نوجوانوں کا سوال
مَیں آزمائشوں کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہوں؟
پولُس رسول نے لکھا: ”مَیں اچھے کام تو کرنا چاہتا ہوں لیکن مجھ میں بُرائی کا رُجحان موجود ہے۔“ (رومیوں 7:21) کیا آپ نے بھی ایسا محسوس کِیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو اِس مضمون میں آپ دیکھ پائیں گے کہ غلط خواہشوں کو پورا کرنے کی آزمائش کا مقابلہ کیسے کِیا جا سکتا ہے۔
اِن باتوں کو ذہن میں رکھیں
جب آپ کے ہم عمر آپ پر دباؤ ڈالتے ہیں تو آپ غلط کام کرنے کی آزمائش میں پڑ سکتے ہیں۔ خدا کے کلام میں لکھا ہے: ”بُرے ساتھی اچھی عادتوں کو بگاڑ دیتے ہیں۔“ (1-کُرنتھیوں 15:33) دوسروں کی طرف سے دباؤ، فلمیں، ڈرامے یا گانے وغیرہ آپ کے دل میں ایسی خواہشیں پیدا کر سکتے ہیں جن کی وجہ سے آپ غلط کام کرنے کی آزمائش میں پڑ سکتے ہیں ،یہاں تک کہ آپ ”بُرائی کرنے کے لئے کسی بِھیڑ کی پیروی“ کرنے کے خطرے میں بھی پڑ سکتے ہیں ۔— خروج 23:2۔
”ہم چاہتے ہیں کہ دوسرے ہمیں پسند کریں اور اِس دباؤ کی وجہ سے ہم اُن جیسے کام کرنے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔“—جیریمی۔
ذرا سوچیں: اگر آپ اِس بارے میں حد سے زیادہ فکر کرتے ہیں کہ دوسرے آپ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں تو آپ کے لیے آزمائش کا مقابلہ کرنا اَور مشکل کیوں ہو سکتا ہے؟—اَمثال 29:25۔
خلاصہ: اپنے ہم عمروں کے دباؤ کی وجہ سے خدا کے معیاروں پر سمجھوتا نہ کریں۔
آپ کیا کر سکتے ہیں؟
آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ آپ کیا مانتے ہیں۔ اگر آپ نہیں جانتے کہ آپ کیا مانتے ہیں تو آپ دوسروں کے ہاتھ کی کٹھپتلی بن سکتے ہیں۔ اِس لیے اچھا ہو گا کہ آپ بائبل کی اِس نصیحت پر عمل کریں: ”سب باتوں کا جائزہ لیں اور جو باتیں اچھی ہوں، اُن سے چپکے رہیں۔“ (1-تھسلُنیکیوں 5:21) جتنا زیادہ آپ اپنے عقیدوں کو سمجھے گے اُتنا زیادہ آپ کے لیے اُن کے مطابق زندگی گزارنا آسان ہو جائے گا اور آپ اُس آزمائش کا مقابلہ کر پائیں گے جو خدا کے معیاروں کے خلاف ہے۔
ذرا سوچیں: آپ یہ یقین کیوں رکھتے ہیں کہ خدا کے معیار آپ کے فائدے کے لیے ہیں؟
”مَیں نے دیکھا ہے کہ جب جب مَیں اپنے ایمان پر قائم رہتی ہوں اور آزمائش کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکتی تو دوسرے اِس وجہ سے میری زیادہ عزت کرتے ہیں۔“—کمبرلی۔
بائبل سے مثال: دانیایل۔ ایسا لگتا ہے کہ دانیایل ابھی نوجوان ہی تھے تو اُنہوں نے ”اپنے دل میں اِرادہ کِیا“ کہ وہ خدا کے حکموں کو مانیں گے۔— دانیایل 1:8۔
اپنی کمزوریوں کو پہچانیں۔ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ’جوانی کی خواہشیں‘ اُس وقت خاص طور پر بہت شدید ہوتی ہیں جب ہم جوان ہوتے ہیں۔ (2-تیمُتھیُس 2:22) ”جوانی کی خواہشوں “ میں صرف جنسی خواہشیں شامل نہیں ہیں بلکہ یہ خواہش بھی شامل ہے کہ دوسرے ہمیں پسند کریں اور ہم اپنی مرضی سے زندگی جئیں حالانکہ ابھی ہم اِس کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ذرا سوچیں: بائبل میں لکھا ہے کہ ”ہر شخص اپنی ہی خواہشوں کی وجہ سے آزمایا اور اُکسایا جاتا ہے۔“ (یعقوب 1:14) آپ کے لیے کس خواہش پر قابو پانا سب سے زیادہ مشکل ہے؟
”ایمانداری سے اپنا جائزہ لیں کہ آپ کو کن آزمائشوں کا سامنا کرنا سب سے زیادہ مشکل لگتا ہے۔ تحقیق کریں کہ آپ اُن آزمائشوں کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں۔ اُن باتوں کو لکھ لیں جو آپ کے کام آ سکتی ہیں تاکہ اگلی دفعہ جب آپ کو اُس آزمائش کا سامنا ہو تو آپ کو پتہ ہو کہ آپ نے کیا کرنا ہے۔“—سِلویا۔
بائبل سے مثال: داؤد۔ کبھی کبھار داؤد دوسروں کے دباؤ میں آ کر یہاں تک کہ اپنی خواہشوں کو پورا کرنے کے لیے غلط کام کر بیٹھے۔ داؤد نے اپنی غلطیوں سے سیکھا اور کوشش کی کہ وہ اُس غلطی کو نہ دُہرائیں۔ اُنہوں نے یہوواہ سے یہ دُعا کی: ”اَے خدا! مجھے پاکدل عطا کر اور میرے اندر ایک نیا اور مضبوط جذبہ پیدا کر۔“—زبور 51:10۔
خود فیصلہ کریں۔ بائبل میں لکھا ہے: ”بُرائی کو اپنے اُوپر غالب نہ آنے دیں۔“ (رومیوں 12:21) اِس کا یہ مطلب ہے کہ ہم آزمائش کے سامنے جھک نہ جائیں۔ آپ خود صحیح کام کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔
ذرا سوچیں: جب آپ کو غلط کام کرنے کی آزمائش کا سامنا ہوتا ہے تو آپ خود ایسا فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں جس کا اچھا نتیجہ نکلے؟
”مَیں سوچتی ہوں کہ اگر میں آزمائشوں کے سامنے ہتھیار ڈال دوں گی تو مجھے کیسا محسوس ہوگا۔ شاید مجھے وقتی طور پر تو خوشی ملے لیکن بعد میں پچھتاوے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ تو پھر کیا آزمائش کے سامنے گٹھنے ٹیکنے کا کوئی فائدہ ہوگا؟ بالکل نہیں!“—صوفیہ۔
بائبل سے مثال: پولُس۔ پولُس نے کہا کہ اُن کے اندر بُرائی کا رُجحان ہے۔ لیکن اُنہوں نے اِس رُجحان کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ اُنہوں نے لکھا: ”مَیں اپنے جسم کو دبا کر رکھتا ہوں اور اِسے غلام بناتا ہوں۔“—1-کُرنتھیوں 9:27۔
خلاصہ: یہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آپ آزمائشوں کا مقابلہ کیسے کریں گے۔
یاد رکھیں آزمائشیں وقتی ہوتی ہیں۔ 20 سالہ میلیسا کہتی ہیں: ”جب مَیں ہائی سکول میں تھی تو مجھے بہت ساری ایسی آزمائشوں کا سامنا ہوا جو اُس وقت مجھے بہت بڑی لگتی تھیں۔ لیکن اب وہ مجھے معمولی لگتی ہیں۔ اِس سے مجھے یہ یقین ہو جاتا ہے کہ آج مَیں جن آزمائشوں کا سامنا کر رہی ہوں، وہ بھی گزر جائیں گی اور پھر جب مَیں پیچھے مُڑ کر دیکھوں گی تو مَیں سوچوں گی کہ مَیں نے اُن آزمائشوں کا مقابلہ کر کے اچھا کیا تھا۔“