مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 41

گیت نمبر 13‏:‏ مسیح کی عمدہ مثال

زمین پر یسوع مسیح کے آخری 40 دنوں سے سبق

زمین پر یسوع مسیح کے آخری 40 دنوں سے سبق

‏”‏وہ 40 ‏(‏چالیس دن)‏ تک اُنہیں دِکھائی دیتے رہے اور خدا کی بادشاہت کے بارے میں بتاتے رہے۔“‏‏—‏اعما 1:‏3‏۔‏

غور کریں کہ ‏.‏ ‏.‏ ‏.‏

ہم یسوع کی اُس مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں جو اُنہوں نے زندہ ہو جانے کے بعد زمین پر اپنے آخری 40 دنوں کے دوران قائم کی۔‏

1-‏2.‏ جب یسوع مسیح کے دو شاگرد اِماؤس کی طرف جا رہے تھے تو اُن کے ساتھ کیا ہوا؟‏

 یہ 16 نیسان 33 عیسوی کی بات ہے۔ یسوع مسیح کے شاگرد غم میں ڈوبے اور بہت زیادہ ڈرے ہوئے تھے۔ اُن میں سے دو شاگرد یروشلم سے اِماؤس جا رہے تھے۔ اِماؤس ایک گاؤں تھا جو یروشلم سے تقریباً 11 کلومیٹر (‏7 میل)‏ کے فاصلے پر تھا۔ یہ آدمی بہت بے‌حوصلہ تھے کیونکہ اُن کے پیشوا یسوع کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا تھا۔ اُنہیں مسیح سے بہت اُمیدیں تھیں۔ لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ اُن کی ساری اُمیدوں پر پانی پھر گیا ہے۔ لیکن پھر کچھ ایسا ہوا جس کی اُنہیں توقع بھی نہیں تھی۔‏

2 ایک اجنبی اُن کے پاس آیا اور اُن کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ اُن شاگردوں نے اُسے بتایا کہ وہ یسوع کی موت کی وجہ سے کتنے دُکھی ہیں۔ پھر اُس اجنبی نے اُن سے کچھ ایسی باتیں کرنا شروع کیں جو شاید اُنہیں ساری زندگی یاد رہی ہوں گی۔ اُس نے ”‏موسیٰ اور نبیوں کے صحیفوں“‏سے شروع کِیا اور اُنہیں سمجھایا کہ مسیح کو کیوں اذیت سہنی پڑی اور مرنا پڑا۔ پھر جب وہ تینوں اِماؤس پہنچ گئے تو اُس اجنبی نے اُنہیں بتایا کہ وہ دراصل کون ہے۔ وہ کوئی اَور نہیں بلکہ یسوع مسیح تھے جنہیں خدا نے زندہ کر دیا تھا۔ ذرا سوچیں کہ جب شاگردوں کو پتہ چلا ہوگا کہ مسیح زندہ ہے تو اُن کی خوشی کی کوئی اِنتہا نہیں رہی ہوگی!‏—‏لُو 24:‏13-‏35‏۔‏

3-‏4.‏ (‏الف)‏یسوع مسیح کے شاگردوں کے ساتھ کیا ہوا؟ (‏اعمال 1:‏3‏)‏ (‏ب)‏اِس مضمون میں ہم کیا سیکھیں گے؟‏

3 زمین پر اپنے آخری 40 دنوں کے دوران یسوع مسیح کئی بار اپنے شاگردوں سے ملے۔ ‏(‏اعمال 1:‏3 کو پڑھیں۔)‏ اُن کے پیروکار غم سے ٹوٹ چُکے تھے اور بہت ڈرے ہوئے تھے۔ لیکن اِن 40 دنوں کے دوران اُن کا غم خوشی میں بدل گیا۔ اور اُن میں دلیری سے دوسروں کو خوش‌خبری سنانے اور تعلیم دینے کا جذبہ پیدا ہوا۔‏ a

4 اِس عرصے کے دوران یسوع مسیح نے جو کچھ کِیا، اُس پر غور کرنے سے ہمیں بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ یسوع مسیح نے اِس وقت کو کیسے اِستعمال کیا تاکہ وہ یہ تین کام کر سکیں:‏ (‏1)‏اپنے شاگردوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے؛ (‏2)‏اُن کی مدد کرنے کے لیے تاکہ وہ خدا کے کلام میں لکھی باتیں کو اچھی طرح سمجھ سکیں اور (‏3)‏اُن کو ٹریننگ دینے کے لیے تاکہ وہ بڑی ذمے‌داریاں اُٹھانے کے لائق بن سکیں۔ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ ہم اِن تینوں باتوں کے حوالے سے یسوع مسیح کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔‏

دوسروں کا حوصلہ بڑھائیں

5.‏ یسوع مسیح کے شاگردوں کو حوصلے کی ضرورت کیوں تھی؟‏

5 یسوع مسیح کے شاگردوں کو حوصلے کی ضرورت تھی۔ مگر کیوں؟ اُن میں سے کچھ نے کُل‌وقتی طور پر یسوع کی پیروی کرنے کے لیے اپنا گھر چھوڑ دیا،اپنے گھر والوں کو چھوڑ دیا اور اپنا کاروبار چھوڑ دیا۔ (‏متی 19:‏27‏)‏ جب کچھ لوگ یسوع کے شاگرد بنے تو اِس وجہ سے دوسروں نے اُن کے ساتھ ہر طرح کے تعلقات ختم کر دیے۔ (‏یوح 9:‏22‏)‏ یسوع مسیح کے پیروکاروں نے اِس وجہ سے یہ سب قربانیاں دیں کیونکہ اُنہیں اِس بات کا پکا یقین تھا کہ یسوع ہی وہ مسیح ہیں جس کے آنے کا خدا نے وعدہ کِیا تھا۔ (‏متی 16:‏16‏)‏ لیکن جب یسوع کو قتل کر دیا گیا تو اُن کی اُمیدوں پر پانی پھر گیا اور وہ بہت زیادہ مایوس ہو گئے۔‏

6.‏ جب خدا نے یسوع کو زندہ کر دیا تو اِس کے بعد یسوع نے کیا کِیا؟‏

6 بے‌شک یسوع مسیح اچھی طرح جانتے تھے کہ اُن کے شاگردوں کے دُکھ کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اُن کا ایمان کمزور ہے بلکہ وہ اُن کی موت کی وجہ سے دُکھی تھے۔ اِس لیے جس دن خدا نے یسوع کو زندہ کِیا، اُسی دن یسوع نے اپنے شاگردوں کو تسلی دینا اور اُن کا حوصلہ بڑھانا شروع کر دیا۔ مثال کے طور پر جب مریم مگدلینی اُن کی قبر پر رو رہی تھیں تو وہ اُن سے ملے۔ (‏یوح 20:‏11،‏ 16‏)‏ وہ اُن دو شاگردوں سے بھی ملے جن کا ذکر اِس مضمون کے شروع میں کِیا گیا ہے اور وہ پطرس رسول سے بھی ملے۔ (‏لُو 24:‏34‏)‏ ہم یسوع مسیح سے کیا سیکھتے ہیں؟ آئیے اِس کے لیے غور کرتے ہیں کہ جب وہ مریم مگدلینی سے ملے تو اُنہوں نے کیا کِیا۔‏

7.‏ یوحنا 20:‏11-‏16 کے مطابق 16 نیسان کی صبح یسوع نے مریم کو کیا کرتے دیکھا اور اِس پر یسوع نے کیا کِیا؟ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏

7 یوحنا 20:‏11-‏16 کو پڑھیں۔‏ 16 نیسان کی صبح کو کچھ عورتیں یسوع کی قبر پر گئیں۔ (‏لُو 24:‏1،‏ 10‏)‏ آئیے دیکھتے ہیں کہ اِس موقعے پر اُن میں سے ایک عورت کے ساتھ کیا ہوا۔ اُس کا نام مریم مگدلینی تھا۔ جب مریم یسوع کی قبر پر پہنچیں تو قبر خالی تھی۔ مریم بھاگ کر پطرس اور یوحنا کو اِس بارے میں بتانے گئیں۔ پطرس اور یوحنا دوڑے دوڑے یسوع کی قبر پر آئے اور مریم بھی اُن کے ساتھ بھاگی بھاگی واپس آئیں۔ جب پطرس اور یوحنا نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ یسوع کی قبر خالی ہے تو وہ گھر واپس چلے گئے۔ لیکن مریم گھر نہیں لوٹیں۔ وہ یسوع کی قبر پر ہی رہیں اور رونے لگیں۔ اُنہیں اِس بات کا اندازہ بھی نہیں تھا کہ یسوع اُنہیں دیکھ رہے ہیں۔ یسوع نے یہ دیکھا کہ خدا کی یہ بندی اُن کی موت کی وجہ سے کتنی دُکھی ہے۔ وہ اُنہیں تسلی دینا چاہتے تھے۔ اِس لیے وہ مریم کو دِکھائی دیے اور پھر اُنہوں نے ایک چھوٹا سا کام کِیا جس کی وجہ سے مریم کا بہت حوصلہ بڑھا۔ یسوع نے مریم سے بات کی اور اُنہیں ایک خاص ذمے‌داری دی۔ اور وہ یہ تھی کہ وہ جا کر اُن کے بھائیوں کو بتائیں کہ خدا نے اُنہیں زندہ کر دیا ہے۔—‏یوح 20:‏17، 18‏۔‏

یسوع مسیح کی طرح اِس بات پر توجہ دیں کہ ہمارے بہن بھائیوں پر کیا بیت رہی ہے اور اُنہیں تسلی دینے کے لیے آپ جو کچھ کر سکتے ہیں، ضرور کریں۔ (‏پیراگراف نمبر 7 کو دیکھیں۔)‏


8.‏ ہم یسوع کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

8 ہم یسوع کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏ اگر یسوع کی طرح ہمیں بھی پتہ ہوگا کہ ہمارے بہن بھائی کس تکلیف سے گزر رہے ہیں اور ہم اُن کے درد کو سمجھیں گے تو ہم بھی اُن کی مدد کر پائیں گے تاکہ وہ یہوواہ کی خدمت کرتے رہیں۔ اِس سلسلے میں ذرا بہن جوسلین کی مثال پر غور کریں۔ اُن کی بہن ایک بہت بُرے حادثے میں فوت ہو گئی۔ بہن جوسلین نے کہا:‏ ”‏مَیں کئی مہینوں تک شدید صدمے میں تھی۔“‏ لیکن پھر ایک بھائی اور اُس کی بیوی نے بہن جوسلین کو اپنے گھر بُلایا۔ اُنہوں نے بہت صبر سے بہن کی بات سنی اور اُنہیں اِس بات کا یقین دِلایا کہ وہ اُن کے درد کو سمجھتے ہیں اور یہوواہ اُن کی بہت زیادہ قدر کرتا ہے۔ بہن جوسلین نے کہا:‏ ”‏مجھے ایسے لگا جیسے مَیں غم کے گہرے سمندر میں ڈوب رہی ہوں لیکن یہوواہ نے اِس بھائی اور بہن کے ذریعے مجھے ڈوبنے سے بچا لیا۔ اُنہوں نے میری مدد کی تاکہ میرے اندر پھر سے یہ خواہش پیدا ہو کہ مَیں یہوواہ کی خدمت کرتی رہوں۔“‏ جب ہمارا کوئی بھائی یا بہن ہمارے سامنے اپنی تکلیف بیان کرتا ہے تو ہم بھی دھیان سے اُس کی بات سننے اور اُس کے ہمدرد بننے سے اُس کا حوصلہ بڑھا سکتے ہیں اور اِس طرح اُس کی مدد کر سکتے ہیں تاکہ وہ یہوواہ کی خدمت کرتا رہے۔—‏روم 12:‏15‏۔‏

خدا کے کلام کو سمجھنے میں دوسروں کی مدد کریں

9.‏ یسوع کے شاگردوں کو کس مشکل کا سامنا ہوا اور یسوع نے اُن کی مدد کیسے کی؟‏

9 یسوع مسیح کے شاگردوں نے خدا کے کلام کو قبول کِیا اور اِس پر عمل کرنے کی پوری کوشش کی۔ (‏یوح 17:‏6‏)‏ لیکن اُنہیں یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یسوع مسیح کو ایک مُجرم کے طور پر موت کے گھاٹ کیوں اُتار دیا گیا ہے۔ یسوع مسیح جانتے تھے کہ اُن کے شاگردوں کا ایمان بہت مضبوط ہے۔ لیکن اُنہیں یہ بھی پتہ تھا کہ اُن کے شاگردوں کو خدا کے کلام کو سمجھنے میں مدد چاہیے۔ (‏لُو 9:‏44، 45؛‏ یوح 20:‏9‏)‏ اِس لیے اُنہوں نے اُن کی خدا کے کلام کو سمجھنے میں مدد کی۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ جب یسوع اُن دو شاگردوں سے ملے جو اِماؤس جا رہے تھے تو اُس وقت اُنہوں نے یہ کیسے کِیا۔‏

10.‏ یسوع مسیح نے شاگردوں کو اپنے بارے میں یہ کیسے سمجھایا کہ وہ ہی مسیح ہیں؟ (‏لُوقا 24:‏18-‏27‏)‏

10 لُوقا 24:‏18-‏27 کو پڑھیں۔‏ غور کریں کہ یسوع مسیح نے شاگردوں کو اپنے بارے میں فوراً ہی نہیں بتا دیا کہ وہ کون ہیں۔ اِس کی بجائے اُنہوں نے اُن سے سوال کیے۔ پر کیوں؟ شاید یسوع مسیح چاہتے تھے کہ اُن کے شاگرد اُنہیں بتائیں کہ وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں اور اُن کے ذہن میں کیا چل رہا ہے۔ اُن شاگردوں نے یسوع کو یہ سب باتیں بتائیں بھی۔ اُنہوں نے یسوع مسیح کو بتایا کہ وہ یسوع سے اِس بات کی توقع کر رہے تھے کہ وہ اُنہیں رومی حکومت کے ظلم سے نجات دِلائیں گے۔ یسوع مسیح نے اُن کی پوری بات سنی اور پھر اُنہیں صحیفوں سے سمجھایا کہ کون کون سی پیش‌گوئیاں پوری ہوئیں ہیں۔‏ b اُسی شام یسوع نے یہ باتیں دوسرے شاگردوں کو بھی سمجھائیں۔ (‏لُو 24:‏33-‏48‏)‏ اِس واقعے سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏

11-‏12.‏ (‏الف)‏جس طرح سے یسوع مسیح نے دوسروں کو خدا کے کلام میں لکھی باتیں سمجھائیں، اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ (‏تصویروں کو بھی دیکھیں۔)‏ (‏ب)‏نورٹے کو بائبل کورس کرانے والے بھائی نے اُن کی مدد کیسے کی؟‏

11 ہم یسوع مسیح کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جس شخص کو آپ بائبل کورس کرا رہے ہیں اُس سے ایسے سوال پوچھیں جن سے آپ جان سکیں کہ وہ فلاں معاملے کے بارے میں کیسا محسوس کرتا ہے یا کیا سوچتا ہے۔ (‏اَمثا 20:‏5‏)‏ جب آپ کو یہ باتیں پتہ چل جاتی ہیں تو اُسے سکھائیں کہ وہ ایسی آیتیں کیسے تلاش کر سکتا ہے جو اُس کی صورتحال پر لاگو ہوتی ہیں۔ اُسے یہ نہ بتائیں کہ اُسے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔ اِس کی بجائے آیتوں کے حوالے سے اُس سے سوال کریں اور اُس سے کہیں کہ جو کچھ اُس نے پڑھا ہے، وہ اُس پر سوچ بچار کرے اور دیکھے کہ وہ اِس کے مطابق کس طرح فیصلے لے سکتا ہے۔ ذرا اِس سلسلے میں بھائی نورٹے کی مثال پر غور کریں جو ملک گھانا میں رہتے ہیں۔‏

12 جب بھائی نورٹے 16 سال کے تھے تو اُنہوں نے بائبل کورس کرنا شروع کِیا۔لیکن پھر جلد ہی اُن کے گھر والوں نے اِس وجہ سے اُن کی مخالفت کرنی شروع کر دی۔ کس چیز نے بھائی نورٹے کی مدد کی تاکہ وہ بائبل کورس کرنا نہ چھوڑیں؟ جو بھائی اُنہیں بائبل کورس کرا رہا تھا، اُس نے متی 10 باب کے ذریعے اُنہیں سمجھایا کہ سچے مسیحیوں کو اذیت دی جائے گی۔ بھائی نورٹے نے کہا:‏ ”‏جب مجھے اذیت دی گئی تو مجھے اِس بات کا پکا یقین ہو گیا کہ مجھے سچائی مل گئی ہے۔“‏ اُنہیں بائبل کورس کرانے والے بھائی نے متی 10:‏16 کو سمجھنے میں اُن کی مدد کی تاکہ جب وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ مذہب کے بارے میں بات کر رہے ہوں تو وہ محتاط رہیں اور اُن کے ساتھ احترام سے پیش آئیں۔ بپتسمہ لینے کے بعد بھائی نورٹے پہل‌کار بننا چاہتے تھے۔ لیکن اُن کے ابو چاہتے تھے کہ وہ یونیورسٹی جائیں۔ بھائی نورٹے کو بائبل کورس کرانے والے بھائی نے اُنہیں یہ نہیں بتایا کہ اُنہیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔ اِس کی بجائے اُس نے بھائی نورٹے سے ایسے سوال کیے جن کی وجہ سے بھائی نورٹے بائبل کے کچھ اصولوں کے بارے میں سوچ سکیں اور پھر فیصلہ لیں۔ اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟ بھائی نورٹے نے فیصلہ لیا کہ وہ پہل‌کار بنیں گے۔ اِس وجہ سے اُن کے ابو نے اُنہیں گھر سے نکال دیا۔ بھائی نورٹے کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ اِس کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں؟ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏مجھے اِس بات کا پورا یقین ہے کہ میرا فیصلہ بالکل صحیح تھا۔“‏ جب ہم بھی دوسروں کی مدد کرتے ہیں کہ وہ پاک کلام کے اصولوں پر سوچ بچار کریں تو اُن کا ایمان مضبوط ہوتا ہے اور وہ یہوواہ کی خدمت کرنا جاری رکھ پاتے ہیں۔—‏اِفِس 3:‏16-‏19‏۔‏

یسوع مسیح کی طرح دوسروں کی مدد کریں کہ وہ صحیفوں پر سوچ بچار کریں۔ (‏پیراگراف نمبر 11 کو دیکھیں۔)‏ f


بھائیوں کی ”‏آدمیوں کے رُوپ میں نعمتیں“‏ بننے میں مدد کریں

13.‏ یسوع مسیح نے کیا کِیا تاکہ اُن کے آسمان پر لوٹنے کے بعد بھی زمین پر مُنادی ہوتی رہے؟ (‏اِفِسیوں 4:‏8‏)‏

13 جب یسوع مسیح زمین پر تھے تو اُنہوں نے وہ کام بہت اچھے سے کِیا جو اُن کے باپ نے اُنہیں دیا تھا۔ (‏یوح 17:‏4‏)‏ لیکن اُنہوں نے کبھی بھی یہ نہیں سوچا کہ ”‏اگر اِس کام کو صحیح طرح کرنا ہے تو ضروری ہے کہ اِس کو مَیں خود ہی کروں۔“‏ زمین پر اپنے ساڑھے تین سال کے دورِخدمت کے دوران یسوع نے دوسروں کو بھی یہ کام کرنے کی ٹریننگ دی۔ آسمان پر واپس جانے سے پہلے یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو یہ ذمے‌داری دی کہ وہ یہوواہ کی انمول بھیڑوں کی دیکھ‌بھال کریں اور مُنادی کرنے اور تعلیم دینے میں پیشوائی کریں۔ اِن میں سے کچھ شاگردوں کی عمر تو شاید 20 سے 30 سال کے درمیان تھی۔ ‏(‏اِفِسیوں 4:‏8 کو پڑھیں۔)‏ یسوع مسیح کے شاگرد دل‌وجان سے یہوواہ کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ وہ خدا کے وفادار اور بہت محنتی تھے۔ یسوع مسیح نے اپنے آخری 40 دنوں کے دوران اُن کی مدد کیسے کی تاکہ وہ ”‏آدمیوں کے رُوپ میں نعمتیں“‏ بن سکیں؟‏

14.‏ زمین پر اپنے آخری 40 دنوں کے دوران یسوع نے کس طرح سے اپنے شاگردوں کی مدد کی تاکہ خدا کے ساتھ اُن کی دوستی مضبوط ہو سکے؟ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏

14 یسوع نے اپنے شاگردوں کو صاف صاف بتایا کہ اُنہیں کہاں پر بہتری لانے کی ضرورت ہے لیکن اُنہوں نے ایسا بہت پیار سے کِیا۔ مثال کے طور پر جب اُنہوں نے دیکھا کہ اُن کے کچھ شاگرد شک کر رہے ہیں تو اُنہوں نے اُن کی درستی کی۔ (‏لُو 24:‏25-‏27؛‏ یوح 20:‏27‏)‏ یسوع نے اپنے شاگردوں کو یہ بھی سمجھایا کہ اُنہیں پیسہ کمانے سے زیادہ توجہ اِس بات پر دینی چاہیے کہ وہ خدا کے بندوں کا خیال رکھیں۔ (‏یوح 21:‏15‏)‏ اُنہوں نے اپنے شاگردوں کو یہ بھی یاد دِلایا کہ اُنہیں اِس بارے میں حد سے زیادہ نہیں سوچنا چاہیے کہ دوسروں کو خدا کی خدمت کرنے کے لیے کون سی ذمے‌داریاں دی جا رہی ہیں۔ (‏یوح 21:‏20-‏22‏)‏ یسوع نے بادشاہت کے حوالے سے اپنے شاگردوں کے کچھ غلط خیالات کو بھی درست کِیا اور اُن کی مدد کی تاکہ وہ اپنا پورا دھیان خوش‌خبری سنانے پر رکھیں۔ (‏اعما 1:‏6-‏8‏)‏ بزرگ یسوع مسیح سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

یسوع مسیح کی طرح بھائیوں کو ٹریننگ دیں تاکہ وہ اَور زیادہ ذمے‌داریاں اُٹھانے کے لائق بن سکیں۔ (‏پیراگراف نمبر 14 کو دیکھیں۔)‏


15-‏16.‏ (‏الف)‏بزرگ کن طریقوں سے یسوع مسیح کی مثال پر عمل کر سکتے ہیں؟ وضاحت کریں۔ (‏ب)‏جب بھائی پیٹرک کی اِصلاح کی گئی تو اُنہیں اِس سے کیسے فائدہ ہوا؟‏

15 بزرگ یسوع کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏ اُنہیں دوسرے بھائیوں کو ٹریننگ دینی چاہیے تاکہ وہ بڑی ذمے‌داریوں کو اُٹھانے کے لائق بن سکیں۔ اُنہیں اُن بھائیوں کو بھی ٹریننگ دینی چاہیے جن کی عمر ابھی کم ہے۔‏ c بزرگوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جن بھائیوں کو وہ ٹریننگ دے رہے ہیں، شاید اُنہیں بہت کچھ سیکھنا پڑے۔ اُنہیں بڑے پیار سے اِن جوان بھائیوں کی اِصلاح کرنی چاہیے تاکہ وہ تجربہ حاصل کر سکیں اور یہ سمجھ سکیں کہ اُنہیں کیوں خاکسار اور قابلِ‌بھروسا بننا چاہیے اور دوسروں کی مدد کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔—‏1-‏تیم 3:‏1؛‏ 2-‏تیم 2:‏2؛‏ 1-‏پطر 5:‏5‏۔‏

16 ذرا غور کریں کہ جب پیٹرک نام کے ایک بھائی کی اِصلاح کی گئی تو اُنہیں اِس سے کیسے فائدہ ہوا۔ جب وہ جوان تھے تو وہ دوسروں کے ساتھ بہت سختی سے بات کرتے تھے اور اُن کے ساتھ بہت بُری طرح پیش آتے تھے، یہاں تک کہ بہنوں کے ساتھ بھی۔ کلیسیا کے ایک بزرگ نے دیکھا کہ پیٹرک میں کون کون سی خامیاں ہیں اور اُنہوں نے پیٹرک کو بہت پیار سے مگر صاف صاف بتایا کہ اُنہیں خود میں کہاں پر بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ بھائی پیٹرک نے کہا:‏ ”‏مَیں اُس بھائی کا بہت شکرگزار ہوں کہ اُس نے اِس سلسلے میں میری مدد کی۔ جب دوسرے بھائیوں کو وہ ذمے‌داریاں ملتی تھیں جو مَیں چاہتا تھا کہ مجھے ملیں تو مَیں بہت بے‌حوصلہ ہو جاتا تھا۔ لیکن جب اُس بھائی نے میری اِصلاح کی تو مَیں سمجھ گیا کہ مجھے اِس بات پر دھیان نہیں دینا چاہیے کہ مجھے کلیسیا میں ذمے‌داریاں ملیں بلکہ مجھے اپنی پوری توجہ اِس بات پر دینی چاہیے کہ مَیں خاکساری سے اپنے بہن بھائیوں کی خدمت کروں۔“‏ اِس کا یہ نتیجہ نکلا کہ جب بھائی پیٹرک 23 سال کے تھے تو اُنہیں کلیسیا میں بزرگ کے طور پر مقرر کر دیا گیا۔—‏اَمثا 27:‏9‏۔‏

17.‏ یسوع مسیح نے کیسے ثابت کِیا کہ اُنہیں اپنے شاگردوں پر بھروسا ہے؟‏

17 یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو نہ صرف مُنادی کرنے بلکہ تعلیم دینے کی ذمے‌داری بھی دی۔ (‏متی 28:‏20‏)‏ d شاید شاگردوں کو لگا ہو کہ وہ اِس ذمے‌داری کو نبھانے کے لائق نہیں ہیں۔ لیکن یسوع کو اِس بات کا پورا بھروسا تھا کہ اُن کے شاگرد اِس ذمے‌داری کو اچھے سے نبھا سکتے ہیں اور اُنہوں نے اپنے شاگردوں کو یہ بات بتائی بھی۔ اپنے شاگردوں پر بھروسا ظاہر کرنے کے لیے یسوع نے اُن سے کہا:‏ ”‏جس طرح باپ نے مجھے بھیجا ہے، مَیں بھی آپ کو بھیج رہا ہوں۔“‏‏—‏یوح 20:‏21‏۔‏

18.‏ بزرگ یسوع مسیح کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

18 بزرگ یسوع مسیح کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏ سمجھ‌دار بزرگ کلیسیا میں دوسروں کو ذمے‌داریاں دیتے ہیں۔ (‏فِل 2:‏19-‏22‏)‏ مثال کے طور پر بزرگ عبادت‌گاہ کی صفائی اور مرمت کے کام میں بچوں کو شامل کر سکتے ہیں۔ بزرگ ایک بھائی کو کوئی ذمے‌داری دے سکتے ہیں، اُسے اُس کام کے حوالے سے ٹریننگ دے سکتے ہیں اور اِس بات کا پورا بھروسا رکھ سکتے ہیں کہ وہ بھائی اِس کام کو اچھے سے کر لے گا۔ بھائی میتھیو کو حال ہی میں اُن کی کلیسیا میں بزرگ کے طور کر مقرر کِیا گیا ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ وہ اپنی کلیسیا کے اُن تجربہ‌کار بزرگوں کے بہت شکرگزار ہیں جنہوں نے اُنہیں اچھی طرح ٹریننگ دی تاکہ وہ اپنی ذمے‌داری کو نبھا سکیں اور پھر اُن پر بھروسا کِیا کہ وہ اِس ذمے‌داری کو اچھے سے پورا کر لیں گے۔ بھائی میتھیو نے کہا:‏ ”‏جب مجھ سے غلطیاں ہوئیں تو اِن بزرگوں نے میری مدد کی تاکہ مَیں اپنی غلطیوں سے سیکھوں اور خود میں بہتری لاؤں۔“‏ e

19.‏ ہمارا کیا عزم ہونا چاہیے؟‏

19 یسوع مسیح نے زمین پر اپنے آخری 40 دنوں میں دوسروں کا حوصلہ بڑھایا، اُنہیں تعلیم دی اور اُنہیں ٹریننگ دی۔ دُعا ہے کہ ہمارا یہ عزم ہو کہ ہم یسوع مسیح کے نقشِ‌قدم پر چلیں گے۔ (‏1-‏پطر 2:‏21‏)‏ وہ ہماری مدد کریں گے تاکہ ہم اُن کی مثال پر عمل کر سکیں۔ یاد رکھیں کہ اُنہوں نے یہ وعدہ کِیا تھا:‏ ”‏مَیں دُنیا کے آخری زمانے تک ہر وقت آپ کے ساتھ رہوں گا۔“‏‏—‏متی 28:‏20‏۔‏

گیت نمبر 15‏:‏ یہوواہ کے پہلوٹھے کی حمد کریں!‏

a اِنجیلوں اور بائبل کی کچھ اَور کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ یسوع زندہ ہونے کے بعد کئی موقعوں پر دوسروں کو دِکھائی دیے جیسے کہ مریم مگدلینی کو (‏یوح 20:‏11-‏18‏)‏؛ دوسری عورتوں کو (‏متی 28:‏8-‏10؛‏ لُو 24:‏8-‏11‏)‏؛ 2 شاگردوں کو (‏لُو 24:‏13-‏15‏)‏؛ پطرس کو (‏لُو 24:‏34‏)‏؛ توما کے علاوہ باقی رسولوں کو (‏یوح 20:‏19-‏24‏)‏؛ توما سمیت رسولوں کو (‏یوح 20:‏26‏)‏؛ 7 شاگردوں کو (‏یوح 21:‏1، 2‏)‏؛ 500 سے زیادہ شاگردوں کو (‏متی 28:‏16‏؛-‏کُر 15:‏6)‏؛ اپنے بھائی یعقوب کو (‏1-‏کُر 15:‏7‏)‏؛ سب رسولوں کو (‏اعما 1:‏4‏)‏ اور بیت‌عنیاہ کے قریب رسولوں کو۔ (‏لُو 24:‏50-‏52‏)‏ ہو سکتا ہے کہ وہ کچھ اَور موقعوں پر بھی اپنے پیروکاروں سے ملے ہوں لیکن اِن کے بارے میں بائبل میں نہیں لکھا۔—‏یوح 21:‏25‏۔‏

b مسیح کے بارے میں پیش‌گوئیوں کی فہرست دیکھنے کے لیے ویب‌سائٹ jw.org پر مضمون ”‏مسیح کے بارے میں جو پیش‌گوئیاں کی گئیں، کیا اُن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یسوع ہی مسیح تھے؟‏‏“‏ کو دیکھیں۔‏

c بعض صورتوں میں ایسے لائق بھائیوں کو حلقوں کے نگہبانوں کے طور پر مقرر کِیا جا سکتا ہے جن کی عمر 25 سے 30 سال ہے۔ لیکن اِن بھائیوں کو پہلے بزرگوں کے طور پر تجربہ حاصل کرنا ہوگا۔‏

d جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”‏سکھائیں“‏ کِیا گیا ہے، اُس کا مطلب ہدایتیں دینا، وضاحتیں کرنا، دلیلیں دینا اور ثبوت پیش کرنا ہے۔ جب یسوع مسیح نے کہا کہ ہم لوگوں کو اُن سب باتوں پر عمل کرنا سکھائیں جن کا اُنہوں نے حکم دیا ہے تو یہ بس ایک بار کا کام نہیں تھا بلکہ یہ جاری رہنے والا عمل تھا۔ اِس میں یہ شامل تھا کہ لوگ یسوع مسیح کی تعلیمات کے بارے میں سیکھیں، اُن پر عمل کریں اور اُن کے نقشِ‌قدم پر چلیں۔‏

e اِس بارے میں مزید جاننے کے لیے کہ کم‌عمر بھائیوں کی مدد کیسے کی جا سکتی ہے تاکہ وہ ذمے‌داریاں اُٹھانے کے لائق بن سکیں، اِن حوالوں کو دیکھیں:‏ ‏”‏مینارِنگہبانی،“‏ اگست 2018ء ص.‏ 13-‏14 پ 15-‏17‏؛ ‏”‏مینارِنگہبانی،“‏ 15 اپریل 2015ء ص.‏ 3-‏13‏۔‏

f تصویر کی وضاحت‏:‏ ایک بھائی نے یہ دیکھنے میں اپنے بائبل کے طالبِ‌علم کی مدد کی کہ پاک کلام کی تعلیم کیا ہے اور وہ یہوواہ کو کیسے خوش کر سکتا ہے جس کے بعد اُس طالبِ‌علم نے کرسمس کی سجاوٹ کے سامان کو پھینکنے کا فیصلہ کِیا ہے۔‏