا زیادہ ہوتی ہے۔‏“‏ نلکے کا پانی نہ صرف پیسے بچاتا ہے بلکہ ماحولیاتی صفائی میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے کیونکہ ہر سال پانی کی بوتلیں بنانے کیلئے ۵.‏۱ ملین ٹن پلاسٹک استعمال کِیا جاتا ہے اور ”‏انکی تیاری اور تلفی کے دوران زہریلے مادے اور گیسیں خارج ہوتی ہیں جو موسم کو تبدیل کر دیتی ہیں۔‏“‏ ڈبلیوڈبلیوایف انٹرنیشنل فریش واٹر پروگرام کے سربراہ،‏ ڈاکٹر بک‌شم گوج کے مطابق،‏ ”‏بوتل کے پانی کی صنعت کے مقابلے میں یورپ اور ریاستہائےمتحدہ میں نلکے کے پانی کے سلسلے میں زیادہ معیاروں کی پابندی کی جاتی ہے۔‏“‏

قدیم سکندریہ کی نقشہ‌کشی

پانچ‌سالہ کھدائی اور زیرِآب تحقیق کے بعد بالآخر قدیم سکندریہ کا مکمل نقشہ بنا لیا گیا ہے۔‏ اس نقشے سے فرعونی محلات،‏ بندرگاہوں اور مندروں کے مقام کا پتہ چلتا ہے۔‏ فرانسیسی ماہرِاَثریّات فرانک گوڈیو اور اُسکی ٹیم نے اِس غرقاب شہر کی بابت غوطہ‌خوروں کی فراہم‌کردہ تفصیلات اور الیکڑونک سروے پر مبنی ڈرائنگ بنائی جس کے حقائق‌ونتائج نے اُنہیں حیران کر دیا۔‏ گوڈیو نے بیان کِیا کہ ”‏اس بندرگاہ کے پہلے الیکڑونک سروے کے تھوڑی ہی دیر بعد،‏ ہم نے یہ محسوس کر لیا کہ قدیم سکندریہ کے علاقے جغرافیائی لحاظ سے موجودہ نظریات اور مفروضات سے بالکل فرق تھے۔‏“‏

‏”‏کیا آپ فرشتوں پر ایمان رکھتے ہیں؟‏“‏

یہ سوال کیوبک کے ۵۰۰ باشندوں سے پوچھا گیا تھا جن میں سے ۶۶ فیصد نے اسکا جواب ہاں میں دیا۔‏ کینیڈا کے لا جرنل دے مونٹریال کی رپورٹ کے مطابق،‏ ایک محقق مافوق‌الفطرت ہستیوں پر ایمان پیدا کرنے کیلئے رومن کیتھولک فرقے کے علاوہ اس صوبے میں بدھ‌مت اثرورسوخ کو بھی ذمہ‌دار ٹھہراتا ہے۔‏ تاہم،‏ ماہرِعمرانیات مارٹن جیفری اس بات سے حیران ہے کہ اس سروے میں صرف ایک تہائی نے ابلیس کے وجود کو تسلیم کِیا۔‏ وہ بیان کرتا ہے،‏ ”‏حد سے زیادہ مثبت رُجحان پریشانی کا باعث ہے کیونکہ ہم فرشتوں پر تو ایمان رکھتے ہیں لیکن ابلیس کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے۔‏ یوں ہم منفی پہلو سے آنکھیں چراتے ہیں۔‏“‏